آشواسن
وسیم عقیل شاہ
تعارف:
جواں سال افسانہ نگار وسیم عقیل شاہ جلگاؤں مہاراشٹر سے ہیں لیکن پچھلے چودہ سالوں سے بمبئی کے ایک سرکاری اسکول میں معلم کے فرائض انجام دے رہے ہیں. آپ اردو سے سیٹ کوالیفائی ہیں. افسانے کے ساتھ ساتھ تحقیق سے دلچسپی رکھتے ہیں اس وقت ممبئی یونیورسٹی میں تحقیق کا مقالہ لکھ رہے ہیں. ان کی تخلیقات موقر رسالوں میں شائع ہوتی ہیں جن میں شاعر، مژگاں، اردو دنیا، چہار سو پاکستان، ندائے گل پاکستان اہم ہیں. کئی افسانے، مقالے دیڈیو آکاشوانی سے ٹیلی کاسٹ ہوچکے ہیں. اس کے علاوہ درجنوں نیشنل انٹر نیشنل سیمناروں میں اپنے مقالے کے ساتھ شرکت کی. خاندیش رائٹرز فاؤنڈیشن اور معمار فاؤنڈیشن، ممبئی اور دوسرے کئی ادبی اداروں کے تحت آئے دن ادبی نشستوں کے انعقاد میں پیش پیش رہتے ہیں. اردو چینل ویب سائٹ کے فعال رکن ہیں. اب ہماری بزم افسانہ میں بھی فعال ہیں. آپ نے بزم افسانہ میں اپلوڈ ہوئے تقریباً تمام افسانہ نگاروں کے تعارف لکھے. موصوف کی اب تک کوئی کتاب نہیں آئی.
انعامات:
شہسوار ادب (سوراج فاؤنڈیشن جلگاؤں )
ہمارا کہانی کار ( ایم وارڈ سطح ممبئی مہانگر پالیکا )
خادم ادب (خدمت ملت فاؤنڈیشن فیض پور )
فلک ایوارڈ (فلک فاؤنڈیشن، ممبئی )
محب اردو (اپنے بچوں کو اردو میں تعلیم حاصل کروانے پر کوئز ٹائم، ممبئی کا خصوصی ایوارڈ )
افسانہ "آشواسن" معروف رسالہ "سب رس" میں شمارہ اپریل 2017 میں شامل ہے۔
طاہر انجم صدیقی
اس کے پاؤں میں پڑے چھالے پھوٹنے لگے تھے اور ان سے رسنے والا پانی پسینے سے مل کر شدید جلن پیدا کر رہا تھا۔ اس پر ستم یہ کہ دھوپ کی تمازت اسے الگ بے حال کیے ہوئے تھی۔ اب ایک قدم بھی آگے بڑھانا اس کے لیے محال تھا، لیکن اس کا عزم ہی تھا جو اسے گھسیٹتے ہوئے جلوس کے ساتھ ساتھ لیے چل رہا تھا۔
سفر کی صعو بتوں اور مشقتوں کو برداشت کرتا ہوا، لوگوں کی ہمدردیاں اور دعائیں لیتا ہوا،ہزاروں کسانوں کا یہ جلوس پیدل مارچ کرتا چلا جا رہا تھا۔ وشوا بھی اپنی پگڑی میں امیدیں باندھے اس جلوس میں شامل ہوا تھا۔اسے بھی آس تھی کہ اب کے حکومت کا احساس ضرور جاگے گا اور جلد ہی کسانوں کے مطالبات پورے کر دیے جائیں گے۔ اسی لیے وہ اس طویل سفر میں درپیش ہر تکلیف کو اپنے خوابوں کی خوش آئند تعبیر کی آس میں برداشت کرتا ہوا چل رہا تھا اور مسلسل چلتا جا رہا تھا۔ راستے میں لہلہاتے کھیتوں کو دیکھ کر اُس کے رگ و پے میں مسرت کی لہر دوڑ جا تی اور اس کے قدم خود بخود تیز ہونے لگتے۔ اتنے تیز کہ وہ عَلم اٹھائے، آگے چلنے والے جلوس کے پرجوش نوجوانوں سے بھی آگے نکلنے لگتا۔ یہ امیدیں ہی اس کے حوصلے اور راحت کا سبب بن رہی تھیں، وگرنہ اپنی بے فیض اور بے بس زندگی سے وہ گویا بجھ سا گیا تھا۔
