Ticker

6/recent/ticker-posts

چونیّ (رضوان الحق)

چونیّ
رضوان الحق

تعارف:
رضوان الحق کا بنیادی تعلق سیتا پور اتر پردیش سے ہے لیکن فی الحال آپ این سی ای آر ٹی، بھوپال میں درس و تدریس کے پیشے سے منسلک ہیں۔ موصوف اردو کے ایک سنجیدہ افسانہ نگار ہیں۔ اگرچہ رضوان الحق نے اس صنف میں بہت کم لکھا تاہم جتنا لکھا سب معیاری نوعیت کا ہے۔ افسانوں کے علاوہ ترجمہ نگاری،تحقیق و تنقید، ڈراما اور بچوں کے ادب پر بھی آپ نے طبع آزمائی کی۔ آپ کی تحریریں اور تخلیقات اردو کے موقر رسائل و جرائد شایع ہوچکی ہیں، جن میں شب خون، ذہن جدید، آج کل، اردو دنیا، ادب و ثقافت، نیا دور، امروز اور دنیا زاد (پاکستان ) قابل ذکر ہے۔ آپ کی کہانیاں آل انڈیا ریڈیو اور ٹی وی کے مختلف چینلوں سے بھی نشر ہوئیں، نیز انھی زرائع سے آپ نے کئی ادبی پروگراموں میں شرکت کی، علاوہ ازیں کئی شارٹ فلموں کی اسکرپٹس بھی لکھیں۔ آپ اپنے تقریباً سبھی افسانے اور چند ایک مضامین بہ ذات خود ہندی زبان میں ترجمہ کر چکے ہیں۔ ساتھ ہی انگریزی، ہندی اور اردو میں متنوع تخلیقات اور مضامین کی معکوس ترجمہ نگاری بھی کی۔ اس حوالے سے شمس الرحمن فاروقی کے مشہور ناول 'قبض زماں' کا ہندی ترجمہ اہم ہے۔ متعدد ثقافتی تنظیموں کی جانب سے آپ کے چند افسانوں کو ڈراماٹائیز کیا گیا۔ آپ ایم پی کی کئی درسی کتابوں کے گروپ مصنف ہیں۔ جامعیہ ملیہ اسلامیہ اور مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کی درسی کتابوں میں موصوف کے کئی مضامین شامل ہیں۔ رضوان الحق کی تین کتابیں منظر عام پر آ چکی ہیں جن میں ایک افسانوی مجموعہ 'بازار میں طالب' ہے۔ بقیہ دو کتابوں میں ایک 'اردو فکشن اور سنیما' (تحقیق) اور دوسری 'ایک پھول دو مالی' جو بچوں کے لیے لکھی گئیں کہانیوں کی کتاب ہے۔
انعام و اعزاز :
آپ کے ایک افسانے 'کچھ سامان' کو کتھا کی جانب سے کتھا سمان ایوارڈ تفویض کیا گیا
بہترین نوجوان مصنف ایوارڈ (انڈین ایکسپریس )
جشن ادب دہلی کی جانب سے فکشن میں نمایاں خدمات پر انعام
پیش کیا جانے والا افسانہ ”چونی“ ان کے افسانوی مجموعے 'بازار میں طالب' سے اخذ کیا گیا ہے۔
طاہر انجم صدیقی
٭٭٭

دوپہر میں سوتے سوتے اچانک طالب صاحب کی آنکھ کھلی تو ان پر دیر تک اسی خواب کا تصرف رہا جو انھوں نے سوتے میں دیکھا تھا۔ اس خواب میں ان کے ماضی کے کئ حسین در وا ہو گئے تھے۔ جب اس خواب کا تصرف کچھ کم ہوا تو وہ اپنی پرانی چیزوں میں کچھ تلاش کرنے لگے۔ آج برسوں بعد انھوں نے الماری کے اس خانے کو کھولا تھا۔ اس میں ان کی کئ یادگار چیزیں، مثلاً تعلیمی اسناد، دوستوں کے دیے ہوئے کچھ تحفے، داغ فرقت دے چکی بیوی کی کچھ تصویریں اور ایک معشوق کے چند خطوط وغیرہ تھے۔ بڑی دیر تک وہ انہیں چیزوں کو دیکھتے رہے۔ اچانک انھیں الماری میں چار آنے کا ایک سکّہ پڑا مل گیا۔ انھوں نے سوچا ان پرانی اور دنیا کے لیے بے کار ہو چکی چیزوں میں یہ سکّہ رائج الوقت کہاں سے آ گیا؟ اور انھوں نے اسے اٹھا کر اپنی جیب میں رکھ لیا۔ اس کے بعد ایک بار پھر وہ پورے انہماک سے انہیں اسباب میں محو ہو گئے۔ کچھ دیر بعد ان کے پوتے لطیف نے آ کر کہا۔
