Ticker

6/recent/ticker-posts

کھیل (ڈاکٹر اظہر حیات)

 کھیل

ڈاکٹر اظہر حیات


تعارف:
ناگپور سے ڈاکٹر اظہر حیات اردو کے جانے مانے فکشن نگار ہیں ـ آپ نے افسانہ کے ساتھ ساتھ منی افسانے، تحقیق و تنقید، طنز و مزاح اور ترجمہ نگاری میں بھی اپنی قلم کے جادو جگائے ہیں ـ آپ کی تخلیقات اور تحریریں اردو کے موقر ادبی رسالوں اور اخباروں میں شایع ہوچکی ہیں، جن میں کتاب نما، قرطاس، الفاظ ہند، بلٹنز، ہماری زبان، انقلاب، اردو ٹائمز ؛اردو سماچار قابل ذکر ہے ـ موصوف کے پچاس سے زائد ٹاک (ادبی پروگرام) آل انڈیا ریڈیو آکاشوانی، ناگپور سے نشر ہو چکے ہیں جن میں افسانے بھی خاصی تعداد میں شامل ہیں، نیز ٹی وی کے سرکاری چینل دوردرشن سے بھی آپ کے کئی ایک ادبی پروگرام نشر ہوئے ـ موصوف ادب و صحافت کے تئیں ہمیشہ سے فعال رہے ہیں ـ ناگپور یونیورسٹی میں شعبہ اردو کے قیام میں آپ نے کلیدی کردار ادا کیا، انجمن ترقی اردو شاخ ناگپور کے سیکریٹری رہےـ اسی طرح ہفتہ 'روزہ آرینج سٹی' کے مدیر رہے، ویکلی 'سنگ میل کے جوائنٹ ایڈیٹر اور ویکلی ' یگ دھرم'کے ایڈیٹر رہ چکے ہیں ـ آپ کی اب تک درج ذیل پانچ کتابیں منظر عام پر آ چکی ہیں ـ 1 -' آتش فشاں' (انگریزی ناول کا اردو ترجمہ ) 2 - ودربھ میں جدید اردو شاعری (تحقیق و تنقید ) 3 - ' لبیک ' (رپورتاژ ) 4 -'حافظ ولایت اللہ حافظ : حیات و خدمات (تحقیق و تنقید ) 5 - احمد شوقی ایک مطالعہ (تحقیق و تنقید ) ـ اسی آپ نے چند ادبی کتابوں کو مرتب بھی کیا ہیں جن میں' غیر مسلم شعرا کی شعری خدمات' اہم ہے ـ پیشے سے آپ معلم رہے اور انجمن گرلس ڈگری کالج سے بہ طور پرنسپال سبکدوش ہوچکے ہیں، سردست ناگپور میں مقیم ہیں ـ
انعام و اعزاز:
ناول' آتش فشاں ' پر مہاراشٹر اردو ساہتیہ اکادمی کا انعام
بیسٹ ٹیچر ایوارڈ (ناگپور یونیورسٹی )
سماج رتن ایوارڈ (مہاراشٹر دلت ترن سنگھٹن، ناگپور)
فخر شعر و ادب (مراٹھی روز نامہ دیش انتی، ناگپور )
ادبی ایوارڈ (انصاری ملٹی پرپز سوسائٹی)
پیش کردہ افسانہ' کھیل 'ماہنامہ 'الفاط ہند ' کے اپریل کے شمارے سے ماخوذ ہے ـ
٭٭٭

تقریباً چار ماہ سے کوما میں رہنے کے بعد صادق بھائی نے اپنے بستر پر آنکھیں کھولیں تو ان کی آنکھیں حیرت سے پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ وہ سمجھ نہیں پا رہے تھے کہ آخر وہ کہاں ہیں۔ آنکھیں ملیں اِدھر اُدھر دیکھا تو کچھ سمجھ میں آیا کہ شاید وہ کسی ہسپتال کے بیڈ پر ہیں۔ انھیں یہ بھی یاد آیا کہ کچھ دن پہلے انھیں یرقان (Jaundice ) ہوا تھا۔ ان کا علاج گھر میں ہی ہو رہا تھا مگر اب وہ اس ہسپتال میں کیسے پہنچ گئے یا پہنچائے گئے ان کی عقل کام نہیں کر رہی تھی۔ جنرل وارڈ میں نظریں دوڑائیں تو وہاں سناٹا پسرا ہوا تھا۔ مریضوں کے سارے پلنگ خالی پڑے تھے۔ صادق بھائی نے لیٹے لیٹے ہی کمزور آواز میں چلایا، ”سسٹر! سسٹر! ڈاکٹر صاحب! ارے ہے کوئی یہاں۔۔!!“
