بزم افسانہ کی پیش کش
*ترجمہ
(تبصرہ و تجزیہ)
*اور اُس وقت
بنگلہ : سنیل گنگوپادھیائے
اردو : شبیر احمد، کولکاتا
بچہ ست ماسا تھا ۔ سات مہینے دس دن ہی پیٹ میں رہا ۔ اس کی بے تابی ماں کے پیٹ ہی میں ظاہر ہونے لگی تھی ۔ شاید وہ اس دنیا میں جلد آناچاہتاتھا ۔ سیّال مادے سے بھری تنگ و تاریک کوٹھری میں اسے رہنا اور گوارا نہ تھا ۔
رام کمل سنگھوان دنوں زمینداری کی دیکھ بھال کے سلسلے میں اڑیسہ آئے ہوئے تھے ۔ شام کا وقت تھا ۔ رام کمل سنگھو مہاندی کے بیچوں بیچ ہاءوس بوٹ کے عرشے پر بیٹھے تھے ۔ غروبِ آفتاب کے خوش نما منظر سے لطف اندوز ہو رہے تھے کہ اچانک ایک چھوٹی سی ناوَ ہاءوس بوٹ سے آ ٹکرائی ۔ رام کمل سنگھو کا گماشتہ، دیباکر ناوَ سے اچھل کر ہاءوس بوٹ پر چڑھ آیا ۔ دیباکر کو اس طرح آتادیکھ کر رام کمل سنگھو کا دل دھک سے ہوگیا ۔ ندی کے بیچوں بیچ بہنے والی فرحت بخش ہوا فضا کو خوشگواربنارہی تھی ۔ ایسے خوشگوار ماحول میں دیباکر جو ناخوشگوار خبرلے کر آیاتھا، آپ شاید اس کا اندازہ لگا سکتے ہیں ۔ رام کمل سنگھو نے بھی اس کا اندازہ لگا لیا تھا، ’’لگتا ہے بمباوتی نہیں رہی ۔ ‘‘ دیباکر کا بھی کچھ ایسا ہی خیال تھا ۔ وہ گھر پر اپنی مالکن کو بے ہوش ،نیم مردہ حال میں چھوڑ کر آیاتھا ۔ اس قدر غم زدہ تھاکہ اپنے مالک کی ٹھیک سے ڈھارس بھی نہیں بندھا پارہاتھا ۔ صرف اتنا کہہ پایا، ’’مالک، آج ہی لوٹ جانا بہتر ہوگا ۔ وکیل بابو نے مجھے یہاں بھیجا ہے ۔ ‘‘
رام کمل سنگھو کی آنکھوں سے آنسوبہنے لگے ۔ کچھ بھی ہو بمبا وتی تو ان کے گھرکی لکشمی تھیں ۔ رام کمل سنگھو عرشے سے اتر کر ہاءوس بوٹ کے اندر والے کمرے میں داخل ہوئے اور کملا سندری کے سامنے ٹوٹ کر رہ گئے ۔ کہنے لگے، ’’آج میں بے سہارا ہوگیا ۔ زندگی کا تمام سکھ چین جاتارہا ۔ ‘‘
کملا سندری نے رام کمل سنگھو کو سہارا دے کر بستر پر لٹایا اور پیار سے ان کے سر پر آہستہ آہستہ ہاتھ پھیرنے لگی ۔ بمباوتی کو یاد کرکے اس نے بھی دوچار قطرے آنسو بہائے ۔ گنگا گھاٹ پر دور سے اس نے بمباوتی کو کئی بار دیکھا تھا ۔ ’’بس ماں درگا کا روپ تھیں ۔ کملا سندری تو ان کی داسی بننے کے بھی قابل نہیں ۔ گھر میں اتنی حسین بیوی کے ہوتے ہوئے رام کمل سنگھو کادل دوسری عورتوں کی جانب کیوں پلٹتاہے! ! کیوں وہ ہر دو تین سال بعد داشتہ بدل لیتے ہیں؟ ‘‘ ان سوالوں کے جواب تک پہنچ پانا کملا سندری کے لیے دشوار تھا ۔ کملا سندری ایک سیاہ فام عورت تھی، لیکن اس کے جسم میں ایک طرح کی دمک تھی ۔ رام کمل سنگھو کی بیوی کارنگ سفید تھا، جس میں ہلکی ہلکی سرخی جھلکتی تھی ۔ شاید یہی وجہ تھی کہ وہ سیاہ فام عورتوں کوہی داشتہ بنانا پسند کرتے تھے ۔ ذوق بدلنا مردانہ فطرت جو ٹھہری!
کملا سندری نے چاندی کے ایک پیالے میں تھوڑی سی برانڈی ڈالی اور رام کمل سنگھو کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا، ’’لیجیے، پی لیجیے، ورنہ آپ اور زیادہ کمزور ہوجائیں گے ۔ ‘‘
رام کمل سنگھو نے بائیں ہاتھ سے پیالا ہٹاتے ہوئے کہا، ’’میرادل نہیں چاہتا ۔ کیوں پریشان کرتی ہے، کمل؟ میرے سامنے سے ہٹ جا ۔ مجھے اکیلا چھوڑدے!
کملا سندری کھڑکی کے پاس گئی اور اپنی زلفیں بکھیر دیں ۔ باہر ڈوبتے ہوئے سورج کی کرنیں ندی کی موجوں سے اٹکھیلیاں کر رہی تھیں ۔ وہ اس منظر پر نظریں ٹکائے سوچنے لگی، ’’شاید ہم سے ان کا من بھر گیا ہے ۔ دیکھتے ہیں اب ہماری قسمت ہ میں کہاں لے جاتی ہے؟ ‘‘
رام کمل سنگھو نرم بستر پر لیٹے سسکیاں بھررہے تھے ۔ غم سے ان کا کلیجا پھٹا جارہا تھا ۔ ہاوس بوٹ چلنے لگی تھی ۔
تین دن بعد رام کمل سنگھو کلکتہ پہنچے ۔ جوڑ ا سانکو کے علاقے میں ان کی حویلی تھی ۔ وہ جب حویلی میں داخل ہوئے تو ان کے کانوں میں کسی نوزائیدہ بچے کے رونے کی آواز آئی ۔ انھوں نے حیرت سے دیباکر کو دیکھا ۔ دیباکر نے لاعلمی کا اظہارکیا ۔ بمباوتی کا مرض دراصل کوئی مرض نہیں تھا ۔ دردِزہ تھا ۔ لیکن یہ بات دیباکر کی سمجھ میں نہ آسکی تھی ۔ ویسے بھی ساتویں مہینے میں بچے کی پیدائش خلافِ معمول ہی ہوا کرتی ہے ۔ آٹھواں مہینہ ہوتاتو کوئی بات تھی ۔
رام کمل سنگھو کی عمر سینتالیس سال تھی ۔ وہ پندرہ برس قبل بمباوتی کوبیاہ کرلائے تھے ۔ بمباوتی ان کی تیسری بیوی تھی ۔ اس سے قبل ان کی دوبیویاں کم عمری میں بھگوان کو پیاری ہوچکی تھیں ۔ انھیں اپنی پہلی بیوی لکشمی مانک کی تھوڑی بہت باتیں یاد تھیں ۔ لیکن دوسری بیوی ہیم بالا کی تو صورت بھی اب انھیں یاد نہ تھی ۔ بمباوتی نو سال کی عمر میں اس گھر میں دلہن بن کر آئی تھیں ۔ اس وقت اس گھر کا جغرافیہ ہر گز ایسا نہ تھا ۔ جب بمباوتی اس گھر میں آئیں ، تو وہ اپنے ساتھ ڈھیر ساری خوشیاں لے آئیں ۔ اس کے قدم سنگھو گھرانے کے لیے بابرکت ثابت ہوئے ۔ اب کیاتھا ۔ رام کمل سنگھو مٹی بھی چھوتے تھے تو وہ سونا بن جاتی ۔ اتنی خوشحالی لانے کے باوجود بمباوتی کے من میں ایک کسک باقی تھی، ’’ میں انھیں ایک وارث نہ دے سکی ۔ ‘‘ دوستوں اور رشتے داروں نے بہت سمجھایا ۔ حتیٰ کہ خود بمباوتی نے بھی آنکھوں میں آنسو بھر کر رام کمل سنگھو سے التجا کی تھی کہ وہ دوسری شادی کرلیں لیکن رام کمل سنگھو نے ایسا نہیں کیا ۔
