Ticker

6/recent/ticker-posts

شکوہ (سید اسماعیل گوہر)

شکوہ

سید اسماعیل گوہر

تعارف :
سید اسماعیل گوہر کا تعلق مہاراشٹر کے ایک چھوٹے شہر ناندورہ سے ہے۔ آپ بنیادی طور شاعر ہیں اور افسانچے بھی لکھتے لیکن اب اپنے افسانہ نگار دوست علیم اسماعیل اور ادبی ادارہ فکشن ایسوسی ایشن، ناندورہ سے تحریک پا کر اردو افسانہ کی طرف راغب ہوئے ہیں۔ ابھی پچھلے برس ہی سے انھوں نے افسانہ نگاری شروع کی اور اب تک دو افسانے لکھے تاہم ان کا کوئی افسانہ کسی رسالے یا اخبار میں شایع نہیں ہوا۔ البتہ موصوف کا شعری کلام، افسانچے اور چند ایک علمی و ادبی مضامین اردو کے رسائل اور اخبارات میں جگہ پا چکے ہیں، جن میں رسالہ الفاظ ہند اور گوہر نایاب (پاکستان ) قابل ذکر ہے۔ اسی طرح اخبارات میں انقلاب، ایشیا ایکسپریس، اورنگ آباد ٹائمز، اخبار مشرق، اودھ نامہ، لازوال، الحیات، سہارا، میرا وطن اور منصف اہم ہے۔ علاوہ ازیں ریڈیو آکاشوانی کے مختلف اسٹیشنوں سے بھی موصوف کی چند شعری تخلیقات نشر کی گئیں۔ موصوف کی اب تک کوئی کتاب منظرِ عام پر نہیں آئی۔ آپ اردو تحقیق کے طالب علم بھی ہیں اور ڈاکٹر راغب دیشمکھ کی زیر نگرانی سنت گاڑگے بابا امراوتی یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھ رہے ہیں۔ اسی طرح آپ اردو کے سخت مقابلہ جاتی امتحان نیٹ اور سیٹ کوالیفائی کر چکے ہیں۔ آپ فکشن ایسوسی ایشن کے سیکرٹری ہیں جبکہ ادارہ بزم تحریک شعر و ادب، ناندورہ کے صدر ہیں۔ ان سب کے ساتھ ساتھ سید اسماعیل گوہر گروپ بزم افسانہ کے فعال ایڈمن ہیں اور بلا کسی صلہ و ستائش کے اپنی گراں قدر خدمات انجام دے رہے ہیں۔ پیشے سے آپ معلم ہیں اور نگر پریشد اردو مڈل اسکول، ناندورہ میں پچھلے 24 برسوں سے کار بند ہیں۔
انعام و اعزاز:
موصوف کو اب تک کوئی ادبی ایوارڈ تفویض نہیں کیا گیا البتہ علمی شعبے میں انھیں تین ایوارڈ ملے ہیں جن کی تفصیلات حسب ذیل ہیں۔
بیسٹ ٹیچر (آرزو ایجوکیشنل سوسائٹی، جلگاؤں )
سفیر تعلیم (فکشن ایسوسی ایشن، ناندورہ )
ایکسیلینس ایوارڈ (آل انڈیا آئیڈیل ٹیچرس اسو سی ایشن)
زیر نظر افسانہ ابھی غیر مطبوعہ ہے۔
طاہر انجم صدیقی
٭٭٭

شالیمار ایکسپریس برق رفتاری سے اندھیرے کا سینہ چیرتے ہوئے آگے بڑھ رہی تھی۔رات نےاپنا نصف سے زیادہ سفر طے کرلیا تھا۔ریزرویشن کے اس سیکنڈ کلاس ڈبے میں کُرلا سے ٹرین کی روانگی کے وقت جو شور و غل بپا تھا وہ اب تھم سا گیا تھا۔ زیادہ تر مسافر نیند کی آغوش میں جا چکے تھے۔کچھ بیٹھے بیٹھے اونگھ رہے تھے۔ حامد کی بیوی آمنہ اور تینوں بچے بھی بغل والی برتھز پر کب کے سو چکے تھے۔ حامد نے کئی بار آنکھیں موند کر سونے کی کوشش کی مگر ایسا محسوس ہوتا تھا گویا نیند اس کی آنکھوں سے کوسوں دور ہو۔
