Ticker

6/recent/ticker-posts

صدارتی انتخاب

 صدارتی انتخاب

ریحان کوثر

پیارے بچو! میرا خیال ہے کہ آپ تمام کو بہت اچھی طرح علم ہوگاکہ ہمارا یہ پیارا ملک بھارت ایک جمہوری ملک ہے۔ ہمارے ملک کی حکومتوں کے انتخاب کا حق ملک کے تمام بالغ مردوں اور عورتوں کو حاصل ہے۔ رائے دہی کے یہ قیمتی اور اہم حقوق ہمارے آئین نے ہمیں دیا ہے۔ آپ جب اٹھارہ سال کے ہو گے تو ووٹ دینے کا حق آپ کو مل جائے گا۔ ویسے ملک میں ہونے والے تمام چھوٹے بڑے انتخابات کی گہماگہمی اور رونقوں کا لطف آپ لوگوں نے بھی تھوڑا بہت اٹھایا ہوگا۔ ملک کے بالغ شہری لوک سبھا، ودھان سبھا اور 
شہر بلدیہ یا گرام پنچایت وغیرہ انتخابات میں حصہ لیتے ہیں۔ 
ملک میں وفاقی طرز حکومت ہے جس میں وفاقی ، ریاستی اور مقامی سطح پر عہدیدار منتخب شدہ ہوتے ہیں۔ لیکن آپ کو اس بات کا علم ہے کہ ہمارے ملک کے صدر جمہوریہ کس طرح منتخب کیے جاتے ہیں؟ کیا آپ نے اس بات پر کبھي غور کیا کہ ملک کے موجودہ صدر جمہوریہ جناب پرنب مکھرجی صاحب کس طرح منتخب ہوئے؟ اور ان کے بعد اسی سال یعنی ۲۰۱۷ء میں جو کوئی بھی اس عہدے پر فائز ہوگا وہ کس طرح ہوگا۔ تو چلیے ہم بتاتے ہیں صدر جمہوریہ کس طرح منتخب کیے جاتے ہیں۔ 
بھارت کے صدر ملک کا سربراہ ہوتے ہیں۔ صدر انتظامیہ، مقننہ اور عدلیہ کا باضابطہ سربراہ اور مسلح افواج کے کمانڈر ان چیف بھی ہوتے ہیں۔ یونین کے تمام انتظامی کام ان کے نام سے کئے جاتے ہیں۔ آرٹیکل 52 کے مطابق یونین کی انتظامی طاقت صدر جمہوریہ کے عہدے میں موجود ہے۔ تمام قسم کی ایمرجنسی لگانے اور ہٹانے کا حق صدر جمہوریہ کو ہوتا ہے۔ جنگ یا امن کا اعلان کرنے کا حق بھی بھارت کے صدر جمہوریہ کے پاس ہوتا ہے۔ وہ ملک کا پہلا شہری ہے۔ بھارت کے صدر کا بھارت کا شہری ہونا ضروری ہے۔ عام انتخابات کے برعکس عہدہ صدارت کے لیے ہونے والا انتخاب کسی شور شرابے کے بغیر خاموشی سے انجام پذیر ہوتا ہے۔ 
صدر کے پاس کافی طاقت ہوتی ہے لیکن کچھ مستثنیات کے علاوہ صدر کے عہدے کے زیادہ تر حقوق​ اصل میں وزیر اعظم کی سربراہی میں ​کابینہ کے ذریعے استعمال کئے جاتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں کہا جائے تو ، صدر کا رول صرف ایک آئینی عہدہ تک محدود سمجھا جاتا ہے کیوں کہ تمام تر انتظامی اختیارات وزیر اعظم کے ہاتھوں میں ہوتے ہیں۔ 
بھارت کے صدر نئی دہلی میں واقع صدارتی محل (راشٹرپتی بھون) میں رہتے ہیں، جسے رائے سینا ہل کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ صدر دو یا دو سے زیادہ کتنی مرتبہ بھی عہدے پر رہ سکتے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ کی کوئی حد مقرر نہیں ۔ اب تک صرف پہلے صدر جمہوریہ ڈاکٹر راجندر پرساد ہی اس عہدے پر دو مدت مکمل کرچکے ہیں۔محترمہ پرتیبھا پاٹل بھارت کی 12 ویں اور اس عہدے کے پر فائز ہونے والی پہلی خاتون صدر ہیں۔ انہوں نے 25 جولائی 2007 ءکو عہدے اور رازداری کا حلف لیا تھا۔ 
 

