ستمبر 2014
جب ہمارے سامنے جہالت کا نام آتا ہے تو بے اختیار ہماری آنکھوں کے سامنے چھٹی صدی مسیح کا وہ تاریک زمانہ تصویر کی طرح پھر جاتا ہے جسمیں محمد رسول الله کی بعثت ہوئی اور جس میں آپ کی ہدایت اور تعلیم کا سب سے پہلا اور سب سے نمایاں معجزہ ظاہر ہوا جاہلیت کا لفظ سنتے ہی دفعتاً عرب قوم اپنی ان تمام جاہلی خصوصیات و اخلاق کے ساتھ چلتی پھرتی نظر آتی ہے جس کا مرقع ہمارے سیرت نگاروں نے یوں پیش کیا ہے۔
اونچی اونچی عمارتوں، سونے چاندی کے ڈھیروں اور رزق برق لباسوں کو چھوڑ دیجئے، یہ تو آپ کو پرانی تصویروں کے مرقع اور مردہ عجائب خانہ میں بھی نظر آجائیں گے۔ یہ دیکھئے کہ انسانیت بھی کبھی جیتی جاگتی تھی۔ مشرق سے مغرباور شمال سے جنوب تک پھر کر دیکھ لیجئے کہیں اس کی نبض چلتی ہوئی اور اس کا دل دھڑکتا ہوا معلوم ہوتا ہے۔
زندگی کے سمندر میں بڑی مچھلی چھوٹی مچھلی کو کھائے جا رہی تھی۔ انسانیت کے جنگل میں شیر اور چیتے بکریوں اور بھیڑوں کو کھا رہے تھے۔ بدی نیکی پر، رذالت شرافت پر، خواہشات عقل پر، پیٹ کے تقاضے روح کے تقاضوں پر غالب آ چکے تھے۔ لیکن اس صورت حال کے خلاف اتنی لمبی چوڑیزمین پر کہیں احتجاج نہ تھا، انسانیت کی چوڑی پیشانی پر غصہ کی کوئی شکن نظر نہیں آتی تھی۔ ساری دنیا نیلام کی ایک منڈی بن چکی تھی، بادشاہ وزیر، امیر، غریب اس منڈی میں سب کے دام لگ رہے تھے اور سب کوڑیوں میں بک رہے تھے۔ کوئی ایسا نہ تھا جس کا جوہر انسانیت خریداروں کے حوصلہ سے بلند ہو اور جو پکار کر کہے کہ یہ ساری فضا میری ایک اڑان کے لئے کافی نہیں، یہ ساری دنیا اور پوری زندگی میرے حوصلہ سے کم تھی، اس لئے ایک دوسری ابدی زندگی میرے لئے پیدا کی گئی، میں اس فانی زندگی اور اس محدود دنیا کی ایک چھوٹی سی کسر پر اپنی روح کو کس طرح فروخت کر سکتا ہوں ؟
انسانیت ایک سرد لاشہ تھا، جس میں کہیں روح کی تپش، دل کا سوز اور عشق کی حرارت باقی نہیں رہی تھی، انسانیت کی سطح پر خود رو گھانس اگ آئی تھی، ہر طرف جھاڑیاں تھیں جن میں خونخوار درندے اور زہریلے کپڑے تھے یا دلدلیں تھیں جن میں جسم سے لپٹ جانے والی اور خون چوسنے والی جونکیں تھیں۔ لیکن آدم زادوں کی اس بستی میں کوئی آدمی نظر نہیں آتا تھا۔جو آدمی تھے وہ غاروں کے اندر پہاڑوں کے اوپر خانقاہوںاور عبادت گاہوں کی خلوتوں میں چھپے ہوئے تھے اور اپنی خیر منا رہے تھے یا زندگی میں رہتے ہوئے زندگی سے آنکھیں بند کر کے فلسفہ سے اپنا دل بہلا رہے تھے یا شاعری سے اپنا غم غلط کر رہے تھے اور زندگی کے میدان میں مرد میدان نہ تھا۔
لیکن جاہلیت اسی زمانہ کے ساتھ مخصوص نہیں، اسلام کی اصلاح میں پردہ دور زمانۂ جاہلیت ہے جو ولی نبوت کی رہنمائی سے محروم ہوا اور انبیاءعلیہ السلام کی روشنی وہاں تک پہنچی ہی نہ ہو یا پہونچی ہو لیکن اس نے اپنی آنکھیں اس کی طرف سے بند کرلی ہوں، خواہ وو چھٹی صدی عیسوی کی عالمگیر جاہلیت ہو یا یورپ کی تاریخ کی وہ تاریک متوسط صدیاں جو عموما فرو ن نظمہ(Ges-Dark) کے نام سے یاد کی جاتی ہیں یا بیسویں صدی کا وہ روشن و تابناک عہدتہذیب و ترقی جس سے ہم گزر رہے ہیں۔
