Ticker

6/recent/ticker-posts

عید کارڈ ✍️ محمد سراج عظیم

عید کارڈ

محمد سراج عظیم
✍️ محمد سراج عظیم
نئی دہلی

رمضان شروع ہونے والے تھے۔ کل چاند رات تھی۔ ندیم کی امی نے رمضان کےکھانے اور افطار کے لئے، سامان بازار سے خرید کر لانے کو ندیم سے کہا۔ ندیم بازار پہنچا تو اس کا پرانا دوست ماجد اسے دکھائی دیا۔ ماجد اس کے کلاس کا بہت اچھا اور شریف لڑکا تھا۔ وہ پڑھائی میں تو تیز تھا ہی ، مگر ڈرائنگ بہت اچھی تھی۔ اس کے ڈرائنگ ٹیچر ماجد سے کہتے اگر وہ اسی طرح ڈرائنگ بناتا رہا تو ایک دن اس کا بہت نام ہوگا۔ ماجد کہتا جی ماسٹر صاحب آپ کی دعا میرے ساتھ رہی تو ان شاءاللہ ایسا ہی ہوگا۔ ماجد کے ابو کسی کمپنی میں چپراسی تھے۔ ان کی تنخواہ بہت کم تھی۔ جس کی وجہ سے ان لوگوں کی زندگی بہت غربت میں گذرتی تھی۔ اس کے ابو بہت بیمار رہتے تھے۔ اسی طرح ایک دن وہ بہت بیمار ہوئے۔ ڈاکٹر نے آپریشن بتایا اتنے پیسے تھے نہیں، اور بغیر آپریشن کے انکا انتقال ہوگیا۔ 
ان کے گھر میں کھانے پینے اور زندگی گذارنے کے لئےبہت تنگی ہوگئ۔ ماجد کی پڑھائی بھی چھوٹ گئی۔ 
ندیم نے ماجد کو پورے دو سال بعد دیکھا تھا۔ ماجد بہت کمزور اور دبلا نظر آرہا تھا۔ اس کے کپڑے بھی بہت میلے اور بوسیدہ تھے۔ اس نے خوشی میں چیخ کر آواز دی۔ " ماجد!! او ماجد!! ارے یار کہاں ہو، اتنے دن سے!! "وہ ماجد کے پاس پہنچ گیا تھا۔ ماجد بھی اسے دیکھ کر خوش ہوگیا۔ " ارے ندیم!! تم کیسے ہو، بڑے دن بعد دکھائی دئے۔ سب ٹھیک ہے۔ " اس نے پوچھا۔ " ارے یار میں تو ٹھیک ہوں۔ تم نے پڑھائی چھوڑ دی کچھ بتایا نہیں۔ ﷲ سب انتظام کراتا تمہارے پڑھنے کا۔ " ندیم نے ہمدردانہ لہجے میں کہا۔ 
" ہاں! یار ابو کے بعد گھر پر کھانے کے لئے فاقے ہونے لگے۔ امی بیمار ہوگئیں۔ چھوٹی بہن کی بھی ذمیداری مجھے نبھانا تھی۔ اس لئے مجھے پڑھائی چھوڑنا پڑی۔ ایسی حالت میں مجھے صرف محنت مزدوری سے ہی پیسہ مل سکتا تھا۔ میں کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلا سکتا تھا۔ اب صبح سے شام تک میں بجلی کا کام کرتا ہوں۔ ﷲ جو دیتا ہے اس سے گھر کا خرچ چلتا ہے۔ "ماجد نے افسردہ لہجے میں کہا۔ 
" اس کا مطلب گھر پے بھی کچھ نہیں پڑھتے ہو۔ " ندیم نے پر تفکر انداز میں کہا۔ 
" ارے یار ! کہاں سے پڑھائ ہو، میں صبح سے کام پر نکلتا ہوں شام میں تھکا ہوا آتا ہوں" ماجد دھیمی آواز میں بولا۔ 
" پھر تو عید، بقرعید بھی۔۔۔۔۔ "ندیم کہتے کہتے رک گیا۔ 
" ہاں وہی!! میں آج اسی وجہ سے بازار میں آیا ہوں کہ رمضان بھر کسی دوکان پر نوکری کرلوں۔ چھوٹی بہن کے کپڑے بھی بنانا ہیں۔ " ماجد نے ندیم کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا۔ 
" ماجد!! تم فکر مت کرو، میں ابو سے کہہ کر تم لوگوں کا رمضان کا انتظام اور کپڑے بنوا دوں گا۔ " ندیم نے کہا۔ 