”دادا جی! مجھے پیسے دے دیجئے، چاکلیٹ لوں گا۔“
انھوں نے دو روپے نکل کر اسے دیے اور وہ روپئے لے کر جانے لگا کہ اچانک انھیں چار آنے کا وہ سکّہ بھی یاد آ یا اور اسے نکال کر وہ بولے۔
”بیٹے لطیف،لو یہ بھی رکھ لو۔“
لطیف نے پہلے تو ہاتھ بڑھا کر سکّہ لے لیا لیکن جب اس نے دیکھا وہ سکّہ چار آنے کا ہے، تو اسے واپس کرتے ہوئے بولا۔
”دادا جی، اس کا کیا کروں؟ اب چار آنے کا کچھ نہیں ملتا، اسے تو آپ ہی رکھ لیجئے۔“
یہ کہہ کر وہ سکّہ اپنے دادا کے ہاتھ میں دے کر باہر چلا گیا۔ طالب صاحب
حیران کھڑے کبھی چونی اور کبھی اپنے پوتے کو دیکھتے رہ گئے۔ پھر انھوں نے سکّے کو اپنی جیب میں واپس رکھ لیا۔
طالب صاحب چار آنے کی معنویت کے بارے میں سوچنے لگے۔ انھیں محسوس ہوا لطیف نے جس طرح چونی لینے سے انکار کیا ہے، یہ بدتمیزی ہے۔ نہیں تو چار آنے ابھی اتنے بے وقعت نہیں ہوئے ہیں۔ کچھ دیر تک وہ چار آنے کے بارے میں سوچتے رہے۔ انھیں محسوس ہوا یہ چار آنے اپنے پاس رکھنا ٹھیک نہیں ہے اور وہ اسے خرچ کرنے کی غرض سے گھر سے باہر نکل پڑے۔
باہر نکل کر انھوں نے سب سے پہلے پھل خریدے جو دس روپے کے ہوئے۔ جیب سے پیسے نکالے تو چار آنے کا وہ سکّہ بھی نکل آیا جسے بڑ ی بے دلی سے انھوں نے جیب میں واپس رکھا۔ اس کے بعد ایک چھوٹے سے ہوٹل میں جا کر چائے پی، جس کے تین روپے ہوئے۔ وہاں بھی بات نہیں بنی، تھوڑی دور چلنے پر ایک پان کی دکان نظر آئی۔ انھوں نے سوچا چلو پان کھاتا ہوں، ممکن ہے اب پان ایک روپیہ پچیس پیسہ کا ہو گیا ہو تو چونی دے دوں گا۔ پان کھانے کے بعد جب انھوں نے قیمت پوچھی تو اس نے دو روپے بتائی۔ طالب صاحب نے پیسے نکالے تو چار آنے کا وہ سکّہ پھر نکل آیا اور انھوں نے جھنجلا کر اسے جیب میں پھر واپس رکھ لیا۔ پان کھانے کے بعد انھیں یاد آیا کہ ایک سگریٹ ایک روپیہ پچیس پیسے کی ملتی ہے۔ اس لیے دکان دار سے سگریٹ دینے کو کہا اور ایک روپیہ پچیس پیسے نکال کر اسے دینے لگے تو دکان دار نے کہا۔
”دو روپیے ہوئے صاحب۔“
”یہ سنتے ہی انھیں لگا جیسے چونی کا وہ سکّہ بچھو بن کر ڈسنے جا رہا ہو۔ انھوں نے اسے ہاتھ سے جھٹک دیا اور دو روپیے دکان دار کو دے دیے۔ اس کے بعد کچھ سوچ کر چار آنے کے اس سکے کو پھر تلاش کر کے جیب میں رکھ لیا اور گھر واپس آ گئے۔ اگلے کئی روز تک وہ چونی خرچ کرنے کے ارادے سے گھر سے نکلتے لیکن ناکام ہو کر لوٹ آتے۔ چار آنے کا وہ سکّہ انھیں ہر وقت بے چین کیے رہتا اور گھر میں بیٹھنے نہ دیتا۔ انھیں کچھ ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے چار آنے کے اس سکّے پر آسیب سا آ گیا ہو۔ اس لیے وہ سوچ رہے تھے اسے جلد سے جلد خرچ کر ڈالنے میں ہی عافیت ہے۔ وہ گھر سے نہ جانے کیا کیا منصوبے بنا کر نکلتے، کہ اس مد میں خرچ کر دونگا اور اگر اس میں نہ بھی خرچ ہو سکے تو اس مد میں ضرور ہی خرچ ہو جائیں گے لیکن وہ چار آنے خرچ نہ ہو سکے، اس چونی کو خرچ کرنے کی کوشش میں انھوں نے نہ جانے کتنے روپیے خرچ کر دیے۔