وہ کچھ سمجھ نہیں پا رہے تھے کہ آخر ماجرا کیا ہے۔ کوئی ان کی آواز سن کیوں نہیں رہا ہے۔
اچانک انھیں کسی کے پیروں کی آہٹ سنائی دی۔ انھوں نے بستر پر لیٹے لیٹے ہی سر اٹھا کر دیکھا تو ایک نرس آہستہ آہستہ ان کی جانب آتی دکھائی دی۔ انھوں نے بے صبری سے کہا، ”سسٹر سسٹر میں کہاں ہوں اور میرے گھر کے لوگ کہاں ہیں۔“
نرس پلنگ کے کچھ فاصلے سے کھڑی ہوگئی اور اور کہا، ”باواجی! ٹھیک ہے۔۔۔ ٹھیک ہے۔۔۔ آپ ویسے ہی پڑے رہو ڈاکٹر صاحب آئیں گے۔۔۔“ پھر وہ آہستہ آہستہ لوٹ گئی۔
صادق بھائی کچھ سمجھ ہی نہیں پا رہے تھے کہ آخر یہ سردمہری کیوں ہے۔ ہمت کرکے پلنگ پر اٹھ کر بیٹھ گئے۔ اردگرد دیکھا تو وہی ہوُ کا عالم۔ سامنے رکھی پانی کی بوتل پر نظر پڑی تو انھوں نے ہاتھ بڑھا کر بوٹل اٹھائی اور ایک سانس میں پانی اپنے پیٹ میں انڈیل لیا۔ اب تھوڑی جان میں جان محسوس ہوئی۔ انھوں نے پلنگ پر بیٹھے بیٹھے پیر زمین پر رکھے اور کھڑے ہونے کی کوشش کرنے لگے۔ نقاہت کی وجہ سے ان کی آنکھوں میں اندھیری آگئی۔ وہ پھر سے پلنگ پر بیٹھ گئے۔
صادق بھائی ذہن پر زور ڈال رہے تھے وہ اگر ہسپتال میں ہیں تو یہاں دوسرے مریض کیوں نہیں ہیں۔ ڈاکٹرز اور نرسیں کہاں گئیں۔ اگر وہ ہسپتال میں ہیں تو ان کی بیوی، ایک بیٹی اور بیٹا انھیں چھوڑ کر کہاں چلے گئے۔ صادق بھائی نے دونوں ہاتھوں سے اپنا چہرہ صاف کیا اور انگلیوں سے آنکھوں کا کیچڑ نکال کر بالوں کو درست کرنے لگے۔ انھیں محسوس ہوا کہ ان کی داڑھی بھی بڑھ گئی ہے۔ اپنے سراپا پر نظر دوڑائی تو ان کے جسم پر پر سفید کرتا اور سفید پا ئجامہ تھا۔ غالباً ہسپتال سے ملا ہوگا۔ اب تک ان کی عیادت یا تیمارداری کے لیے کوئی نہیں آیا تھا۔ انھوں نے ہمت کی اور دیوار پر لگی لائٹ کی بٹن آن کردی۔ دیوار پر روشنی ہوگئی۔ دیوار پر ٹنگی گھڑی میں اس وقت شام کے ساڑھے چھے بج رہے تھے۔ سورج غروب ہو رہا تھا اس لیے اطراف میں اندھیرا تھا۔ اچانک قریب کی مسجد سے بہت آہستہ آہستہ اذان کی آواز آئی وہ سمجھ گئے مومن پورا جامع مسجد سے اذان ہو رہی ہے۔ انھوں نے غور سے اذان سنی۔ بڑا اطمینان اور سکون محسوس ہوا۔ لیکن اذان ختم ہوتے ہی مؤذن نے کہا،’’بھائیوں نماز اپنے گھروں میں ادا کیجیے۔‘‘ یہ بات اس نے دوبارہ دہرائی۔ صادق بھائی حیران تھے کہ آخر مؤذن نے نماز گھر میں پڑھنے کے لیے کیوں کہا۔
انھیں دنیا بدلی بدلی سی نظر آرہی تھی۔ ہسپتال مریضوں سے خالی۔۔۔ نرس ڈاکٹرز اپنی ڈیوٹی سے ندارد۔۔۔ اذان بھی جوش وخروش سے خالی۔۔۔ ان کی عقل کچھ کام نہیں کر رہی تھی۔ انھوں نے پاس میں رکھی ٹین کی چھوٹی سی الماری میں دیکھا کہ کچھ باسی سے سیب اور بسکٹ رکھے ہیں۔ وہ اتنے باسی کیوں ہیں۔۔۔ کیا ان کے پاس کئی دنوں سے کوئی آیا ہی نہیں ہے۔ سیب اور بسکٹ دیکھ کر وہ اپنی بھوک پر قابو نہ رکھ سکے اور انھوں نے آہستہ آہستہ دونوں چیزوں کو کھا لیا اور باٹل کا تھوڑا سا پانی بھی پی لیا۔ اب انھیں قدر ٰے توانائی محسوس ہو رہی تھی۔ انھوں نے بیٹھے بیٹھے سوچا کیوں نہ باہر جاکر دیکھیں کہ ماجرا کیا ہے۔ وہ چھوٹے چھوٹے قدموں سے دروازے کی جانب چل پڑے۔ پورے ماحول پر سناٹا چھایا ہوا تھا۔ وہ دھیرے دھیرے اس کیبن تک پہنچ گئے جہاں ایک نرس بیٹھی اونگ رہی تھی۔ ان کی نظر ٹیبل پر رکھے اخبار پڑی۔ انھوں نے بڑھ کر اخبار اٹھا لیا۔ پہلے صفحہ پر شہ سرخیوں میں خبر تھی، ’’ پورے ملک میں تالیاں اور تھالیاں خوب بجائی گئیں بعض شہروں میں لوگ گھروں سے نکل کر ناچ بھی رہے تھے۔ ‘‘ انھیں اخبار کی خبر بھی بدلی بدلی سی نظرآئی۔ انھیں کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ آخر کیا ہوا ہے۔ انھوں نے اخبار کی تاریخ پر نظر ڈالی تو 22مارچ 2020 لکھا تھا۔ پھر ان کا دماغ چکرانے لگا۔ وہ سوچ میں پڑ گئے۔ انھیں یاد آیا کہ وہ یکم دسمبر 2019 کو بیمار ہوئے تھے۔ اس کے بعد انھیں ہوش نہیں تھا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ وہ تقریباً چار ماہ کوما میں پڑے رہے۔۔۔ لیکن نہ جانے انھیں کیوں محسوس ہو رہا تھا کہ یہ سب باتیں کل کی ہی ہوں۔
صادق بھائی نے اخباروہیں رکھا اور اونگتی نرس پر ایک نظر ڈالی اور وارڈ سے باہر نکل گئے۔ باہر بھی وہی ‘ہو‘کا عالم تھا۔ ہر طرف سناٹا چھایاتھا۔ انھوں نے گھر جانے کا ارادہ کیا اور آٹو رکشا اسٹینڈ کی طرف چل پڑے۔ راستے میں نہ کوئی آدم نہ کوئی آدم زاد۔ آٹو اسٹینڈ پر بھی ویرانی چھائی تھی۔ کوئی آٹو رکشا بھی وہاں موجود نہیں تھا۔ انھوں نے سوچا کیوں نہ آہستہ آہستہ گھر کی طرف چلا جائے۔ یوں بھی ان کا گھر اس گورنمنٹ ہسپتال سے بہت دور نہیں تھا۔ چنانچہ وہ پیدل ہی چل پڑے۔ دیکھا تو ہے ہر طرف موت کی سی خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ سڑکوں پر دور دور تک ایک آدمی بھی نظر نہیں آرہا تھا۔ لمبی لمبی سڑکیں دور دور تک صاف نظر آرہی تھی۔ ہوا تازہ اور آلودگی سے پاک محسوس ہو رہی تھی۔ بڑی بڑی عمارتیں بے رونق تھیں۔ دکانوں پر تالے لٹک رہے تھے، ہوٹلیں بند پڑی تھیں۔
صادق بھائی یہ سب مناظر دیکھتے ہوئے خراما خراما آگے بڑھ رہے تھے مگر کچھ بھی سمجھنے سے قاصر تھے۔ جن سڑکوں پر ٹرافک کا یہ عالم ہوا کرتا تھا کہ تل رکھنے کو جگہ نہ ہوتی تھی آج وہاں ویرانی چھائی تھی۔ وہ تنِ تنہا سڑک پر چل رہے ہیں اور اپنی شہر میں ہی خود کو اجنبی محسوس کر رہے تھے۔
گورنمنٹ ہسپتال سے ان کا گھر محض تین کلومیٹر کے فاصلے پر ہوگا۔ آدھا فاصلہ تو وہ تو طے کر چکے تھے۔ گویا وہ اپنی ہی محلے کی سڑک پر چل رہے تھے۔ ان سڑکوں سے وہ نہ جانے دن میں کتنی بار گزرتے تھے مگر آج وہ یکسر بدلی نظر آرہی تھی۔ دور سے انھیں جامع مسجد کا مینار نظر آرہا تھا۔ انھوں نے گھر کی بجائے مسجد کا رخ کرلیا۔ مسجد کے قریب پہنچے تو وہاں بھی تالا لٹکا نظر آیا۔تالا ٹکا نظر آیا۔۔۔ اس کے ٹھیک نیچے ایک بورڈ آویزاں تھا جس پر جلی حرفوں میں لکھا تھا۔ ”کورونا کی وجہ سے سرکار نے لاک ڈاؤن کا حکم دیا ہے اس لیے مسجد میں باجماعت نماز نہیں ہوگی آپ اپنے اپنے گھروں میں نماز ادا کیجیے۔“ صادق بھائی حیرتوں میں ڈوب گئے ان کے اوسان خطا ہوگئے۔ دل کو سخت جھٹکا لگا۔ 'یا اللہ یہ کیا ماجرہ ہے۔' ان کی زبان سے نکلا وہ مسجد کے صدر دروازے کی سیڑھیوں پر بیٹھ گئے۔ اچانک وہاں ایک پولیس والا آن پہنچا۔ انھیں دیکھتے ہی اس نے زور سے سیٹی بجائی۔ پھر کیا تھا اطراف سے کئی پولیس والے نمودار ہوگئے۔ صادق بھائی سہم گئے۔ ایک پولس والے نے زور سے کہا، ’’ ارے یہ تو ہسپتال سے بھاگا ہوا کورونا پیشنٹ ہے۔‘‘
صادق نے کورونا لفظ پہلی مرتبہ سنا تو وہ حیرت سے پولیس والے کا منہ تکنے لگے۔ انھیں امید تھی کہ سارے پولیس والے اس سے ہمدردی کریں گے اور اسے گھر تک پہنچانے کی بات کریں گے۔ مگر یہ کیا! تمام پولیس والے ان کے قریب ہونے کی بجائے دور بھاگنے لگے۔ اچانک کہیں سے کچھ ٹی وی چینل کے نمائندے اور اخبارنویس آگئے۔ دور سے ہی ان سے پوچھا گیا، ’’ کیا آپ کا تعلق تبلیغی جماعت سے ہے۔‘‘
صادق بھائی نے سوچا۔ اچھا بتانے میں کیا ہرج ہے حالانکہ تبلیغی جماعت سے ان کا کوئی تعلق نہیں تھا پھر بھی مصلحت کے تحت انھوں نے حامی بھر دی۔ پھر کیا تھا کئی کیمرے والے ان کی فوٹوز لینے میں مصروف ہوگئے۔ کسی نے کہا، ’’آپ دلی سے کب لوٹے۔ ‘‘
’’ آپ نظام الدین مرکز میں کتنے دن رہے۔۔ وہاں سے آنے کے بعد آپ کہاں چھپے تھے۔؟‘‘
صادق بھائی کا سر چکرانے لگا انھیں سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ معاملہ کیا ہے؟ جامع مسجد تو ان کے محلے کی مسجد ہے۔ یہاں کے بیشتر لوگ انھیں پہچانتے ہیں مگر آج کیا بات ہے کہ کوئی نظر ہی نہیں آ رہا تھا۔ اچانک ایک ایمبولینس آ کر رکی۔۔۔ ایک پولیس والے نے زمین پر ڈھنڈا پٹکتے ہوئے کہا،
’’چلو حضرت گاڑی میں بیٹھ جاؤ۔۔۔ ‘‘
اس کے رویے سے یوں لگ رہا تھا گویا اس کے ہتھے کوئی انعامی دہشت گرد لگ گیاہو۔ صادق بھائی حیرت سے سب کو تک رہے تھے۔ ان کے تئیں کسی کے چہرے پر کوئی ہمدردی یار حم نظر نہیں آرہا تھا۔ پولیس والے نے پھر سے زمین پر ڈنڈا پٹکا اور وین میں بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ صادق بھائی نے وین میں بیٹھنے میں ہی عافیت سمجھی۔ انھیں دین سے دوبارہ اسی گورنمنٹ ہسپتال میں لایا گیا۔ اس مرتبہ انھیں دوسرے وارڈ میں رکھا گیا۔ پہلے انھیں سینی ٹایزڈ کیا گیا۔ پھر ایک ماسک پہنایا گیا۔
یہ سب کام ایسے لوگ کر رہے تھے جو پوری طرح نقاب پوش تھے۔ ہاتھوں میں دستانے، چہرے پر ماسک اور بدن پر پلاسٹک کا کوٹ پہنے ہوئے تھے۔ صادق بھائی کو کچھ بھی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ معاملہ کیا ہے۔ وہ سوچ رہے تھے کہ کیا وہ کوئی خواب دیکھ رہے ہیں؟ یا وہ کسی دوسری دنیا میں پہنچ گئے ہیں۔ ان کا سر چکرا رہا تھا۔ بھوک کی شدت سے اس قدر نقاہت تھی وہ غش کھا کر گر گئے۔ پھر انھیں ہوش نہیں رہا۔۔۔
