پوس کی رات
پریم چند
ہلکو نے آ کراپنی بیوی سے کہا۔ ’’شہنا آیا ہے لاؤ جو روپے رکھے ہیں اسے دیدو کسی طرح گردن تو چھوٹے۔‘‘
منی بہو جھاڑو لگا رہی تھی۔ پیچھے پھر کر بولی۔ ’’تین ہی تو روپے ہیں دیدوں، تو کمبل کہاں سے آئے گا۔ ماگھ پوس کی رات کھیت میں کیسے کٹے گی۔ اس سے کہہ دو فصل پر روپے دیں گے۔ ابھی نہیں ہے۔‘‘
ہلکو تھوڑی دیر تک چپ کھڑا رہا۔ اور اپنے دل میں سوچتا رہا پوس سر پر آگیا ہے۔ بغیر کمبل کے کھیت میں رات کو وہ کسی طرح سو نہیں سکتا۔ مگر شہنا مانے گا نہیں،گھڑکیاں دے گا۔ یہ سوچتا ہوا وہ اپنا بھاری جسم لیے ہوئے (جو اس کےنام کو غلط ثابت کر رہا تھا) اپنی بیوی کے پاس گیا۔ اور خوشامد کر کے بولا۔ ’’لا دیدے گردن تو کسی طرح سے بچے کمبل کے لیے کوئی دوسری تدبیر سوچوں گا۔‘‘
منی اس کے پاس سے دور ہٹ گئی۔ اور آنکھیں ٹیڑھی کرتی ہوئی بولی۔’’ کرچکے دوسری تدبیر۔ ذرا سنوں کون تدبیر کرو گے؟ کون کمبل خیرات میں دیدے گا۔ نہ جانے کتنا روپیہ باقی ہے جو کسی طرح ادا ہی نہیں ہوتا۔ میں کہتی ہوں تم کھیتی کیوں نہیں چھوڑ دیتے۔ مرمر کر کام کرو۔ پیداوار ہو تو اس سے قرضہ ادا کرو چلو چھٹی ہوئی، قرضہ ادا کرنے کے لیے تو ہم پیدا ہی ہوئے ہیں۔ ایسی کھیتی سے باز آئے۔ میں روپے نہ دوں گی، نہ دوں گی۔‘‘
ہلکورنجیدہ ہو کر بولا، ’’تو کیا گالیاں کھاؤں۔‘‘
منی نے کہا۔ ’’گالی کیوں دے گا۔؟ کیا اس کا راج ہے؟‘‘ مگر یہ کہنے کے ساتھ ہی اس کی تنی ہوئی بھویں ڈھیلی پڑ گئیں۔ ہلکو کی بات میں جو دل دہلانے دینےو الی صداقت تھی۔ معلوم ہوتا تھا کہ وہ اس کی جانب ٹکٹکی باندھے دیکھ رہی تھی۔ اس نے طاق پر سے روپے اٹھائے اور لاکر ہلکو کے ہاتھ پر رکھ دیے۔ پھر بولی، ’’تم اب کی کھیتی چھوڑ دو۔ مزدوری میں سکھ سے ایک روٹی تو کھانے کو ملے گی۔ کسی کی دھونس تو نہ رہے گی اچھی کھیتی ہے مزدوری کر کے لاؤ وہ بھی اس میں جھونک دو۔ اس پر سے دھونس۔‘‘
ہلکو نےروپے لیے اور اسی طرح باہر چلا۔ معلوم ہوتا تھا وہ اپنا کلیجہ نکال کر دینے جارہا ہے۔ اس نے ایک ایک پیسہ کاٹ کر تین روپے کمبل کے لیے جمع کیے تھے۔ وہ آج نکلے جارہے ہیں۔ ایک ایک قدم کے ساتھ اس کا دماغ اپنی ناداری کے بوجھ سے دبا جارہاتھا۔
پوس کی اندھیری رات۔ آسمان پر تارے بھی ٹھٹھرتے ہوئے معلوم ہوتے تھے۔ ہلکو اپنےکھیت کے کنارے اوکھ کے پتوں کی ایک چھتری کےنیچے بانس کے کھٹولے پر اپنی پرانی گاڑھے کی چادر اوڑھے ہوئےکانپ رہا تھا۔ کھٹولے کے نیچے ا س کا ساتھی کتا ’’جبرا‘‘ پیٹ میں منھ ڈالے سردی سے کوں کوں کررہا تھا۔ دو میں سے ایک کو بھی نیند نہ آتی تھی۔
ہلکو نے گھٹنوں کو گردن میں چمٹاتے ہوئے کہا۔ ’’کیوں جبرا جاڑا لگتا ہے کہا تو تھا گھر میں پیال پر لیٹ رہ۔ تو یہاں کیا لینے آیا تھا۔ اب کھا سردی، میں کیا کروں۔ جانتا تھا۔ میں حلوہ پوری کھانے آرہا ہوں۔ دوڑتے ہوئے آگے چلے آئے۔ اب روؤ اپنی نانی کے نام کو۔‘‘ جبرانے لیٹے ہوئے دم ہلائی اور ایک انگڑائی لے کر چپ ہو گیا شاید وہ یہ سمجھ گیا تھا کہ اس کی کوں، کوں کی آواز سے اس کےمالک کو نیند نہیں آرہی ہے۔
ہلکو نے ہاتھ نکال کر جبرا کی ٹھنڈی پیٹھ سہلاتے ہوئے کہا۔ ’’کل سے میرے ساتھ نہ آنا نہیں تو ٹھنڈے ہو جاؤ گے۔ یہ رانڈ پچھوا ہوا نہ جانے کہاں سے برف لیے آرہی ہے۔ اٹھوں پھر ایک چلم بھروں کسی طرح رات تو کٹے۔ آٹھ چلم تو پی چکا۔ یہ کھیتی کا مزہ ہے اور ایک بھاگوان ایسے ہیں جن کےپاس اگر جاڑا جائے تو گرمی سے گھبرا کر بھاگے۔ موٹے گدے لحاف کمبل مجال ہے کہ جاڑے کا گذر ہوجائے۔ تقدیر کی خوبی ہے مزدوری ہم کریں۔ مزہ دوسرے لوٹیں۔‘‘
ہلکو اٹھا اور گڈھے میں ذرا سی آگ نکال کر چلم بھری۔ جبرا بھی اٹھ بیٹھا۔ ہلکو نے چلم پیتے ہوئے کہا، ’’پئے گا چلم؟ جاڑا تو کیا جاتا ہے ہاں ذرا من بہل جاتا ہے۔‘‘
جبرا نے اس کی جانب محبت بھری نگاہوں سے دیکھا۔ ہلکو نے کہا۔ ’’آج اور جاڑا کھالے۔ کل سے میں یہاں پیال بچھادوں گا۔ اس میں گھس کر بیٹھنا جاڑا نہ لگے گا۔‘‘
