دروازہ
ساغر صدیقی
تعارف:
ساغر صدیقی کا تعلق مہاراشٹر کے ایک مشہور شہر اکولہ سے ہے۔ آپ صنف افسانہ میں اپنے منفرد طرز اسلوب کے ساتھ برسوں سے طبع آزمائی کرتے آ رہے ہیں۔ آپ کے افسانے ملک و بیرون ملک کے مختلف ادبی رسالوں اور اخباروں میں شامل اشاعت رہے ہیں جن میں روبی، بانو اور بے باک قابل ذکر ہے۔ اسی طرح ریاست مہاراشٹر کے مختلف آل انڈیا ریڈیو اسٹیشنوں سے کل 11 افسانے نشر ہوئے۔ آپ کا افسانوی مجموعہ بہ نام "دروازہ" پچھلے برس منظر عام پر آیا۔ آپ طنز و مزاح کے میدان میں بھی فعال رہے نیز اردو اور انگریزی صحافت سے یکساں طور پر وابستگی رکھتے ہیں۔ ان دنوں انگریزی صحافت میں بین الاقوامی سطح پر اپنے قلم کے جوہر دکھلا رہے ہیں۔ اسی حوالے سے آپ ماضی میں ٹائم آف انڈیا کے ساتھ ساتھ ملک کے دوسرے اہم اخبارات سے وابستہ رہے اور حالیہ امریکہ کے دو معروف اخبارات کے فری لای لانسینگ جرنلسٹس ہیں۔ صحافت کے حوالے ہی سے آپ نے ترکی، دوبئی انگلینڈ اور موروکو کے علاوہ اسرائیل اور فلسطین کا تن تنہا سفر کیا تھا۔ آپ کی دلچسپی سفر نامہ نگاری میں بھی ہے۔ "القدس کی اذان " آپ کا مشہور سفر نامہ ہے جس کا اجرا اکولہ، شکاگو (امریکہ ) اور برمنگھم (انگلینڈ ) سے الگ الگ ہوا اور اب تک اس کتاب کے چھے ایڈیشن شایع ہو کر پوری دنیا میں لاکھوں روپیوں میں فروخت ہو چکے ہیں۔ پیشے سے اول تو محکمہ ڈاک میں ملازم رہے بعد ازاں اپنی تعلیمی قابلیت کی بنیاد پر شعبہ تبدیل کر کے On Deputaion Court میں میجسٹریٹ ہوئے اور اب سبکدوش ہیں اور اکولہ میں مقیم ہیں۔
انعام و اعزاز:
گولڈ میڈلسٹ ٹائمز آف انڈیا
القدس کی اذان پر یوپی اردو اکیڈمی کا انعام و سند
( اور بھی ہیں )
زیر نظر افسانہ 'دروازہ' ان کے افسانوی مجموعے "دروازہ" کا ٹائٹل افسانہ ہے۔
محمد علیم اسماعیل
٭٭٭
مہاراشٹر کے ایک چھوٹے سے قصبہ جان پور میں ایک غریب گھرانے میں ایک بچی نے جنم لیا تھا۔ ماں باپ نے اس کا نام غزالہ رکھا تھا کیونکہ اس کی آنکھیں غزالی تھیں۔ غزالہ کے دو بڑے بھائی بھی تھے جو اسکول جاتے تھے۔ غزالہ جب پانچ برس کی ہوئی تو پوری بستی میں اس کی خوبصورتی کے چرچے تھے۔ بے حد گورا رنگ, گھنے سیاہ بال, ستواں ناک, کھڑے چہرے پر بڑی بڑی آنکھیں, نکلتا قد, مترنم آواز۔ گویا غریب کے آنگن میں چاند اتر آیا تھا۔ لیکن کم سنی ہی میں وہ یتیم ہو گئی تھی۔ اس کا باپ جب کھیت میں کام کر رہا تھا تب زہریلے سانپ کے ڈسنے کی وجہ سے فوت ہو گیا تھا۔