دوسرے دن صبح انھیں ہوش آیا تو انھوں نے خود کو بیڈ پر پایا۔ آس پاس کوئی بھی نہیں تھا۔ دور ایک نرس کھڑی تھی جو مکمل حجاب میں تھی۔ صادق بھائی نے اسے اشارے سے بلایا اور صورت واقعہ جاننے کی کوشش کی اس نے ہاتھ کے اشارے سے انھیں خاموش رہنے کے لیے کہا، ڈاکٹرز اور نرسیں باری باری ان کے بیڈ کے پاس آتے اور چلے جاتے۔ صادق بھائی کچھ کہنے کی کوشش کرتے انھیں شور مچانے سے منع کر دیا جاتا۔ سارے معاملات صادق بھائی کے عقل سے پرے تھے۔ انھیں کچھ بھی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کس سے درد رسی کرے اور کس کو اپنا غم سنائے۔ پھر انھوں نے سوچا کیوں نہ زور سے چیخ کر بتایا جائے کہ وہ بھوک سے مرےجارہے ہیں۔ انھوں نے جسم کی ساری توانائی یکجا کی اور زور سے چلایا، ’’مجھے بھوک لگی ہے۔۔۔ کچھ کھانے کو دو۔۔۔ میں مرجاؤں گا۔۔۔ ‘‘
یہ سنتے ہی ڈاکٹرز نے کچھ ٹی وی اور اخباری نمائندے کو بتایا کہ یہ مریض خواہ مخواہ چلارہا ہے اور کھانے کی فرمائش کر رہا ہے۔ کئی ٹی وی چینل کے نمائندے اور اخباروں کے نامہ نگار ان کے قریب آگئے۔ ایک نے پوچھا، ’’ کیا آپ کا تعلق تبلیغی جماعت سے ہے؟ ‘‘ صادق بھائی نے جھنجھلا کر کہا، ’’ ہاں بھائی ہاں۔۔۔ مجھے کھانا دو۔۔۔ بھوک سے میں مرجاؤں گا۔ ‘‘ صادق بھائی نے جوں ہی بولنا شروع کیا سارے ٹی وی اخبار والے ان کی تصویریں لینے لگے۔
ایک نمائندے نے کہا، ’’ آپ کو یہ کرو نا کب اور کہاں سے ملا۔ ‘‘ صادق بھائی کورونا لفظ سن کر پھر چونک گئے۔ انھوں نے سوچا یہ ’’ کرو نا ‘‘ کسی بلا کا نام ہے۔ ان کی زبان سے صرف اتنا نکلا، ’’کورونا۔‘‘ کچھ لوگوں نے کہا ہاں ہاں کورونا۔ صادق بھائی نے پھر بدبدایا۔ ’’ یہ کورونا کیا ہے۔ ‘‘ وہاں موجود سب لوگ آپس میں سرگوشی کرنے لگے۔ ارے یہ جماعتی ہیں انھیں دنیا کی کوئی خبر نہیں ہوتی۔ یہ صرف آسمان کے اوپر اور زمین کے نیچے کی بات کرتے ہیں۔ صادق بھائی نے زور سے کہا، ’’ آپ لوگ کیا بات کر رہے ہو؟ مجھے بھوک لگی ہے کچھ کھانے کو دو۔۔۔ ‘‘ اس کے بعد کچھ ڈاکٹرز اور نرسوں نے گھیر لیا اور کہا ’’ آپ کو کھانا ضرور ملے گا اس سے قبل ہمیں آپ کا بلڈ ٹیسٹ کروانا ہے۔ ‘‘ پھر ان کا بلڈ نکالا گیا۔ صادق بھائی کو اس قدر نقاہت تھی کہ تھوڑا بلڈ نکالنے پر انھیں غشی آگئی۔۔۔ جب ہوش آیا تو انھوں نے دیکھا ان کے دونوں ہاتھوں میں سلائین لگی ہے۔ اور کچھ ڈاکٹرز ان کے قریب کھڑے ہیں۔ صادق بھائی نے آنکھیں کھولیں تو ایک ڈاکٹر نے ان سے کہا، ’’حضرت مبارک ہو آپ کی رپورٹ آ گئی ہے۔ آپ کو کورونا نہیں ہے۔ آپ گھر جا سکتے ہیں۔۔۔ لیکن کچھ دن ہسپتال میں رہنا ہوگا۔۔۔! ‘‘