ایک دن وہ بہت اداس بیٹھے چار آنے کے بارے میں سوچ رہے تھے کہ اچانک انھیں خیال آیا، میں پچھلے کئی دنوں سے اتنا پریشان ہوں لیکن میرے بیٹے یا بہو نے میری خیریت تک نہیں پوچھی اور اب تو لطیف بھی مجھ میں کوئی دلچسپی نہیں لیتا۔ اب بیٹا تجارت کے سلسلے میں بھی مجھ سے کبھی مشوره نہیں لیتا۔ سب کچھ اپنی مرضی سے کرتا ہے۔ کیا اب اس کے دل میں میری اہمیت نہیں رہی؟ کیا میں بے معنی ہو چکا ہوں اور شاید ان پر بوجھ بھی۔ یہ سوچ سوچ کر ان کا دل گھبرانے لگا۔ جب ان کی پریشانی زیادہ بڑھنے لگی تو انھوں نے اس طرف سے اپنا دھیان ہٹانے کے لیے لطیف کو پکارا۔
”بیٹا لطیف!“
لطیف باہر سے دوڑتا ہوا اندر آیا۔
”جی،دادا جی۔“
”کیا کر رہے تھے؟“
”باہر کھیل رہا تھا۔“
”چلو میں بھی تمھارے ساتھ کھیلتا ہوں۔“
”ہا ہا۔۔۔ ہا ہا۔۔۔۔ ہی ہی۔“
لطیف نے بہت تیز قہقہہ لگایا۔ طالب صاحب حیران و پریشان ہو گئے کہ اس میں اتنی تیز ہنسنے کی کیا بات ہے؟ آخر کار ان سے رہا نہ گیا اور انھوں نے پوچھا۔
”کیا ہوا؟اتنی زور سے ہنس کیوں رہے ہو؟“
”آپ میرے ساتھ کیسے کھل سکتے ہیں؟ میں اتنی تیز دوڑتا ہوں اور آپ اتنی دھیرے دھیرے چلتے ہیں۔“
یہ کہہ کر لطیف تیزی سے دوڑتا ہوا چلا گیا۔
”معاف کرنا بیٹا! مجھے یاد نہیں رہا کہ اب میں تمھارے ساتھ کھیلنے کے لایق نہیں رہا۔ اچھا جاؤ، تم اپنے دوستوں کے ساتھ کھیلو۔“
لیکن لطیف ان کے کچھ کہنے سے پہلے ہی وہاں سے جا چکا تھا۔ اس واقعے کے بعد وہ اور بھی بے چین رہنے لگے۔
رات میں انھیں خیال آیا کے بہت دنوں سے بیٹی سے کوئی رابطہ نہیں ہوا ہے۔ شاید اس سے بات کرنے میں کچھ راحت ملے، اور وہ باہر پی سی او پر اپنی بیٹی سے بات کرنے چلے گئے۔ انھوں نے راستے میں سوچا کچھ دن کے لیے اسے گھر بلا لیتا ہوں، طبیعت بہل جائے گی۔ فون پر ان کی بیٹی نے اپنے بچوں کی پڑھائی کی وجہ سے گھر نہ آ سکنے کی مجبوری بتائی۔ فون کرنے کے بعد جب انھوں نے بل دیکھا تو تیس روپیے چوبیس پیسے ہوئے تھے۔ انھوں نے تیس روپیے نکالے اور جلدی سے وہ چونی بھی دینے لگے تو پی سی او والے نے کہا۔
”اسے رہنے دیجیے۔ اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔“
”رہنے کیوں دیں؟جب پورے پیسے ہیں تو کیوں نہ دوں؟“
”اب فالتو چیزوں کو جن کی کوئی اہمیت نہ ہو اسے اپنے پاس رکھ کر کوئی اپنا بوجھ کیوں بڑھائے۔ اب اسے کون پوچھتا ہے؟“
”تم نے مجھے سمجھ کیا رکھا ہے؟ میرے بچے ہیں، بہو ہے، پوتا ہے، نواسے ہیں۔ میرا اپنا گھر ہے، تجارت ہے۔ میں کسی پر بوجھ نہیں ہوں۔ میں نے زندگی میں بہت کمایا ہے۔ اور اب اپنی تجارت اپنے بیٹے کو سونپ دی ہے تو اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ میں فالتو چیز ہو گیا ہوں۔“
”آپ بھی بات کا بتنگڑ بنا رہے ہیں۔ میں نے فالتو چیز آپ کو نہیں چونی کو کہا تھا۔“