اسے اپنی بیوی شکنتلا کے اچانک گزر جانے کا شدید غم تھا۔ اگر پچھلے برس فصل کی قیمت اس کی محنت کے برابر آئی ہوتی تو وہ اس کا علاج صحیح ڈھنگ سے کرواتا اور شاید وہ بچ بھی جاتی! مگر بیماری کے بعد وہ جی ہی کتنا! نہ اس کے پاس وقت تھا نہ وشوا کے پاس کہ وہ پھر سے قرض کے لیے دوڑ بھاگ کرتا۔ حالانکہ اس کے ناتواں کاندھوں پر پہلے ہی قرض کا اتنا بوجھ تھا کہ وہ مزید قرض لینے کا کسی بھی طرح سے اہل نہیں تھا۔ اگر وہ کسی بینک سے بھی قرض لیتا تو بھی ضابطے کی کارروائی پوری ہونے تک شکنتلا کے بچنے کی امید نہ تھی۔۔۔! اسے لگتا تھا کہ شکنتلا، سندھیا ہی کو دیکھ دیکھ کر جیتی تھی اور مری بھی شاید اسے ہی دیکھ دیکھ کر۔ آخر وقت میں سندھیا کے لیے اس کی آنکھوں میں جو حسرت آمیز کیفیت نظر آتی تھی اسے یاد کر کے وشوا کے دل میں اکثر ایک ہوک سی اٹھتی۔
سندھیا۔۔۔! اس کی سگھڑ بیٹی۔۔۔ سچ مچ وشوا کو پتا ہی نہ چلا کہ کھیتوں میں اچھلتی، کودتی، بھاگتی، قلانچیں بھرتی اور جھاڑیوں، بالیوں کے پیچھے چھپ کر اسے ستانے والی اس کی معصوم گڑیا کا بچپن، کب اور کس اوٹ چھپ گیا! مگر اب جب کہ سندھیا پچیس کے اوپر ہوچلی تھی تو اس کے بڑھتے سن کا ایک ایک دن وشوا پر بھاری گزر رہا تھا۔
بھلا ہو ان لیڈروں کا جنہوں نے کسانوں کو بیدار کیا اور ان کے حق میں ریاستی سطح پر ایک بڑے جلوس کا اہتمام کیا تاکہ سرکار اور اس کے منتریوں کو کسانوں کے مسائل سے آگاہ کرایا جاسکے۔ وشوا نے سندھیا کی شادی سے متعلق اپنی ساری امیدیں اور آشائیں اسی جلوس سے وابستہ کر رکھی تھیں۔ اب تو اسے گویا یقین ہوچلا تھا کہ حکومت ان کا ساتھ دے گی اور فصل کے صحیح داموں میں خریدو فروخت کا قانون بھی بنے گا۔جس کی بنا پر ممکن ہے اب کی بار فصل کے دام مناسب ملیں گے۔ اور رہی بات قرض کی تو وہ سرکار سے پر امید تھا کہ یقیناً سب کے ساتھ اس کا قرض بھی معاف کر دیا جائے گا یا اطمینان کی حد تک اس میں کمی کر دی جائے۔ اس نے ایک موٹا موٹا حساب جوڑ کر یہ بھی اندازہ لگا لیا تھا کہ اگلے چھ، آٹھ مہینوں میں اس کے پاس اتنی رقم جمع ہوسکتی ہے جس سے سندھیا کے جہیز اور لگن کا ٹھیک ٹھاک بندوبست ہوجائے گا۔ اسی لیے جلوس میں شامل ہونے سے ہفتہ بھر پہلے ہی وہ گاؤں کے رشتہ لگانے والے ’بدھوا‘ سے ملا تھا اور بڑی مشکل سے جمع کیے ہوئے ہزار روپئے اسے پیشگی کے طور پر دے کر سندھیا کے لیے اچھا سا ’بر‘ ڈھونڈنے کی منتیں کی تھیں۔
