تعلیمی سفر کا تنہا مسافر : ڈاکٹر محمد رفیق اے ایس
ریحان کوثر
اِدھر کامٹی میں ایک کونپل پھوٹ گئی تھی جسے صرف اور صرف ذرا سی حوصلہ افزائی کے کھاد اور پانی کا انتظار تھا۔ اصطلاحات کی کاپیوں اور مزید خط و کتابت کے سبب ترقی اردو بیورو سے کامٹی کا رشتہ مضبوط ہوتا چلا گیا۔ اب کیا تھا اس مضبوط رشتے سے ترقی اردو بیورو کے ذریعے مہاراشٹر کی پہلی کتاب کے شائع ہونے کا باب لکھا گیا۔ اس طرح طب پر مبنی نادر کتاب "پیٹ کے کیڑے" کا وجود عمل میں آیا۔ کامٹی کی وہ کونپل، وہ نوجوان کوئی اور نہیں بلکہ ڈاکٹر محمدرفیق اے ایس ہیں، جنھوں نے کامٹی کو "ترقی اردو بیورو" سے متعارف کروایا۔ آج وہ ایک سائے دار درخت کی شکل میں خطہ کامٹی میں اپنی مضبوط اور گہری جڑوں اور استحکامت کے ساتھ کھڑا ہے۔
اب آپ یہ بھی جان لیں کہ ترقی اردو بیورو کیا ہے۔ ترقی اردو بیورو دراصل قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کی ابتدائی شکل ہے۔
پروفیسر نور الحسن صاحب کی درخواست پر اردو کے نفاذ اور ترقی کے لیے ایک ادارے کے قیام کا اصولی فیصلہ کیا گیا اور اس ادارے کا نام "ترقی اردو بورڈ " رکھا گیا جو 1969 ء میں قائم ہوا تھا۔ حکومت نے اردو کے فروغ کے امکانات کا جائزہ لینے کے لیے گجرال کمیشن قائم کی جس کی سفارش کے پیش نظر " ترقی اردو بیورو " کے قیام کا فیصلہ کیا گیا جس کی بنیاد 16 ؍جون 1973ء میں رکھی گئی۔ دو سال بعد اسے ماتحت سرکاری ادارے کا درجہ ملا۔ جب اندر کمار گجرال ہندوستان کے وزیراعظم ہوئے تو انھوں نے اس کو "نوڈل ایجنسی" کا درجہ دے کر اس کا موجودہ نام "قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان" (NCPUL) کردیا۔ اس ادارے کا باضابطہ قیام یکم اپریل 1996 ء میں عمل میں لایا گیا۔ 
( قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کی اشاعتی خدمات، مضمون نگار:محمد آدم صاحب، اردو دنیا اپریل 2017ء)
ترقی اردو بیورو سے قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے سفر کے دوران ڈاکٹر رفیق اے ایس صاحب کی دو کتابیں شائع ہوچکی تھی۔ سائنس اور طب پر مبنی پہلی کتاب "پیٹ کے کیڑے" 1987 ء اور سائنس اور سمیات پر مبنی دوسری کتاب "منشیات" 1992ء میں شائع ہوئی۔ کتاب "پیٹ کے کیڑے" کے اب تک چار اور "منشیات" کے اب تک تین ایڈیشن منظر عام پر آ چکے ہیں۔
"پیٹ کے کیڑے" اور "منشیات" یہ دونوں کتابیں، قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان اور شہر کامٹی کے لیے اب تاریخی دستاویز کے زمرے میں درج ہو چکی ہیں۔ آج ڈاکٹر محمد رفیق اے ایس، قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان نئی دہلی کے سائنس اور ماحولیات کے مشاورتی کمیٹی کے ممبر رہ چکے ہیں۔ آپ کی یہ دونوں کتابیں آسمان کی طرف اچھالا گیا وہ پہلا پتھر تھا جس کے بعد باقیوں کی راہیں آسان ہو گئی۔ دشینتؔ کمار نے شاید ایسے موقع پر ہی یہ شعر کہا ہوگا۔
کیسے آکاش میں سوراخ نہیں ہو سکتا
ایک پتھر تو طبیعت سے اچھا لو یارو
قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان اور مختلف ریاستوں کی اردو اکادمیوں کی پالیسی اور پروگرام سے آپ اچھی طرح واقف ہو چکے تھے۔ اسی کے ساتھ ساتھ آپ نے سب سے پہلے ان پروگراموں کی ودربھ جہاں مراٹھی اور ہندی زبانوں کا غلبہ ہے، عملی طور پر اس کی ترویج و ترقی کی کوشش شروع کردی۔ آپ نے مالی تنگی سے جوجھ رہے ادبا اور شعرا تک ان پالیسیوں کی رسائی کے لیے کئی اہم اور ضروری قدم اٹھائے اور دیکھتے ہی دیکھتے پردہ نشیں اور قطار کے آخر میں کھڑے کر دیے گئے ادیبوں اور شاعروں کی کتابوں کی اشاعت شروع ہوئی۔ بطور خاص آپ نے شہر کامٹی سے تعلق رکھنے والوں کی خوب ہمت افزائی کی اور ان کی کتابوں کی اشاعت کے لیے ہر ممکن کوششیں کیں۔ انتقال کر گئے شعراء کے کلام کو شائع کیا جانے لگا۔ مگر افسوس! اشاعت کی تعداد میں اضافے کے اِس کار خیر کے لیے بھی آپ کو سخت تنقیدیں بھی برداشت کرنی پڑی۔ باوجود ان تمام غیر ضروری مداخلت اور مخالفت کے آپ نے اس اشاعتی سفر کو جاری رکھا۔ آج کامٹی جیسا چھوٹا سا شہر ’بک پبلیشنگ ہب‘ کے طور پر مشہور ہو چکا ہے۔ آپ کی مسلسل کوششوں اور کاوشوں سے ملک کے بڑے بڑے شہر مثلاً دہلی، ممبئی، مالیگاؤں، رام پور، لکھنؤ اور حیدرآباد کی طرح طباعت و اشاعت کے میدان میں شہر کے کئی گھروں کو روزگار فراہم کر دیا گیا ہے۔
ڈاکٹر رفیق اے ایس نے، شہر کامٹی کے قدیم محلہ نیا بازار کے مہذب اور سیاسی و سماجی طور پر بیدار خاندان میں آنکھیں کھولیں۔ آپ 24 جون 1958ء میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد کا نام عبدالستار ہے جو شہر کے معروف حکیم تھے۔ آپ کی والدہ محترمہ کا نام کلثوم بی ہے۔ آپ کے دادا کا نام محمد عباس اور دادی کا نام فاطمہ بی ہے۔ آپ کے والد محترم "ستاراتار" حکیم کے نام سے مشہور تھے۔ شہر کے سب سے مصروف علاقے گجری بازار میں واقع آپ کی جڑی بوٹیوں کی دکان قدرتی دواؤں کا واحد مرکز تھی جو آج بھی اپنی روایت اور خصوصیات کے ساتھ موجود ہے۔آپ کے والد محترم کے زمانے میں یہ جڑی بوٹیوں کی دکان سیاسی، سماجی اور ادبی سرگرمیوں کا مرکز بھی ہوا کرتی تھی۔
موصوف اپنے والد کی رحلت کا ذکر اپنے حقیقی افسانچہ ’تقلید‘ میں کچھ اس طرح کیا ہے،
رات کا آخری پہر تھا پیشاب کی شدت سے نیند کھل گئی۔دیکھا تو اماں گہری نیند سو رہی تھی۔بہنیں اور بڑا بھائی بھی نیند کے آغوش میں تھے۔اس وقت میری عمر چھ سال کی ہوگی۔اماں کو جگایا لیکن دن بھر کی تھکن سے چور وہ کروٹ بدل کر سو گئی۔شدت پیشاب نے بالآخر مجھے اکیلے جانے پر مجبور کر دیا۔ کمرے سے نکل کر آنگن پار کیا اور فراغت حاصل کی۔ اچانک مجھے یوں لگا آسمان پر روشنی زیادہ ہے۔ نظریں اوپر کیں۔میں حیرت سے دم بخود ہو گیا۔آسمان کے بائیں سے دائیں جانب روشنی کا ایک طویل سلسلہ۔میں گھبراہٹ میں دوڑ کر کمرے میں اماں کو زور زور سےچلا کر ہلانے لگا میرے چلانے سے سب ہی جاگ گیے۔میں آسمان کی کیفیت بتائی سب کے چہرے پر حیرت اور ڈر کے تاثرات تھے تب ہی اماں کے ساتھ سب اٹھ کر کمرے سے باہر نکلے آسمان پر سب کی نگاہیں ٹک گئیں۔بایں جانب جھاڑو کی موٹھ اور دایں جانب تنکے جس کا سلسلہ بہت دراز تھا۔ اماں نے کہا،
"سنا تھا کئی دنوں سے دیکھائی دے رہا ہے۔"
بہن نے ڈرتے ہوئے پوچھا۔
" یہ کیا ہے؟"
اماں نے کہا یہ جھاڑو تارا ہے۔جو ہر 70 سال میں ایک بار دیکھائی دیتا ہے۔ جب یہ دیکھائی دیتا ہے تو بہت تباہی، جنگ، زلزلہ آتا ہے ہزاروں لوگوں کی جانیں چلی جاتی ہیں۔
میں ہزاروں کو تو نہیں اپنے والد کو جانتا ہوں جو پچھلے ہفتے انتقال کر گیے تھے۔
(ماہنامہ الفاظ ہند، کامٹی، اپریل، مئی 2022ء، صفحہ 40)
یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ کسی بھی شخصیت کا مطالعہ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اُس کے ظاہر و باطن، دونوں دنیا کا مطالعہ کیا جائے۔ کیونکہ شخصیت کی تعمیر میں جہاں جبلی اور فطری عناصر کارفرما ہوتے ہیں۔ وہاں خاندانی خصائص اور اردگرد کے ماحول کا بھی بڑا حصہ ہوتا ہے۔ شخصیت محض گوشت پوست کی چلتی پھرتی مورتی کا نام نہیں بلکہ اس میں فرد کی شخصی کوائف اور باطنی خصوصیات بھی شامل ہوتی ہیں۔ دونوں کے امتزاج سے شخصیت کا وجود مکمل ہوتا ہے۔ اوراگر شخصیت ایسی ہو جس کا اظہا ر اس کے تخلیقی فن پاروں میں بھی ہو تو پھر ان فن پاروں کی صحیح تقسیم و تحسین کے لیے داخلی اور خارجی زاویوں سے شخصیت کا مطالعہ اور بھی ناگزیر ہو جاتا ہے۔