وہ پورے بیس برس بعد اپنے آبائی وطن ناندورہ جا رہا تھا۔ جب وہ محض تیرہ برس کا تھا، تبھی اس کے ماں باپ کچھ دن کے وقفے سے فوت ہو گئے تھے۔ بھائی بہن کوئی نہ تھا اور نہ ہی کوئی قریبی رشتہ دار تھا۔ محلہ پڑوس کے کئی لوگ شناسا تھے۔ جن کے ذریعہ اسے گاؤں کی خیر خبر معلوم ہوتی رہتی تھی۔ اس کا ذہن بار بار ماضی کے واقعات کی سیر کر رہا تھا۔ کئی بار وہ چشم تصور میں اپنے گاؤں لوٹ آیا تھا اگرچہ وہ ابھی بھی اپنی سیٹ پر بیٹھا ہوا تھا _اچانک چھوٹے بیٹے عونین کی آواز سے اس کے خیالات کا تسلسل ٹوٹ گیا۔
”پاپا مجھے ٹوائلٹ جانا ہے۔“ عونین نے برتھ پر لیٹے لیٹے ہی آواز دی۔ اس نے عونین کو برتھ سے نیچے اتارا اور قریبی ٹوائلٹ تک اس کے ساتھ گیا۔
”پاپا ناندورہ کب آئے گا؟“ واپس آتے ہوئے عونین نے باپ سے سوال کیا۔
”صبح صبح تقریباً سات بجے ہم ناندورہ پہنچ جائیں گے۔“حامد نے اسے برتھ پر چڑھاتے ہوئے کہا۔ اور اپنی سیٹ پر آکر بیٹھ گیا۔ حامد کھڑکی سے ملحقہ سیٹ پر بیٹھا دور اندھیرے میں گھور رہا تھا۔ اس کے خیالات ایک بار پھر ماضی کی طرف لوٹ گئے۔ ایک ایک کرکے تمام باتیں اسے یاد آنے لگیں۔بچپن کے دوست یار، اسکول کی شرارتیں، استاد کی مار، عربی مدرسے کے مولوی صاحب کی چھڑی، ندی کنارے والی مسجد اور وہ ندی جو اس کی تمام یادوں کا مرکز تھی۔ لڑکپن میں اس کا زیادہ تر وقت ندی پر ہی گزرتا تھا۔ صبح اور شام کے اوقات میں وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ ندی پر ہی کھیلا کرتا تھا۔
حامد کے دن کی شروعات ندی سے ہوتی تھی اور اختتام بھی ندی پر ہی ہوتا۔ ندی اور حامد ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم بن گئے تھے۔چھٹی کے دن تو وہ پورا دن ہی ندی پر گزارتا۔ دن بھر ساتھیوں کے ساتھ کھیلنا اور گہرے پانی میں جاکر تیرنا اس کا محبوب مشغلہ تھا۔ کئی بار اس نے ماں کی ڈانٹ اور باپ کی مار بھی کھائی تھی۔
اُن دنوں لڑکے ندی کنارے طرح طرح کے کھیل کھیلا کرتے تھے۔ چھوٹی عمر کے لڑکے گلی ڈنڈا کھیلتے یا پتنگ اڑایا کرتے _ نوجوان لڑکے اور مرد لون پِلون نامی کھیل کھیلتے تھے۔ لون پِلون کھیلنے کے لیے بہت زیادہ پھُرتی اور طاقت کی ضرورت ہوتی ہے اسی لیے حامد کو کبھی بھی اس کھیل کو کھیلنے کی ہمت نہیں ہوئی۔ حامد کو ندی کنارے کی گیلی ریت پر کبڈی کھیلنے میں بہت مزہ آتا تھا۔ کئی بار وہ کھیلتے کھیلتے زخمی بھی ہوا تھا۔ کہنیوں اور گھٹنوں کے چھلنے کی وجہ سے اسے اپنے باپ کی مار الگ سے کھانی پڑتی تھی۔ لیکن ماں جب رات میں سوتے وقت اس کے زخموں پر کھوپرے کا تیل لگاتی تو اس کا درد فوراً کم ہو جاتا۔اسے لگتا تھا ماں کے ہاتھوں میں جادو ہے جس کی وجہ سے درد فوراً کم ہو جاتا ہے۔