طویل سفر کے بعدجلوس اپنے مقام پر پہنچا۔یہاں بڑے سے میدان پر ہزاروں لوگوں کے بیٹھنے اور سونے کے لیے معمولی سے انتظامات کیے گئے تھے۔ دور تک ٹینٹ ہی ٹینٹ نظر آتے تھے۔ چھوٹے چھوٹے پنڈال، پنڈالوں میں ٹھیک ٹھاک روشنی کا انتطام، ٹاٹ کی دریاں، پانی کا انتظام ـ جگہ جگہ اسپیکر رکھے گئے تھے،جن سے رہ رہ کر کھر کھر کے ساتھ تیز آوازیں نکلتیں تو کان سن ہوجاتے۔ رات کومنتظمین اور چند فلاحی اداروں کی جانب سے جھنکا بھاکر اور کچھ ہلکے پھلکے کھانے کا انتظام کیا گیاتھا۔ اسے زہر مارکر کے سبھی تھکے ہارے کسانوں نے سوتے جاگتے رات گزاری۔صبح کو جلوس کے اہم لیڈروں نے منتریوں اور سرکاری نمائندوں سے تین گھنٹے کی طویل میٹنگ کی۔ پھر جب باہر آئے تو ان کے ایک نمائندے نے کسانوں کو مخاطب کرتے ہوئے بولنا شروع کیا:
'' دیش واسیوں کے لیے اَناج پیدا کرنے والے ہر ایک کسان کا مسئلہ اس کا اپنا ذاتی نہیں بلکہ پورے دیش کا مسئلہ ہے۔ سرکار مانتی ہے کہ سبھی کسانوں کے مسائل ایک جیسے ہیں لیکن ان میں ہر ایک کی ذمہ داریاں مختلف ہیں۔ لہٰذا اسی بات کو مد نظر رکھتے ہوئے سرکار نے کسانوں کی بیشتر مانگوں کو قبول کر لیا ہے اورآشواسن دیا ہے کہ اگلے چھ مہینوں بعد ان پر عمل کرنا شروع کر دیا جائے گا۔اس کے علاوہ باقی مانگوں کے لیے ایک سال کی مدت لی ہے تاکہ ایک کمیٹی تشکیل دے کر ان مانگوں پر ہرپہلو سے غور کیا جاسکے۔ سرکار نے آشواسن دیا ہے کہ کسی کو نراش ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ کسانوں کے لیے جلد ہی ایک بڑے راحت پیکج کا اعلان کیا جانے والا ہے۔ ''
سرکاری فیصلے سے ہجوم پر کہیں خوشی تو کہیں غم کی لہر دوڑ گئی۔ بیشتر کسانوں کے مطابق اس فیصلے میں سوائے واپسی کے لیے سفری انتظامات کے ہر ایک مدعا آشواسن تھا۔ اور آشواسن کا لفظ خاص کر کسانوں کے لیے کبھی بھی نیا نہیں رہا بلکہ آشواسن کا معنی ان کے نزدیک صرف انتظار۔۔۔۔انتظار اور انتظار کے سوا کچھ نہیں تھا۔ فیصلہ سنتے ہی وشوا کی آنکھوں کے آگے اندھیر سا چھا گیا اور بدن پر جیسے لرزہ سا طاری ہوگیا۔ وہ سر تھامے کپکپاتے پیروں سے زمین پر اکڑوں بیٹھ گیا۔ حالانکہ پورے میدان میں افرا تفری جیسا ماحول ہوگیا تھا،ہزاروں کی تعداد میں لوگ تیزی سے ایک سمت چلے جا رہے تھے اور اسپیکر سے مسلسل تیز آوازیں آ رہی تھیں، لیکن وشوا کسی مجسمے کی مانند بے حس و حرکت بیٹھا رہا۔ پتا نہیں وہ کتنی دیر اسی کیفیت میں بیٹھا رہاکہ اچانک اس نے اپنے کاندھے پر کسی کا ہاتھ محسوس کیا۔ دھیرے سے آنکھیں کھولیں تو دیکھا کہ سامنے ایک شخص کھڑا تھا،اس کی شکل کچھ جانی پہچانی سی لگ رہی تھی۔ وہ دھیرے دھیرے اٹھ کر کھڑا ہوا اور اس شخص کو پہچاننے کی کوشش کرنے لگا:
”ارے وشوا،کیا تو نے مجھے پہچانا نہیں، میں کیشو ہوں کیشو۔“