آپ اسکول کے اوقات کے علاوہ آپ کا زیادہ تر وقت والد محترم کی جڑی بوٹیوں کی دکان پر ہی گزرتا تھا۔ سیاسی گفتگو اور تبصروں نے ڈاکٹر رفیق اے ایس کی معصومیت بھرے ذہن اور خیالات کو پوری طرح بیدار کر دیا تھا۔ 1974 سے الجمعیۃ دہلی، نشیمن بنگلور جیسے اخبارات میں آپ کے مضمون شائع ہونے شروع ہو گئےتھے۔ آپ اس وقت آٹھویں جماعت کے طالب علم تھے۔ اس دوران آپ "م۔ر۔ عامر " کے قلمی نام سے سیاسی موضوعات پر مضمون لکھا کرتے تھے۔ حالت حاضرہ پر آپ کی اتنی کم عمری میں بھی اچھی خاصی گرفت تھی اور گہرا مشاہدہ بھی تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ رفیق صاحب کے دماغ کی پرورش تو طویل سلسلہ تعلیم میں ہوتی رہی لیکن غذائے روح ان کو شروع ہی سے جسمانی رزق کے ساتھ والد محترم اور بڑے بھائی محمد خورشید نادر ؔ سے ملتی رہی۔
آپ کی بیباک اور شوخ قلم چلتی رہی۔ آپ نے ونوبا بھاوے اور ان کی گو کشی کی روک تھام کے لیے پر زور تحریک پر بھی لکھنا شروع کر دیا۔ ایمرجنسی کی سسکیاں بھی آپ کی قلم سے نکلنے لگی، تب بڑے بھائی محمد خورشید نادر ؔ صاحب کو آپ کے اس شوق اور ادبی شرارتوں کا علم ہوا تو آپ کو شفقت بھری ڈانٹ ملی۔ ساتھ ہی سیاسی موضوع پر نہ لکھنے کی ہدایت دی گئی۔ محمد خورشید نادر ؔ صاحب جو خود طنز و مزاح نگار اور نوجوان ادیب تھے، انھوں نے آپ کو سائنسی اور تعلیمی موضوعات پر لکھنے کی ترغیب دی۔ اس کے بعد سے آپ نے لکھا اور خوب لکھا۔ لیکن اس تعلیمی سفر کے تنہا مسافر کو بڑے بھائی کی رہبری نے کبھی گمراہ نہ ہونے دیا۔
آپ کے سفر کا رہبر یعنی آپ کے بڑے بھائی خورشید نادر ؔنے بہت کم عمری میں ہی اس سفر میں آپ کو تنہا چھوڑ دیا۔ خورشید نادر باکمال طنز و مزاح نگار تھے۔ لیکن آپ کی تحریر فارسی آمیززبان و بیان کی چاشنی میں ڈوبی ہوئی ہوتی۔ برِ صغیر کے معروف انشائیہ نگار اور ادیب ڈاکٹر محمد اسداللہ آپ کے تعلق سے کتاب ’ زعفران زار ‘ میں لکھتے ہیں، 
خورشید نادر کامٹوی کے مزاحیہ مضامین شگوفہ میں شائع ہو چکے ہیں ان کی فارسی آمیززبان اور مزاح کا اعلیٰ معیار، خوش ذوق قارئین کو متاثر کرتا ہے۔ نادر کامٹوی کے کئی مضامین طنز و مزاح اور صنف انشائیہ کے متعلق شائع ہوئے ہیں جن میں مختلف اصنافِ میں ظریفانہ ادب کا تنقیدی جائزہ لیا گیا ہے۔ان کے مضمون والدین کا ایک اقتباس:
بعض والدین عجیب الوضع ہوتے ہیں۔ بعض غریب القطع،بعض شاخِ بے ثمر کی طرح ہوتے، بعض کثیر ایصال اور قلیل الغذا۔ کچھ قِران السعدین کے نمونے ہوتے ہیں، کچھ اجتماع ِ ضدّین کے،بعض میں موزونیت پائی جاتی ہے بعض میں شتر گربگی۔بسا اوقات ماں ٹینی ہوتی ہے باپ کلنگ اور بچے رنگ رنگ۔ بعض عجیب الخلقت مجموعوں کو دیکھ کر ایمان لانا پڑتا ہے کہ ان کی جلد سازی میں یقیناً دستِ قدرت کا دخل ہے۔ لیکن قدرت ایسے ماڈل تفریح طبع کے لیے نہیں، دیدۂ عبرت نگاہ کے معائنہ کے لیے فراہم کرتی ہے، بقیہ معاملات میں خود حضرتِ انسان کی کاوش و انتخاب کا دخل ہوتا ہے۔ بعض مضحکہ خیز جوڑے شرارت یا دانستہ چشم پوشی کے باعث بھی وجود میں آتے ہیں۔"
آپ نے نادر صاحب کے تعلق سے مزید معلومات پیش کی ہے،
محمد خورشید نادرؔ کا تعلق کامٹی سے تھا۔ انھوں نے ماہنامہ شگوفہ میں کئی مضامین تحریر کئے جن میں مردم گزیدہ۔معیارِ انتخاب اور والدین قابلِ ذکر ہیں۔ ان کی تحریروں میں حسِ مزاح کے علاوہ ان کے مطالعے، مشاہدے اور غور و فکر کے شواہد ملتے ہیں۔
خورشید نادر نے فنِ ظرافت سے متعلق بھی ایک طویل مضمون تحریر کیاتھا جو ماہنامہ شگوفہ میں بالاقساط شائع ہوا تھا۔ ان کا ایک اور دلچسپ مضمون معیارِ انتخاب شگوفہ میں شائع ہوچکا ہے۔
اردو کے چند لفظ ہیں جب سے زبان پر
تہذیب مہرباں ہے مرے خاندان پر
تعلیمی سفر کا آغاز:
آپ نے ابتدائی تعلیم میونسپل اردو پرائمری اسکول مین کامٹی سے حاصل کیں آپ کے کلاس ٹیچر ماسٹر حوضدار خان صاحب تھے۔ آپ نے ہائی اسکول اور جونیئر کالج کی تعلیم، ایم ایم ربانی ہائی اسکول و جونیئر کالج، کامٹی سے حاصل کی۔
بی ایس سی کی ڈگری سیٹھ کیسری مل پوروال کالج، کامٹی سے حاصل کی۔مراٹھواڑہ کالج آف ایجوکیشن، اورنگ آباد سے بی۔ ایڈ، راشٹریہ سنت تکڑوجی مہاراج ناگپور یونیورسٹی، ناگپور سے بی اے، ایم۔ اے (اردو) اور یشونت راؤ چوہان مکت ودیا پیٹھ، ناسک سے ڈی۔ ایس۔ ایم۔ کی ڈگریاں حاصل کی۔ بعد ازاں باعنوان، کشمیری لال ذاکر- عہد، شخصیت اور ادبی خدمات (گائیڈ: ڈاکٹر مدحت الاختر) تحقیقی مقالہ پیش کر کے راشٹریہ سنت تکڑوجی مہاراج ناگپور یونیورسٹی، ناگپور سے پی ایچ ڈی کی سند حاصل کیں۔
میں تیسری جماعت کا طالب العلم تھا۔ بچپن سے ہی میں چلبلا،متحرک اور نڈر تھا۔ کسی بات پر میرے منجھلے بھائی سے جھگڑا ہو گیا۔ میں اس کی کوئی چیز لے کر بھاگا، اچانک گلی کے موڑ پر میں رکشا کے سامنے سے ٹکرا گیا۔ میری سیدھی ٹانگ کی پنڈلی پر سے اگلا چکّہ گذر گیا۔ رکشا سامان سے لدا تھا۔میں بہت زور سے چلّایا۔ آس پاس کے لوگ جمع ہو گئے۔ میں نے ٹانگ کو جنبش دینے کی کوشش کی لیکن بے سود۔ تب ہی میرے سب سے بڑے بھائی نے مجھے گود میں اٹھایا لیکن شدید درد کی وجہ سے میرے آنسو تھم نہیں رہے تھے۔ گھر میں لائے تو ایک کہرام مچ گیا۔ اماں، بہنیں، چچا،چچی گویا ہر کوئی پریشان تھا۔ پڑوس کے بزرگ نے میری پنڈلی ٹٹول کر دیکھا جس پر اب سوجن آچکی تھی۔ انہوں نے کہا،
’’اسپتال لے جائیں۔ ایکس رے سے ہڈی کی کیفیت و حالت معلوم ہو جائے گی۔‘‘
لہذا اماں کے ساتھ اسپتال پہنچایا گیا۔بڑے بھائی بھی پہنچ گئے تھے۔ ایکس رے نکا لا گیا۔ ایکس رے کی فلم میں میری پنڈلی کی ہڈی صاف نظر آرہی تھی۔ ڈاکٹر نے کہا ہڈی کریک ہو گئی ہے۔ پلاسٹر چڑھانا ہوگا۔ لہذا پلاسٹر چڑھانے کے بعد چند گولیاں دی گئیں اور ڈاکٹر نے سخت ہدایت کی کہ ۲۱ دنوں تک ٹانگ کو ہرگز ہلنے نہ دیں، تمام معملات جگہ پر ہی کریں۔
ایک ہفتہ تو میں نے کیسے بھی ایک جگہ رہ کر برداشت کیا لیکن فطرت میں چلبلا پن تھا، میں گھسک گھسک کر چلنے لگا اور پندرہ دنوں میں گھر کے سامنے میدان میں دوستوں کے ساتھ کھیلنے لگا نتیجتاً پلاسٹر کے چتھڑے اڑ گئے۔ ۲۱ دنوں کے بعد جب اسپتال لے جایا گیا توڈاکٹر بہت بڑبڑایا۔ تاکید کرنے کے باوجود بھی آپ لوگوں نے اس پر کنٹرول نہیں کیا بہرحال پھر سے ایکس رے نکالا گیا۔ ہڈی جوڑ چکی تھی لیکن درد ہنوز قائم تھا۔شرارتوں، بھاگ دوڑ اور کھیلوں میں اتنا منہمک ہو گیا تھا کہ اب درد کا احساس نہیں ہو رہا تھا۔ ڈاکٹر نے یہ ہدایت خاص طور پر کی تھی کہ فٹ بال ہرگز کھیلنے نہ دیا جائے اور مجھے تاکید کی ’’اگر تم نے فٹ بال کھیلا تو ٹانگ کاٹنی پڑے گی‘‘۔میں ڈر گیااور کھیل کود سے دور رہنے لگا۔
ساتویں جماعت میں اسکول کی جانب سے فٹبال ٹیم بنائی جا رہی تھی میں نے بھی ٹرائل پاس کر لیاتھا۔ بالاآخر مجھے ٹیم میں شامل کر لیا گیا۔ مجھے سینٹر فارورڈ میں کھیلنے کی ہدایت کی گئی۔ میں جی جان سے کھیلتا اور دوران میچ کئی گول کیے۔ کبھی میرے پاؤں کی ہڈی کریک ہوئی تھی میں بھول چکا تھا۔ دو ماہ کی پریکٹس کرنے کے بعد انٹر اسکول ٹورنامنٹ شروع ہو گئے۔ کل چھ ٹیموں سے میچ کھیلنے کے بعد بالاآخر ہم فائنل میں پہنچ گئے۔ اب یاد نہیں کہ کتنے گول کیا تھا لیکن بیشتر میرے گول کرنے سے ٹیم کو فتح ملی تھی۔ ابھی فائنل کو دو دن باقی تھے۔ہمیں اب پہلے سے زیادہ صبح اور شام پریکٹس کرائی جا رہی تھی۔