اور اس طرح طالب صاحب پھر واپس چل دیے اور وہ چونی انہیں کے پاس رہ گئی۔ راستے میں وہ بڑبڑاتے رہے۔
”ہوونہہ چونی کو کہا ہے۔ جیسے میں کچھ سمجھتا ہی نہیں، جھوٹے کہیں کے۔ میرا کیا ہے؟ کچھ دن کی زندگی اور ہے۔ کسی نہ کسی طرح گذر ہی جائے گی۔ اللہ نے چاہا تو مجھ سے بھی بر ا حشر ہوگا ان حرامزادوں کا۔“
رات میں انھیں دیر تک نیند نہ آ سکی۔ کروٹیں بدلتے رہے اور سوچتے رہے، اپنے ماضی کے بارے میں، ابتدائے جوانی کے بارے میں۔ جب گاؤں میں ان کی زمین داری چلتی تھی۔ زمین داری ختم ہونے پر انھوں نے شہر میں آ کر اپنا کاروبار شروع کیا تھا۔
”صاحب یو کھیت جوت ڈالی تو چونی کا کام ہوئی جئی۔“
”ابے لکھو جانتا ہے چونی میں ایک بار کے کھانے کا ایک ہفتے کا غلہ ملتا ہے، اور تو بس ایک دن میں چونی کا کام کر لینا چاہتا ہے؟ تو اپنا کام کر اور یہ حساب کتاب مجھ پر چھوڑ۔ جب چار آنے پورے ہو جائیں گے تو دے دونگا۔“
پاس والے قصبے کی خانم بائی کی کیا دھومیں تھیں، اس کے مجرے کی دور دور تک شہرت تھی۔ اسکول سے جب میں پہلی دفعہ مجرا سننے گیا تھا تو چار آنے ہی دیے تھے۔
وہ بھی کیا زمانہ تھا۔ کیا شان تھی میری بھی اور چونی کی بھی۔ جدھر سے گذرتا تھا، لوگ جھک جھک کر سلام کرتے تھے لیکن اب نہ کوئی مجھے پوچھتا ہے اور نہ چونی کو۔ یا الله تو کیوں مجھے ایسی ذلّت بھری زندگی جینے پر مجبور کر رہا ہے۔ اس سے تو اچھا تھا مجھے موت ہی آ جاتی۔ یہ زندگی بھی کوئی زندگی ہے؟ اور سرکار کو کیا ہو گیا ہے۔ جب چار آنے کی کوئی چیز ملتی ہی نہیں تو اسے جاری کیوں رکھا ہے؟ بند کیوں نہیں کر دیتی؟ وہ ضرور مجھے چڑانے کے لیے ہی اب چونی چلا رہی ہے۔
چونی کی صحیح صورت حال کیا ہے؟ یہ جاننے کے لیے وہ ایک دن ریزرو بنک پہنچ گئے اور وہاں ایک بڑے بابو سے ملے۔
”اب چونی چلتی ہے یا نہیں؟“
”کبھی آسمان کی طرف غور سے دیکھا ہے؟“
”ہاں دیکھا ہے۔“
”کیسا دکھتا ہے؟“
”نیلا، زمین کو چاروں طرف سے ڈھکے ہوئے۔“
”شاید آپ کو معلوم نہیں۔ آسمان جیسی کسی چیز کا کوئی وجود نہیں ہوتا، اور نہ اس کا کوئی رنگ ہوتا ہے۔ صرف ایک خلا ہوتا ہے۔“
”وہ تو مجھے معلوم ہے۔“
”اسی طرح بہت سی چیزیں محسوس ہوتی ہیں، دکھائی بھی دیتی ہیں، لیکن ہوتی نہیں ہیں۔“
”جیسے؟“
”کبھی آئینے میں اپنا چہرہ دیکھا ہے؟“
”کیا مطلب؟ آپ کہنا کیا چاہتے ہیں؟“
”بات بہت صاف ہے۔ آئینہ دیکھنے والے کو لگتا ہے کہ وہ اس آئینے میں موجود ہے لیکن در حقیقت آئینے میں وہ ہوتا نہیں ہے۔ اس لیے آنکھوں دیکھی پر کبھی اعتبار نہ کریں، سمجھ گئے؟“
طالب صاحب نے جب کوئی جواب نہیں دیا تو اس نے پھر پوچھا۔
”کبھی ریل گاڑی سے سفر کیا ہے؟“
”ہاں کیا ہے۔“
”کھڑکی سے باہر پیڑوں کو تیز رفتار سے بھاگتے ہوئے دیکھا ہے؟“
”ہاں دیکھا ہے۔“
”وہ بھی بھاگتے نہیں ہیں۔ساکت کھڑے ہوتے ہیں۔ سمجھ گئے یا اور سمجھاؤں؟ گرمیوں میں کسی صحرا میں گئے ہیں؟“
”بس۔۔۔ بس با با بس، سمجھ گیا۔“