جبرا نے اگلے پنجے اس کے گھٹنوں پر رکھ دیے اور اس کے منھ کے پاس اپنا منھ لے گیا۔ ہلکو کو اس کی گرم سانس لگی۔ چلم پی کر ہلکو، پھر لیٹا۔ اور یہ طے کر لیا کہ چاہے جو کچھ ہو اب کی سو جاؤں گا۔ لیکن ایک لمحہ میں اس کا کلیجہ کانپنے لگا۔ کبھی اس کروٹ لیٹا کبھی اس کروٹ۔ جاڑا کسی بھوت کی مانند اس کی چھاتی کو دبائے ہوئے تھا۔
جب کسی طرح نہ رہا گیا تو اس نے جبرا کو دھیرے سے اٹھا یا اور اس کے سر کو تھپ تھپا کر اسے اپنی گو د میں سلا لیا۔ کتے کے جسم سےمعلوم نہیں کیسی بدبو آرہی تھی پر اسے اپنی گود سے چمٹاتے ہوئےایسا سکھ معلوم ہوتا تھا جو ادھر مہینوں سے اسے نہ ملا تھا۔ جبرا شاید یہ خیال کر رہا تھا کہ بہشت یہی ہے اور ہلکو کی روح اتنی پاک تھی کہ اسے کتے سے بالکل نفرت نہ تھی۔ وہ اپنی غریبی سے پریشان تھا جس کی وجہ سے وہ اس حالت کو پہنچ گیا تھا۔ ایسی انوکھی دوستی نے اس کی روح کے سب دروازے کھول دیے تھے اس کا ایک ایک ذرہ حقیقی روشنی سے منور ہو گیا تھا ۔اسی اثنا میں جبرا نے کسی جانور کی آہٹ پائی اس کے مالک کی اس خاص روحانیت نے اس کے دل میں ایک جدید طاقت پیدا کردی تھی جو ہوا کے ٹھنڈے جھونکوں کو بھی ناچیز سمجھ رہی تھی۔ وہ جھپٹ کر اٹھا اور چھپری سے باہر آکر بھونکنے لگا۔ ہلکو نے اسے کئی مرتبہ پچکار کر بلایا پر وہ اس کے پاس نہ آیا کھیت میں چاروں طرف دوڑ دوڑ کر بھونکتا رہا۔ ایک لمحہ کےلیے آ بھی جاتا تو فوراً ہی پھر دوڑتا، فرض کی ادائیگی نے اسے بے چین کر رکھا تھا۔
ایک گھنٹہ گذر گیا سردی بڑھنے لگی۔ ہلکو اٹھ بیٹھا اور دونوں گھٹنوں کو چھاتی سے ملا کر سرکو چھپالیا پھر بھی سردی کم نہ ہوئی ایسا معلوم ہوتا تھا کہ سارا خون منجمد ہو گیا ہے۔ اس نے اٹھ کر آسمان کی جانب دیکھا ابھی کتنی رات باقی ہے۔ وہ سات ستارے جو قطب کے گرد گھومتے ہیں۔ ابھی اپنا نصف دورہ بھی ختم نہیں کرچکے جب وہ اوپر آجائیں گےتو کہیں سویرا ہو گا۔ابھی ایک گھڑی سے زیادہ رات باقی ہے۔
ہلکو کےکھیت سے تھوڑی دیر کے فاصلہ پر ایک باغ تھا۔ پت جھڑ شروع ہو گئی تھی۔ باغ میں پتوں کا ڈھیر لگا ہوا تھا ہلکو نے سوچا چل کر پتیاں بٹوروں اور ان کو جلا کر خوب تاپوں رات کو کوئی مجھے پتیاں بٹورتے دیکھے تو سمجھے کہ کوئی بھوت ہے کون جانے کوئی جانور ہی چھپا بیٹھاہو۔ مگر اب تو بیٹھے نہیں رہا جاتا۔
اس نے پاس کے ارہر کے کھیت میں جاکر کئی پودے اکھاڑے اور اس کا ایک جھاڑو بنا کر ہاتھ میں سلگتا ہوا اپلہ لیے باغ کی طرف چلا ۔ جبرا نے اسے جاتے دیکھا تو پاس آیا اور دم ہلا نے لگا۔
ہلکو نے کہا اب تو نہیں رہا جاتا جبرو، چلو باغ میں پتیاں بٹور کرتاپیں ،ٹاٹھے ہو جائیں گے تو پھر آکر سوئیں گے۔ ابھی تو رات بہت ہے۔
جبرا نےکوں کوں کرتے ہوئے اپنے مالک کی رائے سے موافت ظاہر کی اور آگے آگے باغ کی جانب چلا۔ باغ میں گھٹا ٹوپ اندھیر ا چھایا ہوا تھا۔ درختوں سے شبنم کی بوندیں ٹپ ٹپ ٹپک رہی تھیں یکا یک ایک جھونکا مہندی کے پھولوں کی خوشبو لیے ہوئے آیا۔
ہلکو نے کہا کیسی اچھی مہک آئی جبرا۔ تمہاری ناک میں بھی کچھ خوشبو آرہی ہے؟
جبرا کو کہیں زمین پر ایک ہڈی پڑی مل گئی تھی۔ وہ اسے چوس رہا تھا۔
ہلکو نے آگ زمین پر رکھ دی اور پتیاں بٹورنے لگا۔ تھوڑی دیر میں پتوں کا ایک ڈھیر لگ گیا۔ ہاتھ ٹھٹھرتے جاتے تھے۔ ننگے پاؤں گلے جاتے تھےاور وہ پتیوں کا پہاڑ کھڑا کر رہا تھا۔ اسی الاؤ میں وہ سردی کو جلا کر خاک کردے گا۔
تھوڑی دیر میں الاؤجل اٹھا۔ اس کی لو اوپر والے درخت کی پتیوں کو چھو چھو کر بھاگنے لگی۔ اس متزلزل روشنی میں باغ کے عالی شان درخت ایسے معلوم ہوتےتھے کہ وہ اس لا انتہا اندھیرے کو اپنی گردن پر سنبھالے ہوں۔ تاریکی کے اس اتھاہ سمندر میں یہ روشنی ایک ناؤ کے مانند معلوم ہوتی تھی۔
ہلکو الاؤ کے سامنے بیٹھا ہوا آگ تاپ رہا تھا۔ ایک منٹ میں اس نے اپنی چادر بغل میں دبالی اور دونوں پاؤں پھیلا دیے۔ گویا وہ سردی کو للکار کر کہہ رہا تھا ’’تیرے جی میں آئے وہ کر۔‘‘ سردی کی اس بے پایاں طاقت پر فتح پا کر وہ خوشی کو چھپا نہ سکتا تھا۔