جس دن حامد کی ماں نے ہمیشہ کے لیے اپنی آنکھیں موندیں اس وقت بھی وہ ندی پر ہی کھیل رہا تھا۔ محلّے کے لڑکوں نے آکر حامد کو بتایا کہ ماں کو کھانستے کھانستے زور سے ٹھسکا لگا اور وہ درد کے مارے دوہری ہوگئی۔حامد سیدھا گھر کی طرف دوڑا۔گھر محلے کی عورتوں سے بھرا ہوا تھا۔بھانت بھانت کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔ مگر حامد کی ماں ہمیشہ کے لیے خاموش ہو چکی تھی۔
ماں کے جانے کے بعد حامد کی دنیا ہی اجڑ گئی۔ گھر کی دیکھ بھال کرنے والا کوئی نہیں تھا۔ باپ قریبی شہر جاکر مزدوری کرتا۔ صبح تڑکے گھر سے نکل جاتا اور رات گئے واپس لوٹتا۔
ماں کے انتقال کے کچھ مہینوں بعد ہی سڑک حادثہ میں باپ بھی حامد کو اس بھری دنیا میں اکیلا چھوڑ کر چلا گیا تھا۔ اب تو حامد کا دل ہر چیز سے اچاٹ ہو گیا تھا۔ اس نے اسکول جانا بھی چھوڑ دیا تھا۔ صبح سے شام تک ندی کنارے بیٹھا رہتا، نہ کھانے پینے کا ہوش تھا نہ کپڑوں کا۔ پڑوسی خالہ زبردستی کچھ کھلا دیتی تو کھا لیتا تھا۔
پھر وہ ایک دن پڑوسی غفّار چاچا کے ساتھ بمبئی چلا گیا اور وہیں کا ہو کر رہ گیا۔ اور آج پورے بیس برس بعد وہ اپنے وطن جا رہا تھا_ ایسا نہیں تھا کی کبھی اسے وطن کی یاد نہ آئی ہو۔ کئی بار وہ سمندر کنارے گیلی ریت پر بیٹھ کر اپنے گاؤں کی ندی کے بارے میں سوچتا رہتا تھا۔ سمندر کی لہروں میں ندی کی آواز سننے کی کوشش کرتا تھا۔حالات نے اسے ایسے جکڑ دیا تھا کہ وہ چاہ کر بھی اپنے گاؤں نہیں جا سکا تھا۔
شالیمار ایکسپریس صبح اپنے وقت پر ناندورہ اسٹیشن پر پہنچی تو حامد کی دلی کیفیت خوشی کے مارے بے قابو ہوگئی۔ دل اتنی زور زور سے دھڑک رہا تھا کہ اسے گردوپیش کی کوئی آواز نہیں سنائی دے رہی تھی۔ اسٹیشن کے باہر آٹو رکشہ کی قطار دیکھ کر اسے حیرت کا ایک اور جھٹکا لگا۔ اس نے اپنی حیرت پر قابو پاتے ہوئے آٹو والے کو آواز دی۔ آٹو والے نے پاس آکر پوچھا”کہاں جانا ہے؟“ جواب دینے کی بجائے حامد پھر سے ماضی میں پہنچ گیا۔ اس کی نگاہوں کے سامنے اپنا گھر اور محلّہ کا نقشہ گھوم کر رہ گیا_ اس نے بڑی مشکل سے اپنے جذبات کو قابو میں کیا اور رکشہ والے کو اپنے بچپن کے دوست آصف کے گھر کا پتہ بتا دیا۔
جیسے جیسے رکشہ آگے بڑھ رہا تھا اس کے دل کی دھڑکنیں تیز ہوتی جا رہی تھیں۔ نئی نئی بلند وبالا اور خوبصورت عمارتیں دیکھ کر اسے حیرت کے ساتھ ساتھ خوشی بھی ہو رہی تھی۔ اپنے گاؤں کی ترقی دیکھ کر اسے فخر محسوس ہو رہا تھا۔
آصف گھر کے دروازے پر ہی موجود تھا۔اس نے حامد اور اس کی فیملی کا گرمجوشی سے استقبال کیا اور گھر کے اندر لے گیا۔
چائے اور ناشتے سے فارغ ہونے کے بعد آصف تو ضروری کام سے باہر چلا گیا۔ بچے کھیلنے میں اور آمنہ آصف کی بیوی سے باتوں میں مشغول ہو گئی۔
