بزم افسانہ کی پیش کش
چھٹا ایونٹ: عصری افسانہ
چوپاٹی بیچ
محتشم اکبر
تعارف:
ممبئی مہاراشٹر سے اردو کے جواں سال افسانہ نگار محتشم اکبر کا تعلق مہاراشٹر کے ایک مشہور علمی و ادبی خانوادے سے ہے ،جس میں اردو کے معروف افسانہ نگار مظہر سلیم ، اصغر حسین قریشی ، اکبر عابد، عامر قریشی اور مبشر اکبر جیسے ادیب و صحافی بھی شامل ہیں ـ محتشم اکبر بنیادی طور پر افسانہ نگار ہیں ـ ان کے افسانے عصر حاضر کے مسائل کی خوب نشاندھی کرتے ہیں ـ حقیقت نگاری موصوف کے افسانوں کا وصف خاص ہے ـ ان کی تخلیقات اردو کے اہم رسالے ' بیباک ' کے ساتھ ساتھ روزنامہ انقلاب، اردو ٹائمز اور اردو سہارا میں شایع ہوتی ہیں ـ علاوہ ازیں آپ سہ ماہی 'تکمیل' کی مشاورت میں شامل ہیں ـ اسی طرح کئی ادبی انجمنوں سے وابستہ ہیں ـ اس سلسلے میں ممبئی کی مشہور ادبی انجمن 'بزم ہم خیال' کا ذکر ناگزیر ہوگا ـ موصوف کی اب تک کوئی کتاب منظرِ عام پر نہیں آئی ـ امید ہے جلد ہی ایک افسانوی مجموعہ شایع ہوگا ـ
زیر نظر افسانہ 'چوپاٹی بیچ' روزنامہ انقلاب میں شایع ہوا تھا ـ
طاہر انجم صدیقی
سمرین جب آفس سے گھر پہنچی تو تھک کر چور ہوچکی تھی۔ آفس میں آج کام زیادہ ہی تھا۔ جس نے تھکان پیدا کردی تھی۔وہ گھر میں داخل ہوکر پرس ایک طرف پھینکا اور بستر پر گر پڑی۔ اس میں ذرّہ برابر قوت نہیں تھی کہ وہ فریش ہوکر اپنے لیے ایک کپ چائے بنائے۔ پلنگ پر لیٹتے ہی خوابوں کی دنیا میں پہنچ کر خوابوں کے سمندر میں غوطے کھانے لگی۔ اسے اس بات کا بھی خیال نہ رہا کہ ناصر کے آنے کا وقت ہوگیا ہے۔ ابھی رات کا کھانا بنانا بھی باقی ہے۔ دوپہر کا کھانا تو اکثر باہر ہی کھاتے تھے۔ ایک ساتھ نہیں بلکہ اپنے اپنے دفتر میں اور رات کا کھانا وہ ہمیشہ ساتھ ہی کھاتے۔
دروازہ کی بیل لگاتار بج رہی تھی۔ سمرین نیند کی آغوش سے باہر آئی۔کچھ دیر تک تو وہ سمجھ ہی نہیں پائی کہ کہاں ہے۔ آفس میں ہے یا گھر میں۔ بڑی عجلت میں اس نے دروازہ کھولا۔ سامنے اس کی زندگی کا رکھوالا ، اس کا ہم سفر ناصر کھڑا تھا۔ اس نے روزانہ کی طرح ناصر کو دیکھ کر اپنے چہرے پر ایک بھر پور مسکراہت بکھیری۔ ناصر نے گھر میں آنے کے بعد سمرین کو سینے سے لگا لیا اور پیار کرنے لگا۔ اس نے ناصر کو ہٹاتے ہوئے کہا رات ابھی باقی ہے۔ اور اس نے اُسے پانی پلاکر ٹھنڈا کیا ۔ مسکراتے ہوئے چائے بنانے چلی گئی۔ ناصر اخبار اٹھاکر پڑھنے میں محو ہوگیا۔ وہ خبریں بھی پڑھتا جارہا تھا اور سوچ بھی رہا تھا کہ آج کے لوگوں کو کیا ہوگیا ہے۔ آپس میں کیوں لڑ رہے ہیں۔ ملک کا کیا حال ہورہا ہے کسی کو اس کی فکر نہیں۔ سب اپنی جیبیں بھرنے میں لگے ہیں۔ سارے گھوٹالے ہمارے ہی ملک میں کیوں ہورہے ہیں۔ ہمارے لیڈروں کا ضمیر کتنا مردہ ہوگیا ہے۔ کہیں کہیں تو زِنا کے واقعات کثرت سے ہورہے ہیں۔ مذہبی تفرقہ کو ہوا دی جارہی ہے۔ اپنے بچاؤ کے لیے کیسی کیسی گھناؤنی سازشیں کرنے میں مصروف ہیں ہماری اعلیٰ کمان ۔ کہیں ریڈیو پر یہ گانا بج رہا تھا ؎ دیکھ تیرے سنسار کی حالت کیا ہوگئی بھگوان کتنا بدل گیا ہے انسان
صبح بڑی اجلی اجلی تھی۔ دونوں کے چہرے خوشیوں سے ایسے دمک رہے تھے جیسے سورج کی پہلی کرن سے سنسار دمکنے لگتا ہے۔ انھوں نے آفس جانے کی تیاری شروع کردی ۔ناصر کو آفس جلدی جانا تھا اُس لیے وہ سمرین کے لیے بغیر ہی چلا گیا۔ وہ اکیلی رہ گئی۔ آفس جانے میں ابھی دیر تھی۔ اُس نے سوچا کیوں نہ تھوڑی دیر بیٹھ کر اخبار کا مطالعہ کرلوں ۔ جیسے ہی اس کی نظریں جلی سرخیوں پہ آکر رک گئی اس میں لکھا تھا کہ ایک بوڑھے نے بارہ سالہ لڑکی کی عصمت دری کی۔ خبر پڑھ کر وہ سہم گئی۔ اس کے چہرہ پر ڈرو خوف کے سائے منڈرانے لگے۔ وہ اکثر آتے جاتے سفر کے دوران لوگوں کی ہوس بھری نظروں کو اپنے اندر اترتا محسوس کرتی۔ کبھی تو اس کو ایسا محسوس ہوتا کے یہ سارے مرد اپنی آنکھوں کے ذریعے اس کی لگاتارعصمت دری کر رہے ہیں۔ یہ سب سوچتے ہوئے وقت کا احساس نہیں رہا ۔
سمرین معمول کے مطابق بس اسٹاپ پر پہنچی ۔ وہاں بھیڑ کا یہ عالم تھا کہ تِل دھرنے کی بھی جگہ نہیں تھی۔ اس کو سب سے آخر میں کھڑے رہنے کی جگہ ملی۔ اس بھیڑ میں اُسے سب مرد ہی مرد نظر آرہے تھے۔ وہ اُن مردوں کا جائزہ لینے لگی۔ اُسے ایسا محسوس ہوا کہ ان مردوں کی آنکھوں میں اسے ہوس نظر نہیں آئی بلکہ ناصر کی طرح شرمیلا پن نظر آیا۔ اس نے لائن میں کھڑی دوسری عورتوں کی طرف دیکھا تو اُسے اُن کی آنکھوں میں ایک عجیب طرح کی ہوس نظر آئی۔ سمرین کو ایسا محسوس ہوا کہ یہ عورتیں بھی مردوں کو میری نگاہوں سے دیکھ رہی ہے۔ وہ سوچنے لگی کہ کم سے کم کوئی بوڑھا ہی ناصر کے اندر سما جائے ۔ وہ کبھی کبھی تو اپنے آپ کو بہت معذور محسوس کرتی ۔ وہ سوچتی کہ یہ ساری باتیں ناصر کو صاف صاف بتا دے۔ لیکن وہ اپنے آپ میں یہ سب کہنے کی ہمت نہیں جٹا پاتی۔ اس نے کئی مرتبہ یہ بھی سوچا کہ نوکری چھوڑ دے۔ گھر کے حالات اور ناصر کی ضد کی آگے اس کی ایک نہ چلی۔
ناصر پر اپنے بوڑھے ماں باپ، پانچ جوان بہنوں کی ذمہ داری بھی تھی۔ وہ سمرین کی تنخواہ میں گھر چلاتا اپنی تنخواہ اپنے بوڑھے ماں باپ کو گاؤں بھیج دیتا تھا۔ اُس نے کئی بار کوشش کی کہ اس کے ماں باپ بھی اسی کے ساتھ شہر میں رہے ۔ لیکن ساس اور پانچ نندوں کو برداشت کرنے کی ہمت سمرین میں نہیں تھی۔ اس نے ہمیشہ ناصر کی مخالفت ہی کی۔
