معتوب
شہروز خاور
تعارف :
ہندوستان کے مشہور علمی و ادبی شہر مالیگاؤں سے ڈاکٹر شہروز خاور اردو کے تازہ کار افسانہ نگار کی حیثیت سے افق ادب پر وارد ہوئے ہیں۔ انھوں نے افسانوں کے علاوہ شاعری، طنز و مزاح، خاکے اور تبصرے و تجزیے بھی لکھے۔ موصوف کی تنقیدی بصیرت کے حوالے سے بات کرنا اس گروپ کے ممبران کے سامنے ضروری نہیں، یہاں موجود تمام اراکین آپ کی تنقیدی بصیرت اور قلمی صلاحیتوں کے قائل ہیں۔ موصوف نے ابھی چند ہی افسانے لکھے تاہم جتنے بھی لکھے سبھی قابل توجہ ہیں۔ علاوہ ازیں آپ نے کئی اسکولوں اور تعلیمی اداروں کے لیے ترانے، الوداعی گیت، استقبالیہ گیت لکھے ہیں۔ تاہم چھپنے چھپانے کی تگ و دو سے بہت دور رہے۔ امید ہے جلد ہی ان کے افسانے اردو رسائل میں نظر آئیں گے۔ اسی طرح ڈاکٹر صاحب کی اب تک کوئی کتاب بھی منظر عام پر نہیں آئی تاہم امید ہے کہ جلد ہی شاعری میں تمثیلی تصاویر کے تناظر میں ایک کتاب زیور طباعت سے آراستہ ہوگی۔ شہروز خاور نے "فلمی گیتوں میں اردو زبان کی خدمات کا مطالعہ" کے عنوان سے اپنا پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھا۔ آپ پیشے سے مدرس ہیں اور مالیگاؤں کے ایک اردو اسکول میں اپنے فرائض منصبی انجام دے رہے ہیں۔
پیش کردہ افسانہ 'معتوب' دو برس پہلے لکھا گیا تھا تاہم اس کی اشاعت اب تک نہیں ہوئی۔
٭٭٭
میرے جسم سے پتّوں کو نوچ لیا گیا۔
ہاتھ پیچھے کی طرف باندھ دیے گئے۔
اور اسی غار میں دھکا دے دیا گیا جس کی دیواروں پر میں نے مختلف تصویریں بنائی تھیں۔
اس پہلے کسی نے بھی تصویریں نہیں بنائیں تھیں۔
شاید اس بارے میں کسی نے سوچا بھی نہیں تھا۔
شاید اسی لیے ایسا کرنا گناہ عظیم ٹھہرا۔
مدھم روشنی میں تصویریں کچھ کہنا چاہتی تھیں۔
میں بھی تصویروں پر غور کرنا چاہتا تھا۔
میں جاننا چاہتا تھا کہ جو اب تک نہیں ہوا ہے اس کے ہونے سے کیا ہوسکتا ہے۔۔۔؟؟؟
لیکن رہی سہی روشنی بھی معدوم ہوگئی۔
غار کے دہانے پر ایک بڑا سا پتھر رکھ دیا گیا۔
اور میں ایک دلچسپ کہانی کا پُراسرار کردار بن کر رہ گیا۔
صدیاں گزر گئیں۔
ایک دن اچانک روشنی عذاب کی صورت ٹوٹ پڑی۔
ایک پُر جوش مجمع تھا، جس نے پتھر ہٹایا تھا۔
عجیب شور تھا۔
"ہاں یہی وہ جگہ ہے جس کے قریب آنے پر پابندی تھی۔ ہاں ! ہم انحراف کرتے ہیں۔
ہاں ! ہم دیکھنا چاہتے ہیں وہ کون تھا، جو گناہِ عظیم کا مرتکب ہوا تھا۔ "
بھیڑ گھسی چلی آئی۔
لوگ دیواروں پر ہاتھ پھیرنے لگے۔
تصویروں کو چومنے لگے۔
ہر تصویر ایک کردار بن کر ابھری۔
ہر کردار سے ایک کہانی نے جنم لیا۔
ہر کہانی کا اپنا ایک مقصد تھا۔
ہر مقصد میں کئی بھید چھپائے گئے۔
پھر ان بھیدوں کو کھولنے والے پیدا ہوئے۔
لوگ سُن رہے تھے اور بھید کھولنے والے بولے جارہے تھے۔
" یہ کسی عام پرندے کی تصویر نہیں ہے۔
یہ وہ پرندہ ہے جس کے سائے میں آنے والوں کو افضل و مطہر قرار دیا گیا ہے۔۔۔۔