رام کمل سنگھو سیڑھیاں پھلانگتے ہوئے اوپرچڑھنے لگے ۔ دوسری منزل کے آخری زینے کے قریب بِدھوشیکھر کھڑے تھے ۔ بِدھوشیکھراور رام کمل سنگھو ایک جان دو قالب تھے ۔ بچپن کے یار تھے ۔
رام کمل سنگھو کام کاج کے سلسلے میں اکثر باہر جایاکرتے تھے ۔ ان کی عدم موجودگی میں گھر کی تمام دیکھ بھال بِدھوشیکھر ہی کیاکرتے تھے ۔ وہ ایک منجھے ہوئے وکیل تھے ۔ ان کا دماغ تیز اور دل کشادہ تھا ۔ رام کمل سنگھو لا ابالی طبیعت کے مالک تھے ۔ وہ اپنے اس رفیق کو گھر کی تمام ذمہ داریاں سونپ کر بے فکر ہوجایاکرتے تھے ۔
رام کمل سنگھو نے بِدھوشیکھر سے پوچھا، ’’سب کچھ ختم ہوگیا؟ ‘‘
بِدھو شیکھر نے اپنے یار کو چھاتی سے لگاتے ہوئے تسلی دی، ’’توآگیاہے، اب کوئی فکر نہیں ۔ جاپہلے نہا دھولے ۔ پھر اطمینان سے سب سننا؟ ‘‘
رام کمل سنگھو نے بِدھوشیکھر کا چہرہ دیکھا اور بڑی بے تابی سے کہا، ’’پہلے بتا، بمباوتی کا کیا حال ہے؟ کیا میں اسے دیکھ پاءوں گا؟ ‘‘
دونوں دوست ایک دوسرے سے بغل گیر تھے ۔ اسی حالت میں دونوں بمباوتی کے کمرے کے دروازے کے پاس آکھڑے ہوئے ۔
ایک بڑے سے پلنگ پر بمباوتی آنکھیں موندے چت پڑی تھیں ۔ دونوں ہتھیلیاں پرنام کرنے کی حالت میں سینے پر دھری ہوئی تھیں ۔ چہرے کا رنگ پھیکا پڑ چکا تھا ۔
پلنگ کی دائیں جانب تین انگریز ڈاکٹر مخمل کے صوفے پر چپ چاپ بیٹھے تھے ۔ بائیں جانب نامور کویراج دین دیال بھیشگ شاستری بیٹھے تھے ۔ ان کی دونوں آنکھیں بند تھیں ۔ یہ ان کا عام انداز تھا ۔ دکنی بھارت کی ایک آیابھی وہاں موجود تھی ۔ اس کی گود میں کپڑے کی ایک پوٹلی سی تھی،جس سے مسلسل رونے کی آواز آرہی تھی ۔ آواز خاصی زور دارتھی ۔ کہتے ہیں کہ ولادت کے بعد جو بچہ روتاہے، اس کی قوتِ حیات کے بارے میں فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں ہوتی ۔
بِدھوشیکھر نے علاج معالجہ میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی ۔ رام کمل سنگھو کے گھربیٹا پیداہواتھا، لیکن رام کمل سنگھو نے اب تک خوشی کا کوئی اظہار نہیں کیاتھا ۔ وہ بمباوتی کولے کر دل برداشتہ تھے ۔ بمباوتی ان کے دل کی دھڑکن تھیں ۔
رام کمل سنگھو نے اداس لہجے میں پھر دہرایا، ’’سب ختم ہوگیا؟ ‘‘
بِدھو شیکھر نے کہا، ’’نہیں ، ابھی جان باقی ہے ۔ ستی لکشمی تیرے انتظار میں ہے ۔ وہ آخری بار ملاقات کیے بغیر ہ میں چھوڑ کر کیسے جاسکتی ہے؟ ‘‘
رام کمل سنگھو نے سمجھاکہ بمباوتی کی حالت اب تب کی ہے ۔ وہ گھبراہٹ کے عالم میں اس کی طرف لپکے ۔ انگریز ڈاکٹروں میں سے سرجن گارڈن اٹھے اور ان کے سامنے دیوار کی طرح حائل ہوگئے ۔ سخت اور قدرے دھمکی آمیز لہجے میں کہا، ’’ڈونٹ ڈسٹرب ہر ناوَ...... پلیز........ دیئرآر اینف چانسزدیٹ شی وِل سروایو ۔ ‘‘
رام کمل سنگھو نے عاجزی کی، ’’ایک بار، صرف ایک بارمجھے اس کے پاس بیٹھنے دیجیے ۔ ایک بار صرف ایک بار مجھے اسے چھونے دیجیے ۔ میں اس سے کچھ نہیں کہوں گا ۔ ‘‘
بِدھوشیکھر نے بھی ڈاکٹر سے التجا کی ۔ سرجن گارڈن ایک جانب سرک گئے ۔ اپنی جیب سے سونے کی ایک گھڑی نکالی اوربغور دیکھنے لگے ۔
رام کمل سنگھو نے جلد ی جلدی اپنا ناگرا جوتا کھولا اور دبے پاءوں بیوی کے بستر کے پاس آ کھڑے ہوئے ۔ ان کا دل کانپ رہا تھا ۔ کمرے میں انھیں ایک عجیب سی مہک کا احساس ہوا، ’’کہیں یہ یمراج کے جسم کی مہک تو نہیں ‘‘ انھوں نے بمباوتی کی خواب گاہ میں پہلے کبھی ایسی مہک محسوس نہیں کی تھی ۔
رام کمل سنگھو نے بمباوتی کی پیشانی پر ہتھیلی رکھی ۔ پیشانی سرد پڑچکی تھی ۔ وہ ٹھٹک گئے ۔ اپنا وعدہ بھول کربھرائی ہوئی آواز میں بول پڑے، ’’بمبی، بمبی، دیکھو میں آگیا ہوں ۔ بمبی میں آگیا ہوں ۔ ‘‘
لیکن بمباوتی کے کانوں تک ان کی آواز نہیں پہنچی ۔ ان کا جسم پلنگ پر بے حس و حرکت پڑا تھا ۔
سرجن گارڈن ’’پلیز پلیز‘‘ کہنے لگے ۔ کویراج نے بھی آنکھیں کھول دیں اور کہا، ’’سنگھی بابو بھگوان کوپکاریے ۔ بیوی کو پکارنے سے کوئی لابھ نہیں ۔ بھگوان نے چاہا تو سب ٹھیک ہوجائے گا ۔ ‘‘
رام کمل سنگھو نے خو د کو سنبھا لا ۔ وہ بمباوتی کے پاس سے اٹھ کر باہر جانے لگے ۔ اتنے بڑے بڑے ڈاکٹر اور کویراج یہاں موجو دتھے ۔ انھوں نے ان کے سامنے بچوں جیسی حرکتیں کرنامناسب نہیں سمجھا ۔
جب وہ بمباوتی کے کمرے سے باہر آرہے تھے تو بِدھو شیکھر نے ان سے پوچھا، ’’بیٹے کو نہیں دیکھا!‘‘