”پھر آپ تشریف لے جا سکتے ہیں، میں آپ کی طرح بے کار نہیں ہوں، میرے پاس بہت کام ہیں۔“
مجبور اور خفیف ہو کر طالب صاحب وہاں سے واپس چلے آے۔ وہ ایک سیدھا سادہ سوال لے کر وہاں گئے تھے۔ لیکن اس بابو نے اس کا جواب دینے کے بجائے ایسا سمجھا یا کہ وہ کئی اور سوالوں میں مبتلا ہو گئے۔اس سب کا انجام یہ ہوا کہ وہ ہر چیز کو مشکوک نظروں سے دیکھنے لگے۔ وہ کچھ بھی دیکھتے تو سوچتے، پتہ نہیں یہ چیز حقیقت میں ہے بھی یا صرف اس کے وجود کا وہم ہے؟ کہتے ہیں کہ یہ زمین گھوم رہی ہے۔ اس لیے اس پر موجود ہر شے بھی گھوم رہی ہوگی۔ پھر یہ زمین اور ساری اشیا ٹھہری ہوئ کیوں ہیں؟ معلوم نہیں یہ گھر، یہ کمرہ، یہ ساز و سامان، ان سب کی حقیقت کیا ہے؟خود میں بھی ہوں یا نہیں ہوں؟کہیں میں بھی تو بھاگتے ہوئے پیڑوں کی طرح اور نیلے آسمان کی طرح تو نہیں ہوں؟ اب اس کا فیصلہ کیسے ہو؟میں خود اس کا فیصلہ کر نہیں سکتا اور دوسروں کا ویسے بھی کیااعتبار؟ اگر دوسرے لوگ قابل اعتبارہوں بھی تو اس بات کا کیا اعتبارکہ ان کی آنکھیں دھوکا نہیں کھا رہی ہیں؟اس بابو نے کہا تھا آنکھوں دیکھی پر اعتبارنہ کرنا۔ بات تو ٹھیک کہہ رہا تھا لیکن کس کا اعتبارکروں؟
وہ انھیں خیالوں میں گم تھے کہ اندر سے بہو کی آواز آئی۔
”پا پا کھانا لگا دوں؟“
لیکن انھوں نے اس کی آواز پر کوئی دھیان نہیں دیا۔ کوئی جواب نہ پا کر وہ ان کے کمرے میں آ گئی۔ انھیں سر پکڑ کر بیٹھے دیکھ کر بولی۔
”کیا ہوا پاپا؟ کیا سر میں درد ہے؟ تیل لگا دوں؟“
”تم۔۔۔؟ کون ہو تم؟ کیا چاہتی ہو؟“
”پاپا میں ہوں، ادھر دیکھیے، مجھے نہیں پہچانا؟ میں آپ کی بہو ہوں۔ بھوک نہیں لگی؟ کھانا لگا دوں؟“
”وہ تو میں دیکھ رہا ہوں۔ لیکن آنکھوں دیکھی پر مجھے یقین نہیں۔“
”پاپا یہ کیا کہہ رہے ہیں آپ؟ اگر اپنی آنکھوں دیکھی پر یقین نہیں تو پھر کس پر یقین ہے؟“
”مجھے کسی پر یقین نہیں۔ یہ سب فریب ہے، مایا ہے۔ لیکن یہ یاد رکھنا میں ابھی زندہ ہوں۔ رکو، میں ابھی تمھیں اپنے ہونے کا ثبوت دیے دیتا ہوں۔“
یہ کہہ کر وہ کمرے کا سامان اٹھا کر پھینکنے لگے، پانی سے بھرا گلاس پھینک دیا۔ اپنے کپڑے پھاڑ ڈالے، شیشے کی کچھ کرچیاں ان کے پیروں سے ٹکرائیں جس سے ان کے پیر سے خون بہنے لگا۔ اس کے بعد بولے۔
”دیکھو اگر میں یہاں موجود نہ ہوتا تو یہ سب کیسے کرتا؟“
بہو نے گھبرا کر اپنے شوہر کو فون کر دیا۔ تھوڑی دیر میں طالب صاحب کا بیٹا آ گیا۔ اس نے انھیں ہسپتال لے جاکر بھرتی کرا دیا۔ وہاں ان کی پوری جانچ ہوئ، کوئی خاص بیماری نہیں نکلی، ڈاکٹر نے بتایا ان کی صحیح دیکھ بھال کی ضرورت ہے۔ صحیح وقت پر کھانا اور سونا ہونا چاہیے۔ جہاں تک ممکن ہو ان کو تنہا مت چھوڑئیے، کچھ دوائیں بھی لکھ دیں، شام کو وہ گھر واپس آ گئے۔