صادق بھائی قدرے توانائی محسوس کر رہے تھے۔ انھوں نے بیڈ پر لیٹے لیٹے ہی ائی سی یو کا جائزہ لیا۔ وہاں دو مریض مزید موجود تھے۔ ایک مریض کا کوئی رشتہ دار بھی وہاں کھڑا تھا۔ صادق بھائی کی طرف دیکھ کر اس نے کہا، ’’ مبارک ہو جناب! آج کے اخبار میں آپ کا فوٹو شائع ہوا ہے اور کل سے الیکٹرانک میڈیا میں آپ کی دھوم ہے۔۔۔ کہا جارہا ہے کہ آپ نے علاج کے دوران کھانے کا مطالبہ کیا۔۔۔ آپ کورونا کے متعلق کچھ بھی نہیں جانتے۔۔۔ اور نرسوں کے ساتھ بدتمیزی سے پیش آرہے ہیں۔۔۔ ‘‘ ایسے الزامات سن کر صادق بھائی دل ہی دل میں تاؤ پیچ کھانے لگے۔ نقاہت کی وجہ سے وہ زیادہ کچھ بول نہیں سکے صرف اتنا کہا، ’’اللہ دیکھ رہا ہے۔۔۔ سب ٹھیک ہو جائے گا۔۔۔ ‘‘ پھر انھیں اپنی بیوی بچوں کی یاد آئی۔ انھوں نے کہا، ’’ بھائی میرے گھر کے لوگوں کو اطلاع دے دو کہ میں یہاں آئی سی یو میں ایڈمٹ ہوں۔ ‘‘
اس سخص نے کہا، ’’ بھائی صاحب آپ کے گھر
کے سارے لوگوں کو پولیس نے کورنٹائن میں ڈال دیا ہے۔۔۔ اس کی خبر بھی آج کے اخبار میں شائع ہوئی ہے۔۔۔ ‘‘ صادق بھائی اب بھی کچھ نہیں سمجھ پا رہے تھے کہ آخر یہ کورونا کیا ہے اور ہر طرف سناٹا کیوں ہے؟ وہ دل ہی دل میں سوچ رہے تھے کہ اگر کورونا بیماری کا نام ہے تو بیماری میں تو لوگ مریض سے ہمدردی سے پیش آتے ہیں۔ یہ لوگ مریض سے نفرت کیوں کر رہے ہیں۔ تیمارداری کی بجائے دور دور کیوں بھاگ رہے ہیں۔ لوگ اس قدر خود غرض کیوں ہوگئے ہیں۔ سڑکیں کیوں ویران ہیں۔ دکانیں کیوں بند ہیں، مسجد پر تالے کیوں لٹک رہے ہیں۔ یہ سوچ کر ان کا سر چکرانے لگا اورانھیں غنودگی نے آن گھیرا۔
دو دن بعد ایک ڈاکٹر نے صادق بھائی کواطلاع دی کہ اب انھیں چھٹی دی جاتی ہے کیونکہ اب وہ بالکل تندرست و توانا ہیں۔ انھیں کورونا وائرس کا کوئی اثر نہیں ہے۔ صادق بھائی نے ساری باتیں غور سے سنیں اور کہا ڈاکٹر صاحب میں تو جانڈس کا مریض ہوں۔ ڈاکٹر نے فوراً کہا یس یس آءی نو۔ آپ وارڈ نمبر ٣ میں ایڈمٹ تھے اور چار مہینے سے کوما میں تھے۔ آپ میرے ہی زیر علاج تھے۔ کرونا کی وجہ سے ہماری ڈیوٹی اسپیشل ٹاسک میں لگا دی گءی ہے۔ وارڈ نمبرتین کے تمام مریضوں کو وارڈ نمبر پانچ میں شفٹ کردیا گیا ہے۔ صادق بھائی نے کہا ڈاکٹر صاحب اب مجھے جانڈس تو نہیں ہے نا۔۔ نو نو آپ بالکل فٹ ہو نو ڈسیس ایٹ آل۔۔ یہ کہتے ہوءے ڈاکٹر نے اپنے دونوں مونڈھےاچکاءے اور صادق بھائی کے کاندھے پر ہاتھ رکھتے ہوءے مزید کہا بی کیف فل مسٹر۔ آپ اپنا دھیان رکھیے۔کورونا بھیانک بیماری ہے۔ گھر میں رہیے گھر سے باہر مت نکل ءے تو محفوظ رہوگے۔۔ یہ کہتے ہوئے ڈاکٹر نے نرس کی طرف اشارہ کیا۔ نرس نے ایک گلدستہ صادق بھائی کی طرف بڑھایااور ڈاکٹر صاحب نے ایک فٹنس سرٹیفکیٹ سے نوازا۔ نقاہت کے باوجود صادق بھائی کے لبوں پر مسکراہٹ کھل گئی۔ جب وہ خود سے چل کر وارڈ کے گیٹ پر پہنچے تو قطار میں کھڑے ڈاکٹرز اور نرسیں ان کے اعزاز میں تالیاں بجا رہے تھے۔۔۔ گویا کھیل ختم ہو گیا ہے۔۔۔
٭٭٭

تبصرہ و تجزیہ
ریحان کوثر:
افسانے میں ’صادق بھائی‘ ایک علامت ہے۔ میری آپ کی ہم سب کی علامت۔۔۔!! افسانے میں وہ ہماری نمائندگی کر رہے ہیں۔ کوما میں ہونا یہ تو بس صادق بھائی کی دماغی اور جسمانی کیفیت تھی۔ دراصل موجودہ صورت حال، حالات اور واقعات اس قدر بوجھل ہوتے جا رہے ہیں کہ بعض لوگ شاید آج بھی کوما میں ہی نظر آ رہے ہیں۔