میں بھی جان لگا کر خود کو مزید تیار کر رہا تھا۔ رننگ میں مزید بہتری کے لیے کئی میل تک دوڑ لگاتا۔ دراصل میں دبلا پتلا، پھرتیلا اور دراز قد تھا جو فٹ بال کھیلنے کے لیے نہایت موزوں تھا یہی وجہ تھی کہ سب سے زیادہ توجہ اور ہدایت مجھے دی جاتی تھی۔فائنل سے ایک دن قبل ہم گراؤنڈ پر پریکٹس میچ کھیل رہے تھے۔ سب ہی کھلاڑی بہت جوش میں تھے سب کا متفقہ فیصلہ تھا کہ فائنل جیت کر کپ حاصل کرنا ہے۔ ہم مقابل کی ٹیم پر تین گول کر چکے تھے جس کی وجہ سے شدید رد عمل کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔ وہ بال چھوڑ کر کھلاڑیوں کو دھکا مار کر گرارہے تھے۔ کئی کھلاڑیوں کو معمولی چوٹیں بھی آئیں۔ ہاف میں کوچ نے چند غلطیوں کی نشاندہی کی اور ہدایتیں بھی دیں، میچ شروع ہوتے ہی میں تیزی سے گول کی جانب بال لے کر نکلا دو کھلاڑیوں کو کاٹ کر ڈاچ دے کر بڑی ڈی تک پہنچ گیا میں نے فیصلہ کیا کہ لانگ کک سے بال سیدھا نیٹ کردوں، میں فوراّ پوری طاقت سے کک مارنے کے لیے ٹانگ اٹھائی اسی وقت مخالف ٹیم کے بیک نے بال کو چھوڑ کر سیدھے میری دائیں ٹانگ پر کھڑا بوٹ مار دیا۔ میں درد سے چیخ اٹھا، زمین پر لوٹنے لگا۔ تب ہی سب کھلاڑی، کوچ میدان میں دوڑ پڑے۔ مجھے اٹھا کر فوراً اسپتال لے جایا گیا۔ ایکس رے کے بعد معلوم ہوا کہ ہڈی ٹوٹ چکی ہے۔ ڈیڑھ مہینے کا پلاسٹر اور سخت ہدایات۔ گھر میں سب ناراض۔ میرا دل بیٹھ گیا۔ فائنل جیتنے کی خواہش نے مجھے اسپتال میں بھرتی کردیا۔ مجھے آج تک قلق ہے کہ میں وہ فائنل میچ کھیل نہ سکااور نہ ہی پھر اس کے بعد فٹ بال کھیل سکا جس کا ملال مجھے آج تک ہے۔
اس طرح فٹ بال سے آپ رشتہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم ہوا۔ آپ تعلیم کے معاملات میں بھی ایک کامیاب طالب علم تھے۔ ایک ہونہار طالب علم کے ساتھ ساتھ آپ میں حصول علم کی طلب کے ساتھ ساتھ خوداری بھی خوب تھی۔ کسی وجہ سے آپ کو کلاس کے اے سیکشن سے نکال کر سی سیکشن میں منتقل کر دیا گیا۔ یہ بات آپ کو ناگوار گزری۔ کیوں کہ اے سیکشن میں عموماً اچھے اور باصلاحیت طلباء کو رکھا جاتا ہے۔ بہر حال انھوں نے ساتویں جماعت میں سی سیکشن میں رہتے ہوئے اپنی روایات برقرار رکھی اور تینوں سیکشن میں اول مقام حاصل کیا۔ نتائج کے بعد آپ کو دوبارہ اے سیکشن میں منتقل کر دیا گیا۔ لیکن آپ نے بغیر ڈرے آفس میں جا کر اس بات کا احتجاج درج کیا اور اے سیکشن میں جانے سے انکار کر دیا آپ نے باقی جماعت اسی سیکشن سے مکمل کی اور ہر مرتبہ اول مقام حاصل کیا۔
درس و تدریس:
اظہار کرتے ہوئے کہا کہ
"میرے خیال سے اگر ڈاکٹر محمد رفیق اے ایس صاحب کا تقرر بطور معلم، شہر کی یا اطراف کی کسی اسکول میں ہوتا تو شاید ہمارا شہر ان کی باقی خدمات سے محروم رہ سکتا تھا۔ شاید ڈاکٹر صاحب کی سرگرمیوں اور خدمات میں وہ شدت نظر نہیں آتی جو آج ہمیں نظر آرہی ہے۔ شہر میں موجود ڈھیروں مثالوں کی طرح وہ بھی 'میں بھلا میری نوکری بھلی' کا نعرہ بلند کرتے اور ایک عام مدرس یا معلم کی طرح اپنی زندگی گزار دیتے۔اکثر آسانیاں اور آرائشیں انسان کو غیر متحرک اور کاہل بنا دیتی ہیں۔ چونکہ ہمارے شہر کے لوگوں کی خاص کر کچھ ادبی اور تعلیمی شخصیت کی ذہنیت کچھ اس طرح کی ہیں کہ وہ لوگ، ہنر مند معلم کا درجہ ان ہی لوگوں کو دیتے ہیں جو شہر کے احاطے میں موجود اسکولوں میں بطور معلم اپنی خدمات انجام دے رہے ہوں۔ ان کی نظر میں شہر کے باہر جو تعلیم و تدریس سے وابستہ ہیں، ان کی قدر صفر ہیں۔ کچھ حد تک ایسی ذہنیت کا شکار میں بھی ہوں۔
لیکن ڈاکٹر محمد رفیق اے ایس صاحب ان سب سے بے خبر اپنے تعلیمی سفر میں بنا تھکے اور بنا رکےکچھوئے کی چال چلتے رہے اور اپنے سنہری مستقبل کے باب لکھتے رہے۔ آج ڈاکٹر صاحب نے کئی خرگوشوں کو تعلیمی سفر میں پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ ان کی یہ انفرادیت ان کی مسلسل محنت اور لگن کا نتیجہ ہی تو ہے۔!!