آیاکی طرف دیکھتے ہوئے انھوں نے اشارہ کیا ۔ آیا دکنی زبان میں کچھ بڑبڑائی ۔ لیکن ان کے لیے ایک لفظ بھی سمجھنا محال تھا ۔
پوٹلی میں چھوٹا سا ایک بچہ تھا ۔ اتنا چھوٹا کہ اسے انسان کا بچہ کہنا مشکل تھا ۔ ایسا لگتا تھا جیسے بچے کی آنکھ ہی نہیں ہے ۔ ناک بھی نہیں ۔ محض گوشت کا ایک لوتھڑا ہے ۔ لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ اس میں جان تھی ۔ وہ زور سے رورہاتھا ۔ ننھے ننھے ہاتھوں کو ہلا رہاتھا ۔ رام کمل سنگھو نے ایک لمبی سردآہ بھری، ’’یہ بچہ اپنی ماں کو مارنے آیاہے ۔ آخر اسے دنیا میں آنے کی ضرورت ہی کیاتھی ۔ مجھے بچے کی کمی کا احساس ہی کب تھا؟ بمباوتی کی زندگی کے بدلے مجھے اور کچھ نہیں چاہیے ۔ ‘‘
انھوں نے آیا کے ہاتھ میں دوسکے تھما دیے اورتیزی سے کمرے کے باہر نکل آئے ۔
سات دن تک یمراج اور انسان میں رساکشی چلتی رہی ۔ آخرکاربمباوتی کوہوش آگیا ۔ ان کی زبان پر پہلا جملہ تھا، ’’ میں کہاں ہوں؟ ‘‘
آفتاب نصف النہار پر تھا ۔ رام کمل سنگھو کھانا کھانے بیٹھے ہی تھے کہ انھیں بمباوتی کے بیدار ہونے کی خبرملی ۔ برتن ایک طرف کھسکاکردوڑتے ہوئے بمباوتی کے کمرے میں داخل ہوگئے ۔ بمباوتی باربار ایک ہی سوال کررہی تھی، ’’ میں کہاں ہوں.......... ‘‘
رام کمل سنگھونے بتایا، ’’تم اپنے گھر میں ہو ۔ اپنے بستر پرہو ۔ دیکھو میں بھی تمھارے پاس ہوں ۔ تمھیں پتا ہے، تمھیں بیٹاہواہے؟ ‘‘
بمباوتی کی آنکھوں میں دہشت تھی ۔ انھوں نے پوچھا، ’’اجی، کیا میں مرگئی تھی؟ ‘‘
رام کمل سنگھو بولے، ’’مرے تمھارا دشمن ۔ تم کیوں مرنے لگی؟ تم تو......... ‘‘
بمباوتی نے بتایا، ’’مجھے ایسا لگاکہ میں بہت سارے دیس، بہت سارے پہاڑ، بہت ساری ندیاں ، بہت سارے جنگل گھوم آئی ہوں ۔ ایک گھپ اندھیری سرنگ سے گزررہی ہوں ۔ سرنگ کے اس پار روشنی ہے ۔ ایسی روشنی، ایسی روشنی کہ میری آنکھیں خیرہ ہونے لگیں....... ‘‘
بمباوتی یکایک اٹھ کر بیٹھ گئیں ۔ پوچھنے لگیں ، ’’میرابیٹا کہاں ہے؟ کہاں ہے میرا بیٹا؟....... ‘‘
آیانے پوٹلی بمباوتی کی گود میں ڈال دی ۔ وہ چونک پڑیں ، ’’یہ کیا! یہ میرا بیٹا نہیں ہوسکتا! ! میرابیٹا تو بہت بڑاہے! ! !‘‘
رام کمل سنگھو نے اپنی بیوی کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے سمجھایا، ’’بمبی، کیا تمھیں یاد نہیں ، تم امید سے تھی؟ اسے تم ہی نے اپنی کوکھ سے جنم دیاہے ۔ ‘‘
بچہ خاموش تھا ۔ وہ سورہاتھا ۔ بمباوتی بچے کو ٹکٹکی باندھے دیکھتی رہیں ۔ ان کی آنکھوں سے آنسوکی دھار پھوٹنے لگی ۔ آنسوکے دوچار قطرے بچے کے چہرے پر بھی گرے ۔ بمباوتی نے بچے کی پیشانی پر بوسہ لیا ۔
’’گنگا کہاں ہے؟ میراگنگا کہاں ہے؟ وہ یہاں کیوں نہیں ہے؟ ‘‘
دروازے کے پاس رشتے داروں اور نوکر چاکر وں کی بھیڑلگی ہوئی تھی ۔ رام کمل سنگھو نے انھیں مخاطب کرکے کہا، ’’ارے جا کوئی، جا گنگا کو بلالا ۔ دیکھ وہ کہاں ہے؟ ‘‘
رام کمل سنگھو کو یاد آگیا ۔ انھوں نے بھی دوچار دنوں سے گنگا نارائن کو نہیں دیکھاتھا ۔ اس کی کوئی خیر وخبر نہیں لی تھی ۔ اس بات کا انھیں ملال بھی تھا ۔ گنگانارائن بھی ادھر کئی دنوں سے اس کمرے میں آیانہ تھا ۔
ایک نوکر نے آکربتایا، ’’گنگا نارائن فرنگیوں کے اسکول میں پڑھنے گیا ہے ۔ ‘‘
بمباوتی نے اصرارکیا، ’’اجی، اسے بلواءو ۔ میں اسے دیکھنا چاہتی ہوں ۔ ابھی اسی دم ۔ ‘‘
رام کمل سنگھو نے حکم دیا، ’’ارے، کوئی دوڑ کر جا، اسے فوراً بلالا ۔ ‘‘
فرنگیوں کا اسکول قریب ہی تھا ۔ دوچار آدمی دوڑتے ہوئے گئے ۔ رام کمل سنگھو نے اپنی بیوی کو اطمینان دلانے کی کوشش کی، ’’تم لیٹ جاءو ۔ وہ آجائے گا ۔ ابھی آجائے گا ۔ ‘‘
بمباوتی نے کہا، ’’شاید تم لوگوں نے یہ سمجھ لیاتھا کہ میں مرچکی ہوں ۔ میں مری نہیں تھی ۔ میں تو گہری نیند میں تھی ۔ نیند کی حالت میں بہت سارے دیس گھوم آئی ہوں ۔ ‘‘
بمباوتی کی جیٹھانی ہمانگینی بیوہ تھیں ۔ انھوں نے آگے آکر پوچھا، ’’بھوک لگی ہے؟ کچھ کھائے گی؟ کئی دنوں سے صرف دواکھارہی ہے ۔ اناج کا ایک دانہ بھی پیٹ میں نہیں پڑا ہے ۔ ‘‘
بمباوتی کو ایسا لگا جیسے کوئی ان کی گود میں پڑے بچے کوان سے چھین لے گا ۔ انھوں نے پوٹلی کو مضبوطی سے پکڑ تے ہوئے کہا، ’’بھوک؟ نہیں ، مجھے بھو ک نہیں ہے ۔ ایسالگتاہے جیسے میں نے امرت پی لیاہے ۔ میراتن من سیر ہوگیاہے ۔ ‘‘
تھوڑی دیر بعد لوگ اسکول سے گنگا نارائن کولے آئے ۔ گنگا نارائن چودہ سال کا خوبرو نوجوان تھا ۔ وہ شرماتاہوا بمباوتی کے بستر کے قریب آکر کھڑا ہوگیا ۔ بمباوتی نے اسے اور قریب بلایا ۔ اس کا سر اور چہرہ سہلاتے ہوئے کہا، ’’آ، میرے پاس بیٹھ ۔ تونے کیا سمجھا تھا، تیری ماں مرچکی ہے؟ ‘‘
گنگا نارائن سرجھکائے چپ چاپ بیٹھا رہا ۔