اس نے جبر اسے کہا، کیوں جبرا۔ اب تو ٹھنڈ نہیں لگ رہی ہے؟
جبرا نے کوں کوں کرکے گویا کہا، اب کیا ٹھنڈ لگتی ہی رہے گی۔
’’پہلے یہ تدبیر نہیں سوجھی نہیں تو اتنی ٹھنڈ کیوں کھاتے؟‘‘
جبرا نے دم ہلائی۔
’’اچھا آؤ، اس الاؤ کو کود کر پار کریں۔ دیکھیں کون نکل جاتاہے اگر جل گئے بچہ تو میں دوا نہ کروں گا۔‘‘
جبرا نے خوف زدہ نگاہوں سے الاؤ کی جانب دیکھا۔
’’منی سے کل یہ نہ جڑ دینا کہ رات ٹھنڈ لگی اور تاپ تاپ کر رات کاٹی۔ ورنہ لڑائی کرے گی۔‘‘
یہ کہتا ہوا وہ اچھلا اور اس الاؤ کے اوپر سے صاف نکل گیا پیروں میں ذرا سی لپٹ لگ گئی پروہ کوئی بات نہ تھی۔ جبرا الاؤ کے گرد گھوم کر اس کے پاس کھڑا ہوا۔
ہلکو نے کہا چلوچلو، اس کی سہی نہیں۔ اوپر سے کود کر آؤ ۔وہ پھر کودا اور الاؤ کے اس پار آگیا۔ پتیاں جل چکی تھیں۔ باغیچے میں پھر اندھیرا چھا گیا تھا۔ راکھ کے نیچے کچھ کچھ آگ باقی تھی۔ جو ہوا کا جھونکا آنے پر ذرا جاگ اٹھتی تھی پر ایک لمحہ میں پھر آنکھیں بند کر لیتی تھی۔
ہلکو نے پھر چادر اوڑھ لی اور گرم راکھ کےپاس بیٹھا ہوا ایک گیت گنگنانے لگا۔ اس کے جسم میں گرمی آگئی تھی۔ پرجوں جوں سردی بڑھتی جاتی تھی اسے سستی دبا لیتی تھی۔
دفعتاً جبرا زور سے بھونک کر کھیت کی طرف بھاگا۔ ہلکو کو ایسا معلوم ہوا کہ جانور کا ایک غول اس کے کھیت میں آیا۔ شاید نیل گائے کا جھنڈ تھا۔ ان کے کودنے اور دوڑنے کی آوازیں صاف کان میں آرہی تھیں۔ پھر ایسا معلوم ہوا کہ کھیت میں چر رہی ہیں۔اس نے دل میں کہا ۔ہنہ، جبرا کے ہوتے ہوئے کوئی جانور کھیت میں نہیں آسکتا۔ نوچ ہی ڈالے، مجھے وہم ہو رہا ہے۔ کہاں اب تو کچھ سنائی نہیں دیتا مجھے بھی کیسا دھوکا ہوا۔
اس نے زور سے آواز لگائی جبرا۔ جبرا۔
جبرا بھونکتا رہا۔ اس کے پاس نہ آیا۔
جانوروں کے چرنے کی آواز چرچر سنائی دینے لگی۔ ہلکو اب اپنے کو فریب نہ دے سکا مگر اسے اس وقت اپنی جگہ سے ہلنا زہر معلوم ہوتا تھا۔ کیسا گرمایا ہوا مزے سے بیٹھا ہوا تھا۔ اس جاڑے پالے میں کھیت میں جانا جانوروں کو بھگانا ان کا تعاقب کرنا اسے پہاڑ معلوم ہوتا تھا۔ اپنی جگہ سے نہ ہلا۔ بیٹھے بیٹھے جانوروں کو بھگانے کے لیے چلانے لگا۔ لہو لہو، ہو۔ ہو۔ ہاہا۔
مگر جبرا پھر بھونک اٹھا۔ اگر جانور بھاگ جاتے تووہ اب تک لوٹ آیا ہوتا۔ نہیں بھاگے ابھی تک چر رہے ہیں۔ شاید وہ سب بھی سمجھ رہے ہیں کہ اس سردی میں کون بیٹھا ہے جو ان کے پیچھے دوڑے گا۔ فصل تیار ہے کیسی اچھی کھیتی تھی۔ سارا گاؤں دیکھ دیکھ کر جلتا تھا اسے یہ ابھاگے تباہ کیے ڈالتے ہیں۔
اب ہلکو سے نہ رہا گیا وہ پکا ارادہ کر کے اٹھا اور دو تین قدم چلا۔ پھر یکا یک ہوا کا ایسا ٹھنڈا چبھنے والا، بچھو کے ڈنک کا سا جھونکا لگا وہ پھر بجھتے ہوئے الاؤ کے پاس آبیٹھا اور راکھ کو کرید کرید کر اپنے ٹھنڈے جسم کو گرمانے لگا۔
جبرا اپنا گلا پھاڑے ڈالتا تھا ۔نیل گائیں کھیت کا صفایا کیے ڈالتی تھیں اور ہلکو گرم راکھ کے پاس بے حس بیٹھا ہوا تھا۔ افسردگی نے اسے چاروں طرف سے رسی کی طرح جکڑ رکھا تھا۔
آخر و ہیں چادر اوڑھ کر سو گیا۔
سویرے جب اس کی نیند کھلی تو دیکھا چاروں طرف دھوپ پھیل گئی ہے۔ اورمنی کھڑی کہہ رہی ہے۔ کیا آج سوتے ہی رہو گے تم یہاں میٹھی نیند سو رہے ہو اور ادھر سارا کھیت چوپٹ ہو گیا۔ سارا کھیت کا ستیاناس ہو گیا بھلا کوئی ایسا بھی سوتا ہے ۔تمہارے یہاں منڈ یا ڈالنے سے کیا ہوا۔
ہلکو نے بات بنائی۔ میں مرتےمرتے بچا۔ تجھے اپنے کھیت کی پڑی ہے پیٹ میں ایسا درد اٹھا کہ میں ہی جانتا ہوں۔
دونوں پھر کھیت کے ڈانڈے پر آئے۔ دیکھا کھیت میں ایک پودے کا نام نہیں اور جبرا منڈیا کےنیچے چت پڑا ہے۔ گویا بدن میں جان نہیں ہے۔ دونوں کھیت کی طرف دیکھ رہے تھے۔ منی کے چہرہ پر اداسی چھائی ہوئی تھی۔ پر ہلکو خوش تھا۔
منی نے فکر مند ہو کر کہا۔ اب مجوری کر کے مال گجاری دینی پڑے گی۔
ہلکو نے مستانہ انداز سے کہا۔’’ رات کو ٹھنڈ میں یہاں سونا تو نہ پڑے گا۔‘‘