مہاراشٹر اسٹیٹ بورڈ آف سکنڈری ایڈ ہائر سکنڈری ایجوکیشن، بورڈ آف اسٹیڈیز اور راجیہ منڈل پونہ سے وابستگی:
آپ کی تعلیمی مہارت، علم دوستی کے سبب آپ کو ہر سال مہاراشٹراسٹیٹ سکنڈری اینڈ ہائر سیکنڈری ایجوکیشن بورڈ ناگپور اور پونہ ہیں اعتمادی کاموں کے لیے شامل کیا جاتا رہا ہے۔
اسی طرح آپ نے مہاراشٹر اسٹیٹ بورڈ آف سکنڈری ایڈ ہائر سکنڈری ایجوکیشن ناگپور ڈویژن ناگپور میں ایس ایس سی امتحان کے لیے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی چودہ سال بطور ممتحن، سائنس اینڈ ٹکنالوجی دس سال بطور ماڈریٹر اور سائنس اینڈ
ٹکنالوجی ایک سال بطور چیف ماڈریٹر اپنے فرائض کو بخوبی انجام دیا۔
یہ شہر کامٹی ہی نہیں بلکہ پورے ودربھ علاقے کے لیے فخر اور مسرت کا مقام ہے کہ آپ بورڈ اور اسٹڈیز کے مسلسل رکن رہے۔ فی الحال آپ مہاراشٹر اسٹیٹ بیورو آف ٹیکسٹ بک پروڈکشن اینڈ کیرکوم ریسرچ’’بال بھارتی ‘‘ پونہ میں گیارہویں اور بارہویں جماعت ”تعلیم ماحولیات‘‘ کی بورڈ آف اسٹیڈیز کے نمبر ہیں۔ دراصل یہ تعلیم ماحولیات اور نصاب کے حوالے سے ریاست کی سب سے اہم کمیٹی ہے۔ اس کمیٹی میں شمولیت آسان نہیں ! اسی طرح آپ مہاراشٹر اسٹیٹ راجیہ منڈل پونہ کی ترجمہ کمیٹی کے رکن بھی ہیں۔ یہ بھی اپنے آپ میں ایک کارنامے سے کم نہیں کہ آپ بیک وقت دو اہم کمیٹیوں سے وابستہ ہے۔ راجیہ منڈل پونہ’’ اردولسانی کمیٹی“ برائے جماعت نویں سے بارہو میں کی بورڈ آف اسٹیڈیز کے سابق رکن بھی رہ چکے ہیں۔ اسی طرح ”اوپن اسکول کمیٹی‘‘راجیہ منڈل پونہ کی بھی رکنیت آپ کو حاصل ہے۔
تصانیف:
آپ نے آج تک جو بھی لکھا تعلیمی اور سائنسی یا ماحولیات پر ہی لکھا۔ آپ کے انقلاب ممبئی، اردو ٹائمز ممبئی، بچوں کی دنیا نئی دہلی، اردو دنیا نئی دہلی، معیار قوم دھولیہ، الفاظِ ہند اور مقامی اخبارات میں سائنسی، ماحولیاتی، ادبی وسیاسی مضامین شائع ہوچکے ہیں۔
الفاظ ہند فروری 2015 ء کا شمارہ خصوصاً سائنسی موضوعات پر مشتمل تھا۔ اس شمارے کی ترتیب کے دوران خیال آیا کہ سائنس وٹیکنالوجی کے موضوعات پر اردو زبان میں مواد کا فقدان کیوں ہے؟ آخر کیوں نہیں لکھا جا رہا ہے ان موضوعات پر؟ پھر سوال ذہن میں ابھرا کہ کس کی ذمہ داری ہے ان موضوعات پر لکھنے کی؟ اس دوران احساس ہوا کہ
بطور خاص اردو دنیا کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ سائنس و ٹیکنالوجی کے لیے کچھ نہیں لکھا جا رہا ہے۔ جبکہ اردو زبان سے ثانوی تعلیم حاصل کرنے والے ڈاکٹر، انجینئر اس خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ اس موضوع پر بھی لکھنے کی ذمہ داری ان ادیبوں، شاعروں، مولویوں اور اردو کے اساتذہ کرام کی ہے جنہیں بنا ‘ٹینڈر’ نکالے اردو کا “ٹھیکیدار “ بنا دیا گیا ہے۔
ان خیالات کو میں نے اپنے اداریہ میں پیش کیا اور اس سے سبق لے کر میں نے بھی کمپیوٹر پر مبنی کتاب "ڈاٹ کام " کی تخلیق کی۔ اسی دوران ڈاکٹر محمد رفیق اے ایس صاحب سے ملاقاتیں ہوئیں۔ مجھے احساس ہوا کہ، چلو ایک شخص تو ہے جس نے اپنے آبائی پیشے کو کوسنے کے بجائے اسے قلم بند کرنے کی کوششوں میں گامزن رہا۔ مَیں اپنے آپ کو خوش نصیب تصور کرتا ہوں کے میں نے ڈاکٹر صاحب کو قریب سے دیکھا۔ ان سے جتنی قربت ہوئی ان کے متعلق جاننے کی دلچسپی بڑھتی گئی۔
"پیٹ کے کیڑے" اور "منشیات" کے علاوہ آپ کی کئی کتابیں شائع ہوئی۔ 2002 میں "آؤ کمپیوٹر سیکھیں ‘‘ نویں جماعت کے طلبہ کے لیے (تین ایڈیشن)۔ 2005 میں ’’ہمارا ماحول‘‘ نویں جماعت کے طلبہ کے لیے (آٹھ ایڈیشن) اور "شخصیت سازی" نویں جماعت کے طلبہ کے لیے (پانچ ایڈیشن) بعد ازاں ’’ماحولیات ‘‘دسویں جماعت کے طلبہ کے لیے(آٹھ ایڈیشن) "شخصیت سازی" دسویں جماعت کے طلبہ کے لیے (چھ ایڈیشن) 2006 میں شائع ہوئی۔
”ماحولیات ایک مطالعہ‘‘ آئیڈیل پبلی کیشن ہاؤس کامٹی نے 2009 میں شائع کیا۔ جسے قوی کونسل برائے فروغ اردو زبان نئی دہلی نے مالی تعاون فراہم کیا۔ یہ کتاب مہاراشٹر ساہتیہ اردو اکادمی ممبئی اور بہار اردوا اکادمی پٹنہ سے انعام یافتہ رہی۔ اسی طرح دہم2012 میں "نئے نصاب کا طریقۂ تدریس اور نئی قدر پیمائی" برائے جماعت نہم اور "سائنس اور ٹیکنالوجی کے تجربات" برائے جماعت نہم اور دہم شائع ہوئی۔ 2013ء میں آپ کی ایک اور کتاب "ہمارا ماحول " شائع ہوئی جسے قوی کونسل برائے فروغ اردو زبان نئی دہلی نے مالی تعاون فراہم کیا۔یہ تمام کتابیں آئیڈیل پبلی کیشن ہاؤس کامٹی سے شائع ہوئی۔