ہمانگینی نے ٹوکا، ’’ارے، اب اور زیادہ باتیں مت کر ۔ آرام کر ۔ دیکھ اپنا چہرہ دیکھ، کیسا پیلا پڑگیاہے؟ آنکھیں دھنس گئی ہیں ! زیادہ باتیں کرے گی تو سرچکرانے لگے گا ۔ ‘‘
رام کمل سنگھو بھی خوف زدہ ہوگئے، ’’چراغ بجھنے سے پیشتر بھڑ کتاہے ۔ بیمار مرنے سے پہلے سنبھا لا لیتاہے ۔ بمباوتی کے ساتھ بھی کہیں...... ‘‘
یہ سوچ کر انھوں نے بمباوتی سے کہا، ’’بمبی، اب تم لیٹ جاوَ ۔ میں نے کویراج جی کو بلوا بھیجا ہے ۔ وہ آتے ہی ہوں گے ۔ ‘‘
بمباوتی نے کہا، ’’اب ڈرنے کی کوئی بات نہیں ہے، جی ۔ بہت دنوں سے آپ کو دیکھا نہیں تھا ۔ گنگا کو دیکھا نہیں تھا ۔ اس لیے اداس تھی ۔ دیکھیے نا، گنگا کاچہرہ کتنا اتر گیاہے؟ گنگا تو نے کچھ کھایا پیا؟ اتنے دنوں سے میں بستر پر پڑی ہوں ، تجھے کھانے پینے کی کوئی تکلیف تونہیں ہوئی؟ ‘‘
گنگا نارائن نے سرہلا تے ہوئے جواب دیا، ’’نہیں ، کوئی تکلیف نہیں ہوئی ۔ ‘‘
’’بیٹے، ایک بار مجھے ماں کہہ کر بلا ۔ بہت دن ہوگئے، تیرے منہ سے ’ماں ‘سنے ہوئے ۔ ‘‘
گنگا نارائن نے کپکپاتے ہوئے لہجے میں کہا، ’’ماں......... ‘‘
’’آ، پلنگ پربیٹھ ۔ دیکھ تیرا ایک چھوٹا بھائی آیاہے ۔ تو اسے پیارکرے گا نا؟ ‘‘
گنگا نارائن کی چھوٹی سی زندگی کا قصہ یوں ہے :
رام کمل سنگھو کا آبائی مکان ہگلی ضلع کے بکساگاءوں میں تھا ۔ رام کمل سنگھو کے دادا اسی بکسا گاءوں سے اپنی قسمت آزمانے کلکتہ آئے تھے ۔ تقدیر نے ساتھ دیا ۔ نمک کی دیوانی پائی اور رفتہ رفتہ ترقی کرتے گئے ۔ آخرکار اپنا نام شہر کے امرا ء اور روَسا میں درج کرالیا ۔ رام کمل سنگھو کے داداتین بھائی تھے ۔ دو اسی گاءوں میں رہاکرتے تھے ۔
اس طرح رام کمل سنگھو کا خاندان دوشاخوں میں بٹ گیا ۔ کلکتہ شہر کی شاخ جیسے جیسے پھولتی پھلتی گئی، بکساگاءوں کی شاخ ویسے ویسے سوکھتی سکڑتی گئی ۔ رام کمل سنگھو نے اپنے آبائی گاءوں سے تقریباًتمام تعلقات منقطع کرلیے تھے ۔ بکساگاءوں میں شری شری رگھوناتھ بابا کا ایک عظیم نورتن مندر تھا ۔ ایک روز رام کمل سنگھو نے اچانک سناکہ ایک عورت رات کو اس مندر کے احاطے میں ایک بچہ رکھ کر بھاگنے کی کوشش کررہی تھی کہ پجاریوں نے اسے دیکھ لیا ۔ پکڑے جانے پر اس عورت نے اقرار کیاکہ یہ بچہ اسی کاہے ۔ بھوک سے عاجز آکراس نے یہ پاپ کیاہے ۔ وہ اپنے بچے کا پیٹ نہیں پال سکتی تھی ۔ اس لیے اس نے اپنے ایک سالہ بچے کو شری شری رگھوناتھ بابا کے چرنوں میں چھوڑ کر خودکشی کرناچاہتی ہے ۔ یہ رپورٹ انگریزی اخبار میں بھی شاءع ہوئی تھی ۔
عورت بیوہ تھی ۔ رام کمل سنگھو کو پتا چلاکہ اس کا شوہر رشتے میں ان کا بھائی لگتاہے ۔ رسوائی کے ڈر سے رام کمل سنگھو اسے اور اس کے بچے کو کلکتہ لے آئے ۔ انھیں اپنے گھر میں پناہ دی ۔ اس زمانے میں یہ رواج تھا کہ بڑے لوگوں کے یہاں غریب رشتے دار پناہ گزیں ہواکرتے تھے ۔ رام کمل سنگھو کی حویلی میں بھی کم و بیش پچاس پیٹ پلتے تھے ۔ رام کمل سنگھو ان میں سے اکثر لوگوں کا نام بھی نہیں جانتے تھے ۔ ان کی ماں دان پُن کرنے والی خاتون تھیں ۔ اگرکوئی ان کے یہاں پناہ چاہتا، تو وہ انکار نہیں کرتی تھیں ۔ ماں کی اجازت لے کر رام کمل سنگھو عورت اور اس کے بچے کو اپنے یہاں لے آئے تھے ۔ اس گھر میں بہت دنوں سے لوگوں کو بچے کی کمی کاشدید احساس تھا ۔ چنانچہ سبھوں نے اس بچے کو ہاتھوں ہاتھ لیا ۔ اسے بڑا لاڈ پیار دیا لیکن اس کی ماں کو اس گھر میں بھی چین نصیب نہ ہوا ۔ وہ اندرہی اندر کڑھتی رہتی تھی ۔ دوسرے غریب لوگ نچلی منزل میں رہاکرتے تھے ۔ لیکن اسے اوپر والی منزل میں جگہ دی گئی تھی ۔ بمباوتی اکثر دیکھتی تھیں کہ وہ عورت خلوت میں رویا کرتی ہے ۔ نہ جانے کس غم میں اس قدر گھلتی جارہی ہے؟ کسی کو کچھ بتاتی بھی نہیں ہے ۔
اور شاید وہ اسی لیے زیادہ دنوں تک نہ جی سکی ۔ چھ ہی مہینے میں چل بسی ۔ جاتے جاتے اپنے بچے کو بمباوتی کی گود میں ڈال گئی ۔ آنکھوں میں آنسو بھر کر کہہ گئی، ’’دیدی، میرے بچے کا خیال رکھنا ۔ ‘‘
گنگا نارائن وہی بچہ ہے ۔ بمباوتی نے اسے پال پوس کر بڑا کیا ۔ وہ مامتاکی مورت تھیں ۔ لیکن ان کی اپنی کوئی اولاد نہ تھی ۔ انھوں نے گنگانارائن کو اپنالیا ۔ آخر گنگانارائن کی رگوں میں ان کے شوہر کے خاندان ہی کا خون دوڑرہاتھا ۔ رام کمل سنگھو نے بمباوتی سے کہا، ’’کیوں نہ ہم گنگا نارائن کو گود لے لیں؟ ‘‘
رام کمل سنگھو نے سمجھ لیاتھاکہ اب بمباوتی کو بچہ نہیں ہوسکتاہے ۔ گنگا نارائن کوگود لینے کی بات پر بمباوتی نے کوئی اعتراض نہ کیا، فوراً راضی ہوگئیں ۔ رام کمل سنگھو نے باضابطہ گنگا نارائن کو گود لے لیا ۔ اس واقعہ کو پانچ سال گزر چکے تھے ۔
حیرت کی بات یہ تھی کہ جیسے جیسے گنگا نارائن بڑا ہوتا گیا، ویسے ویسے اس کی شکل و شباہت رام کمل سنگھو سے ملتی گئی ۔ ایسالگتاتھاکہ وہ ان کا اپنا بٹیاہے ۔ جو دیکھتا تھا، کہتاتھا، ’’ایک دم رام کمل پر گیا ہے ۔ ‘‘