اختتام دور صدارت

آغاز دور صدارت

سیاسی جماعت

صدر

شمار

13 مئی 1962

26 جنوری 1950

انڈین نیشنل کانگریس

ڈاکٹرراجندرہ پرساد

1

13 مئی 1967

13 مئی 1962

آزاد

رادھا کرشن

2

مئی 1969

13 مئی 1967

آزاد

ڈاکٹرذاکر حسین

3

20 جولائی 1969

مئی 1969

آزاد

وراہاگری وینکٹ گری

(قائم مقام)

 

24 اگست 1969

20 جولائی 1969

آزاد

محمد ہدایت اللہ(قائم مقام)

 

24 اگست 1974

24 اگست 1969

آزاد

وراہاگری وینکٹ گری

4

11 فروری 1977

24 اگست 1974

انڈین نیشنل کانگریس

فخرالدین علی احمد

5

25 جولائی 1977

11 فروری 1977

آزاد

بسپا دانپہ جتی(قائم مقام)

 

25 جولائی 1982

25 جولائی 1977

جنتا پارٹی

نیلم سنجیوا ریڈی

6

25 جولائی 1987

25 جولائی 1982

انڈین نیشنل کانگریس

زیل سنگھ

7

25 جولائی 1992

25 جولائی 1987

انڈین نیشنل کانگریس

وینکٹارمن

8

25 جولائی 1997

25 جولائی 1992

انڈین نیشنل کانگریس

ڈاکٹرشنکر دیال شرما

9

25 جولائی 2002

25 جولائی 1997

آزاد

کے آر نارائن

10

25 جولائی 2007

25 جولائی 2002

آزاد

ڈاکٹر اے پی جےعبد الکلام

11

25 جولائی 2012

25 جولائی 2007

انڈین نیشنل کانگریس

پرتیبھا پاٹل

12

تاحال

25 جولائی 2012

انڈین نیشنل کانگریس

پرنب مکھرجی

13


صدر بننے کے لیے ضروری قابلیت:

بھارت کا کوئی شہری جس کی عمر 35 سال یا اس سے زیادہ ہو وہ صدر کا امیدوار ہو سکتا ہے۔صدر کے امیدوار کو لوک سبھا کا رکن بننے کی قابلیت ہونی چاہئے اور حکومت کے تابع کوئی فائدہ کا عہدہ اس کے پاس نہیں ہونا چاہئے۔ لیکن مندرجہ ذیل کچھ عہدےدار کو صدر کے امیدوار ہونے کی اجازت دی گئی ہے:
ü موجودہ صدر
ü موجودہ نائب صدر
ü کسی بھی ریاست کے گورنر
ü ملک یا کسی ریاست کے وزیر
بھارت دنیا کا سب سے بڑا جمہوری ملک ہے۔ آئینی عمل کے تحت ہر پانچ سال بعد صدر کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ہمارے ملک میں صدر کے انتخاب کا طریقہ منفرد ہے ۔اس طریقے کو آپ سب سے بہترین آئینی طریقہ بھی کہہ سکتے ہیں۔ اس میں کئی ممالک میں ہونے والے صدارتی انتخابات کے طریقوں کی اچھی باتوں کو شامل کیا گیا ہے۔بھارت کے صدر کا الیکشن ایک حلقہ انتخاب( الیكٹورل کالج )کرتا ہے، لیکن اس کے اراکین کی نمائندگی متناسب ہوتی ہے۔ان کا واحد ووٹ ٹرانسفر ہوتا ہے، لیکن ان کی دوسری پسند کی بھی گنتی ہوتی ہے۔ حلقہ انتخاب میں کل 4،896 ووٹر ہوتے ہیں ۔ ووٹوں کی مختلف قدروں کو سمجھنے کے لیے کچھ باتیں کا علم ہونا ضروری ہے۔