کیشو کا نام سن کر اس کی آنکھوں میں شناسائی اتر آئی اور دونوں دوست بغل گیر ہوگئے۔
کیشو نے بتایا کہ وہ پچھلے پندرہ برسوں سے دور کے ایک گاؤں میں اپنے سسرال کی زمین پر کاشت کاری کر رہا ہے اور اب وہیں بس گیا ہے۔ پھر اس نے وشوا کے اترے ہوئے چہرے پر نظر جما کر پوچھا:
”تیرا کیا حال ہے؟“
وشوا نے افسردگی سے اپنی بیوی کی موت کی خبر سنائی،سن کر کیشو نے بہت افسوس ظاہر کیااور کچھ توقف کے بعد پوچھا:
”تیری ایک بٹیا بھی ہے نا؟کیا نام تھا اس کا۔۔۔۔۔؟
”سندھیا۔“
”ہاں،سندھیا۔۔۔اب تو شادی ہوگئی ہوگی اس کی۔۔۔؟“
وشوا نے مایوسی سے گردن ہلائی اور دھیمی آواز میں کہا:
”اسی کی فکر میں تو مرے جا رہا ہوں۔ “
وشوا نہیں چاہتا تھا کہ وہ اپنے بارے میں اسے مزید کچھ بتائے مگر کیشو کی ضد کے آگے وہ مجبور ہوگیا۔
کیشو نے سب کچھ سن کر اسے غور سے دیکھا اور اس کے کاندھے پر ہاتھ رکھے لمبی سانس کھینچ کر بولا:
”وشوا، چنتا مت کر، سب ٹھیک ہوجائے گا۔“
”نہیں رے کیشو تو نہیں جانتا، مجھے اپنی کھیتی سے زیادہ سندھیا کی فکر ہے اور تو تو جانتا ہے آج کل لڑکے والے ’ہنڈا‘ (ریاست ِمہاراشٹر میں روپیوں کی شکل میں دیا جانے والا جہیز) لیے بغیر کہاں راضی ہوتے ہیں۔“
تبھی پیچھے سے ایک نوجوان نے کیشو کو آواز دی:
”چلو بابا دیری ہو رہی ہے، کہیں بس نہ نکل جائے۔‘‘
وشوا نے دیکھا ایک اچھے قد و قامت کا نوجوان کیشو سے مخاطب ہوا اور پلٹ کر پاس ہی کھڑے اپنے دوستوں میں جا ملا۔
”شاید یہ تیرا بیٹا ہی ہے، ہے نا۔۔۔؟ کتنا بڑا ہوگیا۔۔۔۔۔۔!“
کیشو نے دیکھا وشوا کی نظر نوجوان کا تعاقب کر رہی ہے۔ اس کے ہونٹوں پر ایک معنی خیز مسکراہٹ پھیل گئی۔
”ہاں، میرا بیٹا۔۔۔۔۔۔وشال۔۔۔۔ اسی برس شادی کرنے جا رہا ہوں اس کی۔“
وشوا نے تجسس سے پوچھا:
”لڑکی دیکھی۔۔۔۔۔؟“
”ہاں دیکھی تھی،پندرہ برس پہلے۔“
اس پر وشوا نے حیرت سے پوچھا:
”پندرہ برس پہلے۔۔۔۔ کہاں دیکھی تھی؟“
”تیرے گھر میں۔ “
وشوا حیرت و مسرت کی ملی جلی کیفیت کے ساتھ کیشو کا منہ تکنے لگا۔تب کیشو نے بے حد اپنائیت اور خلوص کے ساتھ کہا:
”اب منہ کیا دیکھتا ہے، جلدی سے اپنے گاؤں کی بس پکڑ اور چنتا چھوڑ، میں جلدہی تیری وہینی (بھابھی) کو لے کر سندھیا کا ہاتھ مانگنے تیرے گھر آؤں گا۔“
اسپیکر سے مسلسل آنے والی آوازیں اب تقریباً بند ہوچکی تھیں البتہ پانچ پانچ منٹ بعد ہدایتی پیغام ضرور آ رہے تھے۔ میدان دھیرے دھیرے خالی ہو نے لگا تھا۔ جلوس میں شامل کسان جوق در جوق ریلوے اسٹیشن اور بس اڈے کی طرف چلے جا رہے تھے۔