2018ء میں تعلیمی موضوع پر کتاب طریقۂ قدر پیمائی شائع ہوئی جو نہم جماعت کے معلمین کی رہنمائی کے لیے تھی۔ ماحولیات کے موضوع پر قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کی مالی معاونت سے کتاب ’ماحولیات ایک مطالعہ‘ شائع ہوئی جسے اسی سال مہاراشٹر اسٹیٹ اردو ساہتیہ اکادمی اور بہار اردو اکادمی کی جانب سے ایوارڈ سے نوازا گیا۔ سال 2013ء میں ماحولیات کے ہی موضوع پر آپ کی ایک اور مؤقر اور معتبر کتاب ’ہمارا ماحول‘ شائع ہوئی۔ اس کتاب کو اتر پردیش اردو اکادمی کی جانب سے انعام سے نوازا گیا اور اس کتاب آر ٹی ایم ناگپور یونیورسٹی کے ایم اے سال اول کے نصاب میں شامل کیا گیا۔ اس کے بعد 2015ء تا 2018ء کے درمیان مہاراشٹر اسٹیٹ راجیہ منڈل، پونہ کی جانب سے سرگرمی شیٹ پر مبنی تین اور ’رہنمائے معلم‘ نامی تین کتابیں شائع ہوئیں۔ اب تک آپ کی ڈیڑھ ڈرزن کتابیں منظر عام پر آ چکی تھیں۔ اس کے 2019 میں آپ کی دو کتابیں قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے مالی اعانت سے شائع ہوئی۔ پہلی کتاب بعنوان ’مٹی کی آلودگی‘ ہے جو ماحولیات کے موضوع پر ایک عمدہ کتاب ہے۔ اسی طرح اسی سال آپ کتاب ’کشمیری لال ذاکر، ایک ہمہ گیر شخصیت‘ شائع ہوئی۔ 2020ء میں مہاراشٹر اسٹیٹ اردو ساہتیہ اکادمی انعام یافتہ کتاب ملیریا شائع ہوئی جو سائنسی موضوع پر قلم بند کی گئی ہے۔ قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے مالی تعاون سے کتاب بعنوان ’ملیریا سے لاحق بیماریاں ‘ شائع ہوئی۔
تنظیموں سے وابستگی:
آپ آئیڈیل پبلی کیشن ہاؤس کامٹی کے ذریعے ریاست مہاراشٹر کی اردو اسکولوں کو جماعت پانچویں سے دسویں تک امتحانات کے پر چے اور دیگر مطبوعات مہیا کرنے کے علاوہ تعلیمی لٹریچر اور اساتذہ کی رہنمائی کرنے میں پوری ریاست میں مشہور و ممتاز ہیں۔
بیسویں صدی کی آخری دہائی میں آپ ناگپور سے شائع ہونے والے انگریزی معروف و مؤقر اخبار دی ہتوادا سے بھی منسلک رہے۔ اس میں روز دسویں اور بارہویں جماعت کے طالب علموں کے لیے ٹیٹوریل شائع کیا جاتا تھا۔ جس میں امتحانات کے تعلق سے طلباء کی تیاری کروائی جاتی تھی۔ اس میں ٹیوٹوریل میں بورڑ امتحانات کے لیے سوالات اور جوابات دیے جاتے تھے۔ اکثر امتحانات میں ان میں سے ہی سوالات پوچھے جاتے جس سے علاقے میں اس کی مقبولیت اور شہرت دیکھنے لائق تھی۔ طلباء اس کے ایک ایک تراشے کو بڑی ہی حفاظت سے محفوظ کیا کرتے تھے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے 1993ء میں ہمارے دسویں بورڈ کے امتحانات تھے اور لوگ ان تراشوں کو کسی نعمت کی طرح اپنی فائیل میں جمع کیا کرتے تھے۔ ان ٹیٹوریل میں بعد میں اردو زبان کو بھی شامل کیا گیا جس سے اس کی مقبولیت میں زبردست اضافہ ہو گیا۔ اس شاندار کارنامے کو جو ٹیم انجام دے رہی تھی اس کے سب سے اہم رکن ڈاکٹر محمد رفیق اے ایس صاحب تھے جس کا انکشاف حال ہی میں دوران گفتگو ہوا۔ یہ انکشاف دراصل خاموش خدمات کا شاہد ہے۔
اسی طرح ستر کی دہائی میں آل انڈیا ریڈیو ناگپور اسٹیشن سے اردو کی نشریات شروع کروانے میں بھی آپ نے اہم کردار ادا کیا۔ بلکہ سابق رکن اسمبلی مہاراشٹر اور انٹک یونین کے جنرل سیکریٹری جناب ایس کیو زماں کے شانہ بشانہ آپ نے بھی کافی کوششیں کیں کہ نوبت جیل جانے تک کی آن پہنچی تھی۔ بہرحال یہ تحریک نے رنگ دکھایا اور بہت جلد آل انڈیا ریڈیو ناگپور اسٹیشن سے اردو کی نشریات کا آغاز ہوا جو آج تک جاری ہے۔
آپ نے کچھ ایسے کام بھی کیسے جسے دیوانوں کا کام کہا جاتا ہے۔ آپ نے 1998ء سال میں ایک اردو ماہنامہ رسالہ "تعلیمی سفر" کا آغاز کیا۔ یہ رسالہ مسلسل دس سالوں تک جاری رہا۔ تعلیمی موضوعات پر مبنی یہ رسالہ صوبے کی تقریبا تمام اسکولوں تک پہنچایا جاتا تھا۔ اس مفت رسالے کی قسمت تو پہلے ہی لکھی جا چکی تھی کیوں کہ یہ اردو زبان کا ہونے کے ساتھ ساتھ مفت بھی تھا۔ آخر اس کی اشاعت 2008 ء کے بعد روک دینی پڑی۔