دونوں بھائیوں نے اسکول کو خیرباد کہا اور مزدوری کرکے ماں اور بہن کا کا پالن پوشن کرنے لگے تھے۔ بستی کی بوڑھی عورتیں جب اس کی بیوہ ماں سے ملنے آتیں تو اکثر کہتیں, "یہ چاند کا ٹکڑا ہے خدا اس کا نصیب جگائے, کسی اچھے گھر میں اٹھانا انا اس کو۔"
بھولی بھالی غزالہ اپنے لڑکپن کے دنوں میں ان باتوں کو سمجھ نہ پاتی تھی۔ جب سن بلوغت کو پہنچی تو گویا بیوہ سکینہ کے آنگن میں بیری کا پیڑ اگ آیا تھا اور اس پر پتھر آنے شروع ہو گئے تھے۔ سکینہ نے اپنی بیٹی کے کئی رشتے ٹھکرائے۔ وہ تو اس مہتاب کو کسی چمکدار آفتاب کی گود میں بٹھانا چاہتی تھی۔ کچھ عرصے بعد, ایک بڑی بی رشتہ تلاش کرتے ہوئے جان پور آ دھمکی۔ کسی نے سکینہ کے گھر کا پتہ بتا دیا بڑی بی تو غزالہ کے حسن سے ایسی مسحور ہوئیں کہ مجوزہ رشتے کے تعلق سے تعریفوں کے پل باندھنے لگیں۔
"آپا ماسٹر امجد شہر میں مشہور ٹیلر ہے۔ باپ کی موت کے بعد دکان خود سنبھالی ہے چھہ کاریگر ہاتھ کے نیچے کام کرتے ہیں۔ خوبصورت گبرو جوان ہے۔ بی بی نہ مت کہنا ذرا لڑکے کی تصویر تو دیکھ لو۔"
سکینہ نے لڑکے کی تصویر کو تعریفی نظروں سے دیکھتے ہوئے پوچھا, " اور گھر خود کا ہے؟ گھر میں اور کون کون ہیں ؟ "
بڑی بی نے مسکرا کر کہا," ہاں جی نہ کوئی آگے نہ پیچھے۔باپ کی موت کے بعد ماں بھی چل بسی تھی۔ اکلوتا بیٹا اتنے بڑے گھر کا مالک ہے "
پھر کیا تھا رشتہ ہوگیا اور غزالہ ماسٹر امجد کے ساتھ بیاہ دی گئی۔
وہ اپنے قصبہ سے نکل کر شہر کے ایک صاف ستھرے محلے میں پہنچ گئی تھی۔ ایک برس بات ان کے گھر ایک خوبصورت نھنی پری کی آمد ہوئی اور غزالہ نے اپنی بچی کا نام پری رکھ دیا۔ زندگی کے تقاضے اگر مختصر ہوں تو انسان دکھی نہیں ہوتا۔ دکھ تو تب ہوتا ہے, جب کسی سے کوئی امید جا کی جائے اور وہ پوری نہ ہو۔ زندگی اپنے بوجھل قدموں سے خاموشی سے رواں دواں تھی۔ دونوں میاں بیوی اپنی قلیل آمدنی میں بھی خوش تھے۔ پری اب سات برس کی ہو گئی تھی اور اسکول جانے لگی تھی۔ غزالہ جب کبھی اپنے گاؤں جاتی اس کی ماں اور بھائی اسے دیکھ کر بہت خوش ہوتے۔ زندگی بڑی ظالم ہوتی ہے۔ چلتے چلتے اچانک لڑکھڑا جاتی ہے ایسا ہی غزالہ کے ساتھ ہوا۔ ماسٹر امجد اپنی دکان میں کاریگروں کو کام سمجھا رہا تھا کہ اچانک اس پر شدید دل کا دورہ پڑا اور چند لمحوں میں ماسٹر امجد مرگیا۔ غزالہ پر گویا قیامت ٹوٹ پڑی۔ غریب بھری جوانی میں بیوہ ہو گئی تھی۔
اب بیٹی ہی اس کی زندگی کا سہارا تھی۔ ماں اور بھائیوں نے کئی بار تقاضہ کیا کہ وہ گاؤں واپس آجائے لیکن وہ نہیں مانی۔ ایک تو غزالہ کو ان کی مفلسی کا احساس تھا دوسرے وہ اپنی بچی کو شہر میں تعلیم دلوانا چاہتی تھی۔