ڈاکٹر نے نیند کی گولیاں بھی دے دی تھیں، اس لیے وہ شام کو ہی سو گئی اور رات بھر سوتے رہے۔ صبح جب نیند سے جاگیتو سوتے سوتے اتنا تھک چکے تھے کہ کچھ دیر جاگنے کے بعد بھی ان کے پورے جسم میں کہیں کوئی جنبش نہ ہو سکی۔ رات بھر وہ عجیب سے خواب دیکھتے رہے تھے۔ اس لیے دماغ بھی صحیح سے کام نہیں کر رہا تھا۔ انھیں نہ وقت کا صحیح احساس تھا نہ مقام کا۔ وہ آنکھیں بند کیے نیم خوابی کی کیفیت میں مبتلا رہے۔ اتنے میں انھیں اپنے پیر پر کچھ رینگتا ہوا محسوس ہوا۔ جب غور کیا تو محسوس ہوا کہ چیونٹیاں رینگ رہی ہیں۔ وہ پیر کے اس حصّے کی طرف جا رہی تھیں جہاں انھیں چوٹ لگی تھی۔ ان کے ذہن میں اچانک سوال ابھرا، کہیں میں مر تو نہیں گیا ہوں؟ جو چیونٹیاں اپنا حصّہ لینے آ گئی ہوں؟ ورنہ چیونٹیاں زندوں کو تو ایسے نہیں چاٹتی ہیں۔۔۔ میں اس وقت پتہ نہیں کہاں ہوں؟ قبر میں ہوں یا ایسے ہی کہیں پڑا سڑرہا ہوں؟ لیکن میں سوچ کیسے رہا ہوں؟ تو کیا ابھی روح جسم میں باقی ہے؟یا میں خدا کے سامنے پیش کیا جا چکا ہوں اور جنت یا جہنم میں ہوں؟ وہ ابھی اسی فکر میں
تھے کہ ان کی بہو نے آ کر کہا۔
”پاپا چائے لائی ہوں۔“
”کون ہو تم؟ میں جنت میں ہوں یا جہنم میں؟“
یہ سنتے ہی بہو گھبرا گئی، اس کے ہاتھ سے چائے کی پیالی چھٹ گئی اور تھوڑی سی چائے طالب صاحب کے اوپر بھی گر گئی۔ گرم گرم چائے گرتے ہی ان کی نیم خوابی کی کیفیت ٹوٹ گئی اور وہ ایک دم سے گھبرا کر اٹھ بیٹھے۔ جب تھوڑی دیر میں ان کی طبیعت معمول پر آئی تو بڑی ندامت کے ساتھ بولے۔
”ارے بیٹی تم ہو، معاف کرنا میں ایک خوف ناک خواب میں مبتلا تھا۔ کیا بات ہے بہو؟ آج بہت جلدی چائے لے کر آ گئیں؟“
”جلدی کہاں وقت سے ہی تو آئی ہوں، وہ چائے تو گر گئی میں دوسری چائے لے کر آتی ہوں۔“
بہو کے جاتے ہی وہ ایک بار پھر اسی خواب کے بارے میں سوچنے لگے اور پھر ان پر ایک اضطرابی کیفیت طاری ہونے لگی۔ تھوڑی دیر میں بہو چائے لے کر آ گئی۔
”یہ لیجیے پاپا اور دوا بھی لائی ہوں۔ کھا لیجیے، جلدی ٹھیک ہو جائیں گے۔“
”میں نہیں مانتا۔ تم کیسے ثابت کر سکتی ہو کہ یہ دوا ہی ہے۔ میں تم لوگوں کو خوب سمجھتا ہوں! یہ مت سمجھنا کہ میں کسی کام کے لایق نہیں رہا۔ میں ابھی سب کچھ کر سکتا ہوں۔ یہ گھر میرا ہے۔ تجارت میری ہے۔ یاد رکھنا، سچائی وہی نہیں ہوتی جو دکھائی دیتی ہے۔“
اتنے میں ان کا بیٹا بھی آ گیا۔ اسے دیکھتے ہی وہ گرج پڑے۔
”تم نے مجھے سمجھ کیا رکھا ہے؟ آئینے کا عکس، آب سراب، یا نیلا آسمان، میں حقیقت ہوں۔۔۔ حقیقت۔ میں کچھ بھی کر سکتا ہوں۔ یہ گھر میرا ہے، میں تمھیں اپنے گھر سے نکال دوں گا۔ تم سب نے مجھے مردہ سمجھ لیا ہے۔ میری بیٹی نے تو مجھے شادی ہوتے ہی بھلا دیا۔ اس نے کب سے میری خیریت تک معلوم نہیں کی، جیسے میں مر چکا ہوں۔“
یہ کہہ کر وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے۔ تھوڑی دیر تک رو لینے کے بعد ان کے دل کا غبار کم ہو گیا تو ان کی طبیعت کچھ ٹھیک ہوئ۔ کچھ دیر بعد ان کی بیٹی بھی آ گئی، جس سے دل اور بھی ہلکا ہو گیا۔ دوپہر میں طالب صاحب نے اپنی بہو کو پکارا۔
”بہو۔۔۔ ذرا یہاں آنا۔“
”جی!پاپا جی۔“
”میں کل جب بیمار ہوا تھا۔۔۔ میری جیب میں چار آنے کا ایک سکّہ تھا۔ وہ کہاں ہے؟“