"نہیں نہیں، ندیم میں کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلانا چاہتا نہ کسی سے کچھ کہنا چاہتا۔ صرف ﷲ سے مانگتا ہوں۔ " ماجد نے گردن ہلاتے ہوئے کہا۔ ندیم کو سمجھ میں آگیا کہ ماجد غریب ہے۔ مگر خوددار ہے۔ وہ کسی سے کچھ نہیں کہے گا نہ لے گا۔ وہ پریشان ہوگیا۔ سوچنے لگا کیسے ماجد کی پریشانی دور ہو۔ تبھی اس کو یاد آیا کہ اس نے اخبار میں ایک اشتہار دیکھا تھا۔ اس میں سرکار کے ثقافتی ادارہ کی طرف سے عید کارڈ ڈیزائن کرنے کے لئے کہا گیا تھا۔ اور اس میں اول انعام کی رقم ایک لاکھ روپئے، دوم پچاس اور سوم کے لئے پچیس ہزار روپے دئے جانے کے لئے کہا گیا تھا۔ اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آگئی۔ ابھی پینٹنگ بھیجنے کی آخری تاریخ میں دن تھے۔ اس نے ماجد سے ڈرائنگ بنانے کے لئے کہا۔ ماجد کی بھی آنکھوں میں چمک آگئ۔ 
ندیم نے ماجد کو پیپر، کلر، برش لاکر دئے۔ ماجد نے دو روز میں بہت خوبصورت عید کارڈ کے ڈیزائن کی پینٹنگ بنائ۔ اس نے ندیم کو اپنی ڈرائنگ دکھائی۔ " ارے ماجد اتنی خوبصورت ڈرائنگ، مجھے امید ہے تم ان شاءاللہ انعام جیتوگے" ندیم خوش ہوتے ہوئے بولا۔ 
ندیم نے ماجد کی پینٹنگ لفافے میں رکھ کر اور پتہ لکھ کر ثقافتی ادارہ کو بھیج دی۔ رمضان کے دوسرے جمعہ کو اخبار میں مقابلے کا رزلٹ آیا۔ سب سے پہلے ندیم نے اخبار میں مقابلہ کی خبر کو دیکھا۔ یہ دیکھ کر اس کی خوشی کی انتہا نہیں رہی کہ ماجد کی پینٹنگ کو پہلا انعام ملا ہے۔ وہ اپنے گھر والوں کو خوشخبری سنا کر ماجد کو یہ خبر سنانے پہنچا۔ " ماجد او ماجد!!! یہ دیکھ میرے دوست تجھے پہلا انعام ملا ہے۔ تجھے ایک لاکھ روپیہ ملے گا۔ اب تو اپنی بہن، امی اور اپنے عید کے کپڑے بنانا ہاں!! اور سن تو اپنے گھر میں ہی ایک دوکان کھولنا۔ اور ہاں ماجد تو اسکول میں دوبارہ سے داخلہ لینا۔ خوب پڑھنا۔ "ندیم خوشی میں بولے جارہا تھا۔ ماجد اس کی امی اور بہن کی آنکھوں سے آنسو نکل رہے تھے۔ جو ﷲ کے شکرانے کے تھے۔ ماجد کی امی ندیم کو دعائیں دے رہی تھیں۔ ماجد نے ندیم کو گلے لگا لیا اور روتے ہوئے بولا " یہ تمہاری وجہ سے ہوا ندیم۔ ورنہ مجھے معلوم ہی نہیں تھا۔"
" نہیں نہیں ماجد یہ ﷲ نے تمہاری محنت اور خودداری کا انعام تمہیں دیا ہے۔ "
پھر ماجد اور اس کی امی بہن نے بہت اچھی طرح اور نئے کپڑوں کے ساتھ عید منائی۔ اب ماجد کی اسٹیشنری کی دوکان بھی ہے اور ماجد اور اس کی بہن اسکول بھی پڑھنے جاتے ہیں۔
x
x

Post a Comment

2 Comments

  1. بہترین کہانی پڑھنے ملی.... افسانہ نگار محترم سراج عظیم صاحب اور الفاظِ ہند بلاگ کے روحِ رواں برادرم ریحان کوثر صاحب کا شکریہ

    ReplyDelete
  2. واہ۔۔بہت ہی خوبصورت پیغام دیتی ہوئی معصوم کہانی ۔۔سراج عظیم صاحب کو بہت بہت مبارکباد
    صبا شاداب

    ReplyDelete