Ticker

6/recent/ticker-posts

دوحہ ۔ قطر میں ایک رمضان ✍️ فریدہ نثار احمد انصاری

دوحہ ۔ قطر میں ایک رمضان
✍️ فریدہ نثار احمد انصاری
دوحہ۔قطر

اتنی حسین تو ہے تو اے فردوس!
پھر بھی حکمِ اللہ سے مزید تجھے
آراستہ و پیراستہ کیا جا رہا ہے!
ہاں !گیارہ مہینوں کا بادشاہ رمضان
مہمان بن کر روئے زمیں پر آرہا ہے!
رمضان مبارک! رمضان مبارک! کی صدائیں عرش سے فرش تک فضائوں میں گونج رہی ہ یں ۔ اللہ عزو جل کی رحمتیں ، برکتیں انسانیت کو سیراب کرنے کے لئے بے چین ہیں، اور وہ مالکِ کائنات پکارتا ہے :
 ’’ہے کوئی مانگنے والا کہ میں اس کی مراد پوری کروں، ہے کوئی جو جہنم کی آگ سے خلاصی چاہے اور میں اس کی مغفرت کروں۔ ــ‘‘ بے شک ! وہ غفور الرحیم ہے۔ ہم گناہ گار ، سیا کار بندوں کو اس کی ہی رحمت کا آسرا ہے اور یہی بے شمار رحمیتں اپنی دامن میں چھپائے اس مہمان رمضان نے اپنی آمد کا اعلان کیا ہے۔رسولِ پاکﷺ نے فرمایا ہے کہ بدنصیب ہے وہ شخص کہ جسے رمضان کا مقدس مہینہ نصیب ہو اور وہ اس سے مستفید نہ ہو، کہ یہ مہینہ اللہ سے اپنی مغفرت کا ہے۔
اسلام ایک ایسا آفاقی مذہب ہے جو لوگوں کو اللہ کی ایک رسی سے جڑنے کا درس دیتا ہے۔ ساری دنیا کے لوگوں پر اسی مقدس مہینے میں روزے فرض کئے گئے ہیں اور اسی لئے ہر مسلمان اس کا اہتمام جی جان سے کرتا ہے۔یوں تو ہر جگہ رمضان المبارک کا استقبال پر جوش طریقے سے کیا جاتا ہے پر دوحہ ۔قطر میں اس کی آن، بان،شان اپنی مثال آپ ہے۔ یہاں کی عبادتیں پر سکون اور اتنی خشوع و خضوع سے ہوتی ہیں کہ ہم جیسے تارکینِ و طن چھٹیاں ہونے کے باوجود اس ماہ کی با برکت فضا میں ہی اپنی عبادتیں کرنا زیادہ مناسب سمجھتے ہیں۔
قطر کے مقامی شہری اپنی روایات کو قائم رکھتے ہوئے آج بھی بڑی ہی گرم جوشی سے اس ماہِ مقدس کو خوش آمدید کہتے ہیں ۔ جا بجا کاغذی قندیلوں اور برقی قمقموں سے دُکانوں اور مالز کو سجایا جاتا ہے۔ شعبان کے آخری عشرے میں ہی مسلمان سحر و افطار کے لوازمات کی خرید و فروخت میں مگن ہو جاتے ہیں۔ دورانِ رمضان کم از کم سو ضروری اشیاء کی قمیتیں حکومت کی جانب سے مختص کر دی جاتی ہیں جو عام دنوں کے مقابلے میں قدرے کم ہوتی ہیں۔کام کے اوقات میں بھی تخفیف کر دی جاتی ہے۔ اسی لئے غیر مسلم بھی اس ماہِ مبارک کا انتظار کرتے ہیں۔ریسٹورنٹ اور سبھی خورد ونوش کے فوڈ اسٹالز دن بھر بند رہتے ہیں۔ اس ماہ کی فضیلت کے پیشِ نظر قطری باشندے باہمی رشتوں کو اور مضبوط بناتے ہوئے مختلف میٹنگز کا اہتمام کرتے ہیں اور تقریباً روزانہ ہی بطور افطار پارٹی ملتے رہتے ہیں ساتھ ہی تراویح بھی مل جل کر ادا کرنا پسند کرتے ہیں۔مساجد میں جیسے ہی موذن مغرب کی اذان کے لئے ’’اللہ اکبر‘‘ کہتے ہیں ویسے ہی کارنش ( چوپاٹی ) پر توپ داغی جاتی ہے۔ کہتے ہیں کہ پرانے ادوار میں یہاں بھی سحر ی کے اوقات میں لوگ گھر گھر جا کر لوگوں کو اٹھنے کی ترغیب دیتے تھے اور ان لوگوں کو ’’المشاہیر‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا تھا۔