’’میں اس کھیت کا لگان نہ دوں گی یہ کہے دیتی ہوں ۔جینے کے لیے کھیتی کرتے ہیں مرنے کے لیے نہیں کرتے۔‘‘
’’جبرا ابھی تک سویا ہوا ہے۔ اتنا تو کبھی نہ سوتا تھا۔‘‘
’’آج جاکر شہنا سے کہہ دے، کھیت جانور چر گئے ہم ایک پیسہ نہ دیں گے۔‘‘
’’رات بڑے گجب کی سردی تھی۔‘‘
’’میں کیا کہتی ہوں تم کیا سنتے ہو۔‘‘
’’تو گالی کھلانے کی بات کہہ رہی ہے۔ شہنا کو ان باتوں سے کیا سرو کار ،تمہارا کھیت چاہے جانور کھائیں چاہے آگ لگ جائے، چاہے اولے پڑ جائیں، اسے تو اپنی مال گجاری چاہیے۔‘‘
’’تو چھوڑ دو کھیتی، میں ایسی کھیتی سے باز آئی۔
ہلکو نے مایوسانہ انداز سے کہا۔ ’’جی من میں تو میرے بھی یہی آتا ہے کہ کھیتی باڑی چھوڑ دوں۔ منی تجھ سے سچ کہتا ہوں مگر مجوری کا کھیال کرتا ہوں تو جی گھبرا اٹھتا ہے۔ کسان کابیٹا ہو کر اب مجوری نہ کروں گا، چاہے کتنی ہی درگت ہو جائے۔ کھیتی کا مرد جا نہ نہیں بگاڑوں گا۔ جبرا۔ ۔۔جبرا۔۔۔ کیا سوتا ہی رہے گا۔چل گھر چلیں۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ختم شد.....
پوس کی رات ایک مطالعہ
گفتگو: ریحان کوثر
افسانہ کوئی بھی ہو لیکن جب وہ مطالعے کے لیے سامنے آئے تو مطالعہ کیا جاتا ہے، تبصرے کے لیے آئے تو تبصرہ اور جب تجزیے کے لیے سامنے ہوں تو تجزیہ کیا جاتا ہے۔ جہاں تک میرا خیال ہے کہ زیر نظر افسانہ ان تینوں نکتہ نظر سے یہاں پیش کیا گیا ہے۔ ہزاروں لاکھوں قارئین کی طرح پریم چند میرے بھی پسندیدہ ہیں لیکن بالفرض اگر دھن پت رائے صاحب یعنی پریم چند بزم کے ممبر ہوتے تو میری گفتگو کچھ اس طرح ہوتی (کیا کروں کہ تقریباً تین ماہ میں کچھ عادت ہی ایسی ہو گئی ہے)۔
سوال نمبر 1:
جب ہلکو اپنی بیوی سے تین روپے مانگتا ہے تو۔۔۔
ہلکو کی بیوی سوال کرتی ہے۔۔۔
ماگھ پوس کی رات کھیت میں کیسے کٹے گی؟
اور ہلکو اسی دوران اپنے دل میں سوچ رہا ہوتا ہے کہ پوس سر پر آگیا ہے۔
یعنی ماگھ پوس (دسمبر اور جنوری کا کچھ حصہ) سر پر آچکا تھا۔ اب سوال یہ ہے کہ ہلکو نے تین روپے جمع ہونے کے باوجود کمبل کیوں نہیں خریدا؟ وہ کس بات کا انتظار کر رہا تھا؟ کیا اس نے یہ تین روپے شہنا کو دینے کے لیے ہی رکھا تھا؟ آخر جب تین روپے جمع ہو گئے تو وہ کمبل خریدنے کے لیے کس بات کا انتظار کر رہا تھا؟
سوال نمبر 2:
ہلکو اپنے کھیت کے کنارے اوکھ کے پتوں کی ایک چھتری کے نیچے بانس کے کھٹولے پر اپنی پرانی گاڑھے کی چادر اوڑھے ہوئے کانپ رہا تھا۔ وہیں گڈھے میں اپلہ سلگ رہا تھا۔ اگر یہ مان لیا جائے کہ ہلکو کو ان اپلوں کی آگ کی شدت کم محسوس ہو رہی تھی تو اس نے لکڑیوں کا انتظام کیوں نہیں کیا؟ کیا اس کے کھیت کے آس پاس سوکھی لکڑیاں نہیں تھی؟ گھاس پھوس یا سوکھی جھاڑیاں بھی نہیں تھی؟ یا پاس کے آم کے باغ سے سوکھے پتوں کو جمع کر کے وہ اپنے کھیت کی چھتری کے پاس لا کر کیوں نہیں جلایا؟ کیا وجہ تھی کہ وہ آگ پاس کے باغ میں ہی جلانا چاہتا تھا؟ اگر اسے پتیوں کا پہاڑ بنا کر الاؤ کودنا تھا تو وہ یہ کام اپنے کھیت پر بھی کر سکتا تھا؟
سوال نمبر 3:
جانوروں کے چرنے کی آواز چرچر سنائی دینے لگی۔ ہلکو اب اپنے کو فریب نہ دے سکا مگر اسے اس وقت اپنی جگہ سے ہلنا زہر معلوم ہوتا تھا۔ کیسا گرمایا ہوا مزے سے بیٹھا ہوا تھا۔ اس جاڑے پالے میں کھیت میں جانا جانوروں کو بھگانا ان کا تعاقب کرنا اسے پہاڑ معلوم ہوتا تھا۔ اپنی جگہ سے نہ ہلا۔ بیٹھے بیٹھے جانوروں کو بھگانے کے لیے چلانے لگا۔ لہو لہو، ہو۔ ہو۔ ہاہا۔
اس اقتباس میں ہلکو کی جو کیفیت بتائی گئی ہے کیا وہ فطری ہے؟ جبکہ افسانہ نگار آگے کہتا ہے کہ
فصل تیار ہے کیسی اچھی کھیتی تھی۔ سارا گاؤں دیکھ دیکھ کر جلتا تھا اسے یہ ابھاگے تباہ کیے ڈالتے ہیں۔
ہلکو کیا چلم کے نشے میں تھا یا اس کا جسم گرمی کی وجہ سے اس قدر راحت محسوس کر رہا تھا کہ کئی مہینوں کی محنت کے بعد جو فصل تیار ہوئی اس پر اسے ذرا بھی ترس نہ آیا؟ اور جانوروں کے چرنے کے لیے اس طرح چھوڑ دیا؟ کیا یہ فصل ریڈی میڈ تھی؟ کیا کسی دوسرے نے اس فصل کے لیے محنتیں کی تھی اور وہ صرف رکھوالی کرتا تھا۔ کیا وہ اس کی فصل نہیں تھی؟
