Ticker

6/recent/ticker-posts

متین اچل پوری ادبِ اطفال میں ہمیشہ یادگار رہے گے۔۔۔ | حُسین قُریشی

ادب اطفال کے فروغ میں متین اچل پوری کا شعری و نثری حصہ 
حْسین قْریشی 
بلڈانہ مہاراشٹر، Mob. 9850155656

ادب کے فروغ او ر ارتقاء میں ریاستِ مہاراشٹر کا ایک بڑا حصہ ہے۔ یہاں ادب کی تمام اصناف پر مختلف ادباء و شعراء نے بھرپور طریقے سے دادِ سضن دیا ہے اور ان کی یہ خدمات نا قابلِ فراموش ہیں۔ مہاراشٹر کے نقشے میں علاقہ ودربھ تقریباً وسط میں موجود ہے۔ یہ اپنی زرعی اور صنعتی پیداوار کے ساتھ ساتھ ادب کے مختلف اصناف میں بھی نمائندگی کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ سر زمینِ ودربھ نے کئی ایسی شخصیات کو جنم دیاہے جنھوں نے ادب کی ہر صنف میں طبع آزمائی کی ہےاوراس کی ترقی میں اہم کردار ادا کیاہے۔ یہاں مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین نے بھی اپنی قابلیت ، صلاحیت، تجربات ، مشاہدات اور ذہانت کے جوہر دکھائے ہیں اور ناول ، ناولٹ ، افسانہ نگاری ، افسانچہ نگاری اور شاعری کے ساتھ ساتھ ادبِ اطفال میں بھی اپنی ہنرمندی کے ثبوت پیش کیے ہیں۔ ودربھ کے ان ہنرمندوں میں عبدالستار فاروقی ، قادری نیازی ، فیض انصاری ، ریاض رؤفی ، متین اچل پوری ، عبدالرحیم نشتر، غنی غازی ، حبیب ریتھ پوری، ڈاکٹر اشفاق احمد ، ماسٹرعثمان ناظر ، نواب رونق جمال ، شارق نیازی، طفیل سیماب ، نواب تقی علی ، حنیف فاتح، ڈاکٹر محمد ابوالکلام ، سلمیٰ نسرین، زہرہ جمال ، ڈاکٹر نکہت ریحانہ ، بانو سرتاج ، نیلوفر ناہید، ڈاکٹر سرورشہ نسرین ، رضیہ مبین اور شفیقہ فرحت کے نام شامل ہیں۔ ان فنکاروںمیں سے بعض نے تو کئی کئی اصناف میں اپنا لوہا منوایا ہے۔ انھوں نے جہاں ادب عالیہ میں اپنی تخلیقات پیش کی ہیں، وہیں ادب اطفال کو پروان چڑھانے بھی اپنا کردار ادا کیا ہے۔ بچوں کے لئے سبق آموزکہانیاں، اخلاقی اور سائنسی نظمیں ،پرترنم گیت اور غزلیںسبھی کچھ ان کے قلم سے نکلی ہیں۔ ان تخلیق کاروں میں ایک اہم نام متین اچل پوری کا ہے۔ 
متین اچل پوری کا اصل نام محمد متین ابن شیخ محمد ہے۔ والدہ کا نام حنیفہ بانو ہے۔ 18 جنوری 1950 کو اچل پور ضلع امراؤتی (مہاراشٹر )میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم و تربیت اچل پور کےمقامی اسکول میں ہوئی۔ نَو برس کی عمر میں ہی والدین خالقِ حقیقی سے جا ملے اور ان کے سر سے سایہ محبت اٹھ گیا۔ اس واقعہ نے ان کے دل و دماغ پر گہرا اثر ڈالا ، مگر انھوں نے اپنی ہمت برقرار رکھنے کے ساتھ ساتھ پڑھائی بھی جاری رکھی اور سنت گاڈگے بابا یونیورسٹی امراؤتی سے ایم اےکا امتحان یونیورسٹی ٹاپر کے طور پر پاس کیا۔ جس کا چرچا ہر سو ہوا۔ اتنا ہی نہیں، انہوں نے بی ایڈ کی ڈگری بھی سن 1980میں اول درجے سے حاصل کی۔ سن 1990 سے 2007 تک تدریس کے پیشے سے وابستہ رہ کر قوم کے نونہالوں کو تراشنے کا کام کیا۔ ضلع پریشد اردو مڈل اسکول اور ضلع پریشد ہائی اسکول میں تدریسی خدمات انجام دیں۔ دورانِ تدریس آپ ادب سے وابستہ ہوئے۔وجہ بنے ابن صفی۔ ابن صفی کی صاف ستھری زبان نے متین اچل پوری پر ایک خاص تاثر چھوڑا اور ان کو ادب کی جانب راغب کیا۔
متین اچل پوری کی ادبی زندگی کا آغاز لڑکپن میں ہی ہوگیا تھا۔ پہلے ناول اور کہانیوں سے ابتداء کی اور بعد میں 1970 سے شاعری میں طبع آزمائی کی۔پھر آپ نے ادب اطفال کی طرف رخ کیا اور مختلف ماحولیاتی،سائنسی اور ٹیکنالوجی سے متعلق عنوانات کو موضوع سخن بنایا۔ آپ تصنیف ”لاڈلے جانور“ میں بچوں کو جانوروں کے متعلق مؤثر انداز میں معلومات فراہم کی گئی ہے۔ ”ماحول نامہ“ میں آپ نے بچوں کو سرسبز و شاداب ماحول سے متعارف کرایاہے۔ ”یتیم کی آواز“ میں بچوں کے احساسات و جذبات کی ترجمانی کرنےوالی کہانیاں شامل ہیں۔ ان سب کے علاوہ بھی آپ کی دیگر شعری و نثری تخلیقات مختلف قومی و ریاستی سطح کے اخبارات و رسائل کی زینت بنتی رہتی ہیں۔ جس پر آپ کو کافی پزیرائی بھی ملتی ہے۔ آپ نے ادبی سیمیناروں ا ور مشاعروں میں ودربھ کی کامیاب نمائندگی کی ہے۔ دورِ حاضر کے نمایاں ادباء ، شعراء ،مصنفین اور مبصرین نے آپ کی تخلیقات پر تبصرے ، تجزیے اور اپنے خیالات کا اظہار کیاہے۔ جو مختلف رسائل و اخبارات میں شائع بھی ہوئے۔ جیسے محمود شیخ نے ”متین اچل پوری اور بچوں کی کہانیاں“اور عبد الاحد ساز نے ”متین اچل پوری کی شعری تصنیف” تجلی زار“ جیسے عناوین کے تحت اپنے خیالات مرتب کئے ہیں۔ متین اچل پوری کی ادبی خدمات کے پیش نظر ماہنامہ ”شاعر“ ممبئی نے نومبر 2016 میں اور ماہنامہ” گلشن اطفال “(مالیگاؤں)نے اپریل 2016 میں آپ پر خصوصی گوشےشائع کیے۔ آپ کی شخصیت اور ادبی خدمات حوالے سے تفصیلی انٹرویو افتخار امام صدیقی نے کیا تھا جو ماہنامہ شاعر، ممبئی کے نومبر 2016 کےخصوصی شمارے میں ”بچوں کے لئے ہمہ اصناف گبروقلم کار: متین اچل پوری “ کے عنوان سے شائع ہوا تھا۔ 52سالانہ ادبی ریاضت کے اعتراف میں آپ کومختلف انعامات و اعزازات سے بھی نوازا گیا۔