کہانیوں کے کنارے بیٹھا ہوا’کہانی گر‘ ۔۔۔ ریحان کوثر
خان حسنین عاقبؔ
رکن، اردو اور فارسی لسانی کمیٹی، بال بھارتی، پونہ
لسانی ساخت کے اعتبار سے لفظ ’کہانی‘ کا تعلق اسم سے ہے۔ اس لفظ کے دیگر مشتقات اور اس لفظ کی مختلف شکلیں ’کہہ،کہنا، کہاوت، کہو، کہانا ‘وغیرہ ہیں۔ ’کہانی‘ کی روایت ہی چونکہ ’کہنے‘ سے نسبت رکھتی ہے اس لیے ماہرینِ لسانیات بھی یہی مانتے ہیں کہ ادب کی شروعات زبانی طور پر یعنی کہنے سے ہوئی اور پھر بعد کے دور میں ادب کے نام پر جو کچھ بھی کہا اور سنا جاتا تھا، اسے ’کہانی‘ کہاجانے لگا۔ پھر زبان و ادب کا ارتقاء ہوا اور ادب ’لکھا‘ جانے لگا۔ یعنی زبانی ادب کی جگہ ’تحریری ادب‘ نے لے لی۔ لیکن کہا نی موجودہ عہد میں بھی افسانے کی شکل میں موجود ہے۔ بلکہ آج کا افسانہ ہی گزشتہ’ کل‘ کی کہانی ہے۔
گزرے زمانے میں کہانی کہنا ایک فن تھا۔ الف لیلیٰ، پنچ تنتر، ’ایسوپ‘ کی کہانیاں Fables وغیرہ کہانیوں کی لازوال تاریخ و روایت کے ایسے گواہ اور سنگِ میل ہیں جن کے ذکر کے بغیر نہ کہانیوں سے متعلق کوئی کتاب مکمل کہلاسکتی ہے اور نہ ہی افسانوں سے متعلق کوئی کتاب۔ چودھویں صدی عیسوی کے نصف آخر میں جیفری چاسرGeoffrey Chaucer نے بھی ’دی کینٹر بری ٹیلس‘ The Canterbury Talesکے عنوان سے چوبیس کہانیاں ’کہی ‘ تھیں جن میں سے اکثر شعری قالب میں تھیں اور سترہ ہزار مصرعوں پر مشتمل تھیں۔ان میں سے چند ہی نثری قالب میں ہیں۔ یہ کہانیاں اگرچہ کہ مذہبی عنوانات پر کہی گئی تھیں لیکن بہرحال تھیں کہانیاں۔ ان کا اسلوب بھی ’کہنے‘ کا تھا اس لیے انھیں اس زمانے میں بھی Stories نہیں کہا گیا بلکہ Tales کہاگیا جس کے ظاہری معنی ہی کہی گئی کہانیوں کے ہیں۔اس کتاب کی شروعات ہی زائرین کے درمیان ’کہانی کہنے کے مقابلے‘کے ذریعے ہوتی ہے۔
کہانیوں سے متعلق ایک عام نظریہ موجودہ عہد میں یہ بھی پروان چڑھا کہ کہانی بچوں کے پڑھنے کی چیز یعنی تحریر ہے اور اس کا کوئی تعلق بڑوں کے ادب سے نہیں ہے۔ جب کہ منشی پریم چند کی کہانیاں بڑوں کے موضوعات پر تحریر کی گئی ہیں، اگرچہ کہ انھوں نے بچوں کے لیے اور بچوں کے عنوانات پر بھی بہت سی کہانیاں لکھی ہیں۔ لیکن یہ بہرحال زیادتی ہوگی اگر ہم اسے ایک راسخ نظریہ مانیں کہ کہانی محض بچوں کے لیے تخلیق کی گئی تحریرہے۔
کہانی سے متعلق کارلوس روئز زافون نے کہا ہے کہ
A story is a letter that the author writes to
himself to tell himself that he would be unable to discover otherwise.
(کہانی ایک ایسا خط ہے جو مصنف خود اپنے نام لکھتا ہے، خود اپنے آپ کو وہ با ت بتانے کے لیے جسے وہ کہانی کے بغیر دریافت نہ کرسکتا۔)
کہانی کو فارسی زبان میں قصہ یا داستان کہا جاتا ہے لیکن بچوں کی کہانیوں کے لیے زیادہ مناسب اصطلاح قصہ ہے اور کہانی کہنے یا کہانی سنانے کا عمل قصہ گوئی! کہانی سے متعلق مجھے چلتے چلتے ایک اور بات یاد آرہی ہے جو فیوڈور دوستوویسکی نے کہی تھی۔ اس نے کہا تھا
How could you live and have no story to tell?