کوما کیا ہے؟ کوما میں بے ہوشی طاری ہوتی ہے اور دماغ کی سرگرمی کم ترین سطح پر آجاتی ہے۔ ایسے افراد زندہ ہوتے ہیں لیکن انہیں جگایا نہیں جا سکتا۔ وہ ایسی علامات ظاہر نہیں کرتے جن سے معلوم ہو کہ وہ اردگرد سے آگاہ ہیں۔ ایسے میں فرد کی آنکھیں بند ہوں گی اور اردگرد کے ماحول میں ہونے والی تبدیلیوں پر ردعمل ظاہر نہیں کرے گا۔ کوما کی حالت میں افراد عام طور پر آواز یا درد کی صورت میں ردعمل ظاہر نہیں کرتے۔ نہ وہ کچھ کہہ سکتے ہیں اور نہ خود حرکت کر سکتے ہیں۔ آب اپنے آس پاس اس طرح کی علامتیں تلاش کریں اور دیکھیں کہ کون کون کوما میں ہیں اور ان کی اسٹیج کون سی ہے۔ کچھ چیزوں کا نارمل ہونا نارمل نہیں ہوتا اور آج کل تو نیو نارمل کا رواج عام ہوتا جا رہا ہے۔
ایک ہی میز پر گرما گرم چائے اور ٹھندا ٹھنڈا شربت رکھا ہو اور پینے والوں سے پینے میں تاخیر ہو جائے تو اس میں سے ایک چیز ٹھنڈی اور ایک چیز گرم ہو جاتی ہے۔ یہ کیفیت بالکل عجیب نہیں بلکہ نارمل ہے کہ چائے ٹھنڈی اور شربت گرم ہو جاتا ہے۔ کمال کی بات یہ ہے کہ یہ سب ایک ہی میز پر ہو رہا ہے اور ہمیں ذرا بھی حیرت نہیں ہوتی۔ لیکن اسی حالت میں اسی میز پر چائے مزید گرم اور شربت مزید ٹھنڈا ہونے لگے تو کیا ہمیں حیرت نہیں ہوگی۔ بالکل ہوگی ہم اسے کوئی کرشمہ ہی سمجھیں گے۔ دراصل ہمارے آس پاس ایک بہت ہی خطرناک کھیل کھیلا جا رہا ہے لیکن ہم اسے نارمل ہی سمجھ رہے ہیں۔ ہمیں افسانہ نگار نے یہ سب صادق بھائی کی نظروں سے دکھانے کی کوشش کی ہے۔ جس میں وہ کامیاب نظر آتے ہیں۔
زیر نظر افسانہ کھیل کا شاید میں پہلا قاری ہوں الفاظ ہند کے خصوصی شمارے ’لاک ڈاؤن زندگی‘ کی ترتیب و تدوین کے دوران اسے پڑھ چکا ہوں۔ بزم میں لاک ڈاؤن یا کورونا وائرس کے پس منظر پر جتنے بھی افسانے پیش کئے گئے تقریباً سارے ہی اس شمارے میں شامل ہیں۔ ڈاکٹر محمد اظہر حیات صاحب ایک سنجیدہ قلم کار ہیں اور آپ نے منی افسانے خوب لکھے ہیں۔ بزم اور بزم کے باہر میں نے ان کے کافی تبصرے اور تجزیے پڑھ چکا ہوں۔ ان تبصروں میں اکثر ان کا زاویۂ نظر اور نکات بعض مبصرین سے مختلف ہوتے ہیں اور کبھی کبھی ان کا اختلاف مجھ سے بھی رہا ہے۔
لاک ڈاؤن اور کورونا وائرس وبا پر طنز آمیز یہ افسانہ ان کی اسی اختلاف رائے کا اظہار ہے جو ان کے تبصروں میں نظر آتا ہے۔ افسانے کا مختلف نکتہ نظر یہ ہے کہ انھوں نے اس موجودہ کھیل کو ایک ایسے شخص کی نظر سے دیکھا ہے جو اس کھیل کے شروع ہونے سے پہلے ہی کوما میں چلا گیا تھا اور یہ کھیل جب اپنے شباب پر ہوتا ہے تب وہ کوما سے واپس آتا ہے اور ایک مختلف دنیا کا نظارہ کرتا ہے۔
کورونا وائرس اور لاک ڈاؤن ایک کھیل ہے اس پر زیادہ تر متفق ہیں لیکن یہ کھیل کس کا رچا ہوا ہے اس پر اختلاف ہے۔ لیکن آج ہم سب دیکھ بھی رہے ہیں اور جی بھی رہے ہیں۔ حال ہی میں ایک کورونا کے موضوع پر افسانہ نظر سے گزرا اس پر تبصرہ کرتے ہوئے میں نے کچھ ہوں کہا تھا،