اور بھی کچھ سوالات ہے۔۔۔ لیکن اب جواب ملاحظہ فرمائیں۔
جواب:
اب اسی کہانی کو دوبارہ پڑھیں!
ہلکو صبح کھیت سے واپس آتا ہے اور بیوی سے غصے سے کہتا ہے کہ ماگھ پوس سر پر ہے اب بغیر کمبل میرے لیے رات کاٹنا مشکل ہے۔ تب بیوی منی کہتی ہے کہ میں نے گھر خرچ سے بچا کر تین روپے جمع کئے ہیں اس سے کمبل خرید لینا۔ تبھی شہنا آتا ہے تو ہلکو اپنی بے عزتی کے ڈر سے اسے وہ تین روپے دے دیتا ہے۔
اس طرح پھر سے رات کو اپنے کتے کے ساتھ دوبارہ کھیت پر جاتا ہے اور وہیں بیٹھا گڈھے کی آگ سیکتا رہتا ہےاور چلم پیتا ہے۔ اسے مزید آگ کی ضرورت ہوتی ہے تو وہ ایک بورے میں آم کے باغ سے بہت ساری پتیوں کا انتظام کرتا ہے اور ان سوکھی پتیوں کے ڈھیر میں کھیت کی چھتری کے پاس آگ لگا کر اپنے جسم کو اچھی طرح گرم کرتا ہے اور چلم کے نشے کے بعد میٹھی نیند میں سو جاتا ہے۔
صبح جب اس کی بیوی اسے جگاتی ہے تو یہ دیکھ کر حیران رہ جاتا ہے کہ رات کو لگائی گئی اس کی آگ سے ساری کھڑی فصل جل کر راکھ ہو گئی ہے۔
منی کے چہرہ پر اداسی چھائی ہوئی تھی۔ پر ہلکو خوش تھا۔
منی نے فکر مند ہو کر کہا۔ اب مجوری کر کے مال گجاری دینی پڑے گی۔
ہلکو نے مستانہ انداز سے کہا۔’’ رات کو ٹھنڈ میں یہاں سونا تو نہ پڑے گا۔‘‘
باقی۔۔۔ (آگے بالکل ویسا ہی۔۔۔۔)
اب اگر آپ کو غصہ آ رہا ہو کہ یہ کیا مذاق ہے؟ پریم چند کے افسانے کو ری رائٹ کیا جا رہا ہے وہ بھی اس طرح!
تو میں یہاں ایک بات صاف کر دوں کہ یہ میں نے نہیں بلکہ سمپیورن سنگھ (گلزار) صاحب نے کیا ہے۔ میں نے تو بس اسے یہاں کوٹ کیا ہے جس پر اختلاف رائے کا حق سبھی کو ہے۔ دراصل جب گلزار صاحب نے اسے فلمایا تو اس افسانے کو اس طرح پیش کیا ہے اسی لیے اس میں کہیں بھی جنگلی جانوروں یا نیل گائے وغیرہ کا ذکر نہیں ہے۔ اور قریب کے آم کے باغ کا بھی کوئی ذکر نہیں ہے۔ اب اگر کوئی یہ کہے کہ بھئ جب کوئی کہانی کو پکچرائز کیا جاتا ہے تو اس میں تھوڑی بہت ترمیم یا رد وبدل کی ضرورت پیش آتی ہے۔ لیکن میرا سوال یہ ہے کہ جیسا اصل افسانہ ہے بالکل ویسا ہی گلزار صاحب نے پیش کیوں نہیں کیا؟ ان کا بجٹ کم تھا؟ یا ان کا افسانوی فہم؟ یا پھر نیل گائے یا جنگلی جانوروں کے لیے ضروری اخراجات وہ برداشت نہیں کر سکتے تھے؟ کیا صرف چرنے کی آواز بھی استعمال نہیں کر سکتے تھے۔
اس رد وبدل کی جو وجوہات ہیں اس طرف جانے سے پہلے ایک بڑی مزیدار بات یاد آ گئی۔ گزشتہ لوک سبھا الیکشن کے دوران ایک انٹرویو یاد آ گیا۔ جس میں مرکز میں قابض سیاسی جماعت کے کسی بھکت سے اس کی سیاسی جماعت یا سیاسی آئیڈیالوجی کا ملک کی آزادی میں حصہ پوچھا گیا تو دائیں بائیں جھانکنے کے بعد جب کچھ نہیں سوجھا تو بول پڑا منشی پریم چند ہمارے سنگھ کے سویم سیوک اور پرچارک تھے۔ انھوں نے آزادی کی لڑائی اپنی قلم سے لڑی تھی۔
کردار نگاری:
1.ہلکو کے کردار کا نفسیاتی، جذباتی، حساسی اور جسمانی جائزہ:
🔺سب سے پہلے تو ہلکو نام میں ہی بہت کچھ چھپا ہوا ہے۔ ہلکو یعنی ہلکا آدمی۔ شاید افسانہ نگار نے یہ بڑے غور و خوص کے بعد یہ نام رکھا ہے۔ یہاں دل ہلکا ہونے والا معاملہ نہیں بلکہ ہلکا یعنی نیچ ہے۔
🔺ہلکو ایک کسان جس کی فصل تیار ہے وہ روز رات کو اپنے کھیت کی رکھوالی کرتا ہے۔ کھیت میں فصل کس طرح تیار ہوئی؟ کون سی فصل تھی ان سب کا کہانی میں کہیں کوئی ذکر نہیں! اور نہ ہی ضروری تھا۔
🔺ہلکو کو اپنی گردن کی فکر تھی اور وہ شہنا کی کیگھڑکیوں اور گالیوں سے درتا تھا۔ یعنی وہ ڈرپوک تھا۔ (جبکہ کچھ مبصرین کا کہنا ہے کہ اسے اپنی عزت کی فکر تھی۔ چلو! اسے بھی مان لیتے ہیں۔)
🔺ہلکو کمبل کا پیسا اپنی جان چھڑانے کی خاطر دے دیتا ہے اور کمبل کے لیے کسی تدبیر کا بہانا لے کر خود کو اور منی کو بہلاتا ہے۔ مجھے اندیشہ ہے کہ جیسا اس کے کردار ہے، تدبیر سے اس کا دور کا بھی واسطہ ہو!
