Ticker

6/recent/ticker-posts

حرف اول: ڈاٹ کام

حرف اول: ڈاٹ کام
ریحان کوثر
ریحان کوثر

اکثر دانشور صرف مغرب کوسائنس اور ٹیکنالوجی کا منبع قرار دیتے ہیں حالانکہ زمانۂ قدیم میں مصر، وادیِ دجلہ وفرات،وادیِ سندھ،چین اور ہندوستان کے سائنس دانوں، موجدوں نےبھی یونان و روما کے ماہرین کے ساتھ علوم و فنون کی بنیاد ڈالنے میں اپنا اہم کردار ادا کیا۔ مسلم ماہرین کا کارنامہ یہ ہے کہ سب سے پہلے انھوں نے ہی تجربات و جستجو کو باقاعدہ طور پہ سائنس وٹیکنالوجی کا حصہّ بنایا۔ ممتاز یورپی دانشور،رابرٹ بریفالٹ اپنی کتاب”تشکیل انسانیت” (دی میکنگ آف ہیومنٹی) میں لکھتا ہے: “دور جدید کی سائنس،اس سائنسی غوروفکر اور علم و معلومات کی مرہون منت ہے جس نے (نویں تا بارہویں صدی عیسوی)دنیائے اسلام میں جنم لیا۔”علوم و فنون یا سائنس و ٹیکنالوجی کی دنیا میں ہمارے بے مثال کارناموں کی اہمیت اپنی جگہ،مگر زمانۂ حال پر نظرڈالی جائے تو شرم سےسرجھک جاتا ہے۔آج کرۂ ارض پر 24فیصد مسلم آبادی ہے۔لیکن کُل سائنس دانوں میں صرف “3 فیصد” مسلمان ہیں۔ یہودی عالمی آبادی کا معمولی حصّہ ہیں،مگر پچھلے سو برسوں میں اس قوم کے “79”سائنس داں اور موجد، مختلف سائنسی شعبوں میں نوبل انعام حاصل کرچکے ہیں۔
مغرب میں عموماً سائنس داں اور موجد اس بات پر مقابلہ کرتے ہیں کہ کون کتنے مقالے لکھتا،نظریات سامنے لاتا اور ایجادات پیش کرتاہے۔اسپین،جہاں کبھی مسلمانوں کی حکومت رہی، وہاں صرف ایک برس میں ہسپانوی زبان میں اتنی کتابوں کے ترجمے ہوئے،جتنے پورے عالم اسلام میں کئی برسوں بعدتک بھی نہیں ہو پاتے۔ بطور خاص اردو دنیا کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ سائنس و ٹیکنالوجی کے لیے کچھ نہیں لکھا جا رہا ہے۔ جبکہ اردو زبان سے ثانوی تعلیم حاصل کرنے والے ڈاکٹر ، انجینئر اس خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ اس موضوع پر بھی لکھنے کی ذمہ داری ان ادیبوں ، شاعروں ، مولویوں اور اردو کے اساتذہ کرام کی ہے جنہیں بنا ‘ٹینڈر’ نکالے اردو کا “ٹھیکیدار “ بنا دیا گیا ہے۔
حضرت محمدﷺنے فرمایا:"آدمی کے دین کا حسن اس بات میں مضمر ہے کہ وہ تمام لغو باتوں اور غیر متعلق معاملات کو ترک کردے۔" (ترمذی ابواب الزھد) عالم کی تخلیق خالقِ کل نے کی۔ اس میں بے شمار مخلوقات پیدا کیں اور اس کو خو بصورت بنانے کے لیے اور ضروریات کو پورا کرنے کے لیے انسان کے ذریعے ایجادات کیں۔ ان میں ریڈیو ،ٹیلی ویژن ،موبائل ،کمپیوٹر ، ٹیلی فون،وغیرہ سبھی شامل ہیں۔