آپ نے 1978 میں انجمن عصری ادب کامٹی کی بنیادڈالی جس کے جنرل سکریٹری کے عہدہ پر آج بھی فائز ہیں۔شہر اور اطراف کے علاقوں میں اس تنظیم کے ذریعے مشاعر ہ، سیمینار ادبی و شعری نشست، کتاب سینٹر، مفت اردو کوچنگ کالاسس وغیرہ کا انعقاد کیا گیا۔ آپ نے بعد ازاں 1982 میں آئیڈیل سوسائٹی کامٹی کی بنیادڈالی۔ آپ آج بھی اس سوسائٹی کے صدر کے عہدہ پر فائز ہیں۔ آپ نے منشیات کی روک تھام کے لیے منعقدہ پروگراموں میں حصہ لیا۔ ای ٹی وی حیدر آباد سے 2008 میں آپ کا انٹرویو نشر کیا گیا ساتھ متعدد بار آپ کی تخلیقات آل انڈیا ریڈیو ناگپور سے نشر کی گئی۔ اسی طرح آپ نے تعلیم، سائنس اور ماحولیات پر ملک کے بیشتر شہروں میں منعقدہ سیمیناروں میں شرکت کی۔
1990 میں "پی پلس سوسائٹی ( گوندیا)قائم کی اس سوسائٹی کے زیر اہتمام اردو پرائمری اسکول کا قیام عمل میں لایا گیا۔ آپ "آل انڈیا آئیڈیل ٹیچرس اسوسی ایشن" (AIITA ) یونٹ کامٹی کے صدر کے عہدے پر بھی کافی عرصے تک فائز رہے اور مختلف تعلیمی پروگرام، تخلیقی فن، تجربہ کاری، نئے نصاب کا تعارف اور ایسے بہت سی تعلیمی سرگرمیوں میں پیش پیش رہے۔ آپ حجیانی خدیجہ بائی گرلس ہائی اسکول کامٹی کی اسکول انتظامیہ کمیٹی کے صدر بھی رہ چکے ہیں۔
فی الوقت آپ بی بی ایجوکیشن اینڈ ویلفیئر سوسائٹی کامٹی کے زیر اہتمام شروع تمام اداروں، اردو ادھیاپک ویدیالہ، ایس ایم ڈی پبلک اسکول اور سیٹھ کلن میاں انصاری ہائی اسکول کے کوارڈینیٹر رہ چکے ہیں۔ 2019ء میں آپ نے کامٹی میں دو تنظیموں کی بنیاد رکھی۔ کلثوم بی ملٹی پرپز سوسائٹی قائم کی اور فی الحال آپ اس این جی او کے صدر کے عہدے پر آپ فائز ہیں۔
کورونا وائرس کی وبائی دور کے شروع ہونے سے قبل2020ء میں انجمن ضیاء الاسلام پبلک لائبریری کے صدر منتخب ہوئے۔ آپ نے کامٹی اُردو رائٹرس فورم کی بنیاد رکھی۔ کامٹی میں اردو ادب کی ترویج و ترقی کے لیے اس تنظیم کی بنیاد رکھی گئی۔ جس اولین صدر کے طور پر آپ کا انتخاب کیا گیا اور بطور سیکریٹری آغا محمد باقر نقی جعفری منتخب ہوئے۔ کورونا وبائی دور کے باوجود اس تنظیم کے زیر اہتمام کئی کتابوں کی تقریب رونمائی منعقد کی گئی اور متعدد سیمینار اور کانفرنسز ورکشاپس مذاکروں مباحثوں کا انعقاد آف لائن اور آن لائن کیا گیا۔ شہر کے ادیبوں اور شاعروں کو اعزاز و اکرام سے نوازا گیا۔ تعزیتی اجلاس منعقد کیے گئے۔
بطور مصنف آپ کو اب تک مہاراشٹر راجیہ اردو ساہتیہ اکادمی سے تین انعام، اترپردیش اردو ساہتیہ اکادمی لکھنؤ سے دوانعام اور بہار اردو اکا دی، پٹنہ کی جانب سے دو انعام حاصل ہوئے۔ مسلم پیٹریات آف انڈیا،ناگپور کی جانب سے بہترین مصنف، بی بی ایجوکیشن اینڈ ویلفیئر سوسائٹی کامٹی کی جانب سے تعلیمی خدمات کے لیے، لائنس کلب آف تمسر کی جانب سے بیسٹ ٹیچر ایوارڈ، مسلم اسٹوڈنٹس اینڈ ویلفیئر سوسائٹی ناگپور کی جانب سے بیسٹ ٹیچر ایوارڈ جیسے ڈھیروں اعزاز و انعام سے نوازا جا چکا ہے۔ انجمن ضیاء الاسلام پبلک لائبریری کامٹی نے آپ کو اردو دوستی اور ادبی سماجی اور تعلیمی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے "صدائے اردو" کے خطاب سے بھی نوازہ ہے۔
ڈاکٹر صاحب انتہائی شریف النفس، نرم اور میٹھے لب ولہجے کے مالک ہیں، ان کی شخصیت باوقار اور جاذب نظر ہیں، ان کی شخصیت کا خاکہ کچھ یوں بنتا ہے۔ دراز قد،،غلافی آنکھیں، کشادہ پیشانی، کھڑی ناک،مضبوط جسم، چہرے پر سنجیدگی، آنکھوں میں سوجھ بوجھ کی چمک نمایاں نظر آتی ہیں۔ سنجیدہ طرز گفتگو، معلومات کا خزانہ،ہر موضوع پر تفصیلی اور حوالائی گفتگو، دل میں اتر جانے والی مسکراہٹ، وضع قطع،چہرے مہرے سب سے شرافت، تحمل، وضع داری اور معصومیت کا خوشگوار اظہار، ان کا ظاہر جس قدر پر کشش ہے، باطن ا س سے بھی زیادہ صاف ستھرا ہے۔ اگر کوئی ریسرچ اسکالر اپنی تحقیقی مقالے کے لیے کسی اچھے موضوع کی تلاش میں ہو
تو اس کی تلاش ڈاکٹر محمد رفیق اے ایس پر آکر ختم ہو سکتی ہے۔
بے شک ڈاکٹر محمد رفیق اے ایس تعلیمی سفر کے تنہا مسافر ہیں، وہ تنہا مسافر جو چلتے چلتے بہت آگے نکل گیا۔۔
0 Comments