کامٹی
ریحان کوثر
کامٹی شہر کی مجموعی آبادی ۱۲۴،۳۶،۱ افراد پر مشتمل ہے اور ۲۶۹ میٹر سطح سمندر سے بلندی پر واقع ہے۔یہ شہر، ناگ پور سے ۱۵کلومیٹر دور، ممبئی سے کولکاتہ جانے والی ریلوے لائن پر واقع ہے۔جہاں تک اس شہر کے نام کا تعلق ہے، اس کو چاروں اہم زبانوں میں الگ الگ طریقوں سے لکھا جاتا ہے۔لیکن پکارے وقت آواز میں قدرے مشباہت ہوتی ہے۔اردو میں " کامٹی" ہندی اور مراٹھی میں " کامٹھی" (कामठी) اور انگریزی میں " کیمپٹی" (Kamptee) لکھا اور بولا جاتا ہے۔
سیتا بلڈی کی لڑائی کے بعد جب ناگ پور اور اطراف پر انگریزوں کا مکمل قبضہ ہوگیا تو انھوں فوجی اہمیت اور پرفضا مقام کے سبب کنہان ندی کے کنارے اپنی فوجی چھاؤنی قائم کی۔اس طرح یہاں ہندوستانی فوج کے لیے الگ چھاونی بنی، جوجنوبی ہند کے باشندوں پر مشتمل تھی اور کالی پلٹن کے نام سے مشہور ہوئی۔اسی طرح انگریز فوجیوں کی چھاونی گوری پلٹن کہلائی۔جب علاقے میں انگریزوں کی گرفت مضبوط ہوگئی تو انھوں نے ہندوستانی فوج سدرن رجمنٹ کے نام سے جانی جاتی تھی، اسے برخواست کر دیا۔اس رجمنٹ کے سپاہی اور افسران سبک دوش ہونے کے بعد مودی اور بعد میں نیابازار میں نالے کے کنارے آباد ہوئے۔یہ گویا کامٹی کی پہلی شہری آبادی تھی۔چوں کہ کامٹی شہر کی بنیاد انگریزوں نے رکھی۔اس لیے نام بھی انگریزوں نے ہی رکھا ہوگا۔کامٹی فوجی چھاونی کے قیام کے وقت اس کیمپ کا انتظام مدراس Province کے تحت تھا۔سیتا بلڈی اور کامٹی چھاونی کا سالانہ احوال اور بجٹ ایک ساتھ بنایا جاتا تھا۔ان دونوں چھاونیوں کی مکمل رپورٹ ایک ساتھ ہر سال لندن بھیجی جاتی تھی۔ان تمام رپورٹوں میں کامٹی کا نام الگ الگ تھوڑی تبدیلیوں کے ساتھ نظر آتا ہے۔سب سے پہلے ایڈمس کی سفارش پر مستقل فوجی چھاونی کا قیام عمل میں آیا۔اس سلسلے میں ایڈمس نے رچرڈجینکسن، ریزیڈنٹ ناگ پور کو جو خط بھیجا ہے، اس میں اس علاقے کو کیمپتھ Kampth لکھا ہے۔غالباً یہی نام کثرتِ استعمال سے کامٹی ہو گیا۔
پہلی جنگ عظیم کے بعد کی تمام رپورٹ میں"کیمپٹی " لفظ کا استعمال کیا جانے لگا۔انگریزی ویکے پیڈیامیں کامٹی کی وجہ تسمیہ کچھ اور نظر آتی ہے۔اس میں کامٹی کی جغرافیائی شکل کی بنیاد پر اس کیمپ کو " کیمپ۔ٹی" (Camp-T) لکھا گیا۔اگر کامٹی فوجی چھاونی کوغور سے دیکھا جائے تو اس کی ساخت انگریزی لفظ "T"جیسی ہے۔ Camp کے ساتھ T کا اضافہ حروف تہجّی کے لحاظ سے اس کی پہچان کے لیے بھی ہو سکتا ہے۔
سرسیّد احمد خاں اپنے سفر انگلستان کے دوران یہاں سے گزرے تھے۔ انھوں نے ٹمپل گارڈن کی تعریف کی اور کامٹی کو ایک صحت افزا مقام کہا۔ یہاں کا موسم نہ زیادہ سرد نہ زیادہ گرم، بلکہ معتدل ہے۔اللہ کے کرم سے یہ آفات ارضی و سماوی سے بھی محفوظ رہا ہے۔ہندوستان کے بیچوں بیچ ہونے کے سبب یہ بیرونی ممالک کی سرحدوں سے دور ایک محفوظ مقام ہے۔آبادی میں اضافے کے سبب یہاں شہر کی شادابی تقریباً ختم ہوگئی ہے، مگر نالے اور ندی کے درمیان، کینٹ کا علاقہ اور فوجی چھاونی اب بھی سرسبزی اور شادابی میں لاجواب ہے۔