🔺کھیت پر آنے کے تعلق سے ہلکو اپنے نظریات کچھ یوں پیش کرتا ہے اور جبرا سے کہتا ہے۔
”تو یہاں کیا لینے آیا تھا۔ اب کھا سردی، میں کیا کروں۔ جانتا تھا۔ میں حلوہ پوری کھانے آرہا ہوں۔ دوڑتے ہوئے آگے چلے آئے۔ اب روؤ اپنی نانی کے نام کو۔‘‘ یعنی کھیت کی رکھوالی اس کے نزدیک حلوا پوری کھانے جیسا کام نہیں بلکہ نانی یاد آ جائے کچھ ایسا کام ہے۔
🔺ہلکو کچھ کرے نہ کرے لیکن چلم ضرور پیتا ہے۔ یعنی وہ چلم کا عادی ہے۔ چلم اس کے نزدیک دل بہلانے اور رات کاٹنے کا ذریعہ تھا۔ اب چاہے جو بھی وجہ ہو بہر حال وہ چلم پینے کا شوقین تھا۔
🔺 تدبیر سے اس کا واسطہ وہاں سمجھ آتا ہے جب وہ اپنے جسم کو گرم کرنے کے لیے آگ اپنے کھیت کے قریب نہ لگاتے ہوئے کسی دوسری جگہ لگاتا ہے۔ یعنی وہ اول درجے کا بیوقوف بھی تھا۔
🔺اس کے کھیت میں جانوروں کے گھس جانے اور فصلوں کے چرنے کی آوازیں سننے کے باوجود وہ اول درجے کا کاہل اور کام چور بھی تھا جسے اپنی کئی مہینوں کی محنت یعنی فصل سے زیادہ اپنا اور اپنے جسم کا آرام پسند تھا۔
🔺الاؤ کودنا اگر کوئی علامت یا استعارہ نہیں ہے تو پتہ نہیں اس حرکت سے ہلکو کیا ثابت کرنا چاہتا تھا۔ کیا اس سے وہ اپنا جسم گرم کرنے کی کوشش کرتا ہے یا یہ کوئی قسم کا پاگل پن تھا؟
🔺’’منی سے کل یہ نہ جڑ دینا کہ رات ٹھنڈ لگی اور تاپ تاپ کر رات کاٹی۔ ورنہ لڑائی کرے گی۔‘‘ اس بات سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اپنے کام یا فرض میں چوری کر رہا تھا اور اسے اس بات کا بھی خدشہ تھا کہ کہیں اس کی چوری پکڑی نہ جائے۔ شاید ایسے ہی لوگ کام چور کہلاتے ہیں۔
🔺”میں مرتےمرتے بچا۔ تجھے اپنے کھیت کی پڑی ہے پیٹ میں ایسا درد اٹھا کہ میں ہی جانتا ہوں۔“ یہ بات کہہ کر ہلکو نے اپنے ہلکے پن کی ایک شہادت اور دی کہ وہ اول درجے کا جھوٹا اور مکار بھی تھا۔ جو اپنی بیوی سے بغیر کسی جھجک کے جھوٹ بولتا ہے۔
🔺 افسانے میں ایک ایک سطر کے درمیان اور ایک ایک لفظ میں بٹون دی لائن اور بٹون دی ورڈ میں ایک ایک جہاں ڈھونڈ لینے والے اس تاریخی جملے کا مطلب بتائیں!