سمرین اور ناصر چھٹی کے دن چوپاٹی گئے ۔ شادی سے پہلے وہ روزانہ ہی چوپاٹی کی بکھری ریت پر بیٹھ کر سمندر کی موجوں میں گم ہوکر اپنے مستقبل کے لیے نئے نئے خواب بنتے، سجاتے۔ سمرین ریت میں اپنے پاؤں دھنساکر ایک گھر بناتی اور اس سے کہتی دیکھو ہم اپنا گھر ایسا ہی بنائیں گے۔ آس پاس سے ایک گانے کی آواز آرہی تھی۔
؎ جھل مل ستاروں کا ایک آنگن ہوگا رم جھم برستا ساون ہوگا۔ گانا سن کر دونوں اپنے خوابوں میں کھو جاتے۔ جیسے جیسے وقت گزرتا گیا ان کی محبت بھی بڑھنے لگی۔ محبت کی بپھری ہوئی موجوں نے دونوں کو شادی کے بندھن میں باندھ دیا۔ وہ چوپاٹی کی ٹھنڈی ریت پھر بیٹھے ماضی کے خیالوں سے باہر آئے تو انھیں ایسا لگا کہ دنیا بہت بدل چکی ہے۔ سمندر کی موجوں میں پہلے جیسا جوش نہیں ہے۔ سمرین نے ریت میں پاؤں دھنسا کر گھر بنانے کی کوشش کی تو اسے لگا کہ وہ گھر نہیں بنا پائے گی۔ جب اس نے اپنے پیر ریت سے نکالے تو اسے محسوس ہوا کے پیر زمین کے اندر دھنستے جارہے تھے اور وہ بہت کوشش کہ باوجود بھی انھیں باہر نہیں نکال پارہی تھی۔ ناصر کی طرف دیکھا تو اسے سمندر کی موجوں میں گم پایا۔ اس کو سمندر کی موجوں سے کھینچ کر سمرین نے اپنی بانہوں کے حالے میں قید کرتے ہوئے کہنے لگی۔ ہم نے اپنے مستقبل کے بارے میں تو سوچا ہی نہیں ۔ میں چاہتی ہوں کہ آج کے بعد ہم اپنی زندگی کو خوشگوار بنانے کے لیے اولاد کی چاہت کرے۔جو ہمارے بڑھاپے کا سہارا بنے۔
ان کی سوچ آسمان کی اونچائی کو چھو رہی تھی۔دونوںایک دوسرے میں اس طرح کھو گئے کہ وقت گزرنے کا اندازہ بھی نہیں ہوا۔ ان کی شادی کو پانچ سال ہوگئے تھے۔ زمانے کی تلخیوں سے ہٹ کر اُن کے پیار میں جولانی تھی۔ دونوں ایک دوسرے کی ضرورتوں کو سمجھتے تھے۔ اس نے ناصر کی دیکھ کر کہنے لگی۔ ناصر… کیوں نہ ہم گھر چل کر اپنے بڑھاپے کے سہارے کے لیے کوشش کریں۔
ناصر نے سمرین کو پیار بھری نظروں سے دیکھا اور گویا ہوا … سمرین ابھی حالات ہمیں اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ گھر میں کوئی نیا مہمان آئے اور ہمارا خرچ بڑھا دے۔ پھر اس کی دیکھ ریکھ کے لیے بھی تو کوئی گھر میں چاہیے۔اُس نے ناصر کو دیکھ کر منہ تیڑھا کیا اور خاموشی سے خلاؤ ںمیں گھورنے لگی۔ دور اُفق میں اُسے اپنے خواب منتشر ہوتے نظر آئے۔
دونوں جب گھر پہنچے تو کافی رات بیت چکی تھی۔ دونوں کے بیچ ایک ہلکی سے دراڑ نظر آرہی تھی جسے ناصر محسوس نہیں کرسکا ۔ صبح کی ضروریات سے فارغ ہوکر ناصر کو آوازدی ناشتہ تیار ہے۔ دونوں نے ناشتہ ایسے کیا جیسے انھیں زبردستی ناشتے کے لیے بٹھادیا گیا۔ دونوں نے ایک دوسرے بہت کم بات کی اور آفس جانے کے لیے نکل پڑے۔ باہر کا سماں بھی کچھ تلخ تلخ سا نظر آریا تھا۔ ہوائیں بھی بغیر کسی آہٹ کے ، بغیر کسی تغیر کے اپنا سفر طے کررہی تھیں۔