کامٹی میں تقریباً سبھی مذاہب کے لوگ رہتے ہیں۔ بطور خاص یہاں ہندو، مسلم اور بودھ کثرت سے آباد ہیں۔ سکھ اور عیسائی بھی پائے جاتے ہیں۔پہلے یہ ایک قصبہ تھا۔ناگ پور سے بہت قریب ہونے کے باوجود یہاں کے لوگ اپنی علاحدہ شناخت پر اصرار کرتے ہیں۔یہاں کے پکوان بطور خاص شادی کی بریانی ایک علاحدہ شناخت رکھتی ہے اور اپنی لذّت کے سبب دور دور تک مشہور ہے۔ یہاں کی زبان بھی ناگ پور سے کچھ الگ ہے، اس میں شمالی ہند،جنوبی ہند، چھتّیس گڑھ، اور برار کے اثرات غالب ہیں۔اس شہر میں اتّر پردیش کے مختلف علاقوں کے ہندو اور مسلمان، راجستھان کے مارواڑی، آگرہ اور متھرا کے گوالے، جنوبی ہند کے تامل ناڈو، آندھرا پردیش، چھتیس گڑھ، مدھیہ پردیش کے باشندے یہاں آباد ہیں۔ مانو اس چھوٹے سے شہر میں ایک ننھا ہندوستان رہتا ہو۔حالاں کہ یہ شہر حسّاس علاقوں میں شامل ہے، مگر دیکھا جائے تو یہاں مجموعی طور پر امن و امان قایم ہے۔اکّادُکّا واقعات کو چھوڑکر یہاں امن و آشتی کی فضا برقرار ہے۔ یہاں مسلمان کافی تعداد میں آباد ہیں ان میں مختلف عقائدو مسالک جیسے شیعہ، سنّی، دیوبندی، بریلوی، اہلِ حدیث کے پیروکار ہیں، مگر منافرت کا ماحول نہیں۔کبھی باہر سے آنے والے کسی عالم کی تقریر سے کچھ بدمزگی پیدا ہو بھی جائے تو یہاں کے رہنے والے اس کا کوئی اثر نہیں لیتے اور باہم شیر و شکر ہو جاتے ہیں۔تبلیغی(دیوبندی) اور بریلوی مسلک کے درمیان پورے بر صغیر میں کشیدگی کا ماحول ہے، مگر یہاں آپس میں قرابت اور رشتہ داریاں ہیں۔
چھوٹے بڑے بہت سے مندر اور بودھیہ وہار ہیں۔انیسویں صدی کی یادگار سرخ پتھروں سے تراشا ایک خوب صورت مندر بھی ہے جو رام مندر کہلاتا ہے۔اسمٰعیل پورہ میں واقع جی این روڈکے کنارے سینٹ فرانسس ڈی سیلز کا ایک میتھوڈسٹ چرچ بھی ہے۔ اس کے علاوہ چھاونی علاقے میں گروڑ چوک سے تھوڑا آگے کامٹی سے ناگ پور جانے والی سڑک کے دائیں طرف گوتھک طرز تعمیر کا خوب صورت چرچ بھی موجود ہے جو عرف عام میں گرجا گھر کہلاتا ہے۔ اس کے مقابل بائیں طرف انگریزوں کا قبرستان ہے۔ایک زمانے میں اس کی سنگ مر مر اور گرینائٹ کی خوبصورت قبریں ان کے کتبات، اس پر لکھی تحریریں اور بیل بوٹوں نے اسے سنگ تراشی کا ایک دیدہ زیب نمونہ بنا رکھا تھا۔مگر اس کے ساتھ بھی وہی سلوک ہوا جو انگریزوں نے اپنے پیش روؤں کی یادگاروں کے ساتھ کیا تھا۔اب یہ قبرستان اجڑا پڑا ہے اوراس کا کوئی پرسانِ حال نہیں۔چھاؤنی کے اندرونی حصے میں واقع گورا بازار علاقے میں سینٹ جوزف کا ایک دو سو سال پراناخوب صورت کلیسا اور ہائی اسکول ہے۔ جہاں کامٹی شہر کی بہت سی لڑکیاں اور لڑکے تعلیم حاصل کرتے ہیں۔کامٹی کا جین مندر بھی ہزار سال قدیم بتایا جاتا ہے۔مہابھارت کے واقعات پر مبنی پتھر پر نقش مورتیاں بھی یہاں دیکھی جاسکتی ہیں۔مندر کے ٹرسٹی کے مطابق مندر کے آس پاس صدیوں تک تقریباً ۵۰۰ سے زائد مکان تھے، جن مین جین مذہب کے لوگ رہا کرتے تھے۔یہ آبادی کب اور کہاں گئی یہ ایک تحقیق طلب مسئلہ ہے۔سب سے اہم پرانے مندروں میں رام مندر، کنہان روڈ پر سائی ناتھ مندر، کنہان ندی کے دوسری طرف (گورا بازار کے قریب) قدیم شیو مندر، مشہور مہادیو گھاٹ پر ہنومان، گنیش اور شیو مندر ہیں۔ندی کے کنارے قدیم مندر زیادہ تر مراٹھا بھونسلہ راجاؤں کی عقیدت کے مظہر ہیں۔مہادیو گھاٹ س متصل وسیع و عریض کامٹی کلب آج بھی اپنی پرانی شان کا مرثیہ خواں ہے۔
یہاں تقریباً چالیس مساجد ہیں۔کئی مساجد کے ساتھ، نیا بازار کی بڑی مسجد ۱۳۰ سال اور کولسا ٹال، وزیر صاحب مسجد(آڑی مسجد) ۱۰۰ سال پرانی ہیں۔ وارث پورہ مسجد تریباً ۱۵۰ سال پرانی ہے۔حیدری اثنا عشری جامع مسجد بھی ۱۰۰ سال پرانی ہے۔ موٹراسٹینڈ پر واقع مولا علی درگاہ اہل تشیع حضرات کا ایک اہم مرکز ہے۔بھوبنیشور میں رکھے اشوک کے زمانے کے ایک کتبے سے پتہ چلتا ہے کہ اشوک اپنے دشمن کالنگاکے راجہ کا پیچھا کرتے ہوئے دریائے کنہانا (کنہان )تک پہنچا، جہاں دونوں کے درمیان گھمسان کی جنگ ہوئی۔ بودھ مذہب کے ماننے والوں کی کوئی پرانی یادگار تو یہاں نہیں لیکن ایک شاندار عمارت ڈریگن پیلس ٹیمپل ایک خوبصورت باغ کے ساتھ ریل کی پٹری کے اس پار قبرستان سے پہلے واقع ہے، جو سابق وزیر مہاراشٹر کابینہ اور علاقے کی مشہور اور ہر دل عزیز لیڈر سُلیکھا تائی کمبھارے کی کوششوں کا نتیجہ ہے۔بدھ مذہب کے ماننے والے جو ناگ پور بابا صاحب امبیڈکر کی دکشا بھومی کی زیارت کے لیے آتے ہیں، یہاں ضرور حاضری دیتے ہیں۔
شہر کا سب سے صاف ستھرا اور خوب صورت علاقہ کینٹ کا مانا جاتا ہے۔اس علاقے میں سڑک کے قریب سے بھاجی منڈی کے پل تک عالمی معیار کا ایک بہت خوبصورت اور سرسبز و شاداب گولف کلب جنت نگاہ خاص و عام ہے۔ اس کی ریکھ دیکھ انڈین آرمی بڑی مستعدی اور تندہی سے کرتی رہتی ہے۔مگر یہاں ماضی کا شاندار کامٹی کلب اپنی پرانی عظمتوںکا مرثیہ خواں ہے۔
کامٹی کا بازارجو کبھی صدر بازار کہلاتا تھا ایک بڑی مارکیٹ کی طرح ہے۔جسے یہاں گجری بازار کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس کانام گجری کس طرح پڑا۔ اس کے بارے میں الگ الگ قیاس آرائیاں ہیں۔کچھ لوگ کہتے ہیں کہ گجر دم یعنی صبح کے وقت یہاں بنکری کا بازار بھرتا تھا، اس کی وجہ سے یہاں ہوٹلیں اور پان کی دکانیں کھل گئیں۔ویسے دیکھا جائے تو لفظ گجری کا استعمال نہایت قدیم ہے اور اس کے معنی گوالن یا گجرات سے تعلق رکھنے والی دودھدہی بیچنے والی عورت کے ہو تے ہیں۔