سائنسی ترقی نے آج کے انسان کی زندگی کو بہت سہل بنا دیا ہے فاصلوں کو مٹا کر انسان کو ایک دوسرے کے قریب لا کھڑا کیا ہے۔ایک طرف سائنسی ایجادات کے بہت سے فوائد ہیں تو دوسری طرف ہمارے معاشرے میں بے شمار جنم لینے والی برائیوں کی جڑ بھی یہی ایجادات ہیں۔ بہت سے لوگ ان کا صحیح استعمال کرنے کی بجائے غلط استعمال زیادہ کر رہے ہیں، جن کی وجہ سے وہ اپنا آپ کھو رہے ہیں۔ کام کرنے کو دل نہ چاہنا ،آنکھوں اورکانوں کا کمزور ہوجانا، گھنٹوں ٹی وی ،کمپیوٹر کے آگے بیٹھے رہنا۔ یہ وہ چند وجوہات ہیں جن کی وجہ سے انسان کی ذہنی و جسمانی صحت و نشوونما پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
ایک دوسرے کے بظاہر قریب آنے کے باوجود ہم معاشرے اور ارد گرد کے ماحول سے لا تعلق ہوتے جارہے ہیں اس لیے کہ ہمارا زیادہ وقت میسج کرنے میں صرف ہو رہا ہے۔ ہمیں اس بات کا علم ہی نہیں ہوتا کہ ہمارے ارد گرد کے لوگ کن مسائل کا شکار ہیں، شاید انھیں ہماری مدد کی ضرورت ہو لیکن ہم اپنی ذات میں اتنا مگن ہو جاتے ہیں کہ دوسروں کے بارے میں نہیں سوچتے،سینکڑوں میل دور بیٹھے انسان سے تو ہم بات کر لیتے ہیں لیکن اپنے ساتھ رہنے والے لوگوں سے بات کرنے کا ہمارے پاس وقت نہیں ہوتا۔ہم ذہنی طور پر ایک دوسرے سے دور ہوتے جارہے ہیں ،جسے دیکھووہ چلتے پھرتے ،کام کرتے ،یہاں تک کہ محفل میں بیٹھے ارد گرد کے لوگوں سے بے نیاز اپنے سیل فون پر چیٹنگ کرنے میں مصروف ہوتا ہے۔ ہماری نئی نسل تو نشے کی حد تک اس کی عادی ہوتی جا رہی ہے،کھانا کھائے بغیر تو گزارا کرسکتے ہیں لیکن سیل فون کے بغیر زندگی ادھوری ہے ، فارغ وقت میں بچے جسمانی ورزش یا کھیلوں میں حصہ لینے کی بجائے موبائل فون یا کمپیوٹر پر گیمز یا چیٹنگ میں وقت ضائع کر دیتے ہیں۔اور پھر شارٹ میسجز زبان کے بگاڑ میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔موبائل فون ایک خطرناک ایجاد ہے جس کا لوگ ناجائز فائدہ اٹھارہے ہیں۔اگر اس کے مثبت پہلو ہیں تو منفی پہلو سب سے زیادہ ہیں،موبائل فون پر ایس ایم ایس کا رواج عام ہو چکا ہے ، خصوصا ًدس سے چودہ سال کی عمر کے بچوں نے فون لیے ہوئے ہیں۔ ایم ایم ایس کے ذریعے لوگ ایک دوسرے کو اپنی تصویریں بنا کر بھیجتے ہیں ،جس کی وجہ سے بہت سی اخلاقی برائیاں پیدا ہوتی جارہی ہیں۔ خاندان اورمعاشرےمیں بگاڑپیدا ہو رہا ہے۔جہاں تک مذہبی نقصانات کا تعلق ہے،اس کی موجودگی بعض اوقات انسان کو عبادت سے دور لے جاتی ہے ،ہر وقت موبائل پر انسان کی توجہ اسے اپنے اندر الجھائے رکھتی ہے اور نماز کی ادائیگی میں خلل انداز ہوتی ہے بالخصوص نماز کی حالت میں جب سب اﷲ تعالی کے حضور حاضر ہوتے ہوں اور ایک میوزک نما گھنٹی اس خاموشی کو تار تار کرتے ہوئے سب کی توجہ اپنی طرف پھیر لیتی ہے تو کس قدر تکلیف ہوتی ہے۔