”رات کو ٹھنڈ میں یہاں سونا تو نہ پڑے گا۔‘‘ اس جملے سے ہلکو نے اس وقت کون سا ملکہ وکٹوریہ کے تخت و تاج ہلا دیا تھا؟
🔺ہلکو فصل کے برباد ہونے پر خوش ہوتا ہے۔ کیا یہ عجیب بات نہیں؟ اور پھر آخر میں کہتا ہے کہ کتنی بھی درگت ہو وہ کسانی نہیں چھوڑے گا؟
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہلکو کا کردار عجیب کے ساتھ ساتھ غریب بھی ہے۔ لیکن کیا کہانی میں وہ ہندوستانی کسانوں کی نمائندگی کر رہا ہے؟ کیا ہمارے یہاں کے کسان ایسے ہوتے ہیں؟ یا ہوتے تھے۔۔۔؟ کیا اس کے خلاف ظلم، جبر، بربریت اور استحصال ہوا ہے؟ کیا ہلکو کو سامراج واد کے خلاف لڑنے والا، مفلس، نادار اور مظلوم کسان کہا جا سکتا ہے؟ کیا ہمارے یہاں کے کسان ایسے ہوتے ہیں؟ اگر یہ ہمارے یہاں کے کسانوں کی ترجمانی کر رہا ہے تو کیا ہمارے یہاں کے کسان بیوقوف، کام چور، مکار، پاگل اور نشیڈچی ہوتے ہیں؟ کیا اس کسان کے کردار میں آفاقیت ہے؟ کیا یہ سب کی کہانی ہے؟ سیدھا سوال کہ کیا ہمارے یہاں کے سارے کسانوں سے بہتر جبرا ہے۔۔۔؟ مطلب ہمارے کسانوں سے بہتر ہمارے یہاں کے کتے ہیں؟
یا
یہ ایک ہلکے قسم کے ایک ”نیچ کسان“ کی کہانی ہے؟ جو ہم تبصروں میں اس کردار کے ارد گرد سارے ہی کسانوں کو لا کھڑا کرتے ہیں، کیا وہ ان باقی کسانوں کے ساتھ انصاف ہے؟ افسانہ نگار اس طرح کا عجیب وغریب کردار اس کے تخیل کا نتیجہ ہے یا یہ حقیقت نگاری ہے۔ اگر یہ حقیقت نگاری ہے تو یہ اس مخصوص کردار تک محدود ہے یا افسانہ نگار نے سارے ہی کسانوں کا مسئلہ اٹھایا ہے۔ جب افسانہ نگار نے اس کہانی کو ہلکو کے ایک مخصوص حالات اور دائرے کے ارد گرد ہی رکھا ہے تو ہم دو قدم آگے بڑھ کر کیوں پیش کرتے ہیں؟ کیا یہ افسانہ نگار کے ساتھ انصاف ہے۔
2.منی کا کردار:
ہلکو ایک عجیب قسم کا آدمی ہے جس پر تفصیلی گفتگو ہو چکی ہے۔ منی ہلکو کی بیوی ہے لیکن اس سے زیادہ سمجھ دار معلوم ہوتی ہے۔ وہ ہلکو کو آگاہ کرتی ہے کہ اگر اس نے روپے شہنا کو دے دیے تو بغیر کمبل کے پوس کی راتیں کاٹنی ہوگی۔
منی کھیتی کے کام سے پریشان اور مایوس ہے۔ اسے اس پیشے سے کوئی امید نہیں رہی اور ہلکو کو مزدوری کرنے کا مشورہ دیتی رہتی ہے۔ اسے لگتا ہے مزدوری کرنے سے انھیں کسی کی دھونس برداشت نہیں کرنی پڑے گی۔ لیکن یہ صرف منی کی بدگمانی ہے ورنہ مزدوروں پر ظلم و ستم کی ایک الگ دنیا ہے جس میں دھونس کے ساتھ ساتھ ایک دردناک زندگی برداشت کرنی پڑتی ہے۔
ہلکو کی سستی، کاہلی، بیوقوفی اور نالائقی کے سبب جب ساری فصل برباد ہو جاتی ہے تو منی کو مال گزاری اور لگان کی فکریں ستاتی ہے۔ دراصل منی کی پریشانی، کھیتی کا کام، لگان، مال گزاری اور غریبی کے ساتھ ساتھ ہلکو بھی ہے۔ لیکن منی کا یہ کردار ہلکو سے قدرے سخت کردار ہے جو شہنا سے یہ کہنے کی ہمت رکھتی ہے کہ
’’گالی کیوں دے گا؟ کیا اس کا راج ہے؟‘‘
لیکن صرف اتنا کہنے سے ہم منی کے کردار کو ’مدرانڈیا‘ کے سطح پر نہیں رکھ سکتے۔ ہاں لیکن منی کی ذہنی اور نفسیاتی سطح اور آگہی ہلکو سے بہتر ہے۔ گزشتہ برسوں میں کچھ تجزیہ نگاروں نے منی کے اس احتجاجی جملے کے ادا کرنے پر اسے مدرانڈیا کے طور پر پیش کر دیا ہے۔ اس کے اس جملے میں لفظ ’راج‘ کیا آیا لوگوں نے اسے برٹش راج سے جوڑ کر ملکہ وکٹوریہ کے تخت و تاج ہلا کر رکھ دیا۔ یہ افسانہ نگار سے عقیدت کی معراج ہی تو ہے کہ ایک سیدھے سادے کردار میں کیا کیا تلاش کر لیا گیا۔
3.جبرا کا کردار:
اس افسانے کا سب سے مظبوط کردار اگر کوئی ہے تو وہ جبرا ہے۔ ایک انتہائی وفادار، محنت کش اور ایماندار کتا جو اپنے مالک کے کھیت کی رکھوالی کے لیے اپنی جان کی بازی بھی کھیل سکتا ہے۔ اس میں تمام تر خصوصیات موجود ہے جو ایک اچھے اور نیک انسان میں ہونی چاہیے۔
جب ہمیں کردار اور قدروں کا موازنہ کرنا ہو تو ہمیں پہلے کردار کے سامنے دوسرا کردار کھڑا کرنا ہوتا ہے اور اس طرح ہم دوسرے کردار کی عظمت و رفعت سے پہلے کردار کو تولتے ہیں۔ رام کی اچھائیوں کا گنگان بغیر راون کی برائیوں کے ذکر کے ممکن ہے؟ افسانے میں ہلکو کا کردار ہمارے سامنے کھڑا ہے۔ بغیر جبرا کے اس کا ہلکا پن شاید ویسا ابھر کر نہیں آتا۔ یہ افسانہ نگار کا کمال ہی ہے کہ ایک ہی حالات میں ایک ہی جگہ پر ایک انسان اور ایک جانور کی حرکات و سکنات کے ذریعے اپنی بات کمال ہنرمندی سے کہہ دی ہے۔
جب جبرا کھیت کی بربادی پر تڑپ اٹھتا ہے بھونک بھونک کر اپنا گلا پھاڑ کر راکھ دیتا ہے تب ہلکو چلم کے نشے میں پہلے آگ اور پھر راکھ سے اپنے جسم کو گرم کرنے میں مگن ہوتا ہے۔ اسے نہ کھیت کی فکر ستاتی ہے نہ لگان کی اور نہ ہی اپنی غربت کی۔ کتے اور ہلکو کے درمیان عظیم الشان رشتے تلاش کرنے کے بجائے ان دونوں کرداروں کا موازنہ کرنا ہوگا۔ تب ہمیں یہ سمجھ آئے گا کہ افسانہ نگار کیا کہنا چاہتا ہے۔
4.شہنا کا کردار؟:
بے حد مختصر ہے لیکن میں اسے کردار نہیں مانتا یہ افسانے میں منی اور ہلکو پر جو اسباب ہیں ان میں سے صرف ایک ’سبب‘ ہے۔ حالات کی ’مار‘ ہے۔ یہ کردار نہیں! اس افسانے میں شہنا کے ہلکے سے ذکر کے باوجود بعض مبصرین کا موقف ہے کہ شہنا اور اس کا جبرو اکراہ سارے افسانے پر چھایا رہا؟ ویسے یہ ظلم و جبر ہلکو کی حرکت و عمل میں، نہ اس کی فکر میں اور نہ کھیت یا آم کے باغ میں، مجھے تو کہیں نظر نہیں آیا۔ اس لیے میں اے کردار ماننے سے انکار کرتا ہوں۔ ہاں اگر ہلکو اور اس کی فصل برباد کرنے میں کہیں سے بھی شہنا کا ہاتھ نظر آتا تو میں اسے کردار تسلیم کر لیتا۔
پوس کی رات کی نصابی کتب میں شمولیت کا مقصد؟ اور پوس کی رات (اردو) اور پوس کی رات (ہندی) میں ردوبدل، فرق یا اضافہ!