کیشو کی باتوں سے وشوا کی ڈھارس بندھی تھی۔ وہ بس میں سوار ہوا اور جگہ بنا کر ایک سیٹ پر بیٹھ گیا۔ بس چلنے لگی تو کھڑکی سے آتی ہوا سے اسے راحت کا احساس ہوا، اس نے سیٹ کی پشت سے ٹیک لگا کر آنکھیں بند کر لیں اور کیشو کے بارے میں سوچنے لگا۔ ”کتنا بھلا آدمی ہے کیشو، پرانی دوستی کا مان رکھ لیا اور میری اتنی بڑی پریشانی بھی دور کردی۔“ وہ اس دن کا تصور کرنے لگا جس کا وعدہ کیشو نے کیا تھا کہ وہ اپنی بیوی کے ساتھ سندھیا کا ہاتھ مانگنے اس کے گھر آئے گا اور وہ۔۔۔۔وہ۔۔۔اچانک ایک منحوس سا خیال اس کے ذہن میں بجلی کی طرح کوندا”کہیں کیشو کا وعدہ بھی سرکاری آشواسن کی طرح صرف انتظار،انتظاراور انتظار۔۔۔۔ہی بن کر نہ رہ جائے !“
ختم شد۔۔
افسانہ: آشواسن
افسانہ نگار: وسیم عقیل شاہ
مبصر: ریحان کوثر
کوئی تحریر ہمیں پسند آئے اس کی انگنت وجوہات ہو سکتی ہے یا ہوتی ہے۔ وسیم عقیل شاہ صاحب کا زیر نظر افسانہ ’آشواسن‘ مجھے کئی وجوہات کی بنا پر پسند آیا لیکن اس میں سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ اس میں مہاراشٹر کی خوشبو رچی بسی ہے۔ اس میں یہاں کا درد یہیں کا موضوع ہے، یہاں کے مسائل ہے اور یہاں کی مٹی کی خوشبو لیے اسی سر زمین کے کردار اور منظر بھی موجود ہے۔ بر، وہینی، جھنکا بھاکر اور ہنڈا وغیرہ لفظوں نے اسے مہاراشٹر کی زمین سے جوڑ رکھا ہے۔
کیا یہ کہانی کسی کسان کی ہے؟ جو سرکار کے جھوٹے وعدوں اور کمزور آشوان سے مایوس ہے۔۔۔؟
کیا یہ کہانی صرف ایک غریب اور پسماندہ باپ کی ہے جو اپنی بیوی کا ٹھیک طرح علاج بھی نہ کروا سکا؟ اور جوان بیٹی کی شادی کے لیے فکر مند ہے اور اب جب کہ اس کی بیٹی سندھیا پچیس کے اوپر کی ہو چکی ہے تو اس کے بڑھتے سن کا ایک ایک دن اس باپ پر بھاری گزر رہا تھا۔۔۔؟
یہ کہانی ایک بیمار ماں کی ہے جس کے جینے اور مرنے کی واحد وجہ اس کی بیٹی تھی؟ اور آخر وہ اس درد کو اور سینے میں حسرت لیے مر چکی ہے۔۔۔؟
ایک جوان بیٹی کا غریب باپ ہونا اس پر یہ کہ ایک غریب کسان ہونا ہی صرف اس کہانی کا درد نہیں ہے۔ جو مجھے محسوس ہوا اس کا خلاصہ کچھ یوں ہے۔۔۔
ہمارے ملک نے آزادی کے بعد جمہوریت کی طلسماتی دنیا میں قدم رکھا۔ یہاں الیکشن کا رواج عام ہوا۔ سیاسی اکھاڑے میں پہلوان اترنے لگے۔ دھیرے دھیرے وعدوں اور سنہری خوابوں کے سوداگروں نے دکانیں سجائی۔ جمہوریت کا کاروبار پھلنے پھولنے لگا۔ کیا یہ بھی کمال نہیں کہ ان سیاسی سوداگروں کے ہاتھ اردو کا ایک لفظ وعدہ اور ہندی(اور مراٹھی) کا ایک لفظ آشواسن لگ گیا۔ جس سے ان کی دکانیں چمک اٹھیں۔ الیکشن کے پہلے وعدہ اور الیکشن کے بعد آشواسن ان کے لیے نعمت ثابت ہوئے۔ دھیرے دھیرے یہ سیاست کا ایک اہم عمل بنتا گیا۔ ہر پانچ سال بعد اسے دوہرایا جانے لگا۔ یعنی الیکشن کے پہلے وعدہ کرو اور بعد میں کوئی سوال کرے تو اسے آشواسن کا حلوا پیش کرو! اب یہاں اس کہانی میں وشوا کے ساتھ ایسا کچھ ہوا کہ یہ دونوں لفظ اسے ایک ساتھ پیش کر دیا گیا۔ کیشو نے وعدہ اور آشواسن ایک ساتھ دے دیا۔ وشوا کی بیٹی کو بہو بنانے کا ’وعدہ‘ اور وہینی کے ساتھ بیٹی کا ہاتھ مانگنے گھر آنے کا ’آشواسن‘۔۔۔ سیاسی سوداگروں کے دونوں مایا جال کا ایک ساتھ آجانے سے وشوا کو محسوس ہوا کہ اب کہیں اسے ہر بار کی طرح اس بار بھی انتظار کی آگ میں جلنا نہ پڑے۔
افسانہ نگار نوجوان ضرور ہیں لیکن ان کے تبصرے میں کمال کا ٹھہراؤ نظر آتا ہے۔ ان کے تبصرے طنز سے پاک ہوا کرتے ہیں۔ وسیم صاحب جذبات سے پرے بڑی ہی دیانت داری سے اپنی بات پیش کرنے میں ماہر ہیں۔ لیکن انھوں نے اس افسانے میں موجودہ سیاسی اور سماجی نظام پر بھر پور طنز کیا ہے۔ طنز کی دھار اتنی مہین کہ عام قاری اسے شاید پکڑ ہی نہ سکے۔ لیکن پھر بھی ہر خاص و عام قاری کو یہ پسند آئے گا۔ وسیم صاحب نے ایک ایسے موضوع کو اٹھایا ہے جو اب شاید موضوع رہا ہی نہیں۔ ہم نے خودکش کسانوں کو اخباروں میں اتنا پڑھ رکھا ہے کہ یہ اب ہمیں نارمل لگنے لگا ہے۔ لیکن افسانہ نگار کے عمدہ ٹریٹمنٹ سے اس موضوع میں بھی جان نظر آئی اور ساتھ ہی ساتھ افسانہ نگار اپنا پیغام پہنچانے میں کامیاب بھی نظر آتا ہے۔ باقی دیگر مبصرین نہ جن وجوہات کی بنا پر اس افسانے کے لیے پسندیدگی کا اظہار کیا ہے میں ان تمام سے متفق ہوں۔
اپنی بات:
بزم میں وسیم عقیل شاہ صاحب اپنے افسانے کے ساتھ دیر آئے درست آئے۔ ایوینٹ بس اب ختم ہوا چاہتا ہے۔ سب کو کھلانے کے بعد خود کھانے والے سب سے اہم خدمت گزار ہوتے ہیں۔ بے شک وسیم عقیل شاہ صاحب افسانوی ادب کے بہترین خدمت گزار ہیں۔ وسیم صاحب نے بزم میں اپنا رول بخوبی نبھایا۔ اس ایوینٹ کی کامیابی میں ان کا اہم رول رہا ہے۔ کئی ذاتی مصروفیات و معاملات، مصیبت اور پریشانی کے باوجود وسیم صاحب بزم میں ڈٹے رہے اور اپنے فرائض بحسن وخوبی ادا کرنے رہے۔ ان کے سچے اور پکے ہونے کی دلیل ہے۔
یہ افسانہ میں نے پہلی بار پڑھا، لیکن افسانہ نگار سے ہی اس سے قبل بال بھارتی پونے کی نثری نشست میں سن چکا ہوں۔ افسانہ کے اختتام پر تالیوں کی گونج آج بھی ذہن میں محفوظ ہے۔ اسی طرح کی تالیاں مجھے اس بزم میں بھی سنائی دے رہی ہے۔ آج کی قرآت کے بعد بھی افسانہ پڑھ کر سکون محسوس ہوا کہ واقعی ہندوستانی افسانوی ادب کا مستقبل روشن ہے۔ وسیم عقیل شاہ صاحب کو اس کامیاب افسانے کے لیے دلی مبارکباد اور مستقبل کے لیے نیک خواہشات۔۔۔
✍ ریحان کوثر
0 Comments