بالواسطہ الیکشن:
بھارت کے صدرجمہوریہ کا انتخاب الیكٹورل کالج یعنی حلقہ انتخاب کرتا ہے۔ یعنی ہمارے ملک کی عوام اپنے صدر کا انتخاب براہ راست نہیں کرتی، بلکہ اس کے ووٹ سے منتخب کردہ نمائندے کرتے ہیں۔اس طریقے کے انتخاب کو بالواسطہ الیکشن کہتے ہیں۔

ووٹ کا حق:
اس میں پارلیمنٹ کے دونوں ایوان (لوک سبھا اور راجیہ سبھا) اور تمام ریاست کی اسمبلی (ودھان سبھا ) کے منتخب ارکان ووٹ ڈالتے ہیں، لیکن صدر کی طرف سے پارلیمنٹ میں نامزد رکن اور ریاستوں کی قانون ساز کونسلوں کے رکن ووٹ نہیں ڈال سکتےکیونکہ وہ عوام کے منتخب کردہ رکن نہیں ہوتے۔یہانتخاب وفاقی اور ریاستی اسمبلیوں پر مشتمل حلقہ انتخاب کی جانب سے کیا جاتا ہے۔

سنگل ٹرانسفریبل:
اس انتخابات میں ایک خاص انداز میں ووٹنگ ہوتی ہے، جسے 'سنگل ٹرانسفریبل ووٹ سسٹم' کہتے ہیں۔یعنی ووٹر ایک ہی ووٹ دیتا ہے، لیکن اپنا سنگل ووٹ دیتے وقت صدارتی انتخابات میں حصہ لے رہے تمام امیدواروں میں سے اپنی ترجیح طے کر دیتا ہے۔ووٹر بیلیٹ پیپر پر اپنی پسند کو پہلے، دوسرے اور تیسرے نمبر شمار کے ذریعے نشاندہی کرتا ہے۔اگر پہلی پسند والے امیدوار کے ووٹوں سے فاتح امیدوارکا فیصلہ نہیں ہو سکا تو امیدوار کے کھاتے میں ووٹر کی دوسری پسند کو نئے سنگل ووٹ کی طرح منتقل(ٹرانسفر) کیا جاتا ہے۔

متناسب نظام:
ووٹ ڈالنے والے ممبران پارلیمنٹ اور ممبران اسمبلی کے ووٹ کی اہمیت الگ الگ ہوتی ہے۔دو ریاستوں کے اراکین اسمبلی کے ووٹوں کا اہمیت مختلف ہوتی ہے۔مثال کے طورپر اترپردیش اور منی پورجیسی ریاستوں کے ممبران اسمبلی کے ووٹ کی اہمیت (قدر) الگ الگ ہیں ۔ان ووٹوں کی اہمیت جس نظام سے طے ہوتی ہے، اسے متناسب نمائندگی کا نظام کہتے ہیں۔

ممبر اسمبلی کے ووٹ:
ریاستوں کے ممبران اسمبلی کے ووٹ کی اہمیت (قدر) متعین کرتے وقت رکن اسمبلی جس ریاست کا ممبر اسمبلی ہو، اس کی آبادی دیکھی جاتی ہے۔ اس کے ساتھ اس ملک کے اسمبلی ممبران کی تعداد کو بھی ذہن میں رکھا جاتا ہے۔ووٹ کی اہمیت (قدر) نکالنے کے لیے ریاست کی آبادی کو عوام کے ذریعے منتخب ممبران اسمبلی کی تعداد سے تقسیم کیا جاتا ہے۔ اس طرح جو بھی تعداد ملتی ہے، اس عددکو ایک ہزار سے تقسیم کیا جاتا ہے۔اب جو اعداد و شمار ملتا ہے، وہی اس ریاست کے ایک رکن اسمبلی کے ووٹ کی قدر (اہمیت) ہوتی ہے۔ ایک ہزار سے تقسیم دینے پر باقی پانچ سو سے زیادہ ہو تو اس قدر میں ایک جوڑ دیا جاتا ہے۔ حلقہ انتخاب میں 4،120 ممبران اسمبلی کے ووٹہوتے ہیں۔