اسی طرح کی سائنسی ایجادات میں سے ایک کمپیوٹر بھی ہے۔کمپیوٹر دورِحاضر کی بہت بڑی ضرورت بن گئی ہے ،لوگ میلوں دور بیٹھ کر ایک دوسرے سے آمنے سامنے بات کر سکتے ہیں جو پروگرام ہم ٹی وی پر نہیں دیکھ سکتے یا دیکھنے سے رہ جاتے ہیں وہ بھی ہم فرصت کے اوقات میں بہ آسانی دیکھ سکتے ہیں۔آج کل اسکول ،کالجز،آفیسز،یونیورسٹی میں کمپیوٹر ہیں۔نئی ٹکنا لوجی سے روشناس کروانا اچھی بات ہے لیکن اس کا غلط استعمال ٹھیک نہیں۔ لوگ ساری ساری رات انٹرنیٹ کا استعمال کرتے ہیں۔ جگہ جگہ انٹرنیٹ کلب کھلے ہوئے ہیں۔لڑکے لڑکیاں ساری ساری رات بیٹھ کر اس کا استعمال کرتے ہیں۔ اپنے غلط کوائف دے کردھوکہ دیتے ہیں ،اور یو ں ایک دوسرے کے جذبات سے کھیلتے ہیں،فحش ،بیہودہ اور گھٹیاپروگرام دیکھتے ہیں۔جس کے نتیجےمیں اکثر گناہوں کا ارتکاب کرتے ہیں۔
ہمارے معاشرے میں انٹرنیٹ کا بہت غلط استعمال ہو رہا ہے۔اگر اس کا صحیح استعمال نہ کیا جائے تو یہ ایک ایسا غار ہے جو بظاہر روشن نظر آتا ہے مگر اندر گھپ اندھیر ا ہے۔اس کی نظر آنےوالی کشش انسان کو ایسے موڑ پر لا کھڑا کرتی ہے جہاں سے واپسی نا ممکن ہوتی ہے۔ اس لیے اس کے استعمال میں حد درجہ احتیاط کی ضرورت ہے ،شروع میں شغل کے طور پر کام ہو رہا ہوتا ہے پھر بعد میں یہی عادت گلے کا ہار بن جاتی ہے چھوڑنا مشکل ہوجاتا ہے ،کیونکہ یہ ایک قسم کا نشہ ہے اور نشہ بھی لغویات میں سے ہے۔ علم میں اضافہ کے لیے انٹرنیٹ کو استعمال کریں۔
ان سب نقصانات سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ ہر سطح پروالدین اور بزرگ اپنا فعال کردار ادا کریں۔ نئی نسل کو گمراہ ہونے سے بچائیں اور ان کی راہنمائی کریں کہ کس طرح ٹیکنالوجی سے استفادہ کیا جاسکتا ہے۔لیکن محتاط اور ذمہ دار انہ رویے کے ساتھ اس کتاب کی تالیف و اشاعت کے دوران میرے دوست ریاض احمد امروہی اور انوارالحق پٹیل نے پوری دیانت داری اور خلوص سے میری مدد کی ہے اورمحمد ایوب صاحب نے اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر اس تحریر کو زیادہ سے زیادہ معیاری بنانے میں اپنی تمام کوششیں صرف کردی ہیں۔ دعا ہے کہ پروردگار ان کا سایہ تا دیر ہم پر قائم رکھے اور ہم ان سے اسی طرح استفادہ کرتے رہیں۔
میں ریاض احمد امروہی ، محمد ایوب صاحب اور اپنے فعال ساتھی انوارالحق کے لیےدست بدعاہوں کہ ان لوگوں کی رہنمائی ہی میرے لیے طباعت و اشاعت کے سارے مراحل کو آسان بنادیتی ہے۔جس کے لیے میں دل کی گہرائیوں سے ان کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔
٭٭٭

Post a Comment

0 Comments