یہ جانور مقدس ہے۔۔۔۔
یہ پیڑ مقدس ہے۔۔۔۔
ہمیں سب کچھ معاف ہے۔۔۔
وہ خادم ہیں۔۔۔۔
تم محافظ ہو۔۔۔۔۔۔
یہ لوگ مردود ہیں۔۔۔۔۔
اس نکتے پر صرف ہم بات کرسکتے ہیں۔
یہ لکیر۔۔۔۔۔۔ ہاں یہی لکیر۔۔۔۔۔ اس سے آگے آپ نہیں جاسکتے۔
صرف ہم جاسکتے ہیں۔
یہ آپ لوگوں کا دائرہ ہے۔
خبر دار اس دائرے سے باہر آنے کی کوشش کی تو۔۔۔
یہ منحنی لکیریں۔۔۔۔۔
دراصل یہ اس ندی کی موجیں ہیں، جس میں غوطے لگانے سے جسم پاک ہوجاتے ہیں۔ "
لوگ سن رہے تھے۔ بس سنتے جارہے تھے۔
اور پھر وہ نسل تیار ہوئی۔
جس کا میں مرشدِ اعظم تھا۔
وہی مرشد جسے غور کرنے کی عادت تھی۔
کچھ ایسا کرنے کی کوشش میں لگا رہنے والا جو اب تک نہیں ہوا ہو۔۔۔۔۔
اب لوگ میری پرستش میں
اور بھیدوں کو کھولنے والوں کی اطاعت کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔
تصویروں کو بار بار لکھا جارہا ہے۔
اور ہر بار تصویر اپنی پچھلی شکل سے کچھ الگ ہوتی جارہی ہے۔
غار کی تصویریں چیخ رہی ہیں۔
لیکن غار تو مقدس تسلیم کیا جاچکا ہے۔
جس میں صرف پاک بدن ہی داخل ہوسکتے ہیں۔
غار کے اطراف مقدس دیواریں اٹھا دی گئی ہیں۔
دیواروں پر جلی حرفوں میں تحریر ہے۔
" اندر آنا منع ہے"
میں روز یہاں سے گزرتا ہوں۔
میں روز پڑھتا ہوں کہ اندر آنا منع ہے۔
میں کئی بار اصولوں کی خلاف ورزی بھی کرچکا ہوں۔
میں نے دیواریں پھلانگنے کا گناہ کیا ہے۔
میں نے غار میں جا کر دیکھا ہے۔
میں نے تصویروں پر غور کیا ہے۔
کیا سچ میں
یہ تصویریں معدومیت سے وجودیت کے آغاز کا وسیلہ ہیں؟؟؟
اندھیرے سے روشنی کا عرفان ہیں؟؟؟
تہذیب کے ارتقا کا آغاز ہیں ؟؟؟
یا کسی خالی الذہن کا بے معنی۔۔۔۔۔
خیر۔۔۔۔ جوکچھ بھی ہے۔۔۔۔۔
میں نے تو اتنا جانا۔۔۔۔ کہ اظہار وسیلہ چاہتا ہے۔
میرے یہ جان لینے میں کوئی برائی نہیں۔۔۔
برائی تو اس کے اظہار میں ہے۔۔۔
مجھے اپنے خیالات کا اظہار نہیں کرنا چاہیے تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرے پیچھے دانشوروں، فنکاروں اور تہذیب کے علم برداروں کا ایک جھنڈ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرے ہاتھ پیچھےکی طرف بندھے ہوئے ہیں۔
اور مجھے ایک کال کوٹھری کی طرف۔۔۔۔۔۔
تبصرہ و تجزیہ
ریحان کوثر:
بہت دور جانے کی ضرورت نہیں اگر بزم میں پیش کئے گئے افسانوں پر ہی بات کی جائے تو ایک بات بالکل صاف ہے کہ علامتیں بغیر اشارے کے بے معنی ہیں۔
کڑوا تیل میں بیل کو نکال کر صرف وہ۔۔۔ وہ۔۔۔ کیا جائے تو پھر ’وہ‘ علامت کہاں رہیں؟ دخمہ سے حیدرآباد کو نکال دیا جائے تو دخمہ اکیلے کیا کر لے گا؟ ہدو کا ہاتھی میں اگر ہاتھی ہی نہ رہے تو وہ افسانہ پھر کس کام کا؟ کتابستان سے جلیبیوں اور سموسے کی خوشبوؤں کو بغیر سونگھے کیا کتابستان کا مقصد باقی رہے گا؟ نجات میں بھی ڈھیروں علامتیں ہیں لیکن اشارے بھی موجود ہیں۔ چھت پر ٹھہری دھوپ سے کیا کوئی دھوپ کو الگ کر سکتا ہے؟ یا چھت کو الگ کیا جا سکتا ہے؟ یا راوی نے جو ٹیبل پر انگلیوں کا جال بچھایا تھا اسے افسانے سے الگ کیا جا سکتا ہے؟ سنگھار دان پر لگی طوائفوں کی لپسٹک کے داغ صاف کئے جا سکتے ہیں؟
