Ticker

6/recent/ticker-posts

پرچھائیں (افسانچہ) ✍️محمد علی صدیقی

پرچھائیں
(افسانچہ)
✍️محمد علی صدیقی
”دو روپلی میں گھر نہیں چلتا۔“ اس نے ہاتھ نچاتے ہوئے اس طرح کہا جیسے دنیا کی ساری مصیبتیں اسی کے سر ہوں۔
”پیسے پیڑ پر نہیں اگتے ، دن بھر محنت کرتا ہوں تب یہ دو روپلی ہاتھ میں آتے ہیں۔“ وہ بھی کسی بپھرے شیر کی طرح دھاڑا۔
”میں بھی سارا دن بیٹھی نہیں رہتی، میری تو قسمت ہی پھوٹ گئی۔“
”میں بھی کوئی مرا نہیں جا رہا تھا، تمہارے باپ ہی دوڑے آئے تھے۔“
دونوں ایک دوسرے پر لفظوں کے زہریلے تیر اس طرح برسا رہے تھے جیسے دو ماہر تیر انداز میدان جنگ میں ایک دوسرے پر تیروں کی بارش کر رہے ہوں۔ دلوں کو چیر دینے والے جملے تو جیسے ان کی نوکِ زبان پر تھے۔ یہ طعنہ سن کر وہ آپے سے باہر ہو گئی۔ اسے شعلہ بار نگاہوں سے دیکھتے ہوئے کچھ کہنے ہی والی تھی کہ اچانک کمرے کا دروازہ کھلا اور دونوں سہم کر خاموش ہو گئے۔
”تم لوگ جھگڑا کیوں کر رہے ہو، تمہیں شرم نہیں آتی۔۔۔؟“
”ہم جھگڑا نہیں کر رہے تھے پاپا۔۔۔!!“
”تو پھر کیا کر رہے تھے؟“
”ہم تو ممی پاپا کھیل رہے تھے۔۔۔“ دونوں بچوں نے معصومیت سے کہا اور دوڑتے ہوئے کمرے سے باہر نکل گئے۔

Post a Comment

2 Comments

  1. بہترین افسانچہ!
    محترم محمد علی صدیقی صاحب کا یہ ایک شاہکار افسانچہ ہے۔
    اس کا بنیادی موضوع بچوں کی تربیت ہے۔ بچوں کی تربیت بڑے بڑے وعظ و نصیحت اور خوبصورت تقریروں سے نہیں کی جاسکتی۔ بلکہ بچے وہی چیز سیکھتے ہیں جو وہ اپنے والدین کو کرتا ہوا دیکھتے ہیں۔
    بہترین پیغام دیتا ہوا شاندار ہے۔ محترم محمد علی صدیقی صاحب کو بہت بہت مبارک باد 🌹
    انیس رشید خان، امراوتی

    ReplyDelete
  2. معیاری افسانچہ و بہترین اختتام کے لئے محترم محمد علی صدیقی صاحب کو مبارکباد 💐💐💐

    🖊️ عامر آر رچھبنیا

    ReplyDelete