ہم نے پریم چند سے بے لوث محبت اور عقیدت کا ثبوت یوں دیا کہ آج بھی ان کی شاہکار افسانے اور کہانیاں ہمارے نصابی کتب کی زینت بنے ہوئے ہیں اور وہ اس کے حقدار بھی ہیں۔ لیکن دیگر شاہکار افسانوں کے ساتھ ساتھ پوس کی رات بھی مختلف یونیورسٹیوں اور بورڈ کی نصابی کتب میں شامل ہے۔ جس افسانے کا مرکزی کردار ہلکو عجیب و غریب کردار ہے اور چلم پیتا ہے اس کے اس عمل کے باوجود بھی یہ ہمارے نصاب میں شامل ہے جبکہ نشہ اور منشیات کا ذکر نصاب میں ممنوع قرار دیا گیا ہے، لیکن پھر بھی اگر یہ کہانی شامل ہے تو یہ ہماری بے لوث محبت اور عقیدت ہی تو ہے۔
ہمارے ساتھی انور مرزا صاحب نے بھی اس بات کا اظہار کیا ہے کہ (پوس کی رات) ہندی اور (پوس کی رات) اردو دونوں کے اختتام میں فرق ہے۔ دوردرشن اور گلزار صاحب کی ٹی وی سیریز اور ہندی میں یہ کہانی یہاں ختم ہو جاتی ہے کہ
ہلکو نے مستانہ انداز سے کہا۔’’ رات کو ٹھنڈ میں یہاں سونا تو نہ پڑے گا۔‘‘
لیکن اردو میں یہ اضافہ نظر آتا ہے۔
”میں اس کھیت کا لگان نہ دوں گی یہ کہے دیتی ہوں ۔جینے کے لیے کھیتی کرتے ہیں مرنے کے لیے نہیں کرتے۔‘‘
’’جبرا ابھی تک سویا ہوا ہے۔ اتنا تو کبھی نہ سوتا تھا۔‘‘
’’آج جاکر شہنا سے کہہ دے، کھیت جانور چر گئے ہم ایک پیسہ نہ دیں گے۔‘‘
’’رات بڑے گجب کی سردی تھی۔‘‘
’’میں کیا کہتی ہوں تم کیا سنتے ہو۔‘‘
’’تو گالی کھلانے کی بات کہہ رہی ہے۔ شہنا کو ان باتوں سے کیا سرو کار ،تمہارا کھیت چاہے جانور کھائیں چاہے آگ لگ جائے، چاہے اولے پڑ جائیں، اسے تو اپنی مال گجاری چاہیے۔‘‘
’’تو چھوڑ دو کھیتی، میں ایسی کھیتی سے باز آئی۔
ہلکو نے مایوسانہ انداز سے کہا۔ ’’جی من میں تو میرے بھی یہی آتا ہے کہ کھیتی باڑی چھوڑ دوں۔ منی تجھ سے سچ کہتا ہوں مگر مجوری کا کھیال کرتا ہوں تو جی گھبرا اٹھتا ہے۔ کسان کابیٹا ہو کر اب مجوری نہ کروں گا، چاہے کتنی ہی درگت ہو جائے۔ کھیتی کا مرد جا نہ نہیں بگاڑوں گا۔ جبرا۔ ۔۔جبرا۔۔۔ کیا سوتا ہی رہے گا۔چل گھر چلیں۔‘‘
🔻اردو میں اگر یہ اضافہ ہے تو کیوں ہے؟ کیوں کہ اضافے میں جو ہلکو کہتا ہے وہ غیر منطقی ہے۔ کیا یہ اصل افسانہ ہے؟
🔻اگر یہ حصہ ہندی میں نہیں تو کیوں نہیں ہے؟ کیا ہندی والوں کی اتنی ہمت کہ وہ پریم چند کے افسانے کو صرف زبان تبدیل ہونے پر کانٹ چھانٹ کر دیں؟
🔻اگر یہ اضافہ ہے تو کس نے کیا؟
🔻اگر یہ اضافہ نہیں تو ہندی کے وہ کون لوگ ہیں جو اسے شامل نہیں کرتے؟
🔻پوس رات کی تعلق سے، بیشتر موقع پر آخر کیوں ہندی اور اردو کے قارئین کے لیے الگ الگ دسترخوان بچھائے گئے ہیں؟
بیشک یہ کہانی ہے۔ یہ حقیقت نگاری کی اچھی مثال بھی ہے۔ سادہ اور سلیس زبان و بیان کا بہترین نمونہ ہے۔ سب سے بڑی بات یہ منشی پریم چند کی کہانی ہے۔ یہ کہانی تخلیق کرنے کے پیچھے ان کی منشاء اور مقصد کو بغیر سمجھنے اپنے خیالات اور جذبات کے گھوڑے دوڑائے بغیر اسے ایک کہانی یا افسانہ مان کر ہی پڑھنا اور تجزیہ کرنا چاہیے۔
مگر افسوس! کئی دہائیوں سے چائے سے زیادہ کیتلی ہی گرم ہوتی رہی!
*
0 Comments