”ہاں ہاں۔۔۔ میرے پاس ہے، کیا پیسوں کی ضرورت ہے پاپا؟ کتنے پیسے چاہیے؟“
”نہیں۔۔۔ مجھے بس وہی چونی چاہیے۔ تم کون بڑی آیئں مجھے پیسے دینے والی۔“
”وہ تو میں نے کہیں رکھ دی، ڈھوڈنی پڑے گی۔ چونی ہی تو تھی اس لیے میں نے ز یادہ توجہ نہیں دی۔“
”تو ڈھونڈو مجھے وہ سکّہ ابھی چاہیے، جاؤ ڈھونڈ کر لاؤ۔“
شام کو وہ بیٹھے ہوئے تھے کہ ان کی بہو نے آ کر کہا۔
”پا پا آپ کے لیے چائے لائی ہوں اور آپ کی وہ چونی بھی مل گئی۔“
”کہاں ہے؟ لاؤ دیکھوں۔ جلدی لاؤ، بہت اچھا ہوا۔ ٹھیک ہے اب تم جاؤ۔“
بہو کے جاتے ہی وہ بے تحاشا سکے کو چوم نے لگے اور اس سے بولے۔
”کہاں کھو گئے تھے میرے دوست؟ ایک تم ہی تو ہو جو میرا درد سمجھتے ہو۔اگر تم بھی چلے گئے تو میں کیسے زندہ رہوں گا؟“
رات میں وہ ٹھیک سے سو نہ سکے، صبح وہ عام طور پر بستر پر دیر تک پڑے رہتے تھے، اخبار بہت صبح آ جاتا تھا، وہ اسے اٹھانے کبھی نہ جاتے تھے لیکن اس صبح وہ اخبار والے کی راہ تکتے رہی۔ جیسے ہی اخبار آیا، انھوں نے لپک کر اسے اٹھا لیا۔ صفحہ ا ول پر چو کھٹے میں ایک مختصر لیکن نمایاں خبر تھی۔
”حکومت نے چونی بند کرنے کا فیصلہ کر لیا۔“
٭٭٭

تبصرہ و تجزیہ
ریحان کوثر:
پتہ نہیں افسانے پر تبصروں میں کسی سیاسی بیان کا حوالہ دیا جا سکتا ہے یا نہیں لیکن افسانے کی قرآت کے دوران مجھے ایک بیان یاد آ گیا۔ نوٹ بندی کے کچھ دنوں بعد ہمارے پردھان سیوک شری نریندر مودی جی نے مخالفین بطور خاص کانگریس پارٹی پر طنز آمیز بیان دیا تھا کہ
”میں حیران ہوں جی! کانگریس کے کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ مودی نے 500، 1000 کے نوٹ بند کردیئے۔ جب آپ نے(کانگریس نے) چونّی بند کردی تھی تو میں نے کچھ پوچھا تھا؟ آپ نے چونّی بند کی تب اس ملک میں کوئی نہیں چلّایا۔
ٹھیک ہے۔۔۔ آپ کی طاقت اتنی ہی تھی۔ آپ کے پاس بڑے نوٹ بند کرنے کی طاقت نہیں تھی، لہذا آپ نے چونّی بند کر کے گاڑی چلالی تھی۔“
کس کی کیا اوقات ہے اس بات کو کہنے کے لیے چونّی کا استعمال ہوتا رہا ہے اور غالباً سن دو ہزار دس یا گیارہ میں چونّی بند کی گئی تھی اور اسی کے آس پاس اس افسانے کو تحریر کیا گیا ہوگا۔ اختتام پر اس خبر کا ذکر بھی ہے۔ سلام بن رزاق صاحب نے کچھ روز قبل یہ کہا تھا کہ
”خبر کتنی ہی چھوٹی کیوں نہ ہو مگر افسانہ نگار کا وژن بڑا ہونا چاہیے۔“
یہ افسانہ اس بات کی بھرپور ترجمانی کر رہا ہے۔
رضوان الحق صاحب نوجوان، باشعور اور سنجیدہ قلم کار ہیں۔ بھوپال میں پانچ روزہ ٹریفک کے دوران این۔ سی۔ آر۔ ٹی۔ کیمپس میں ان سے ملاقات ہوئی بلکہ اس ٹرینگ کے آرگنائزر رضوان صاحب ہی تھے لیکن مجھے نہیں معلوم تھا کہ آپ افسانے بھی لکھتے ہیں اور ایک مجموعہ'بازار میں طالب' بھی شائع ہوا ہے۔اگر بات کا علم مجھے پہلے سے رہتا تو اس دوران افسانہ اور افسانہ نگاری پر ان سے گفتگو ضرور کرتا۔ ان مقالے اردو دنیا جیسے مؤقر رسائل میں پڑھتا آیا ہوں۔ اسی طرح آپ کے تبصرے اور تجزیے بھی نظر سے گزرے جو پرمغز اور جامع ہوا کرتے ہیں۔ آپ کی افسانوی بصیرت اور فہم کا میں شاہد ہوں۔ رضوان صاحب کا پہلا افسانہ پڑھا۔ افسانہ بہت پسند آیا۔