ممبران اسمبلی کے ووٹوں کی تعداد مندرجہ ذیل ہیں:


اختتام دور صدارت

آغاز دور صدارت

سیاسی جماعت

صدر

شمار

13 مئی 1962

26 جنوری 1950

انڈین نیشنل کانگریس

ڈاکٹرراجندرہ پرساد

1

13 مئی 1967

13 مئی 1962

آزاد

رادھا کرشن

2

مئی 1969

13 مئی 1967

آزاد

ڈاکٹرذاکر حسین

3

20 جولائی 1969

مئی 1969

آزاد

وراہاگری وینکٹ گری

(قائم مقام)

 

24 اگست 1969

20 جولائی 1969

آزاد

محمد ہدایت اللہ(قائم مقام)

 

24 اگست 1974

24 اگست 1969

آزاد

وراہاگری وینکٹ گری

4

11 فروری 1977

24 اگست 1974

انڈین نیشنل کانگریس

فخرالدین علی احمد

5

25 جولائی 1977

11 فروری 1977

آزاد

بسپا دانپہ جتی(قائم مقام)

 

25 جولائی 1982

25 جولائی 1977

جنتا پارٹی

نیلم سنجیوا ریڈی

6

25 جولائی 1987

25 جولائی 1982

انڈین نیشنل کانگریس

زیل سنگھ

7

25 جولائی 1992

25 جولائی 1987

انڈین نیشنل کانگریس

وینکٹارمن

8

25 جولائی 1997

25 جولائی 1992

انڈین نیشنل کانگریس

ڈاکٹرشنکر دیال شرما

9

25 جولائی 2002

25 جولائی 1997

آزاد

کے آر نارائن

10

25 جولائی 2007

25 جولائی 2002

آزاد

ڈاکٹر اے پی جےعبد الکلام

11

25 جولائی 2012

25 جولائی 2007

انڈین نیشنل کانگریس

پرتیبھا پاٹل

12

تاحال

25 جولائی 2012

انڈین نیشنل کانگریس

پرنب مکھرجی

13


*: سرکاری اعداد و شمار کی عدم دستیابی کے سبب تلنگانہ اور آندھراپردیش کی آبادی یکساں دکھائی گئی ہے۔

مندرجہ بالا جدول الیکشن کمیشن آف انڈیا کے ٢٠١٢ء اعداد و شمار کی بنیاد پر بنایا گیا ہے۔

رکن پارلیمنٹ کے ووٹ:
قومی اسمبلی لوک سبھا کے ارکان کی تعداد 545 ہے جن میں 543 ارکان کو عوام کی جانب سے براہ راست پانچ سال کے لیے منتخب کیا جاتا ہے جبکہ دو ارکان کو صدر نامزد کرتا ہے جو اینگلو انڈین کمیونٹی کی نمائندگی کرتے ہیں۔راجبہ سبھا کے ارکان کی تعداد 245 ہے جن میں سے 233 ارکان کو چھ سال کی مدت کے لیے چنا جاتا ہے جن میں ایک تہائی ارکان ہر دوسال بعد ریٹائرہوجاتے ہیں۔ان ارکان کا انتخاب بالواسطہ کیا جاتا ہے جن کے لیے ریاستی اسمبلیاں اور وفاقی علاقہ جات کے قانون ساز ووٹ دیتے ہیں۔ان ارکان کا انتخاب ’’واحد قابل تبادلہ ووٹ‘‘ کے ذریعے متناسب نمائندگی کی بنیاد پر ہوتا ہے۔
ممبران پارلیمنٹ کے ووٹوں کے اہمیت (قدر) بھی مختلف ہوتی ہیں۔ سب سے پہلے تمام ریاستوں کی اسمبلیوں کے منتخب کردہ رکن کے ووٹوں کی اہمیت (قدر) شامل کی جاتی ہے۔ اس اجتماعی قدر کا راجیہ سبھا اور لوک سبھا کے منتخب کیے گئے رکن کی کل تعداد سے تقسیم کیا جاتا ہے۔ اس طرح جو عدد حاصل ہوتا ہے، وہ ایک ممبر پارلیمنٹ کے ووٹ کی قدر( اہمیت) ہوتی ہے۔اگر اس طرح تقسیم کئے جانے پر باقی 0.5 سے زیادہ بچتا ہو تو قدر میں ایک کا اضافہ کیا جاتا ہے۔ حلقہ انتخاب میں 776 ممبران پارلیمنٹ کے ووٹ ہوتے ہیں۔
پارلیمنٹ کے اراکین کی تعداد (منتخب) = لوک سبھا (543) + راجیہ سبھا (233) = 776
ہر ووٹ کی قدر = 549.474 / 776 = 09 708.
پارلیمنٹ کے ووٹوں کی کل قیمت = 776 × 708 = 549،408