(یہ کیسے ممکن ہے کہ تم زندہ ہو اور تمھارے پاس سنانے کے لیے کوئی کہانی نہ ہو؟)
اس بحث سے قطع نظر ہماری گفتگو کا موضوع بچوں کے لیے تحریر کردہ کہانیوں کا مجموعہ ’کہانیوں کے کنارے‘ ہے جس کے مصنف ریحان کوثر ہیں۔ریحان کوثر کا تعلق ناگپور شہر کی آغوش میں بسے ہوئے تاریخی شہر ’کامٹی‘ سے ہے جس کے انگریزی ہجا آج بھی انگریزوں کے زمانے کی یاد دلاتے ہیں یعنی انگریزی زبان میں اس کا ہجا KAMPTEE یعنی P کے سکون کے ساتھ ہے۔ یہ خصوصیت انگریزی زبان ہی کا حصہ ہے۔
خیر، ہم بات کررہے ہیں ریحان کوثر اور ان کی کہانیوں کی۔ ریحان کوثر پڑھے لکھے بھی ہیں اور نوجوان بھی جنھیں نوجوان کہنے اور ماننے میں بعض نوجوانوں کو تامل ہوتا ہے۔ وہ ‘الفاظِ ہند‘ نامی اردو ماہنامے کے ایڈیٹر ہیں جسے وہ تسلسل کے ساتھ کئی برسوں سے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ آج کے زمانے میں کسی بھی رسالے کا ’تسلسل ‘ اور اس کی پابندیٔ اشاعت سب سے مشکل لیکن سب سے اہم مرحلہ ہوتا ہے۔ ریحان کوثر نے یہ مرحلہ اپنے قوتِ ارادی اور عزمِ محکم کے بل بوتے پر بہ حسن و خوبی طے کیا ہے۔
ریحان کوثر نوجوان افسانہ نگار ہیں۔ ان کا اختصاص موجودہ دور میں یہی ہے کہ وہ ’سو لفظی‘ کہانیوں کے ’کہانی گر ‘ ہیں۔ ان کی ’سو لفظی ‘کہانیوں نے سوشل میڈیا اور پرنٹ میڈیا میں ایک ہلچل برپا کررکھی ہے۔ تخلیقی اعتبار سے بھی وہ نہایت سرگرمِ عمل ہیں نیز افسانوں اور سو لفظی کہانیوں کے ساتھ ساتھ بچوں کے لیے بھی کہانیاں لکھتے رہتے ہیں۔ بچوں کے لیے ان کی کہانیوں کا مجموعہ ’کہانیوں کے کنارے‘ ان کے اسی شوق کا نتیجہ ہے جو آپ کے ہاتھوں میں ہے۔
’کہانیوں کے کنارے‘ جیسا عنوان نہایت ندرت بھرا ہے۔ میرے ذہن میں پہلا تاثر یہی ابھرا کہ کیا اِن دنوں کہانیوں کے بھی کنارے ہونے لگے ہیں؟ پھر خیال آیا یہ ریحان کوثر کا اختراعی ذہن ہے اس لیے ’ریحان ہے تو ممکن ہے۔‘ کتاب کا سرورق نہایت جاذب نظر ہے۔ تصویریں یعنی ڈرائنگ بچوں کے رجحانات اور ان کی پسند کی عکاسی کرتی ہیں اور پہلی ہی نظر میں یہ تاثر دینے میں کامیاب ثابت ہوتی ہیں کہ ہو نہ ہو یہ کتاب بچوں کے لیے تحریر کردہ کہانیوں پر مشتمل ہے۔
’اپنی بات‘ کے تحت ریحان کوثر نے بچوں میں موبائل کی لت سے متعلق نہایت پر مغز گفتگو کی ہے لیکن آخری جملہ اتنا برجستہ کہہ دیا کہ میں عش عش کراٹھا۔انھوں نے لکھا،’ کہانیوں کی یہ کتاب بطورخاص ان ہی والدین کے لیے ہے جو بچوں کے ہاتھوں کو خالی چھوڑدیتے ہیں۔‘ یہاں لفظ’ ہی‘ میں تاکید کی بے انتہا شدت نظر آتی ہے اور پھر ’بچوں کے ہاتھوں کو خالی چھوڑدینا‘ سے مراد کیا ہے؟ یہ محض ایک جملہ نہیں ہے بلکہ موجودہ عہد کی ایک کربناک حقیقت ہے۔ آج کل کے بچوں، پھر چاہے وہ بچے ہمارے گھر میں ہوں یا آپ کے گھر میں، ان کے ہاتھوں سے موبائل فون چپکے ہوئے ہیں اور ان کی آنکھیں موبائل فون کے اسکرین پر ایسے چپکی ہوئی ہوتی ہیں جیسے چھپکلی دیوار سے چپکی ہوتی ہے۔ ان کی ’اپنی بات‘ بچوں کے ہاتھوں کو خالی رکھنے اور ان خالی ہاتھوں میں کتابیں تھمانے کی نصیحت اور مشورے سے عبارت ہے۔
بچوں کی کہانیوں کے اس مجموعے میں شامل کہانیوں کو تین اقسام میں درجہ بند کیا جاسکتا ہے۔
۱۔ خود بیتی
۲۔طبع زاد کہانیاں
۳۔ترجمہ شدہ کہانیاں لوک کہانیاں یا ان کہانیوں کی تہنید
اس مجموعے کی پہلی کہانی کا کردار منگیش ہے۔ مصنف نے اس کہانی میں جس سے اس مجموعے کی شروعات ہوتی ہے، کہانی کے protagonist یعنی منگیش کو ایک مثبت shade میں دکھایا ہے اور اسے اخلاقی قدروں کی پاسداری کرنے والے کردار کے طور پر متعارف کروایا ہے۔ اس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ ریحان کوثر اپنے ملک کی گنگا جمنی تہذیب اور سیکولر قدروں میں بھرپور یقین رکھتے ہیں۔
’الفاظ کٹ، ایک منٹ کا پرچہ، مجرالدین، موبائل والے مجرالدین ‘خطرنک مجرالدین، احمق، پتھر کا ابال،بدلہ وغیرہ ایسی کہانیاں ہیں جو بچوں کے لیے لکھی گئی ہیں۔ ان میں سے کئی کہانیاں مختلف ممالک کی لوک کہانیوں سے متاثر ہوکر بھی کہی گئی ہیں اور کچھ خالص ترجمہ ہیں۔ ان کی طبع زاد کہانیوں میں سے اکثر کہانیوں میں ’افسانہ پن ‘ ہے۔ یعنی یہ کہانیاں کم اور افسانہ زیادہ لگتی ہیں۔خاص طور پر پہلی دو کہانیاں ایوارڈ اور ’اسٹریٹ بریکر‘ تو اپنے treatment کی وجہ سے بالکل افسانے ہی لگتی ہیں۔ یوں بھی ریحان ایک افسانہ نگار ہیں تو ظاہر سی بات ہے کہ کہانی کہتے کہتے بھی ان کے اندر کا افسانہ نگار ان کے قلم پر حاوی ہوہی جاتا ہوگا۔ لیکن بہتر ہوتا اگر یہ کہانیاں بچوں کے لیے ہوتیں یعنی کم عمر کے بچوں کے لیے۔ البتہ دیگر وہ کہانیاں جو لوک کہانیاں اور ترجمہ شدہ کہانیاں ہیں، ان سے متعلق ہمیں کچھ نہیں کہنا۔
مجموعی اعتبار سے یہ کہنے میں مجھے کوئی باک نہیں کہ ریحان کوثر میں تخلیقیت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے، خصوصی طور پر ان کی افسانہ نگاری کے بارے میں یہ بات وثوق سے کہی جاسکتی ہے۔ حافظ ؔ شیرازی سے منسوب ایک شعر ہے۔
ما قصۂ سکندر و دارا نہ خواندہ ایم
از ما بجُز حکایتِ مہر و وفا مپرس
(ہم نے سکندر و دار ا کا قصہ نہیں پڑھا ہے۔ ہم سے محبت اور وفا کی کہانیوں کے علاوہ کچھ مت پوچھ۔)
میں اس شعر میں ذرا سی ترمیم کرکے بات ختم کرتا ہوں۔
ما قصۂ سکندر و دارا نہ خواندہ ایم
از ما بجز حکایتِ ’ریحاں‘ اے دل مپرس
٭٭٭
0 Comments