ویسے بھی یہاں مساجد میں نمازی کثرت سے نظر آتے ہیں پر اس پر نور مہینے کی شان ہی کچھ اور ہے۔ تراویح کے بعد مساجد میں ہی کئی مذہبی مقابلے منعقد کئے جاتے ہیں اور جیتنے والے افراد یا بچوں کو گراں قدر انعامات سے نوازا جاتا ہے۔تروایح میں کہیں آٹھ رکعتیں یا پھر کچھ خصوصی مساجد میں بیس رکعتوں کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ آخری عشرے کی ’’قیام الیل‘‘ میں بھی نمازیوں کی بڑی تعداد حصہ لیتی ہے۔ اعتکاف کے لئے یہاں خصوصی انتظامات کئے جاتے ہیں تا کہ ’’شب قدر‘‘ کی رات کو تلاش کیا جائے۔ وزراتِ اوقاف و اسلامی امور کی جانب سے مختلف ممالک سے اسلامی دانشوروں کو بطور خاص مدعو کیا جاتا ہے تاکہ ان کے ایمان افروز بیانات سے لوگوں میں مزید اسلامی بیداری پیدا ہو۔
دوران رمضان مقامی قطری خصوصی پکوان بناتے ہیں، خود بھی نوش فرماتے ہیں اور عام لوگوں میں بھی تقسیم کیا جاتا ہے۔ان میں ’’ہریس‘‘ کا نام سر فہرست ہے۔ یہ گیہوں اور گوشت کو خوب پکا کر بنائی جاتی ہے۔ جس طرح وطنِ عزیز میں ہم حلیم یا کھیچڑا بناتے ہیں یہ اسی سے ملتی جلتی ہے۔ بس فرق یہ ہے کہ اس میں ہماری طرح مصالحے نہیں ڈالے جاتے اور صر ف روغنِ زیتون و دار چینی پاوڈر سے اسے گارنش کیا جاتا ہے۔ دوسری اہم ڈش ’’ ثرید ‘‘ ہے۔ یہ ڈش آپﷺ کی پسندیدہ ڈش تھی۔ اسے مہین روٹی کے ٹکڑوں اور گوشت کے سالن کے ساتھ بنایا جاتا ہے۔روٹی کے ٹکڑوں کو برتن میں پھیلا کر اس پر پتلا سالن ڈال کر رکھا جاتا ہے۔اس کے علاوہ ’’مجبو س‘‘ بھی ایک روا یتی ڈ ش ہے جو کہ چاول، چکن اور مجبوس کے مصالحوں سے بنائی جاتی ہے۔قطری مٹھائیوں کے بھی شوقین ہوتے ہیں۔ ’’المو حلابیہ‘‘ جو کہ چاول، دودھ، زعفران اور الائچی سے بنائی جاتی ہے ساتھ ہی ’’المد رحبہ‘‘ اور ’’اللوقایامات ‘‘ (میٹھی ڈمپلنگ ) بھی کافی پسند کئے جاتے ہیں۔ تراویح پڑھ کر مرد حضرات ’’الغباح‘‘ کے لئے ایک ساتھ بیٹھ کر کھانا نوش فرماتے ہیں۔ اس وقت اکثر یہ ’’ال محمار ‘‘ نامی ڈش جو کہ مچھلی اور چاولوں سے بنائی جاتی ہے، کھاتے ہیں۔
باہمی امدادکے لئے مقامی و تارکینِ وطن دونوں ہی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ اسی کے ساتھ قطری حضرات ضرورت مندوں کے لئے افطاری کا اہتمام بھی کرتے ہیں جس کے لئے خیمے لگائے جاتے ہیں اور ٹیبل انواع و اقسام کے لذیذ کھانوں سے سجائی جاتی ہیں۔ اس ٹیبل کو ’’الرحمٰن ٹیبل‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔
رمضان کاچودھواں روزہ اور پندرہویں شب کو قطری نونہالان ’’گُرنگاؤ‘‘ نامی تہوار روایتی طور پر مناتے ہیں اور گلیارو ں میں گر نگاؤ کے گیت گونجتے ہیں۔ وہ گنگناتے ہیں:
گرنگاؤ ، گرنگاؤ، ہمیں دو، اللہ تمہیں دے گا
مکے کے گھر وہ تمہیں لے جائے گا، او مکہ ! او معمورہ! 
ہمیں چاکلیٹ دو، مٹھائیاں دو، عزیز صدا دے رہے
اللہ کی دولت سے ہمیں دو، عبداللہ مبارک باد کہے
خلیج میں بارہ سال سے کم عمر کے بچے افطار کے بعد روایتی ملبوسات زیب تن کرتے ہیں اور ہاتھ سے سِلی کپڑے کی تھیلی گلے میں ڈالے، گرنگاؤ کا گیت گاتے ہوئے گلی محلوں میں گروپ بنا کر نکلتے ہیں۔گھروں کے آہنی دروازوں کو دستک دیتے ہیں ، بیل بجاتے ہیں۔ دروازہ کھلتا ہے اور گھر کی بوڑھی خاتون جھریوں والے چہرے کے ساتھ عبایہ پہنے ،بُرگا سے چہرہ ڈھانپے اپنی ملازمہ کے ہمراہ دروازہ کھولتی ہے۔ ملازمہ ایک بڑی سی باسکٹ جس میں مُکسرات( مٹھائیاں ) ، خشک میوے، لالی پاپ،چاکلیٹ و مونگ پھلی ہوتے ہیں، ساتھ لاتی ہے ۔ مٹھی بھر بھر کر چاند کی بڑھیا یہ سوغات بچوں کی جھولی میں ڈال دیتی ہے اوربسا اوقات ریال دے کر بھی بچوں کو خوش کیا جاتا ہے۔ بچے جھوم جھوم کو گرنگاؤ کے گیت گاتے دوسرے گھر کی جانب رُخ کرتے ہیں۔
دوحہ ۔قطر میں گذشتہ چند برسوں میں اس قدر تیزی سے تر قی و فروغ ہوا ہے جس کے سبب اس کا نقشہ ہی بدل گیا ہے۔ فلک بوس عمارتیں، لمبی چوڑی ، صاف ستھری سڑکیں ، بڑے بڑے مالز، ہر نئی ماڈل کی گاڑیاں جا بجا نظر آتی ہیں۔ یہ ریگستان کہیں سے بھی ریگستان نہیں نظر آتا، ہریالی ہی ہریالی ، دلکش گل بوٹے سڑکوں کے کنارے نظر آتے ہیں۔پر پھر بھی کچھ چیزیں اب بھی اپنی تہذیب کی غمازی کرتی ہیں۔ ان میں گرنگاؤ بھی ایک ہے۔ یہ نہ صرف دوحہ۔ قطر بلکہ سعودی عربیہ، بحرین، عمان، کویت عراق اور متحدہ عرب امارات میں بھی بڑے ذوق و شوق سے منایا جاتا ہے۔ کہتے ہیں کہ اس کا آغاز دورِ عباسیہ سے ہوا تھا۔آج فقط اتنی تبدیلی ہے کہ کپڑے کی رنگ برنگی تھیلیاں سوپر مارکیٹ میں دستیاب ہیں اور چاکلیٹ کے پیکٹ کے ساتھ باربی ڈال، ہیری پوٹر جیسے کھلونے بھی نظر آتے ہیں۔اسی وجہ سے یہ بیگ مہنگے ہوتے جارہے ہیں۔ چاہے جو کچھ بدل جائے پر آج بھی بچے اپنے مطلب کی چیزیں یعنی چاکلیٹ ، مٹھائیاں ، لالی پاپ خود کھا لیتے ہیں اور بقیہ چیزیں اپنے والدین کے حوالے کر دیتے ہیں۔ 
جس طرح مہمان کچھ دنوں کے لئے آ کر گھر کی رونق بڑھاتے ہیں، تحفے ہیں ، محبتیں لٹاتے ہیں اور پھررختِ سفر باندھ لیتے ہیں۔ بالکل اسی طرح رمضان ، ایک مہمان بھی آخری عشرے سے قریب تر ہے، دیکھتے ہی دیکھتے یہ ماہ ِمبارک بھی اللہ رب العزت کا پیارا سا تحفہ ’’عید مبارک‘‘ کا دے کر پورے ایک سال کے لئے رخصت ہو جائے گا۔ اللہ تعالیٰ سے یہ دعا ہے کہ وہ ہم سبھی کی عبادتوں ، روزوں کو قبولیت کا شرف عطا فرمائے اور شبِ قدر کی سو غات سے نوازے ۔ آمین ثم آمین۔

Post a Comment

1 Comments

  1. ماشاء اللہ بہت خوب، بیحد معلوماتی مضمون

    ReplyDelete