ایک مرتبہ میرا بیٹا ایان ٹیلیویژن پر کرافٹ بنانے کا پروگرام دیکھ رہا تھا کہ اچانک کاغذ، گم اور رنگ وغیرہ جمع کرنے لگا۔ کچھ وقت پروگرام دیکھتا اور کچھ وقت ان سب اشیاء کو جمع کرتا رہا۔ وہیں اس کی امی یہ سب دیکھ رہی تھیں کہ بول پڑی،
”بیٹا ایان! کیا کر رہے ہیں آپ؟“
اس نے جواب دیا، ”امی یہ جو ٹیلیویژن پر بتایا جا رہا ہے اسے بنانے بیٹھا ہوں۔“
تب اس کی امی نے کہا،
”بیٹا کرافٹ اس طرح گڑبڑی میں نہیں بنتا پہلے اچھی طرح دیکھو، سمجھو اور سیکھ لو پھر اطمینان سے بیٹھ کر بالکل ویسا ہی بنانا۔ دیکھنا کرافٹ بہت خوبصورت بنے گا۔“
اس واقعے کو یہاں بیان کرنے کا مقصد یہی ہے کہ ہمیں کورونا کے موضوع کو اٹھاتے ہوئے ذرا سا صبر و تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ یہ جو دن گزر رہے ہیں انھیں اچھی طرح گزر جانے کے بعد اس موضوع پر کہانیاں بنائی جائے تو وہ کسی خوبصورت کرافٹ سے کم نہیں ہوگی۔
اس اقتباس کو یہاں پیش کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اس اقتباس میں جو بات کہی گئی ہے وہ اس موضوع کے متعلق میرا نظریہ ہے۔ لیکن اس افسانے پر یہ مثال نہیں بیٹھتی۔ کیوں کہ اس افسانے میں مریض کورونا کا نہیں ہے۔ وہ پیلیا یا کوما کا مریض بھی نہیں ہے۔ میرا خیال تو یہ ہے کہ وہ مریض ہی نہیں ہے بلکہ ایک شکار ہے۔ اسی ملک میں ایک جماعت، ایک گروپ، ایک مذہب، ایک مخصوص علاقہ شکار ہو گئے۔ ہو سکتا ہے یہ ان کی نادانی تھی جس کی سزا انھیں یعنی ہمیں مل گئی۔ اب ان مکار شکاریوں کی باری ہے۔۔۔ اور سب سے اہم یہ کہ یہ سب کھیل جہاں کھیلا گیا وہ ملک اب ٹاپ فائیو میں نظر آ رہا ہے۔
اس افسانے میں کوئی بات نئی نہیں۔۔۔ کوئی بات ایسی بھی نہیں ہے کہ جو ہم نہیں جانتے یہ ہماری نظر میں معمولی اور نارمل ہے لیکن یہ تمام باتیں افسانے میں جس سلیقے سے ایک ہی دھاگے میں پرو کر پیش کی گئی وہ قابل تعریف ہے۔ ہاں ایک بات مجھے ضرور ذرا عجیب لگی کہ کورونا کے مریض کا بلڈ ٹیسٹ؟ لیکن ذرا سی تحقیق سے بات صاف ہو گئی کہ
کورونا وائرس کے ٹیسٹ کے دو اقسام ہوتے ہیں۔ اگر مریض کے خون کا نمونہ لیا جائے تو اس کا مطلب ہے کہ اس میں موجود اینٹی بوڈیز سے اندازہ لگایا جائے گا کہ مریض کے جسم میں وائرس موجود ہے یا نہیں۔ اگر سواب ٹیسٹ ہوتا ہے تو مریض کے منھ سے نمونہ لیا جاتا ہے جو ’پولیمریز چین ری ایکشن‘ یا پی سی آر ٹیسٹ کے لیے موزوں ہے۔
اس کے علاؤہ اس افسانے میں خوبیاں اور خامیاں تلاش کرنے کی مزید گنجائش ہو سکتی ہے جو ہمیشہ کی طرح باقی ممبران تلاش کر رہے ہیں اور نشاندھی بھی کر رہے ہیں۔ لیکن میری جانب سے افسانہ نگار ڈاکٹر محمد اظہر حیات صاحب کو اس افسانے کے لیے مبارکباد اور بزم میں پیش کئے جانے پر نیک خواہشات۔
٭٭٭

Post a Comment

0 Comments