بچوں کے تئیں آپ کی ادبی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے حکومت ہند کی جانب سے سن 1990 میں نیشنل ایوارڈ بہ دست صدرِ جمہوریہ ہند عطا کیا گیا۔ اس کے علاوہ سن 1980 کا جواہر لال نہرو یونیورسٹی کا اعزاز اور سن 1988 میں ضلع امراوتی کا مثالی معلم ایوارڈ اور آپ کی کتب ”قلم کے مو تی“ اور ”حرفوں کا پیغام“ کو حاصل سن 2008 میں حکومتِ مہاراشٹر اور اتر پردیش اردو اکیڈمی کے انعامات اہم ہیں۔ 
متین اچل پوری نے بچوں کی شخصیت نکھارنے کے لئے مؤثر نظمیں بھی کہی ہیں۔ ذیل کی نظم ” تتلی اور طالب علم “ میں ملاحظہ کیجئے دونوں کی گفتگو کو کس مؤثر انداز میں پیش کیا گیاہے۔ نظم میں ایک طالب علم نے اپنی سچی دوست کتاب کی تعریف کی ہے تو وہیں تتلی نے اپنےدوست ”گلاب“ خصوصیات بیان کی ہے۔شاعر نےنظم کے آخر میں” کیا خزاں علم پر کبھی آتی؟“ جیسے سوالیہ جملے سے بچوں کے معصوم ذہن پر ایک کامیاب نقش چھوڑنے کی کوشش کی ہے جو اسے آگے چل کر کتاب کی طرف مائل کرنے پر ابھارے گی:
تتلی اور طالب علم
تتلی 
میں فدا پنے اس گلاب پہ ہوں
حسن اس کا مجھے لبھا تا ہے
دیکھ میرے گلاب کا جادو
اس کی خوبی پہ ہوں میں اتراتی
طالب علم
میں فدا اپنی اس کتاب پہ ہوں
اس کا ہر لفظ مجھ کو بھاتا ہے
دیکھ میری کتاب کا جادو
کیا خزاں علم پر کبھی آتی؟
متین اچل پوری نے اپنی تخلیقات میں بچوں کے آس پاس کے ماحول کو اپنا موضوع بنایا ہے۔ اسی وجہ سے ان کی تخلیقات نے بچوں کو اپنی جانب راغب کیا ہے۔ وہ بڑے ہی آسان زبان میں اور کم الفاظ میں شعر کہتے ہیں۔ ایک نظم میں ”تازہ ہوا “ پر آپ نے اس انداز میں اپنےخیالات کو پیش کیا ہے کہ ذہن اس کی جانب از خود لپکنے لگتا ہے۔ آپ بھی ملاحظہ فرمائیں:
تازہ ہوا کی بات نرالی
میرے خدا کی بات نرالی
تازہ ہوا ہے سب کی ضرورت
ہر پل ، ہر لمحے ، ہر صورت
بھر دیتی ہے تن میں چستی
نو دو گیارہ ہوتی سستی
تازہ ہوا کلیوں کو کھلاتی
ہر جانب خوشبو پھیلاتی
ذہن بھی اپنا ، ایسی کیاری
سب سے اعلی، سب سے پیاری
تازہ ہوا ہے ، اس کی ضرورت
پہنچائیں اس کو ہر صورت
ایسی ہوا ہر روپ میں ملتی
چھاؤں میں ملتی،دھوپ میں ملتی
نوکِ قلم سے چلنے والی
لفظوں میں ہے ڈھلنے والی
فطری شاعر کو ٹوکیں کیوں
اس کو کہنے سے روکیں کیوں
خوب ہنر دکھلانے دیجیے
تازہ ہوا کو آنے دیجیے
متین اچل پوری کی نظموں میں جدیدیت ، اپڈیشن اور دورِ حاضر کے عنوانات بکثرت ملتے ہیں۔ عنوانات میں تسلسل ، مرکزیت اور ربط نظر آتا ہے۔ مثال کے طور پر آپ نے پچھلے سطور میں ”تازہ ہوا “ کے عنوان سے نظم ملاحظہ کی ہے تو اسی ضمن میں ایک دوسری نظم بھی دیکھتے چلیں، جس کا عنوان ہے ”آکسیجن“ : 