کچھ عرصے بعد اس کی ماں نے اور محلہ کی بڑی بوڑھی عورتوں نے اسے دوسرا نکاح کرنے کی صلاح دی لیکن اس کا دل نہیں مانا وہ اپنی بیٹی کو کسی سوتیلے باپ سے روشناس کروانا نہیں چاہتی تھی۔ اس کا مکان ذاتی تھا۔ دکان سے ایماندار کاریگر, اسے کرایہ اور دیگر رقم ادا کرتے تھے۔ وہ خود بھی محلے کی نیک خواتین کے کاموں میں ہاتھ بٹاتی تھی۔ اس طرح دن کٹ جاتا اور زندگی گزرتی رہی۔
غزالہ کے پڑوس میں ماسٹر دلاور کا گھر تھا غزالہ اکثر ماسٹر کی غیر موجودگی میں ان کے گھر جاتی اور ان کی بیوی نجمہ کے ساتھ وقت گزارتی۔ حالانکہ ماسٹر نہایت شریف اور نیک نفس انسان تھے لیکن غزالہ پھر بھی ان سے پردہ کیا کرتی تھی ماسٹر دلاور بھی اپنی بیوی کے ذریعے غزالہ کی خبرگیری کیا کرتے تھے نیز اس کے چھوٹے موٹے کام کر دیا کرتے تھے۔ انہیں غزالہ سے بہت ہمدردی تھی۔ ایک دن جب ماسٹر دلاور خلاف توقع جلدی گھر آ گئے تو غزالہ ان کے گھر سے عجلت میں باہر نکل رہی تھی۔ دلاور کی نظر غزالہ پر پڑی تو وہ اسے دیکھتے ہی رہ گئے۔ اس قدر حسین عورت انہوں نے پہلے کبھی دیکھی نہ تھی۔ بیوہ ہونے کے بعد غزالہ کی حسن و رعنائی مراجعت کر گئی تھی۔ وہ ایک طرف ہو گئے اور غزالہ باہر نکل گئی۔ گھر کے اندر گئے تو ان کی بیوی نے کہا, "غزالہ آئی تھی اس نے بتایا کہ ان کے آنگن کا دروازہ بوسیدہ ہو گیا ہے نیا دروازہ لگانے کے لیے اسے آپ کی مدد چاہیے۔ وہ اخراجات ادا کرنے کو تیار ہے۔"
"ارے اخراجات کی کیا ضرورت ہے ؟ ہم خود ہی لگوا دیں گے دروازہ۔ ایسے بھی ماں بیٹی کو ہماری وجہ سے بڑی ہمت ہے۔ دوسرے دن ماسٹر دلاور نے خود موجود رہ کر کاریگروں سے غزالہ کے صحن کی دیوار میں ایک مضبوط دروازہ نصب کروا دیا۔
پری دوپہر اسکول جاتی اور محلے کے بچوں کے ساتھ سہ پہر کو کھیلنے جاتی۔ غزالہ بیٹی کے اسکول جانے کے بعد روزانہ پڑوس کی عورتوں کے ساتھ گزارتی۔ دلاور بھی شام میں گھر لوٹتے تھے۔ اس لیے وہ زیادہ وقت ان کی اہلیہ نجمہ کی صحبت میں گزارتی تھی۔ یوں بھی وقت کسی کے لیے ٹھہرتا نہیں ہے اور ایک جوان بیوہ کی راتیں کسی بددعا کی طرح اس کے دل و دماغ پر حاوی رہتی ہیں۔ ماسٹر دلاور ذہن سے غزالہ کا سراپا نکلنے کو تیار نہ تھا۔ وہ اکثر اس کے متعلق سوچتے رہتے۔ لیکن اخلاق کی بیڑیاں ان کی سوچ کو باندھ رکھتی تھیں۔