آفس پہنچ کر ناصر نے اخبار اٹھایا اس کی نظر اخبار کی جلی سرخیوں پہ پڑی۔ خبر تھی کہ کل رات چوپاٹی بیچ پر ایک نا بالغ و معصوم لڑکی کی مسخ شدہ لاش ملی۔ پولیس کی خبر کے مطابق پہلے اس کی عصمت دری کے بعد اس کا قتل کر دیا گیا۔ یہ خبر پڑھ کر وہ دہل گیا۔ کچھ دیر کے لیے اس پر سکتہ طاری ہوگیا۔ ا سے کل چوپاٹی بیچ کی شام یاد آرہی تھی ۔ وہ سوچ رہا تھا کہ اگر اس نے سمرین کو وہاں کچھ پل کے لیے بھی اکیلا چھوڑا ہوتا تو ہوسکتا تھا کہ یہ ہیبت ناک واقعہ اُس کے ساتھ پیش آیا ہوتا تو کیا کرتا۔ ہمارا معاشرہ کتنا خونخوار ہوتا جارہا ہے۔
یہ خبر پورے ملک میں فیس بک اور واٹس آپ کے ذریعے پھیلتی جارہی تھی۔ سمرین نے یہ خبر پڑھی اور اُس کا دل خوف سے کانپ اُٹھا۔ اپنے آپ کو وہ بالکل معذور سا محسوس کرنے لگی اور سوچنے لگی کہ انسان کتنا بدلتا جارہا ہے۔ درندوں کی صفت اس میں کہاں سے آتی جارہی ہے ۔جب وہ آفس سے گھر جانے کے لیے نکلی تو راستے میں ایسا لگا کہ کوئی اس کا تعاقب کررہا ہو۔ جب وہ بس میں سوار ہوئی تو اس نے دیکھا کہ بس میں اکیلی ہے۔ بس مردوں سے بھری ہوئی ہے۔ اس نے سارے مردوں کو اپنی طرف ہوس بھری نگاہوں سے دیکھتے ہوئے پایا ۔اسے ایسا لگا کہ جیسے آسمان میں اڑتا ہوا باز زمین پر اپنے شکار کو دیکھ کر اس پر جھپٹ پڑنے کے لیے پَر تولتا ہے۔ اس کے چہرے پر ڈروخوف کے آثار پھیلنے لگے۔ وہ سوچنے لگی کہ کہیںدلّی میں ہوئے ہولناک ، ہیبت ناک حادثہ کی طرح اس کے ساتھ بھی نہ پیش آئے۔ وہ لوگو کے نگاہوں میں بسی درندگی کو دیکھ کر سہم گئی۔ کیوںکہ وہ جانتی تھی کہ چہرہ انسان کی اضطرابیت کو ظاہر کردیتا ہے۔ چہرے ہی تو انسان کو بے قابو ہونے پر مجبور کردیتے ہیں۔آج تک جتنے بھی واقعات ہوئے ان سب کے محرک چہرے ہی تو بنے ہیں۔
سمرین جب گھر پہنچی تو ناصر کو گھر میں موجود پایا۔ وہ اُس کی آنکھوں میں دیکھنے لگی۔ وہ شاید اس کی آنکھوں میں وہی درندگی دیکھنا چاہتی تھی جو اس نے بس میں سوار لوگوں کے آنکھوں میں دیکھا تھا۔ لیکن اُس کی آنکھوں میں اسے کچھ بھی ایسا نظر نہیں آیا۔ سمرین کے دماغ میں ناصر کے متعلق بہت کچھ چل رہا تھا۔ کیوں کہ اُس نے چوپاٹی پر بیٹھ کر سمرین کی کئی خواہشوں کو ریت میں دفن کردیا تھا۔ وہ سوچنے لگی کہ کاش کوئی درندہ ہی ناصر کے اندر اتر آئے۔
تجزیہ اور تبصرہ
ریحان کوثر