بعض لوگ تویہ بھی کہنے لگے تھے کہ گود لینا تو محض ایک دکھاواہے ۔ عورتوں سے رام کمل سنگھو کو کتنی رغبت ہے، یہ تو سبھی جانتے ہیں ۔ انھوں نے ضرور اپنے گاءوں میں بھی ایک رکھیل رکھ چھوڑی ہوگی ۔ وہ ہر سال وہاں پوجاکے دوران جاتے ہیں ۔ گنگانارائن اسی رکھیل کا بیٹا ہے ۔ انھوں نے اسے جائداد کا وارث بنانے کے لیے گود لیاہے ۔ لوگوں کی یہ باتیں رام کمل سنگھو کے ہم راز بِدھوشیکھر کے کانوں میں بھی پڑیں ۔ وہ یہ سن کر بے تحاشہ ہنس پڑے ۔ کہنے لگے، ’’لوگ کہتے ہیں تو کہیں ، مجھے اس بات پر قطعی یقین نہیں ۔ ‘‘
بمباوتی کا گمان تھاکہ شری شری رگھوناتھ باباہی نے اس بچے کو ان کی جھولی میں ڈالا ہے ۔ ایسی لائق اولاد تو قسمت والوں کو ملتی ہے ۔ ہونہار بروے کے چکنے چکنے پات ۔ گنگانارائن کی ہونہاری کے آثار نوعمری ہی سے ظاہر ہونے لگے تھے ۔ وہ بچپن ہی سے بڑا سمجھدار اور مستقل مزاج تھا ۔ لکھنے پڑھنے میں بھی طاق تھا ۔ سنسکرت، فارسی اور انگریزی باقاعدگی سے سیکھنے لگاتھا ۔ رام کمل سنگھو کوبھروسہ تھا کہ اس لڑکے کے ہاتھوں ان کی جائداد نہ صرف محفوظ رہے گی بلکہ اس میں خاطرخواہ اضافہ بھی ہوتا رہے گا ۔
کچھ دنوں بعد رام کمل سنگھو نے بمباوتی سے دونوں بیٹوں کے بارے میں بات چیت کی ۔ انھیں اب بھی یہ تشویش لا حق تھی کہ ان کا بیٹا ممکن ہے کہ زندہ نہ بچے ۔ انھوں نے اپنی زندگی میں کبھی اس قدر چھوٹا بچہ دیکھا نہیں تھا ۔ اس کی تمام حرکتیں عجیب و غریب تھیں ۔ پیداہونے کے کچھ روز بعد تک بچے اکثر سوتے رہتے ہےں ۔ وہ اندھیری دنیا سے نکل کر روشنی والی دنیا میں آتے ہےں ۔ ان کی آنکھیں یہاں کی چمک دمک فوراً قبول نہیں کرپاتیں ۔ اس کے لیے وقت درکار ہوتاہے ۔ اسی لیے وہ بسا اوقات آنکھیں بند کیے پڑے رہتے ہےں ۔ لیکن یہ بچہ زیادہ سوتانہ تھا ۔ جب دیکھو جاگتارہتاتھا ۔ جب دیکھو، روتا رہتاتھا ۔ اور ادھر چند دنوں سے اس نے ہنسنا بھی سیکھ لیاتھا ۔ منہ کے قریب انگلی لے جانے سے کلکاری مارنے لگتاتھا ۔ کہتے ہیں کہ ڈیڑھ دومہینے تک بچے ٹھیک سے دیکھ نہیں پاتے ہیں لیکن اس بچے کے پاس جب بھی کوئی جاتا تویہ اسے ایک ٹک دیکھتارہتاتھا ۔
بیٹے کے سلسلے میں رام کمل سنگھو کا رویہ دن بدن بدلنے لگاتھا ۔ اب وہ دن میں کئی بار اپنے بیٹے کو دیکھنے جایاکرتے تھے ۔ انھوں نے پہلے پہل اس نوزائیدہ بچے کواپنے دل میں زیادہ جگہ دینا مناسب نہیں سمجھاتھا ۔ وہ جب بمباوتی کودیکھنے آتے، تو بچے کی طرف دیکھتے نہ تھے ۔ شاید وہ بچے کے موہ میں آنا نہیں چاہتے تھے ۔ اگروہ نہیں بچا، تو انھیں بہت دکھ ہوگا ۔ انھوں نے گنگانارائن ہی کو اپنا وارث مان لیا تھا ۔ اور وہ اس میں خوش بھی تھے ۔ دن گزرتا گیا ۔ ان کا اپنا بیٹا آہستہ آہستہ مقناطیس کی طرح انھیں اپنی جانب کھینچتاگیا ۔ جو بچہ ماں کے رحم میں محض سات ماہ دس دن رہاہو، اور جو عام بچوں کے مقابلے میں نہایت چھوٹا اور کمزور ہو، ایسے بچے کو کلکاری مارتا ہوا دیکھ کر جسم میں ہلکی ہلکی سی سنسنا ہٹ پیداہوہی جاتی ہے ۔
رام کمل سنگھو کے ذہن میں بار بار ایک بات ابھر رہی تھی ۔ ’’ میں اتنے دنوں تک سوچتا رہا تھا کہ مجھ میں اولاد پیداکرنے کی سکت نہیں ۔ ‘‘
بمباوتی بھی خود کوبانجھ سمجھنے لگی تھیں ۔ یہ بھی سچ تھا کہ رام کمل سنگھو بہت ساری عورتوں کی کوکھ میں تخم ریزی کرچکے تھے ۔ مگر کسی کی کوکھ ہری نہ ہوسکی تھی ۔ اگر کسی سے کوئی اولاد پیدا ہوئی ہوتی تو وہ اس کو اپنا وارث بنالیتے اور اگر وارث نہ بھی بناپاتے تو کم از کم اس کی پرورش کا بہتر انتظام تو ضرور کردیتے ۔ لیکن قدرت کا کھیل دیکھیے ۔ ان کی مردانگی بمباوتی ہی کی کوکھ سے سرخروہوئی ۔ اس بات کا تصور آتے ہی رام کمل سنگھو کے جسم میں سرور و انبساط کی لہریں دوڑ جاتی تھیں ۔
بمباوتی کاجسم اب بھی کمزورتھا ۔ پھر بھی وہ دیر رات تک بیٹے کو گود میں لیے پلنگ پر بیٹھی جاگتی رہتی تھیں ۔ راستوں پر کھلنے والی ان کے کمرے کی تمام کھڑکیاں بندتھیں ۔ پاس کہیں چرک کا میلہ لگتاتھا ۔ کافی رات گئے لوگ شوروغل مچاتے ہوئے وہاں سے گزرتے تھے ۔ گزشتہ رات شرابیوں کا ایک گروہ سانڈ کی طرح ڈکررہا تھا ۔ اگروہ تھوڑی دیر اس طرح اور ڈکر تارہتا توعین ممکن تھا کہ لوگ رسیاں لیے دوڑے چلے آتے ۔ سامنے ایک پہرہ دار کھڑا تماشہ دیکھ رہاتھا ۔ آخرکار رام کمل سنگھو نے اپنے آدمیو ں کو بھیجا ۔ انھوں نے شرابیوں کی گردنیں پکڑ پکڑ کر دھکّا دیا اور انھیں وہاں سے چلتا کیا ۔
رام کمل سنگھو بستر پر جانے سے پہلے بمباوتی کے قریب آکر کھڑے ہوئے ۔ سوئے ہوئے بچے کو نظریں بھربھر دیکھنے لگے ۔ بمباوتی نے کہا، ’’اس کی آنکھیں دیکھیے، بالکل آپ کی طرح ہیں ۔ ہونٹ بھی آپ کے جیسے ہیں ۔ صرف پیشانی مجھ سے ملتی ہے ۔ ‘‘