نہیں! صرف علامتوں سے کوئی افسانہ نہیں بنا جا سکتا۔ 24 کیریٹ خالص سونے سے زیورات نہیں بنتے، اگر کوئی جوہری ایسا کرے تو وہ جوہری کہاں رہے گا؟ بہت سے میٹھے پکوان میں چٹکی بھر نمک اور تیکھے پکوان میں چٹکی بھر شکر ڈال دی جاتی ہے۔ اس سے اس کی لذت میں اضافہ ہی ہوتا ہے۔ ہر خالص شئے اچھی ہو یہ ضروری نہیں! اور ہر ملاوٹ بری بھی نہیں ہوتی۔
افسانہ معتوب جیسا علامتی افسانہ نہ لکھا جائے ایسا کسی نے نہیں کہا۔ ہاں اس قدر خالص نہ لکھا جائے ایسا سبھی نے کہا۔ جو سمجھ نہیں سکے انھوں نے بھی اور سمجھ کئے انھوں نے بھی! جو ڈی کوڈ کر سکے انھوں نے بھی اور جو ڈی کوڈ کرنے سے رہے انھوں نے بھی یہی کہا۔ اب سب کہہ رہے ہیں تو بھائی شہروز بات مان لی جانی چاہیے!
بات سمجھانے کے لیے دنیا بھر کی مثالیں دی گئیں۔ ڈھیر سارے نام گنوائے کئے۔ ان کا کیا حشر ہوا یہ بھی سمجھایا گیا۔ کسی کو کالا رنگ پسند ہو تو یہ ضروری نہیں کہ رات کا اندھیرا بھی اسے پسند ہی ہو!!! یہ دونوں الگ الگ چیزیں ہیں۔
بیگ احساس صاحب اور مشتاق احمد نوری صاحب نے تو اس افسانے کو پوری طرح کھول دیا لیکن اس کے باوجود سنہرے لفظوں میں لکھے جانے والے مشورے بھی دیے۔ ان دونوں کے تبصرے کے بعد مجھے تو افسانہ بالکل سمجھ آ گیا۔ زبان و بیان بھی خوب ہے۔ روانی بھی ہے کہ قاری پورا پڑھ لیتا ہے۔ اب مجھے افسانہ پہلے سے زیادہ پسند آیا۔ لیکن افسانہ کسی ایک کی پسند کے لیے کہاں لکھا جاتا ہے۔ اور میرے جیسے قاری کو ہر مرتبہ بیگ صاحب اور نوری صاحب کہاں ملیں گے۔ بہر حال افسانے کو ڈی کوڈ کرنا چیلنج تھا اور بزم نے اس چیلنج کو پورا کیا۔
آخری بات:
بات دو سال پہلے کی ہے۔ بال بھارتی میں شعری نشست اکثر ہوا کرتی ہے لیکن یہ پہلی مرتبہ تھا جب نثری نشست منعقد کی گئی۔ جس میں خاکسار کے علاؤہ اس بزم سے وسیم عقیل شاہ صاحب اور سلام بن رزاق صاحب بھی اس نثری نشست کا حصہ بنے۔ لیکن شعری اور نثری نشست میں ایک نام کامن تھا وہ شہروز خاور صاحب کا تھا اور یہ افسانہ انہی کی زبانی اس نشست میں سننے کو ملا تھا۔ نشست کی صدارتی خطاب میں جناب سلیم شہزاد صاحب نے بھی وہی کچھ کہا تھا جو آج بیگ احساس صاحب اور نوری صاحب نے کہا ہے۔ میں یہ نہیں چاہتا کہ شہروز کا افسانوی سفر کچھ اس طرح ہو۔۔۔۔
میرے جسم سے افسانوں کو نوچ لیا گیا۔۔
ہاتھ پیچھے کی طرف باندھ دیے گئے۔۔
اور مجھے ایک کال کوٹھری کی طرف۔۔۔۔۔۔
امید ہے بڑوں کا کہا مانتے ہوئے اگلے راؤنڈ میں شہروز اپنا بہترین افسانہ پیش کریں گے۔ بزم میں اس افسانے کی پیش کش پر شہروز کو مبارکباد اور آئندہ کے لیے نیک خواہشات!
٭٭٭
0 Comments