آکسیجن ! شان تیری خوب ہے
تو ہراک انسان کی محبوب ہے
لازمی تو سب کے جینے کے لیے
جان کے ہر آبگینے کے لیے
پاتے ہیں سب تجھ میں ممتا کی چھبی
منہ کسی سے بھی نہیں موڑا کبھی
بچے بچے نے حقیقت جان لی
مہرباں صورت تری پہچان لی
سرحدیں کب روک پائی ہیں تجھے
طاقتیں کب روک پائی ہیں تجھے
گورا کالا ہر کوئی تیرا مرید
ادنی اعلیٰ ، ہر کوئی تیرا مرید
کوئی پل بیتا نہیں تیرے بغیر
تیرے دم سے گذری ہیں صدیاں بخیر
کرتی ہے کورونا سےسب کو بری
تیرے کارن رت یہ بیتی دکھ بھری
تو نے پوچھی کب کسی کی ذات پات
بانٹتی پھرتی ہے تو سب کو حیات
اک ترا ممنون ہر انسان ہے
واقعی! اللہ کی یہ شان ہے
قاری ملاحظہ کر سکتا ہے کہ متین اچل پوری کی اس نوع کی نظموں کے توسط سے بچوں کے دماغ میں سائنسی معلومات کو مستحضر کرنے میں بڑی آسانی مل سکتی ہوجاتی ہے۔ ابھی ان کا ادبی سفر جاری ہے۔حالانکہ ان کی بہت سی تصانیف منظر عام پر آ چکی ہیں اور بہت سی کتب ابھی زیر طبع ہیں۔ اس لیے امید کی جاتی ہے کہ وہ اسی طرح بچوں کے ذہن میں عصری موضوعات کو نقش کرنے کی اپنی کوشش جاری رکھیں گے۔ ان کے شعری و نثری کتب کے نام کچھ یوں ہیں: 
اکثر دھارا کے گیت ( 1991ء) ، حرفوں کا پیغام ( 2007ء) ، عکس رواں (2015 ء) ، جلی زار ( 2016ء) ، یتیم کی آواز ( 2016ء) ، دنیا کی ضرورت بن جاؤں ، کام کے گیت ، صحرا میں نخلستان ، ممتا کی ڈور ( 2020ء) ، ماحول نامہ (زیر طبع)، بنتِ حوا کی فریاد (زیرِ طبع) ، نقشِ نوک قلم (زیر طبع)۔ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان کی تصانیف کا کافی کچھ حصہ کتابی صورت پر منظر عام پر بھی آچکا ہے لیکن اس کے علاوہ بھی بہت کچھ نسخۂ کیمیائے محبت کی طرح ابھی ان کی زنبیل میں محفوظ ہے۔ 
متین اچل پوری نے اپنی تخلیقات میں بچوں کے مابین مذہبی ، سماجی ، قومی ، ملی، نفسیاتی اور اخلاقی دروس دے کران کی ہمہ جہت ترقی کے لیے مؤثر مواد قلم بند کیا ہے۔انھوں نے اپنے کلام میں دور حاضرکے مسائل کو پیش کیا تو کبھی سماجی ، معاشی ، مذہبی اور اخلاقی اقدارکی دعوت دی۔ آپ نثری و شعری اصناف میں جدت کو پسند کرتے ہیں۔ آپ کی تخلیقات نہ صرف بچوں ،بلکہ نوجوانوں اور بزرگوں کی بھی رہنمائی کرتی ہوئی نظر آتی ہیں۔
حُسین قُریشی
ریسرچ اسکالر
بامو یونیورسٹی اورنگ آباد

Post a Comment

1 Comments

  1. الفاظِ ہند کا دلی شکریہ
    شاد و آباد رہیں آمین

    ReplyDelete