قرآن مجید ہم کو بتلا رہا ہے کہ دنیا میں روشنی صرف ایک ہی ہے، اور اس کا سر چشمہ بھی ایک ہی ہے، "الله نورا لسموات و الارض" البتہ تاریکیاں بے شمار ہیں۔ ان کا کوئی حدو حساب نہیں، اگر خدا کی روشنی کا جو صرف انبیاء کے ذریعہ آتی ہے۔ اجالا نہ ہو تو دنیا کی ظلمتوں کا کوئی ٹھکانہ نہیں زندگی کی ہر منزل اور اس کے ہر موڑ پر اندھیرا ہی اندھیرا ہے۔
کَظُلُمَاْتٍ فِيْ بَحْرٍ لُّجِّيٍّ يَغْشَاْهُ مَوْجٌ مِنْ فَوْقِهِ مَوْجٌ
مِنْ فَوْقِهِ سَحَاْبٌ ظُلُمَاْتٌ بَعْضُهَاْ فَوْقَ بَعْضٍ إِذَاْ
أَخْرَجَ يَدَهُ لَمْ يَکُدْ يَرَاْهَاْ وَ مَنْ لَمْ يَجْعَلِ اللهُ لَهُ نُوْرَاً
فَمَاْلَهُ مِنْ نُّوْرٍ (النور : 40)
ترجمہ: جیسے گہرے دریا میں اندھیری چڑھی آتی ہے، اس پر ایک لہر، اس پر ایک اور لہر اس کے اوپر بادل اندھیرے ہیں ایک پر ایک، جب اپنا ہاتھ نکالے تو خود اپنا ہاتھ نہ دیکھنے پائے اور جس کو الله نے روشنی نہیں دی اس کے واسطے کہیں روشنی نہیں۔
قرآن مجیدمیں جہاں کہیں نور اور ظلمت کا ایک ساتھ تذکرہ آیا ہے نور کو صبیفۂواحد کے ساتھ اور ظلمت کو جمع کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ظلمتیں متعدد ہو سکتی ہیں لیکن نور ایک ہی ہوگا اسی قدرتی روشنی کی اگر چمک نہ ہو تو پھر کسی مصنوعیروشنی سے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں اجالا نہیں کیا جاسکتا، پھر یہ روشنی اور جیتی جاگتی دنیا ایک وسیع اور تاریک قبر ہے جس میں روشنی کا کوئی منفذ نہیں اور جہاں ؏
شمعیں بھی جلاؤ تو اجالا نہیں ہوتا
بیسویںصدی کا انسان خود فراموشی اور آخرت فراموشی کا مکمل نمونہ ہے۔ اس نے اپنی حقیقت اپنا انسانی امتیاز، اپنا مقصد زندگی اور اپنی پیدائش کی غرض بھلادی اور بالکل بہمیانہ یا جماداتیطرز زندگی اختیارکر لیا ہے۔ وہ ایک ایسی روپیہ ڈھالنے والی مشین بن گیا ہے، جو خود اس سے کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکتی حد یہ ہے کہ جسمانی راحت اور قلبی سکوں و اطمینان جو اس جدوجہد کی کسی معنی میں قیمت ہو سکتا ہے، نہ اس کو اپنی زندگی میں میسر ہے، اور نہ اس کو اس کا ہوش باقی رہا ہے۔
موجودہ دور میں انسان کو خود فراموشی کے وہ سب نتائج ظاہر ہوئے اور ہو رہے ہیں، جو اس ذہنیت اور سیرت کا لازمی نتیجہ ہیں۔ ایک نتیجہ یہ ہے کہ مغربی انسان نے ایک خدا کا دامن چھوڑ کر دوسرے سیکڑوں خداؤں کا دامن پکڑ لیا ہے، ایک حقیقی آستانہ سے سر اٹھا کر جہاں سر جھکا کر وہ تمام آستانوں سے بے نیاز ہو سکتا تھا ہر سنگ آستاں پر وہ اپنی پیشانی رگڑ رہا ہے، ایک خدا کو چھوڑ دینے کی سزا مغربی دنیا ان کے پنجہ غضب میں گرفتار ہے۔ یہ کہیں سیاسی سردار ہیں اقتصادی دیوتا، کہیں اپنے تراشے ہوئے معیار زندگی تلخ کر رکھی ہے، اور ان سے ایسی بندگی کرارہےہیں، جس کے سامنے خدا کی بندگی کی ہزار بار قدر آنی چاہیئے، ایسی قربانیاں کرا رہے ہیں، جو آج تک کسی دیوتا کے نام پر نہیں گئیں، ان" ارباب من دون الله "کے مقاصد و خواہشات میں سخت تصادم و کشمکش ہے، ان کے تضاد مقاصد کی خاطر سارا عالم زیروزبر ہو رہا ہے، ان بتانِ نو میں خاک وطن کا بھی ایک بڑا بت ہے جو ہمیشہ خون کی نذر اور انسانی جانوں کی بھینٹ چاہتا رہتا ہے۔ انھیں میں ایک بت پیٹ ہے جس کی بندگی میں بیسویں صدی کا انسان رات دن لگا رہتا ہے لیکن پھر بھی وہ اس سے راضی نہیں (١)
اس عالم خود فراموشی اور مد ہوشی میں انسان کا موضوع ہی بدل گیا ہے، اس نے اپنے دائرۂ ترقی کو چھوڑ کر ترقی کے دوسرے دائروں میں بڑی فرقی کالی ہے، لیکن کامل انسان کی حیثیت سے اس نے کوئی ترقی نہیں کی، نلکہ روز بروز اس کے انسانی خواص میں تنزل ہو رہا ہے۔
انسانوں میں دنیاوی زندگی اور دنیا کی چیزوں سے لذت و تمتع کا ایک جنوں اور بحران پیدا ہو گیا ہے۔ تمتع ہی مقصد حیات قرار پا گیا ہے، آج مغرب کے ہر گوشہ سے صدائے نا ئے و نوش اور نعرہ بعیش کوش بلند ہو رہا ہے، اور اس کی ساری زندگی اس کے اور اس کے ذرائع کے حصول کی سابقت میں صرف ہو رہی ہے، سابقت میں زندگی کو ایک ایسا ریس کا میدان بنا دیا ہے جس کا کوئی نتہا نہیں زندگی کی ایک نہ بجھنے والی پیاس اور ایک نہ مٹنے والی بھوک ہے، ہر شخص کی زبان پر "ھل من مزیلا" کی صدا ہے، زندگی کی ضروریات روز بروز بڑھتی جا رہی ہیں، نفس کے مطالبات کی تکمیل کا سامان اور اس میں تنوع روز بروز بڑھتا جا رہا ہے، اور اس نے صد ہا اجتماعی دشواریاں اور مشکلات پیدا کردی ہیں، تاجرانہ رقابت اور مقابلہ نے اس میں امدادی معیار زندگی روز بلند سے بلند تر ہوتا جا رہا ہے، یہاں تک کہ ہر شخص جب نظر اٹھا تا ہے منزل مقصود دور اور بام مقصود بلند نظر آتا ہے، نتیجہ یہ ہوتا ہے کے اس کی زندگی اس کے حصول کی تمنا اور کوشش میں بے کیف اور بے لطف ہو جاتی ہے اور وہ حرص و طمع کے ایک مسلسل عذاب اور زندگی کی متناہی جدوجہد میں مبتلا رہتا ہے، صبر و قنات جو سکون و اطمینان قلب کا سب سے بڑا ذریعہ ہے . یورپ میں عرصہ سے ناپید ہے۔
آخرت کو فراموش کردینے کے بعد لذت و تمتع کا یہ جذبہ جس کو ہم مسلمان دیوانگی سمجھتے ہیں، فکر آخرت کے نقطہ نظر سے مین فرزانگی ہے، جو اس زندگی کے بعد دوسری زندگی کے تصور سے خالی ہو وہ اس زندگی میں لطف اٹھانے اور جگر کی آگ بجھانے میں کیوں کمی کرے اور عیش و لطف کو کس دن کے لئے اٹھا رکھے اس لئے قرآن کہتا ہے۔