حامد چپکے سے باہر نکل گیا۔ وہ جلد سے جلد ندی پر پہنچ جانا چاہتا تھا۔لیکن جیسے ہی وہ ندی پر پہنچا اس کی آنکھیں حیرت سے کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ اس کی زبان سے بے ساختہ نکلا ”ارے ندی کہاں ہے ! “ ندی کی جگہ ایک گندہ نالا بہہ رہا تھا۔ ہاں، ندی پر ایک پُل کا اضافہ ضرور ہو گیا تھا۔اسے آصف کی بات یاد آئی کہ ندی کے اس پار آبادی پھیل گئی ہے اور ایک نیا محلّہ غیبی نگر وجود میں آگیا ہے۔سرکار نے لوگوں کی سہولت کے لیے ایک پُل بنادیا ہے۔ جب ندی میں پانی بھرا رہتا تھا تو پُل نہیں تھا اور جب ندی خالی ہے تو پل بن گیا ہے۔ لوگ کپڑے گیلے ہونے کی پرواہ کیے بغیر ندی کے شفاف پانی میں سے چلے جاتے تھے۔لیکن بھلا اب اس گندے نالے کو کیسے پار کر سکتے تھے؟ شاید اسی لیے سرکار نے یہ پُل بنادیا تھا۔
حامد دیر تک پُل کی ریلینگ پر ہاتھ رکھے ندی کو دیکھتا رہا۔ اس کی پوری خوشی کافور ہو چکی تھی۔ اسے اس وقت بھی وہی پرانی ندی یاد آرہی تھی جہاں وہ صبح شام کھیلا کرتا تھا۔ صاف وشفاف پانی کی دھار اور اس میں تیرتی ہوئیں ننھی منی مچھلیاں، جنھیں وہ ہاتھوں سے پکڑنے کی کوشش کرتا تھا۔ ندی کے دونوں کناروں پر ریتیلا میدان دور تک پھیلا ہوا تھا۔ اس کے آگے پِلو نامی پیڑوں کی قطار تھی۔ لیکن یہاں اب کچھ بھی نہیں ہے۔ ہاں گندے پانی سے بھرے ہوئے گڑھے ہیں۔ کناروں پر جگہ جگہ کچرے کا ڈھیر پھیلا ہوا ہے۔ فضا میں عجیب طرح کی بدبو کا راج ہے۔ اس کی طبیعت مکدر ہوگئی۔اس نے واپسی کے لیے قدم بڑھائے، تبھی ایسے لگا جیسے ندی کچھ کہہ رہی ہو۔وہ پل بھر کے لیے ٹھٹکا اور سننے کی کوشش کرنے لگا۔ اسے لگا ندی جیسے اس سے باتیں کر رہی ہو،”آگئے تم۔۔۔! مجھے یقین تھا، تم ایک دن ضرور آؤ گے۔ تمھیں یاد ہے، جب تم بہت چھوٹے تھے اور مجھ سے باتیں کیا کرتے تھے۔تم مجھ سے اکثر پوچھتے تھے کہ”ندی تم بہتے ہوئے کہاں جاتی ہو؟“ اور میں کہتی تھی سمندر میں، اس وقت تمھیں سمندر کا مطلب معلوم نہیں تھا۔ مگر اب تو تم نے سمندر دیکھا لیا ہے۔ میں سمندر میں سما گئی ہوں کبھی نہ لوٹ کر آنے کے لیے، جس طرح تم بھی ہمیشہ کے لیے بمبئی میں بس گئے ہو۔جس طرح آدمیوں کی بھیڑ میں تمھاری کوئی شناخت نہیں، اسی طرح، میں بھی سمندر کے کھارے پانی میں اپنی شناخت کھو چکی ہوں۔ اب جاؤ اپنے سمندر کے پاس، یہاں کیوں کھڑے ہو۔“
ندی کا دکھ بھرا شکوہ سن کر حامد کے پیر من من بھر کے ہو گئے۔ اس سے چلا بھی نہیں جا رہا تھا۔ پھر اسے دیر تک ندی کی سسکیاں سنائی دیتی رہیں۔
٭٭٭

تبصرہ و تجزیہ
ریحان کوثر:
