جذبۂ جہاد
اسلامی تاریخ شجاعت و بہادری کے کارناموں سے بھری پڑی ہے جس کی سب سے وا ضح مثال کربلا کا واقعہ ہے۔اسلام کی بلندی کے لئے جانباز مردوں کے علاوہ ننھے منے بچوں بلکہ خواتین نے بھی دار شجاعت دی اور اسلامی تاریخ میں اپنے نام اور کارناموں کو محفوظ کرگئے۔
معتبر اور بزرگ صحابی رسول حضرت عبداللہ بن زبیر کی خلافت اور ان کے کارنامے نئی نسل کے لئے قابل تقلید ہیں۔حضرت عمر بن عبدالعزیزؒکے علاوہ حضرت عبداللہ بن زبیر کی خلافت کو عموما ً خلافت راشدہ کی توسیع شدہ شکل سمجھا جاتا تھا اس کا عرصہ ٩ برسو ں پر محیط ہے۔
حضرت عبداللہ بن زبیر کی پیدائش مدینہ منوّ رہ کی ہے جو مسلمان مکّہ سے ہجرت کرکے یہاں پہنچے تھے ان میں سب سے پہلی ولادت آپ کی تھی۔ہر دلوں کو یہ غلط فہمی تھی کہ ان کے جادو کے زیر اثر مہاجروں ولادت کا سلسلہ بند ہے اور وہ اس پرطعنے بھی دیا کرتے۔لہٰذا حضرت عبداللہ بن زبیر کی پیدائش پر مسلمانوں میں خوب خوشیا ں منائی گئیں دشمن تو دم بخود ہوکر رہ گئے،حضرت عائشہ صدیقہ ر ضی اللہ عنہا آپ کی حقیقی خالہ تھیں۔ان کی تربیت مدینہ کہ اہل علم، صحابہ کے ہاتھوں ہوئی۔ اس لئے ان میں ساری اسلامی صفات موجود تھیں۔خلیفہ ہونے کے با وجود ان کی مذہبیت، عبادت اور اخلاق سب قابل تحسین تھے وہ روز مرّہ کے فیصلوں میں خدا اور رسول کی خو شنودی کو پیش نظر رکھتے تھے۔ در حقیقت دنیا داری اور سیاسی چالو ں سے وہ بہت دور تھے۔
شام، حجاز، عراق اور مصر ان کے زمانے میں اسلامی حکومت کے صوبے تھے۔اور صرف پہلے حصّے (یعنی شام ) کو چھوڑ کر باقی حصّو ں پر ان کی عملداری تھی۔ شام میں انھوں نے اور انکے ساتھیوں سے مروان کی خلافت کو تسلیم نہ کیا۔اور وہ کسی نہ کسی طرح ان کی بیعت حاصل کرنا چاہتا تھا- حضرت مصعب رضی الله عنہُ کی شکست اور عراق کے ہاتھ سے چلے جانے سے حضرت عبداللہ بن زبیررضی الله عنہُ کی سیاسی اور مالی حالت کافی خستہ ہو گئی،اس کمزوری کا عبدالملک نے فائدہ اٹھایا اس نے اپنے جرنیل حجاج بن یوسف کو حضرت عبداللہ بن زبیررضی الله عنہُ سے بیعت حاصل کرنے اور انہیں سبق سکھانے کے لئے مکّہ روانہ کیا –حجاج نے شہر کا محاصرہ کر لیا –یہ محاصرہ بہت طویل چلا، جس سے اہل شہر بہت پریشان ہو گئے-کھانے پینے کا سارا سامان ختم ہوگیا-اہل مکّہ کا گھبرا جانا لازمی تھا –پھر حجاج بن یوسف کی چالاکیا ں کام کررہی تھیں –دھیرے دھیرے بہت سے لوگ حجاج سے جا ملے حتیٰ کہ عبدا اللہ بن زبیر رضی الله عنہُ نے دونو ں بیٹوں نے بھی بے وفائی کی- حضرت عبداللہ بن زبیر اپنی بوڑھی ماں حضرت اسما ء کی خدمت میں حاضرہویے اور ساری روداد سنادی۔