بزم میں پیش کئے گئے افسانوں میں اقبال نیازی صاحب کا افسانہ ’’تنہائی‘‘، شاہد اختر صاحب کا افسانہ ’’کتے ‘‘، طارق چھتاری صاحب کا ’’نیم پلیٹ‘‘، معین الدین عثمانی صاحب کا ’’ہائے رے یہ مجبوریاں‘‘، ڈاکٹر یحییٰ جمیل صاحب کا افسانہ ’’بون سائی‘‘ اور خاکسار کا افسانہ ’’رام لیلا میدان‘‘ بھی اسی طرح کے موضوع پر لکھا گیا تھا۔ ان تمام افسانوں کے مرکزی کردار عالمِ ضعیفی میں نفسیاتی کیفیت سے دو چار نظر آتے ہیں۔ اس طرح کے افسانے میں کوئی ہیرو اور ویلن نہیں ہوتا۔ افسانے کا سارا دارومدار نفسیات اور جذبات پر ٹکا ہوتا ہے۔ افسانہ نگاری میں فکشن اور نفسیات کی آمیزش ایک مشکل کام ہے۔ مرکزی کردار طالب صاحب کی کردار نگاری کا بغور مطالعہ کریں تو صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اس مشکل کام کو رضوان الحق صاحب نے بخوبی انجام دیا ہے۔ یہ بات افسانہ دو مرتبہ پڑھنے اور تمام تبصروں کو دیکھنے کے بعد کہتے ہوئے مجھے کوئی جھجھک محسوس نہیں ہو رہی ہے۔ ہم ’’بٹون دا لائن‘‘ اس اصطلاح کو من مرضی استعمال نہیں کر سکتے۔ اس افسانے کے تعلق سے ایسا ہی ہو رہا ہے۔
نریندر دامودر داس مودی جی اسی ملک کے وزیراعظم ہے جہاں ٹی وی کے مشہور کامیڈی شوز میں عمر دراز کرداروں کو اکثر ’’کومک کیریکٹر‘‘ کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ ان کے بھولنے کی عادت، بار بار باتیں دہرانے کی عادت، ان کے کم سننے کی صلاحیت اور ان کے پوپلے منہ سے کی گئی باتوں کو بطور مذاق اور ہنسنے ہنسانے کے لیے پیش کیا جاتا ہے۔ کیا ہمارے معاشرے میں اس طرح کے لوگوں کے ساتھ ایسا سلوک نہیں کیا جاتا؟ دراصل یہ میڈی شو ہمارے معاشرے کی ترجمان ہوتے ہیں۔ اسی معاشرے میں ایک پوتا دادا کو یہ احساس دلاتا ہے کہ
”آپ میرے ساتھ کیسے کھل سکتے ہیں؟ میں اتنی تیز دوڑتا ہوں اور آپ اتنی دھیرے دھیرے چلتے ہیں۔“
پی سی اور والا کہتا ہے،
”اب فالتو چیزوں کو جن کی کوئی اہمیت نہ ہو اسے اپنے پاس رکھ کر کوئی اپنا بوجھ کیوں بڑھائے۔ اب اسے کون پوچھتا ہے؟“
ریزرو بینک کا بابو کہتا ہے،
”پھر آپ تشریف لے جا سکتے ہیں، میں آپ کی طرح بے کار نہیں ہوں، میرے پاس بہت کام ہیں-“
انجانے میں ہی، لیکن یہ تینوں انھیں دھیرے چلنے والا، بیکار، بوجھ اور فالتو کہہ دیتے ہیں یا وہ ان باتوں کو خود سے جوڑ دیتا ہے۔
مجھے افسانے میں مرکزی کردار نفسیاتی مریض نظر آ رہا ہے اور افسانہ نگار نے یہ کہیں بھی اس بات کو چھپانے کی کوشش نہیں کی ہے۔ سوال یہ ہے کہ
کیا نفسیاتی مریض پر افسانہ نہیں لکھا جانا چاہئے؟
کیا کوئی اصول ہے کہ فکشن میں نفسیات اور نفسیاتی مریض کو جگہ نہیں دی جانی چاہیے۔
اگر فکشن میں اس طرح کے کردار پیش کیے جائیں تو اس کے اصول و ضوابط کیا ہیں؟
مجھے تو نہیں معلوم!
٭٭٭

Post a Comment

0 Comments