ایک دوپہر اچانک ہی موسم بدلا۔ آسمان پر گھنے بادل چھاگئے۔ ماسٹر دلاور کی طبیعت بھاری ہو رہی تھی اس لیے وہ جلدی گھر کی طرف آگئے۔ تیز ہوا تیز طوفان کی شکل اختیار کر گئی تھی۔ جب وہ اپنے گھر کے قریب پہنچے تو انہوں نے دیکھا غزالہ دوپٹہ اوڑھے تیزی سے اپنے گھر کا دروازہ کھول کر صحن میں چلی ہے۔ تیز ہواؤں سے اس کے برآمدے کی چھت پر لگے ٹین کے پترے بھی پھڑپھڑانے لگے۔ آنگن میں کپڑے سوکھنے کے لیے ڈالے گئے تھے۔ غزالہ جلدی جلدی رسی سے کپڑے کھینچنے لگی۔ تبھی ماسٹر دلاور اس کے آنگن میں داخل ہوگئے۔ غزالہ کو پتہ ہی نہیں چلا۔ تیز ہوا کا ایک جھونکا آیا اور دوپٹا اڑ کر ماسٹر دلاور کے چہرے پر جا لگا۔ غزالہ نے پلٹ کر ان کی طرف دیکھا ماسٹر دلاور نے دوپٹہ غزالوں کو دینا چاہا تبھی ان کی نظر غزالہ کے سینے کے ابھار پر پڑی۔ بارش بھی جیسے اسی پل کی منتظر تھی۔ ہواؤں کے ساتھ بارش نے زور پکڑ لیا تھا۔ غزالہ گھر کے اندر کی طرف دوڑ گئی۔ ماسٹر دلاور اس کا دوپٹہ دینے اس کے گھر میں داخل ہوگئے۔ صحن میں بارش کا شور تھا۔ ماسٹر دلاور کی آنکھیں سرخ اور سانس تیز ہورہی تھی۔ مذہبی ضابطوں اور اخلاق کی ساری دیواریں گر چکی تھیں۔ انسانیت حیوانیت میں بدل گئی اور پھر جو نہ ہونا تھا وہ ہوگیا۔ ایک بیوہ کی عصمت کا دامن تار تار ہو گیا۔ کچھ دیر بعد ماسٹر دلاور بارش میں بھیگتے ہوئے غزالہ کے صحن سے گزر کر باہر نکل گئے۔ غزالہ کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ اس نے بھیگی نظروں سے مضبوط دروازے کو دیکھا۔ اس کے دونوں پٹ کھلے ہوئے تھے۔
آنگن میں گرتی بارش کی بوندوں اور اس کی آنکھوں سے ٹپکتے آنسوؤں میں کوئی فرق نہیں تھا۔
تبصرہ و تجزیہ
ریحان کوثر:
ابھی چند ہفتے قبل ایک پیغام سوشل میڈیا پر خوب گشت کر رہا تھا اور وائرل ہوئے جا رہا تھا،
یہ جو مسجدیں ویران پڑی ہیں نا یہ کرونا کی وجہ سے نہیں، ہمارے اعمال کی وجہ سے ویران پڑی ہیں، جن کی وجہ سے اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے سامنے کھڑا ہونا پسند نہیں فرماتا۔ کمزور عقیدے کے مسلمانوں ابھی بھی وقت ہے توبہ کر لو اس سے پہلے کہ توبہ کا دروازہ بند ہو جائے۔ استغفراللہ ربی
کتنا اچھا پیغام ہے نا؟
بہت اچھا ہے جی!
چلو فارورڈ کر دو! ذمہ داری ختم!
ہم بڑے ادب اور احترام کے ساتھ ثواب کی نیت سے اس توبہ کے دروازے کو صرف ایک دوسرے کے ان باکس اور مختلف گروپوں میں کھولتے رہے۔۔۔! ایک دوسرے کو توبہ استغفار کا ٹینڈر جاری کرتے رہے۔۔۔ کیا ہوا؟ کیوں توبہ قبول نہیں ہوئی؟ توبہ ہم نے کی ہی نہیں! صرف آئینے کی طرح اس توبہ کے دروازے کو دکھاتے رہے۔ یہ دیکھو!