خاص طور پر انھوں نے اپنے ساتھیوں کی بے مہری اور اپنے بیٹوں کی بے وفائی کو بیان کر د یا اور کہا کہ اس وقت دشمن کی جانب سے پیش کش کی جارہی ہے۔اگر میں ان کی اطاعت قبول کرلوں تو وہ ہر قسم کی مراعا ت دینے کو تیار ہیں –اس بارے میں آپ کی کیا ر ا ئے ہے ؟حضرت اسما ء کا جواب تھا –"بیٹا اگر تجھے یقین ہے کہ تو حق پر ہے تو ڈٹا رہے۔کسی قیمت پر ہو امیر کی بات تسلیم نہ کرنا۔اگر مال و دولت کی چاہ میں تم نے یہ قدم اٹھایا تھا اور سیکڑوں معصوم لوگوں کو ختم کروایا تھا تو مجھے سے برا کوئی نہیں ہوگا۔مومن کبھی بھی فوجی طاقت پر بھروسہ نہیں کرتا،جاؤ! اور حق کی راہ میں اپنی جان قربان کردو۔ میں خوشی خوشی انجام کو قبول کرلوں گی۔
ماں کے اس فیصلے پر عبد ا اللہ بن زبیر رضی الله عنہُ کو اطمینان حاصل ہوگیا اور بولے – "میرا ارادہ بھی یہی تھا- آپ سے مشورہ کرنا ضروری تھا - اب میں میدان جنگ میں کو چ کرتا ہوں - اب واپسی کی کوئی امید نہیں - ماں نے تسلی دی - "بیٹا ! جاؤ میں صبر سے کام لو ں گی "
یہ سن کر حضرت عبداللہ بن زبیر وہاں سے رخصت ہوئے اور اپنی مختصر سی جماعت لے کر شامیوں کے مقابلے پر نکل پڑے – شامیوں کی فوج عظیم کے سامنے اتنی قلیل تعداد کی آخر کیا حیثیت تھی – آخر وہی ہوا۔ شہادت حصے میں آئی۔حضرت عبداللہ بن زبیر نے اپنی جان کو لٹانا گوارہ کیا مگر باطل کے آگے سر نہ جھکایا- حجاج نے لاش مبارک کو سولی پر لٹکا دیا اور یہ تین دن سولی پر رہی – حضرت اسماء کا ادھر سے گزر ہوا تو بیٹے کی لاش کو دیکھکر بولیں – "یہ شہسور ابھی سواری سے نہیں اترا ؟ " یہ تھے ایک ماں کے جذبات اس طرح حضرت عبداللہ بن زبیر نے اسلام کی لاج رکھ لی اور تاریخ کے صفحات پر اپنے نام کو محفوظ کر گئے – ان کی یہ قربانی آج بھی یاد کی جاتی ہے۔ ان کی پیش نظر حضرت امام حسین کی عظیم قربانی تھی جنھوں نے حق کی حمایت کے پیش نظر اپنے سارےگھرانے کو راہ خدا میں قربان کر دیا۔حضرت عبداللہ بن زبیر تو بیعت کر کے مال و دولت اور منصب حاصل کر سکتے تھے مگر انھوں نے آ خرت کی کامیابی کو ترجیح دی۔
ان کا دور خلافت آج بھی یاد کیا جاتا ہے گوکہ اس دور میں کوئی خاص فتو حات نہیں ہوئی مگر انھوں نے خشیت الہی اور شر یعت کے تحت حکومت کی – زہدو عبادت اور پر ہیز گاری کی دوسری مثا ل نہیں ملتی۔حجاج نے شہر مکہ کے محا صرہ کے وقت خانۂ کعبہ کو کافی نقصان پہنچا یا تھا اس کی با قاعدہ مرمت کی گئ اور دو خاص تبد یلیاں کی گئیں۔
١} حطیم کو خانۂ کعبہ میں شامل کر دیا گیا جس سے اس کی لمبا ئی میں دس ہاتھ کا اضافہ ہو گیا
٢} مشرق اور مغرب دونو ں جانب دروازے رکھ د ئے گئے جس سے زائرین کو آسا نی ہو گئ۔
بعد میں حجاج بن یوسف نے ان تبد یلیوں کو ختم کر دیا اور کعبہ کو پہلےکی طرح کر دیا۔
٭٭٭
0 Comments