اشفاق میاں کے اچانک انتقال سے گھر میں ماتم چھایا ہوا تھا۔ پچھلے ہفتے ہی اشفاق میاں ریلوے کی ملازمت سے سبکدوش ہوئے تھے اور پنشن کے لئے بھاگ دوڑ کر رہے تھے۔ مگر تقدیر کو کچھ اور ہی منظور تھا۔
کل صبح گھر کے آنگن میں بیٹھے اخبار پڑھ رہے تھے کہ حرکتِ قلب بند ہوجانے کے سبب انتقال کر گئے۔ اکلوتے بیٹے عامر کا رو رو کر برا حال تھا۔ چھ ماہ قبل ہی اس کی والدہ کا انتقال ہوا تھا اور اب اس کے سر سے باپ کا سایہ بھی اٹھ گیا تھا۔
"صبر کرو بھائی۔ مشیتِ ایزدی میں دم مارنے کی مجال نہیں۔ بس انکل کی مغفرت کے لئے دعا کرتے رہو۔ " عرفان اپنے دوست عامر کو دلاسہ دے رہا تھا۔ وہ دونوں گلی کے نکڑ پر واقع چائے خانے میں موجود تھے۔
"بالکل درست کہا۔ الله کی مرضی کے آگے سارے انسان بے بس ہیں۔ مگر ایک بات کا افسوس تا عمر رہے گا یار۔ "عامر نے خلا میں گھورتے ہوئے کہا۔
"افسوس! کس بات کا؟" چونک کر عرفان نے پوچھا۔
"ابو کے بعد گھر کی ذمہ داری کا سارا بوجھ میرے کندھوں پر آگیا ہے۔ بچوں کی تعلیم، تمہاری بھابھی کی بیماری ،گھرکے دیگر اخراجات۔ اِدھر بزنس میں مسلسل خسارہ ہو رہا ہے۔ کاش ابو کی حیات میں آٹھ دس روز کم ہوتے تو میرا مستقبل محفوظ ہو جاتا۔۔۔۔۔۔"
2 Comments
👍🏻👍🏻👍🏻👍🏻
ReplyDelete👍🏻👍🏻👍🏻💐💐💐
ReplyDelete