ووٹوں کی گنتی کا طریقہ:
صدارتی انتخابات میں سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے سے ہی جیت طے نہیں ہوتی۔ صدر وہی منتخب ہوتا ہے جو ووٹروں یعنی ممبران پارلیمنٹ اور ممبران اسمبلی کے ووٹوں کی کل اہمیت (قدر) کا نصف سے زیادہ حصہ حاصل کرے۔یعنی اس انتخاب میں پہلے سے طے ہوتا ہے کہ جیتنے والے کو کتنے ووٹ یا اہمیت (قدر) حاصل کرنا ہوگا۔ فی الحال صدارتی انتخابات کے لیے جوحلقہ انتخاب( الیكٹورل کالج )ہے، اس کے اراکین کے ووٹوں کی کل اہمیت (قدر) 10،98،882 ہے۔جیت کے لیے امیدوار کو 5،49،442 ووٹ حاصل کرناہوتا ہے۔جو امیدوار سب سے پہلے یہ حدف حاصل کرتا ہے، وہ منتخب کر لیا جاتا ہے۔

پہلی پسندیا ترجیح کی اہمیت:
پہلی ترجیح سمجھنے کے لیے ووٹ کی گنتی میں ترجیح پر غور کرنا ہوگا۔ رکن پارلیمنٹ یا رکن اسمبلی ووٹ دیتے وقت اپنے بیلٹ پر ہی نمبرشمار سے اپنی پسند کے امیدوار بتا دیتے ہیں۔سب سے پہلے تمام ووٹ پر درج پہلی ترجیح کے ووٹ گنے جاتے ہیں۔ اگر اس پہلی گنتی میں ہی کوئی امیدوار جیت کے لیے ضروری اہمیت (قدر) ووٹ کا حدف حاصل کر لے تو اس کی فتح ہو گئی لیکن اگر ایسا نہ ہو سکا تو دوسری ترجیح کی بنیاد پر ووٹ گنے جاتے ہیں۔پہلے اس امیدوار کو باہر کیا جاتا ہے، جسے پہلی گنتی میں سب سے کم ووٹ ملے، لیکن اسے حاصل ووٹوں سے یہ دیکھا جاتا ہے کہ اس کی دوسری پسند کے کتنے ووٹ کس امیدوار کو ملے ہیں۔

انتخاب میں ہار اور جیت:
ووٹ تفویض کرنے کے لیے ایک فارمولہ استعمال کیا گیا ہے تاکہ ہر ریاست کی آبادی اور اس ریاست کےاسمبلی کے ارکان کے ووٹ ڈالنے کی تعداد کے درمیان ایک تناسب رہے اور ریاست اسمبلیوں کے ارکان اور قومی ممبران پارلیمنٹ کے درمیان ایک تناسب رہے۔ اگر کسی امیدوار کو اکثریت حاصل نہیں ہوتی ہے تو ایک نصب نظام ہے جس سے ہارنے والے امیدواروں کو مقابلے سے ہٹا دیا جاتا ہے اور ان کو ملے ووٹ دیگر امیدواروں کو تب تک منتقل ہوتا ہے، جب تک کسی ایک کو اکثریت نہیں ملتی۔ صدر کے الیکشن سے متعلق کسی بھی تنازعہ میں فیصلہ لینے کا حق سپریم کورٹ کو ہے۔
______________ 
ماہنامہ، بچوں کی دنیا ، اگست ٢٠١٧ء 
٭٭٭

Post a Comment

0 Comments