بزم میں پیش کئے گئے افسانوں میں اس افسانے کا نمبر 50واں ہے۔ مجھے امید تھی کہ گولڈن جوبلی کے اس موقع پر کوئی دھماکے دار افسانہ پیش کیا جائے گا لیکن سارے ہی دھماکے 49ویں افسانے پر ہی برپا ہوگئے۔ بوجھل طبیعت کے باعث کل جب عنوان پر نظر گئی تو لگا کہ یہ شکوہ و شکایت پر مبنی کسی گھسی پٹی کہانی پر کوئی روایتی افسانہ ہوگا۔ رات کو تو نہیں لیکن صبح جب اسے پڑھا تو مجھے سید اسماعیل گوہر صاحب کا افسانہ ’شکوہ‘ پسند آیا۔
افسانہ اس لیے پسند نہیں آیا کہ یہ تبصرہ جس گروپ میں پوسٹ کیا جانا ہے وہاں کے کسی ایڈمن کا افسانہ ہے۔ افسانہ پسند آنے کی وجہ یہ بھی نہیں کہ یہ موصوف کا پہلا یا دوسرا افسانہ ہے۔ دراصل اس کے موضوع نے متاثر کیا۔ نئے موضوع کی تلاش ویسے بھی افسانے کے ہر قاری کو رہتی ہے لیکن یہ موضوع بزم میں اب تک کے پیش کیے گئے افسانوں میں ذرا سا مختلف ہے۔
ہم جس ملک میں رہتے ہیں وہاں کی تہذیب اور مذہب ندیوں کو ماں کا درجہ دیتی ہے۔ یہاں تک کہ کسی دیوی کی طرح اس کو پوجا جاتا ہے۔ ٹھیک ہے ہماری تہذیب اور ہمارا مذہب ندی کو اس طرح کے درجات دینے کی اجازت نہیں دیتا۔ ہاں لیکن کیا ندی یا ندی جیسے قدرتی وسائل کو ہم ’دوست‘ کہہ کر پکار نہیں سکتے؟ کیا دوست سمجھ کر اس سے باتیں نہیں کر سکتے؟ کیا دوست سمجھ کر اس کے شکوہ و شکایت نہیں سن سکتے؟ کیا ان کی تکلیفوں، مشکلات اور پریشانیوں کو کم کرنے کے لیے ہم کچھ بھی نہیں کر سکتے؟ کیا ان پر کہانیاں اور افسانے بھی نہیں لکھ سکتے؟ ہم کب تک انفرادی طور پر در پیش مسائل کو ہی سنجیدگی سے لیں گے؟ اجتماعی طور پر ہمارے سامنے کھڑے مسائل کو کب تک اور کس حد تک ہم نظر انداز کریں گے؟ ماحولیاتی موضوعات کیا صرف بچوں کی نظموں کے لیے مخصوص کر دیے جائیں؟ کیا ماحولیاتی غور و فکر صرف اخباروں کے ادارتی صفحات اور نصابی کتب کے لیے متعین ہیں۔ کیا یہ مسئلہ صرف اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی سطح پر ہی اچھالا جائے گا؟ کیا یہ ہمارے سر پر سے گزر جانے والا مسئلہ ہے؟ قرآن کریم کی متعدد آیات ماحولیات سے متعلق ہیں۔ ان میں زمین، پانی، ہوا، زندہ اور مردہ مخلوقات، شجر، حجر، پہاڑ اور سمندر وغیرہ زیر بحث آئے ہیں جن کی تخلیق اللہ تعالیٰ کی قدرتِ کاملہ کی گواہی دیتی ہے۔
افسانہ نگار نے یہاں ندی کو کسی دوست کی طرح پیش کیا ہے۔ وہ دوست جس کے ساتھ بچپن کے سہانے لمحات وابستہ رہے ہیں۔ جس کے کنارے پر اس نے اپنے بچپن کے دنوں کے زیادہ وقت گزرے۔ اس کے کنارے اپنی کونیان اور گھٹنے چھلوائے ہیں۔ کیا کرشن اور سداما پر کہانی لکھتے وقت مہا بھارت کے ہر واقعات کا ذکر کیا جانا لازمی ہے؟ ہم افسانے کا تجزیہ ناول سمجھ کر کب تک کرتے رہیں گے؟