برنر، لائٹر، اسٹو یا گیس ویلڈنگ گن سے نکلنے والے شعلوں کو غور سے دیکھا جائے تو ہمیں ان میں مختلف رنگ نظر آتے ہیں۔ یہ شعلے پیلے، لال، نیلے، ہرے، بیگنی، نارنگی وغیرہ رنگوں کے مختلف حصوں پر مشتمل ہوتے ہیں۔ مختلف سائنسی تجربات سے ثابت ہو چکا ہے کہ سبھی کی تپش کم یا زیادہ اور درجہ حرارت مختلف رہتا ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ برنر کے قریب کا حصہ سب سے زیادہ تپش رکھتا ہوں۔ منبع کے اسی کم درجہء حرارت کا فایدہ اٹھا کر لوگ رومال اور لائٹر کی مدد سے جادو کا کھیل دکھاتے ہیں۔ رومال کو تان کر لائٹر کے شعلے کے اولین حصے کو رومال پر گھمایا جاتا ہے لیکن کمال کی بات یہ ہے کہ رومال کو آگ نہیں لگتی ہے۔ یہ عجیب وغریب تمہید کیوں؟
دراصل محتشم اکبر صاحب کے افسانے چوپاٹی بیچ میں آگ، تپش اور شعلے سبھی کچھ موجود ہیں۔ لیکن ان کی رنگت تپش اور درجہء حرارت مختلف ہیں۔ ناشتے کا ٹیبل، بس کا منظر، بس کے مسافروں کی نظریں، مرد اور عورت کی نظروں کا فرق، بس میں ثمرین کے دیکھنے اور سوچنے کا نظریہ، ناصر اور ثمرین کا کمرہ، اخبار کی سرخیاں، چوپاٹی بیچ کا شادی کے پہلے اور بعد کا منظر، چوپاٹی بیچ پر ریت کا گھر، ثمرین کا دھنسا ہوا پیر اور چوپاٹی بیچ کی دردناک خبر کی سرخی اور اس کی وائرل ویڈیو اور تصاویر وغیرہ وغیرہ ایک ہی شعلے میں مختلف رنگ ہیں۔ جس طرح کسی فلیم(شعلہ) میں ہم آگے بڑھتے ہیں تپش بڑھتی جاتی ہے۔ اس افسانے کی نوعیت بھی بالکل اسی طرح کی ہے۔ افسانہ بکھرا ہوا نظر آتا ہے لیکن بڑی ذمہ داری سے کہنا چاہتا ہوں کہ افسانہ بکھرا ہوا نہیں ہے! اسی طرح کردار بے جان نظر آتے ہیں لیکن کردار بھی بے جان نہیں ہے! دراصل ان دونوں کرداروں کو بے جان بنایا گیا ہے اور یہی اس افسانے کی کامیابی اور خوبی ہے۔
ثمرین کی نفسیات کو ان دونوں جملوں کی تپش سے سمجھا جا سکتا ہے۔ پہلی بار ثمرین بس کے مسافروں کے درمیان کسی بوڑھے کو ہی غنیمت جان کر سوچتی ہے کہ
کم سے کم کوئی بوڑھا ہی ناصر کے اندر سما جائے۔
ناصر کے اندر وہ جس شعلے یا تپش کو اترتا ہوا دیکھنا چاہتی ہیں اس کا احساس ناصر کو بالکل نہیں کیونکہ ناصر اور ثمرین کی نفسیات اور جذبات کی شدت اور تپش مختلف ہے۔ حقیقت کہوں تو افسانے کے مطالعے کے دوران کئی مرتبہ مجھے بکھراؤ نظر آیا۔ مناظر کی ترتیب بھی تھوڑی عجیب لگ رہی تھی لیکن اختتام پر جب اس جملے پر نظر گئی سارا افسانہ مربوط اور مضبوط نظر آنے لگا،
کاش کوئی درندہ ہی ناصر کے اندر اتر آئے۔
افسانے کا بڑا حصہ بیانیہ پر مشتمل ہوتے ہوئے بھی افسانے میں ثمرین کی نفسیات کی ترجمانی بڑے ہی خوبصورتی سے کی گئی ہے۔
ایک اچھوتے موضوع کو اٹھانے کے لیے افسانہ نگار کو مبارکباد
0 Comments