رام کمل سنگھو ہنسنے لگے ۔ معلوم نہیں عورتوں کو کیسے ان باتوں کا پتا چل جاتاہے؟ حالانکہ بچوں کے ہونٹ، آنکھ، کان، ناک کے بارے میں اتنی جلدی کچھ کہنا دشوار ہوتاہے ۔
’’کیسی ہو، بمبی؟ ‘‘
بمباوتی کے ہونٹوں پر تسلی آمیز مسکراہٹ بکھر گئی، ’’اچھی ہوں ۔ آپ اپنی صحت کا دھیان رکھیے گا ۔ میں ابھی اس لائق نہیں کہ آپ کا خیال رکھ سکوں ۔ ‘‘
’’تم میری فکرنہ کرو ۔ ماں اور بھابی ہیں ۔ وہ میراخیال رکھتی ہیں ۔ ‘‘
’’گنگا سوگیا ہے؟ ٹھیک سے کھاتا پیتاتوہے؟ ‘‘
’’ہاں ، دیکھا ہے ۔ سورہاہے ۔ تمھارے پا س نہیں آیا؟ ‘‘
’’شام سے نہیں آیا ۔ شاید پڑھ رہاہوگا ۔ ‘‘
’’وہ کیا تمھارے کمرے میں اب زیادہ آتا جاتا نہیں ہے؟ ‘‘
’’شرماتا ہے ۔ شاید اس نے مجھے اس طرح کبھی پلنگ پر سوتا ہوا نہیں دیکھا ۔ عرصہ ہوا مجھے بیمار پڑے ہوئے ۔ ‘‘
’’بھائی بہن کی پیدائش پر اس عمر کے بچوں میں تھوڑا بہت ابھیمان ہوہی جاتا ہے ۔ کسم کماری کی پیدائش کے وقت میں نو سال کا تھا ۔ مجھے ایسا لگتاتھا کہ ماں میرے مقابلے کسم کماری کو زیادہ چاہتی ہےں ۔ اس وقت کسم کماری کی بڑی آءوبھگت ہوتی تھی!‘‘
’’گنگا نوسال کا نہیں رہا ۔ بڑا ہوچکا ہے ۔ اسے اب شعور آنے لگاہے ۔ ‘‘
’’لیکن سچ سچ بتاوَ، توکیاتم دونوں کوایک نظرسے دیکھ سکوگی؟ ‘‘
’’کیوں نہیں دیکھ سکوں گی؟ گنگا کو کوکھ میں نہیں رکھا، اس کا مطلب یہ تونہیں کہ میں اسے کم پیارکروں گی ۔ ‘‘
’’بِدھو نے میرے ذہن میں ایک بات بٹھا دی ہے ۔ اس کا کہنا ہے کہ جس گھرانے میں بچہ گو د لیا جاتا ہے اگراس گھرانے میں کوئی بچہ پیداہوجائے تو آگے چل کرجھگڑا ہونے کا خدشہ رہتا ہے ۔ اس نے عدالتوں میں بہت سے ایسے جھگڑے دیکھے ہیں۔‘‘
’’گنگا بہت شریف ہے ۔ وہ اپنے چھوٹے بھائی سے کبھی جھگڑا نہیں کرے گا ۔ ‘‘
’’چلو، مان لیتے ہیں کہ گنگا جھگڑا نہیں کرے گا لیکن اس بات کی کیاضمانت ہے کہ تمھارا یہ سپوت اس سے نہیں جھگڑے گا؟‘‘
بمباوتی افسردہ ہوگئیں ، کہنے لگیں ، ’’آپ ابھی سے ایسی باتیں کیوں کر رہے ہیں؟ کچھ نہیں ہوگا ۔ میں کہہ رہی ہوں ، دیکھ لیجیے گا ۔ ان میں کبھی جھگڑا نہیں ہوگا ۔ ‘‘
رام کمل سنگھو نے کہا، ’’نہ ہوتو اچھا ہے ۔ میرے پاس جائداد کی کمی نہیں ۔ میں دونوں میں اپنی جائداد برابربرابر تقسیم کردوں گا ۔ تحریری طورپر ۔ اس طرح ہر ایک کواتنی ملکیت مل جائے گی کہ وہ........ ‘‘
یہ کہتے کہتے رام کمل سنگھو کے من میں ایک تشویش پیداہوئی، ’’برابر برابر؟ ‘‘اس بچے کی رگوں میں میرا خون بہہ رہاہے ۔ یہ گنگا نارائن کے برابرپائے گا! بڑا ہوکر جب اسے سچائی کاپتاچلے گا، تو کیا اسے اپنے ماں باپ سے شکایت نہیں ہوگی؟‘‘
رام کمل سنگھو قہقہہ مارکر ہنسنے لگے۔
’’کیاہوا؟‘‘
’’ابھی سے میرے من میں یہ وسوسہ پیداہونے لگاہے کہ انھیں جائدادبرابر برابر دینا مناسب ہوگا یا نہیں؟ اس کے جسم میں میراخون بہہ رہاہے...... خون کی کشش اس قدر مضبوط ہونے لگی ہے کہ اب میں خود کو کمزور محسوس کرنے لگاہوں ۔ ‘‘ رام کمل سنگھو نے تعجب ظاہر کیا۔
’’ میں جب تک جیوں گی، دونوں کو ایک نظر سے دیکھوں گی ۔ ‘‘ بمباوتی نے بڑے وثوق سے اپنافیصلہ سنادیا۔
’’ٹھیک ہے ۔ جب تم ماں ہوکر کرسکتی ہو تو میں باپ ہوکر کیوں نہیں کرسکوں گا؟‘‘
اور پھر تھوڑے دنوں میں بمباوتی پوری طرح صحت یاب ہوگئیں۔
اتنے دنوں سے اس مکان میں ڈاکٹروں اور کویراجوں کاتانتا لگا ہوا تھا ۔ انھیں اعتبار نہیں تھاکہ بالآخر زچہ اور بچہ دونوں ہی بچ جائیں گے ۔ واقعی یہ ایک حیرت انگیز بات تھی ۔ ا س درمیان رام کمل سنگھو کی ماں ، سودامنی نے بہت پوجا ارچنا کی تھی ۔ برہمنوں کو دان پتر دیاتھا ۔ مفلسوں کوکھانا کھلایاتھا ۔ تاکہ ان کا پوتا ہر طرح کی بلاؤں سے محفوظ رہے۔
کُل پروہت نے آکرسیاروں کی گردش پرغوروخوض کیا ۔ نوزائید ہ بچے کی جنم پتری تیار کی اور بتایاکہ بچے کی قسمت میں بڑی نام آوری ہے ۔ ایک دن اس کے کارناموں کی وجہ سے پورا دیس اس خاندان پر نازکرے گا ۔ انھوں نے بمباوتی کو ایسے انمول رتن کی ماں بننے پر بدھائی بھی دی۔
بچے کا نام نوین کمار رکھاگیا۔
اکیسویں دن بمباوتی نوین کمارکوگود میں لے کر پورا مکان گھوم آئیں ۔ اس کے بعد بچہ بھی گھومنے لگا اس گود سے اس گود میں۔
شام کا وقت تھا ۔ رام کمل سنگھو بیٹھک خانے سے اوپر آئے ۔ دیکھا،بمباوتی آلتی پالتی مارے نوین کمار کو سینے سے چمٹائے دودھ پلارہی ہےں اور گنگانارائن ماں کی پیٹھ پر گال ٹکائے بیٹھا ہے ۔ رام کمل سنگھو کی خوشیوں کا ٹھکانہ نہ رہا ۔ وہ من ہی من بول پڑے ، ’’واہ، کیا نظارہ ہے! !‘‘ان کا دل باغ باغ ہوگیا۔
فوراً نیچے اترے ۔ دیباکر کو بگھی جوتنے کا حکم دیا ۔ بہت دنوں بعد آج وہ جان بازار جائیں گے ۔ کملا سندری کے یہاں!!
ختم شد......