دوست تو ہمارے بہت ہوتے ہیں لیکن کوئی ایک دوست ہوتا ہے جو ہمارا بیسٹ فرینڈ کہلاتا ہے۔ کیا سب سے اچھا دوست ہونے کی بندش اور گنجائش صرف انسانوں تک ہی محدود ہے؟ کیا انسان اتنے اچھے ہیں۔ قدرت اور ماحولیاتی نظام نے انسان کو کیا دیا اور ہم انسانوں نے اس کے بدلے انھیں کیا دیا؟ ہم نے اردو افسانوں کو کیوں کچھ مخصوص دائرے میں باندھ رکھا ہے؟ مجھے تو حیرت ہے کہ یہ موصوف کا پہلا افسانہ ہے اور انھوں نے اس کے مرکز میں حامد کے ساتھ ایک ندی کو رکھا ہے۔ مجھے تو بس ایسا محسوس ہوا کہ یہ دو دوستوں کے بچھڑنے اور ان کے ملن کی کہانی ہے۔ اس طرح کون بات کرتا ہے؟ اس طرح کون شکایت کرتا ہے؟ اس طرح کون اپنے دل کے چھالوں کو پھوڑتا ہے؟ اس طرح کون کھری کھوٹی سناتا ہے، آپ خود دیکھیں اور ان دونوں کے درمیان رشتے کو محسوس کریں۔
”آگئے تم۔۔۔! مجھے یقین تھا، تم ایک دن ضرور آؤ گے۔ تمھیں یاد ہے، جب تم بہت چھوٹے تھے اور مجھ سے باتیں کیا کرتے تھے۔ تم مجھ سے اکثر پوچھتے تھے کہ”ندی تم بہتے ہوئے کہاں جاتی ہو؟ “ اور میں کہتی تھی سمندر میں، اس وقت تمھیں سمندر کا مطلب معلوم نہیں تھا۔ مگر اب تو تم نے سمندر دیکھا لیا ہے۔ میں سمندر میں سما گئی ہوں کبھی نہ لوٹ کر آنے کے لیے، جس طرح تم بھی ہمیشہ کے لیے بمبئی میں بس گئے ہو۔جس طرح آدمیوں کی بھیڑ میں تمھاری کوئی شناخت نہیں، اسی طرح، میں بھی سمندر کے کھارے پانی میں اپنی شناخت کھو چکی ہوں۔ اب جاؤ اپنے سمندر کے پاس، یہاں کیوں کھڑے ہو۔“
اس گفتگو سے جو باتیں سامنے آتی ہیں وہ کچھ اس طرح ہے۔
ندی کو حامد کا انتظار تھا۔
ندی کو حامد کے واپس آنے کا یقین تھا۔
ندی اور حامد دونوں ہی پہلے بھی باتیں کیا کرتے تھے۔
حامد ندی سے اس کے بہنے کی وجہ پوچھا کرتا تھا۔
ندی کہاں جاتی ہے؟ اس کا انجام کیا ہے یہ بھی سوال کیا کرتا تھا۔
جب یہ باتیں ان دونوں کے درمیان ہوتی تو اسے سمندر کیسا، کہاں اور کیوں ہوتا ہے بالکل نہیں معلوم تھا۔
لیکن ندی نے اپنے وجود کو سمندر میں اور حامد نے اپنی شناخت کو ممبئی کی بھیڑ غرق کر چکا ہے۔
اکثر ناراض دوست آپس میں اس طرح کے جملے ضرور کہتے ہیں کہ
”اب جاؤ۔۔۔۔، یہاں کیوں کھڑے ہو۔“
ندی کی سسکیوں پر ختم کیے گئے اس افسانے میں ہو سکتا ہے متعدد کمیاں اور خامیاں ہوں۔ اس کی نشاندھی باقی ساتھی بڑے ہی مہارت سے کر بھی رہے ہیں۔ اور یہ اتنا مشکل افسانہ بھی نہیں کہ اس کی خوبیاں اور خامیوں پر بحث چھیڑی جائے۔ اس میں جو ہے صاف نظر آ رہا ہے۔ بے مطلب کا پل، نالے کی طرح ندی، ندی کنارے کی گندگی، ریت کے بغیر دونوں طرف کے کنارے اور پل پر کھڑا ایک دوست! وہ دوست جو ساحل سمندر پر واقع ممبئی جیسے شہر سے واپس آیا ہے۔۔۔ کیا وہ ہمیشہ کے لیے واپس آیا ہے یا پھر وہ چلا جائے گا؟
٭٭٭

Post a Comment

0 Comments