اس شہر کی ہر باتنرالی ہر ادا متوالی ہے اسکول، کالج، دوکان، کلب، ہوٹل کے ساتھ ساتھ یہاں میدان بھی' ربانی' ہے۔ یہاں کے بازارکہیں کمسری ہیں کہیں گول اور نئے ہونے کے ساتھ گورے بھی۔ کبھی یہاں گوری اور کالی دونوں پلٹن ہوا کرتی تھیں، مگر اب' سانولی' ہے ! یہاں پیلی حویلی کا نام تو ہے مگر نظر نہیں آتی۔ بالکل اسی طرح املی باغ اور ٹیمپل گارڈن سے املی اور ٹیمپل دونوں غائب ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ یہاں گارڈن جیسی کوئی بھی جگہ موجود نہیں۔ یہاں گارڈن کیوں نہیں ہے یہ دکھانے والا موضوع ہے۔ یہاں چہروں پر شرم و حیا کی لالی ہی نہیں مدرسہ تک لال ہے۔ آج کل بھارت میں ہر جگہ مودی مودی کی گونج ہے۔ مگر ہمارے یہاں تو بہت پہلے سے مودی ہے وو بھی مودی نمبر 1، جسے مودی پڑاؤ بھی کہا جاتا ہے۔
آپ کو روئی اور لکڑ کے گنج دیکھنا ہو تو چلے آئیے یہاں دونوں موجود ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ ان دونوں بستیوں کے نام بھی تبدیل ہو چکے ہیں محمد علی گنج اب روئی گنج کہلاتا ہے اسی طرح لکڑ گنج اب مشہورعالم دین اور مقرر کے نام پر مولانا اعجاز نگر کہلاتا ہے۔ پہلے تو کامٹی میں صرف ہی ایک کالونی ہوا کرتی تھی لوگ اسےصرف' کالونی 'کہا کرتے تھے، اس کالونی کا نام ڈاکٹر شیخ بنکر کالونی ہے۔ یہ ڈاکٹر شیخ کون تھےیہاں کے موجودہ نسل میں سے کسی کو کچھ نہیں معلوم، وقت کی گردش اور سرکار کی مار ایسی پڑی کہ اس بستی میں اب ایک بھی پیشہ سے بنکر نہیں۔ خیر ! بعد میں اور بھی بہت سی کالونی بسائی گئیں جیسے بی بی، ٹیچر، کمبھارے، کلپترو، کالونیاں۔
سنا ہے کہ یہاں ایک بنکر کالونی اور بھی ہے مگر بہت ڈھونڈنے پر ہمیں تو نظر نہیں آئی۔ انتخاب کے دوران لیڈروں کی زبانی سے سنا ہے کہ ٥٠٠ مکان الاٹ ہویے ہیں۔ مگر کہاں ہے کس کس کو ملا یہ مکان کچھ پتہ نہیں۔ شہر میں کچھ نگر بھی ہیں جیسے صوفی نگر، رما نگر، سید نگر اور ایک سیلاب نگر۔ جی ہاں سیلاب نگر شہر کے سب سے بڑے سیلاب کی نشانی ہے۔ وارث پورہ، اسماعیل پورہ، حسین آباد، قادر جھنڈا، بھاجی منڈی جیسی بہت سی قدیم بستیاں آج بھی آباد ہیں۔
یہاں کی زبان میں کچھ شمالی ہند کا کچھ جنوبی ہند کا رنگ نظر آتا ہے۔ خان دیش کی بھی جھلک یہاں کی زبان میں نظر آتی ہے۔ مراٹھی کے بہت سے الفاظ یہاں اردو کے ساتھ بلا تکلف بولے جاتے ہیں۔ شہد کی طرح میٹھی زبان ہے یہاں کی۔ یہاں بجلی آف یا بریک نہیں ہوتی 'گول ' ہوتی ہے۔ پگھل کر ٹوٹتا نہیں بلکہ "فیوز اُڑ جاتا ہے۔ " یہاں بجلی کا ٹرانسفارمر خزانہ کہلاتا ہے۔ یہاں روز پانی نہیں آتا بلکہ روز "نل آتا ہے۔ بس اسی مصری سے میٹھی اور املی سی کھٹی زبان میں کہا جائے تو ! کامٹی میری جان ہے!
٭٭٭
0 Comments