اور اس وقت ایک مطالعہ
تخلیق کار: سنیل گنگو پادھیائے
مترجم: شبیر احمد (کولکاتا)
گفتگو: ریحان کوثر
ترجمہ کسی دریچے کی مانند ہوتا ہے جس سے کسی زبان کی فکر اس زبان سے وابستہ معاشرے کی ثقافت وتہذیب، سیاسی وسماجی حالات مذہب یا مسلک کے ذریعے قائم تعبیر و تفسیر دوسری زبان میں منتقل ہو سکتی ہے یا ہو جاتی ہیں۔ گویا ترجمہ میرے نزدیک تصویر سے تصویر بنانے کا عمل نہیں بلکہ *یہ در اصل چراغ سے چراغ جلانے کا عمل ہے۔* کوئی ترجمہ کیوں پڑھتا ہے مجھے ٹھیک ٹھیک معلوم نہیں! لیکن میں ترجمہ پڑھتا ہوں تو میرا مقصد یہ ہوتا ہے کہ میں دیکھوں کہ اس دریچے کے اُس پار کیا اور کیسا ماحول ہے۔ اس ماحول کا مشاہدہ کروں۔ ان میں موجود کرداروں کے رہن سہن اور روز مرہ زندگی کے احوال جان سکوں۔ ان کے لب و لہجہ اور مزاج کو سمجھ سکوں۔ ان کے سماجی، سیاسی اور مذہبی مسائل اور انفرادیت کو پرکھ سکوں۔ یعنی اگر بنگالی زبان میں سنگاپور یا بغداد کی کہانی لکھی گئی ہے یا ملیالم زبان میں کشمیر یا فلسطین کے مسائل اٹھائیں گے ہوں تو میں ان تمام کہانیوں سے پرہیز کروں گا اور واپس اپنی زبان یعنی اردو کی طرف لوٹ آؤں گا۔ کیوں کہ ان موضوعات کے لیے میری اردو زبان کا دامن کافی وسیع ہے اور میں اپنی مادری زبان سے بالکل مایوس نہیں! اور میں صبر کا دامن تھامے رکھنے کا بھی قائل ہوں۔
میں نوراحسنین صاحب کی اس بات سے متفق ہوں ایک جگہ انھوں نے لکھا تھا کہ
”علاقائی زبانوں کے افسانوں میں ایک خاص بات یہ ہوتی ہے کہ وہ زمین سے جڑے ہوتے ہیں۔ ان میں وہ خصوصیت پائی جاتی ہے جوان کی اپنی زمین کی ہوتی ہے۔“ لیکن جب میں نے اس قول پر عمل کرتے ہوئے افسانے میں زمین تلاش کرنے کی کوشش کی تو مجھے مجرم ٹھہرایا گیا۔
اچھے برے اور اوسط درجے کے افسانے اور کہانیاں ہر زبان میں لکھی جاتی ہیں۔ جس طرح غزل اردو ادب کی ایک منفرد صنف ہے اسی طرح افسانے بھی اردو ادب کا خاصہ ہے۔ ہم مختلف زبانوں کی کہانیوں کو پڑھنے کے بعد یہ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ یہ کہانی افسانہ ہے یا نہیں؟ میں دراصل ترجمہ اس لیے بھی پڑھتا ہوں کہ دیگر زبانوں میں ہماری زبان کی طرح کے افسانے تلاش کر سکوں۔ میرا مقصد یہ بھی ہوتا ہے کہ کبھی موقع ملے تو اس ترجمہ شدہ کہانی جیسا اردو میں لکھنے کی کوشش کروں کہ اردو کے رنگا رنگی میں ایک نیا رنگ شامل ہو سکے۔
ترجمے کے مطالعے کا میرا تیسرا مقصد یہ ہے کہ میں بھی ترجمہ کرنا سیکھ سکوں۔ ترجمہ کے پہلے اور بعد کے پس منظر کے سرے کو پکڑنے کی کوشش کروں۔ بیشک عمدہ ترجمے دنیا بھر کے لوگوں کے مابین موثر رابطے کے قابل بناتے ہیں۔ یہ علم کی ترسیل، ثقافتی ورثے کا حفاظت اور عالمی معیشت کی ترقی کے لئے ضروری ہے۔ انتہائی ہنر مند مترجم کلیدی ہیں۔ ترجمہ اسٹڈیز پریکٹیشنرز کو اور ان صلاحیتوں کو تیار کرنے میں مدد کرتا ہے۔ میں مطالعہ اور تجزیہ کے دوران پروفیسر ظہور الدین صاحب کے اصول پر غور کرتا ہوں۔
۱- مفہوم کی ترسیل
۲- ہیئت
۳- مصنف کی منشا کا احترام
۴- بنیادی زبان کا اثر
۵- اسلوب اور شفافیت
۶- محاورہ
گویا نہ تو ترجمے کا مطالعہ بے مقصد ہوتا ہے اور نہ ہی ترجمہ نگاری بے مقصد ہونی چاہیے۔ ہاں کبھی کبھی ترجمہ نگاری کا مقصد صرف اور صرف ایوارڈ حاصل کرنا بھی ہوتا ہے کہ جس کا احساس ترجمہ پڑھتے ہوئے ہو بھی جاتا ہے۔
جہاں تک بنگالی زبان و ادب کا سوال ہے تو بلاشبہ یہ ادب میرے دل کے قریب ہے۔ بنگالی ادب اردو ادب سے کتنا آگے یا پیچھے ہے یہ سوال بے معنی ہے لیکن بر صغیر میں بنگالی ادب ایک بڑے حصے کا احاطہ کرتا ہے۔ جس میں اڑیسہ، مغربی بنگال، آسام اور بنگلہ دیش کے علاقے شامل ہیں۔ یقیناً یہ علاقے بر صغیر کے باقی حصوں سے مختلف اور منفرد حیثیت کے حامل ہیں۔
میں ترجمہ جس مقاصد کو پورا کرنے کے لیے پڑھتا ہوں، زیر نظر تحریر پڑھ کر وہ سارے مقاصد پورے ہوتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ شبیر احمد صاحب کا یہ ترجمہ یہاں پیش کرنے کے لیے منتظمین کا شکر گزار ہوں۔ شبیر احمد صاحب کے ترجموں کی یہ خوبی ہوتی ہے کہ آپ انھیں پڑھنے کے بعد فیصلہ ہی نہیں کر سکتے کہ ترجمہ ہے یا شبیر احمد صاحب کی طبع زاد کہانی ہے کیونکہ کہ موصوف کا ترجمہ تصویر کی تصویر نہیں بلکہ دیپ سے دیپ جلاؤ والا معاملہ ہوتا ہے۔ شبیر احمد صاحب کی تخلیقات بھی قابل تحسین ہیں کہ ان میں بنگال کی خوشبو اور رس بھر پور نظر آتا ہے۔ اسی طرح سنیل گنگو پادھیائے بنگالی ادب کے معروف ادیب ہیں۔ انھوں نے نیل لوہت، سناتن پاٹھک اور نیل اوپدھیائے جیسے قلمی نام استعمال کیے۔ 1985ء میں انہیں ان کے ناول ’ اور اس وقت‘ (سے ای سموئے) کے لیے ساہتیہ اکادمی اعزاز سے نوازا گیا۔ یہ ناول سب سے پہلے بنگالی ادبی رسالہ دیش میں قسط وار شائع ہوا تھا اور اس ناول کے ایک اقتباس پر بات کرتے ہوئے میں ذمہ داری سے کہنا چاہتا ہوں کہ شبیر احمد صاحب کا یہ ترجمہ کسی کارنامے سے کم نہیں۔۔۔
