سبب
(افسانچہ)
✍️خالد بشیر تلگامی
عامر اور دلیپ روم میٹ تھے ۔ وہ دونوں دلی میں ایم بی اے کر رہے تھے۔ دونوں بہت سیکولر مزاج کے تھے۔اس لئے مذہبی اختلاف ہونے کے باوجود بڑے اطمینان سے رہ رہے تھے۔
چھٹی کے دن عامر شہر کی سیر کر کے دوپہر میں آیا تو دیکھا کہ دلیپ بستر پر ٹانگیں پسارے لیٹا ہوا ہے ۔ وہ ہمیشہ اسی طرح آرام کرتا ہے۔
عامر نے اسے اس طرح لیٹا دیکھ کر پوچھا۔ "دلیپ!.... مجھے معلوم ہے کہ تم بڑے دھارمک قسم کے آدمی ہو۔۔۔ لیکن ایک بات سمجھ میں نہیں آئی کہ تم ہمیشہ پورب کی طرف پاؤں کر کے کیوں سوتے ہو جب کہ ادھر دیوار ہے ... آدمی عام طور پر دیوار کی طرف سر رکھ کر سوتا ہے ۔“
” بھائی عامر !... وہ اس لئے کہ اس رخ پر تمہاری سب سے بڑی عبادت گاہ ہے، جسے تم قبلہ کہتے ہو۔“
عامر حیرت سے دلیپ کا منہ تکتارہ گیا۔
🍁🍁🍁
2 Comments
میں عامر ناگپور سے اور میرا دوست سندیپ شرما آگرہ سے' ہم دونوں سن ٢٠١٧ سے چنڈی گڑھ میں پوسٹ گریجویشن کرنے کے دور سے اپریل سن ٢٠٢٢ تک بنگلور میں جاب کرنے تک اک ساتھ اک ہی روم میں رہتے آئے ہیں۔ ۔ ۔ساتھ رہتے ہوئے ہم دونوں نے اک ہی کمپنی میں ملازمت اختیار کیں۔ ۔ اسکے بعد دوسری کمپنی میں سوئیچ بھی اک ہی ساتھ کیا۔ ۔ ان ٥ سالوں میں ہم ٤ مرتبہ اک فلیٹ سے دوسرے فلیٹ میں منتقل ہوئے ۔ ۔ اتنے پرفتن اور تعصب بھرے دور میں کبھی ہمارے درمیاں مذہب کو لے کر توتو میں میں نہیں ہوا ۔ ۔ یہاں تک کہ ہم نے شادیاں بھی محض ٢٠ دنوں کے وقفے میں کیں۔ ۔ اس نے اپریل ٢٠٢٢ میں اور میں نے مئی ٢٠٢٢ میں۔ ۔ اور آج بھی ہم اپنی اپنی فیملی کے ساتھ ایک دوسرے سے محض ١٠٠میٹر کے فاصلے پر رہتے ہیں۔ ۔
ReplyDeleteمحترم خالد بشیر تلگامی صاحب کی کہانی حقیقی کہانی ہے ۔ ۔ اس طرح کی ہزاروں کہانیاں ملک کے ہر کونے میں آپ کو مل جائے گی۔ ۔ ۔اور یہی بھائی چارگی ملک کی سالمیت میں آج بھی اک نہایت اہم کردار ادا کررہا ہے ۔ ۔
خالد بشیر تلگامی صاحب نے اپنی کہانی میں کردار کا نام عامر رکھا۔ ۔اور حقیقتاً یہ میری اپنی کہانی ہے۔ ۔۔ پس میں اپنی کہانی آپ لوگوں کے سامنے پیش کرنے سے روک نہیں پایا۔ ۔
حقیقی کہانی کے لئے محترم خالد بشیر تلگامی صاحب کو دل کی عمیق گہرائیوں سے عامر و سندیپ اور ہم جیسے ہزاروں روم میٹس کی جانب سے مبارکباد 💐💐💐💐
*🖊️عامر آر رچھبنیا*
ملک کے موجودہ حالات مایوس کن ہیں مگر ایسے لوگ اب بھی موجود ہے جو ایکدوسرے کے مذاہب کا احترام کرتے ہیں ۔ اور یہی جذبہ ہندوستانیوں کو ایکدوسرے سے جوڑے ہوئے ہے ۔ ایسے لوگ گھپ اندھیرے میں روشنی کی کرن ہیں ۔ اور اس امید کو زندہ رکھے ہوئے ہیں کہ تعصب کی آگ بھڑکانے کی چاہے کتنی ہی کوشش کی جائے ایسے لوگ اسے بھڑکنے نہیں دیں گے اور ہمارے ملک میں یہ گنگا جمنی تہذیب کبھی دم نہیں توڑے گی ۔ خالد بشیر تیلگامی صاحب کے لئے نیک خواہشات
ReplyDeleteرخسانہ نازنین