یہ دیکھو!
اور جو بے شمار گناہوں کے دروازے ہم نے کھول رکھے ہیں اس کا کیا؟ کیا بغیر گناہوں کے دروازے بند کیے توبہ قبول ہوگی؟ فرض کریں آپ نے ساری کھڑکیاں اور دروازے کھول کر دنیا کا بہترین قسم کا ایئر کنڈیشنر آن کیا؟ کیا کمرہ ٹھنڈا ہوگا؟ آپ قیامت تک ایسے ہی بیٹھے رہیں کمرہ کبھی ٹھنڈا نہیں ہوگا۔ ہاں یہ ممکن ہے کہ ایئر کنڈیشنر گرم ہو کر خراب ہو جائے۔
افسانہ دروازہ ختم بھی نہ ہوا اور کچھ میرے پیارے راج دلارے کھڑے ہو گئے اس بیوہ عورت کے دروازے پر بدچلن بے حیائی کا سرٹیفکیٹ لے کر۔۔۔!! یہ لیجیے آپ سرٹیفائیڈ ہیں! مبارکباد
ارے جناب اس افسانے میں بتایا گیا ہے کہ ہم گناہوں کے دروازے کس طرح لگواتے ہیں اپنی اپنی چوکھٹ پر، کس طرح کھولتے ہیں اور کس طرح بند کرتے ہیں۔۔۔!!
ساغر صدیقی صاحب کا یہ افسانہ ہے کوئی تار تو نہیں کہ ہاتھ آیا جھٹ سے پڑ لیے۔ ساغر صدیقی سنجیدہ قلم کار ہیں، آپ نے دنیا دیکھی ہیں۔ کچھ تو صبر کریں۔ ٹھیک ہے ساغر صدیقی نے میرے افسانے پر تبصرہ نہیں کیا۔ وہ تبصرہ بہت کم کرتے ہیں اور اگر کرتے بھی ہے تو اختصار سے کام لیتے ہیں۔ ادب میں ایک ہاتھ لے ایک ہاتھ دے والا معاملہ بے ادبی ہے اور یہ اخلاقاً ٹھیک بھی نہیں! ہم بدلے کی آگ میں جل کر تبصرہ نہیں کچھ اور کرتے ہیں۔۔۔! یہ بھی ایک گناہ کا دروازہ ہی ہے۔
یہ ایک اچھا افسانہ ہے۔ شیطان کے جھال میں انسان کس طرح پھنس جاتا ہے اور کیا کیا گناہ کرتا ہے اسے سیدھے سادے اسلوب میں بیان کیا گیا ہے۔ جب گناہ کا دروازہ کھلتا اور بند ہوتا ہے تو وہ یہ نہیں دیکھتا کہ یہ عورت ہے یا مرد! ٹیلر ماسٹر ہے یا اسکول کا ماسٹر؟ وہ شادی شدہ ہے یا کنوارا؟ وہ بیوہ ہے یا رنڈوا؟ وہ تو بس انسان ڈھونڈتا ہے جو اپنے نفس پر قابو نہیں رکھ سکتا۔۔۔ ابھی حال ہی میں ہم نے مرحوم احمد عثمانی کا افسانہ کشمکش پڑھا ہے۔ وہاں بھی پڑوسی اور پڑوسن والا معاملہ ہے۔ وہاں لیکن خیر کے کام ہوئے۔ وہاں مدد اور قربانیاں تھی کیوں کہ وہاں گناہ کا دروازہ نہیں تھا۔ یہاں وہ دروازہ موجود ہے اور کھلا ہوا ہے دیکھنے والے کو دروازہ دیکھائی دے گا سوچنے والے کو زناکار!ساغر صدیقی صاحب کو اس افسانے کی تخلیق کے لیے مبارکباد۔
٭٭٭
0 Comments