زیر نظر کہانی جس ناول سے اخذ کی گئی ہے وہ بنگالی ادبی جریدے ’دیش‘ میں قسط وار شائع ہو چکا ہے۔ قسط وار شائع ہونے والی تحریر میں پہلی اور اہم خصوصیت یہ ہونی چاہیے کہ ہر قسط میں تجسس اور تحیر کا پہلو برقرار رہے اور ہر قسط اپنے اندر ایک کہانی لئے ہوئے ہونی چاہیے۔ یعنی مکمل ناول کی ایک کہانی کے اندر کئی کہانیاں موجود ہوں۔ اس طرح کی کہانی کو ایمبیڈڈ نریٹیو بھی کہا جا سکتا ہے۔ ایسی کہانیوں کے اندر کہانیوں کی ایک سے زیادہ پرتیں موجود ہوتی ہیں۔ شاید اسی لیے کبھی کبھی تو ہم افسانے میں بھی افسانچے تلاش کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ کہانی کے اندر موجود کہانی کو ہر طرح کے بیانیے میں استعمال کیا جاسکتا ہے: ناول، مختصر کہانیاں، ڈرامے، ٹیلی ویژن پروگرام، فلمیں، نظمیں، گانے اور فلسفیانہ مضامین وغیرہ۔
عام طور پر اندرونی کہانیاں یا تو محض تفریح کے لیے شامل کی جاتی ہے یا کرداروں کو وسعت دینے کے لیے کہی جاتی ہیں۔ دونوں ہی معاملات میں، اندرونی کہانی اکثر بیرونی کہانی میں کرداروں کے لئے ایک علامتی اور نفسیاتی اہمیت رکھتی ہے۔ ان دونوں کہانیوں کے مابین توازن ضروری ہوتا ہے اور اندرونی کہانی کے افسانے بیرونی کہانی میں حقیقت کو ظاہر کرنے کے لئے استعمال ہوتے ہیں۔ اکثر کہانی کے اندر موجود کہانیاں صرف بیرونی کہانی میں ہی نہیں ، بلکہ حقیقی دنیا میں بھی خیالات کو پیش کرنے کے لئے استعمال ہوتی ہیں۔ جب پلاٹ کے حصے کے طور پر کہانی سنانے کے بجائے کسی اور کردار کے اندر کی کوئی کہانی سنائی جاتی ہے تو مصنف قاری کو کرداروں کے بارے میں تاثرات ادا کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ اسی اجازت کا بخوبی استعمال مترجم نے ترجمہ کرتے وقت کیا ہے کہ اس اقتباس کو قاری کے حوالے تاثرات کی غرض سے پیش کیا ہے۔
اب اگر شبیر احمد صاحب کے اس ترجمے کے اقتباس پر بات کریں اور افسانے کی کسوٹی پر پرکھنے کے بعد صاف ظاہر ہے کہ یہ ایک مکمل اور بھر پور افسانہ ہے *لیکن باقی افسانوں سے الگ یوں ہے کہ اس کے کردار ادرک کے پنچے کی طرح ہے* کہ علیحدہ علیحدہ انھیں افسانوی زمین میں دبا دیا جائے تو ہر کردار سے ایک یا ایک سے زائد کہانیاں پھوٹ پڑے گی۔ جبکہ مکمل ناول میں ایسا ہوا بھی ہے۔ کیا یہ خوش گوار تجربہ نہیں کہ ناول کے کسی اقتباس کو ایک افسانے کی شکل میں پیش کیا گیا ہے۔ ہاں یہ بھی حقیقت ہے کہ اس کے افسانہ ہونے کا دعویٰ نہ تو مترجم نے کیا ہے اور نہ ہی منتظمین نے اس کی تائید کی ہے۔ اب قارئین اور مبصرین کا نظریہ اور فہم اس کی مناسب قدر و قیمت ادا کر سکتا ہے۔ یہ مترجم کا حسن انتخاب ہی تو ہے کہ انھوں نے اسے یہاں پیش کرنے میں خود اعتمادی کا مظاہرہ کیا ہے۔ شبیر احمد صاحب کے افسانوں کے مطالعے کے بعد اکثر لوگوں کی آراء یہ کہ وہ ناول کے پلاٹ پر افسانہ کہنے کے ماہر ہیں۔ لیکن بطور مترجم انھوں نے اپنے ترجمہ شدہ ناول سے یہاں اقتباس پیش کر کے اپنے گہرے افسانوی فہم و فراست کا مظاہرہ کیا ہے۔۔۔
کوئی مست ہے،
کوئی تشنہ لب،
تو کسی کے ہاتھ میں جام ہے
مگر اس پہ کوئی کرے بھی کیا یہ تو میکدے کا نظام ہے!
اب افسانوں، کہانیوں اور ناولوں کے اس نظام پر غور کریں تو شبیر احمد صاحب کے دونوں ہاتھوں میں ہی ’جام‘ نظر آتا ہے۔ یعنی جام کی شکل میں موصوف کے ایک ہاتھ میں بنگال کا جادو اور دوسرے ہاتھ میں اُردو کے بتاشے ہیں۔ لیکن اس میکدے کا ایک اصول ہے کہ یہاں جام ہاتھوں میں لے کر لڑکھڑانا حرام ہے۔ یعنی نہ ترجمہ کرنا حرام ہے نہ ترجمہ کروانا حرام ہے بلکہ ترجمہ کرتے وقت لڑکھڑانا حرام ہے اور موصوف اس اصول کے پابند نظر آتے ہیں۔
بیشک ترجمہ نگاری کے متعدد اصول ہیں لیکن ’مصنف کی منشاء کا احترام‘ اور ’مترجم کی نیت‘ سب سے اہم ہیں۔ مترجم نے مصنف کی منشاء کو سر آنکھوں سے لگا کر اور اپنی نیت کو عقیدت و احترام کے ساتھ معصومیت کے لبادے میں رکھ کر ترجمہ کیا ہے۔ صرف یہ ہی نہیں موصوف کے باقی تمام تراجم پر نظر ڈالی جائے تو وہ اس لڑکھڑانے کے گناہ سے پاک و صاف نظر آتے ہیں۔ اس اصول کی پابندی کے لیے دونوں زبانوں پر یکساں دسترس لازمی ہے۔
جلدی کا کام شیطان کا ہوتا ہے اور ترجمہ نگاری کہیں سے بھی جلد بازی کا کام ہرگز نہیں۔ ہمیں ترجمہ کیوں کرنا ہے، کس تحریر کا ترجمہ کرنا ہے یہ سارے اختیارات ہمارے ہوتے ہیں اس کے انتخاب میں جلد بازی بھی ہماری ساری محنت کو مٹی میں ملا سکتی ہے۔ اسی ترجمہ نگاری میں اہتمام کی کمی بھی سارے کھیل کو خراب کر سکتی ہے۔ اس ترجمہ کی تیسری اہم خوبی یہ ہے کہ شبیر احمد صاحب نے اسے اہتمام کے ساتھ کیا ہے۔ الفاظ کا استعمال اس کا برتاؤ اور اسے پیش کرنے کے سلیقے سے وہ بخوبی واقف ہیں جس کی عمدہ مثال یہ اقتباس ہے۔ بطور ایک ادنی سا رکن میں اس بزم کے حوالے سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ یہ خوش قسمتی ہی تو ہے کہ یہاں سلام بن رزاق صاحب جیسا ’مراٹھا اردو ادیب‘ اور شبیر احمد صاحب جیسا ’بنگالی اردو ادیب‘ کے ساتھ ہم بھی اس بزم میں شریک ہیں۔ اس ترجمے کے ایونٹ میں تینوں شاندار پیش کش اپنے آپ میں منفرد اور ممتاز حیثیت رکھتی ہے۔
ڈاکٹر صفیہ بانو، محمد خضر حیات صاحب، عارفہ خالد شیخ ڈاکٹر فریدہ بیگم نے اس پر تفصیلی گفتگو کی ہے۔ اسی طرح ڈاکٹر نعیمہ جعفری پاشا میڈم کی تفہیم و تعبیر اور صدر عالم گوہر صاحب کی زیادہ تر باتوں سے متفق ہوں اور وہ تمام باتوں کو دہرانا مناسب نہیں سمجھتا۔ سہ ماہی نیا ورق کے نائب مدیر شاداب رشید صاحب نے بھی سنیل گنگو پادھیائے کے ناول اس وقت پر جامع اظہار خیال اور تفصیلی گفتگو کی ہے۔ اگر گنجائش ہو تو میری منتظمین سے درخواست ہے کہ وہ شاداب بھائی کے اس تبصرے کو یہاں پیش کریں۔
1 Comments
عمدہ اور پر مغز تبصرہ
ReplyDelete