والذين كفروا يتمتعون وياكلون كما تاكل الانعام والنار مثوى لهم (لحمد -٧٢) کافر لطف اندوز ہوتے ہیں اور چوپایوں کی طرح کھاتے ہے اور جہنم ان کا ٹھکانا ہے۔ انکار آخرت کا دوسرا طبعی نتیجہ یہ ہے کہ یہ دنیا اور اس کی چیزیں، اس میں کام آنے والے اعمال زیادہ آراستہ زیادہ معقول اور زیادہ مد لل نظر آتے ہیں، مادی ذہنیت اور سطحی نگاہ پیدا ہو جاتی ہے جو حقائق تک نہیں پہنچ سکتی۔
إن الذين لا يؤمنون بالآخرة زينا لهم أعمالهم فهم يعمهون-
بے شک جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ہم نے ان کے اعمال ان کے لئے خوشنما بنا دیتے ہیں پس وہ بھٹک رہے ہیں ۔
اس کا ایک نتیجہ یہ بھی ہے کہ زندگی میں حقیقت و سنجیدگی کا حصہ کم اور لبو و لعاب کا حصہ زیادہ ہوتا جا رہا ہے زندگی کے ایک بڑےحصہ کو تفریحات اور سرور و نشاط کے اعمال و مشاغل گھیرے ہوئے ہیں، بڑےبڑے نازک رفتوں اور خطرات میں بھی ان کے اس تفریحی انہماک اور لطف اندوزی میں کوئی فرق واقع نہیں ہوتا۔
و ذرا لزین اتخذ و ا د ینھم لعباولھرا و غر تھم الحيوة الدنيا-
چھوڑ دو ان کو جنھوں نے اپنے دین کو کھیل تماشا بنا رکھا ہے اور ان کو دنیا کی زندگی نے دھوکہ دیا ہے۔
اس کا ایک نتیجہ یہ بھی ہے کہ حوادث واقعات کے حقیقی اسباب و علل پر ان کی نظر نہیں جانے باتی بلکہ چند ظاہری چیزوں میں الجھ کر رہ جاتی ہے، وہ معاملات کی گہرائی تک نہیں اتر سکتے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ نہایت نازک وقت میں بھی ان کے تفریحی انہماک اور غفلت میں کمی نہیں ہوتی وہ ان واقعا ت کی کوئی تاویل کر لیتے ہیں، اور ان کی کوئی فرضی اور حقیقی وجہ تلاش کر کے مطمئن ہو جاتے ہیں، اور ان کے رو یہ میں کوئی انقلابی تبدیلی واقع نہیں ہوتی۔
الفاظِ ہند – اکتوبر ٢٠١٤
گذشتہ مقالے میں مسلمانوں کی پستی کے اسباب کو مختصراً ذکر کیا گیا تھا، اور آج کے اس مقالے میں ان اسباب کو تحریر کیا جارہا ہے کہ اگر مسلمان ان کو مضبوطی سے تھام لیں اور اس کو اپنا مقصد بنالیں تو انشااللہ ضرور وہ انتم الأعلون کے مصداق بن جائیں گے، اور ساری قومیں مسلمانوں کی ماتحت بن جائیں گی۔اور یہ وہ اسباب ہیں کہ جن کا خود باری تعالٰی نے سامان مہیا فرمایا کہ ربِ کائنات نے آدم علیہ السلام سے لے کر سرکارِ دو عالم صلی الله علیہ وسلم تک بےشمار اپنے محبوب اور مخصوص بندوں کو اس کام میں استعمال کرتا رہا ہے، سارے انبیا ء کرام کی بعثت کامقصدبھٹکی ہوئی انسانیت کو راہِ راست پر لانا، معبودانِ باطلہ کی گھٹا ٹوپ تاریکیوں سے نکال کر ایمان باللہ کے نور سے مزیّن کرنا تھا۔ اور قرآن کے مبارک اوراق صاف اور واضح طور پر یہ اعلان کرتے ہیں کہ سارے انبیاء نے اپنا سارا اثاثہ اس اہم مقصد پر صرف کر دیا، اور اپنی اپنی قوم کو راہ ِ راست پر لانے کی ہرممکن کوشش کیں، اور اس کے لیے بنیادی طور پر دعوت کا طرز اختیار کیا۔
خود باری تعالٰی نے اپنے پاک کلام میں ہدایت و دعوت کے پہلوکو دوسرے پہلو ؤں پر غالب رکھا ہے۔ شریعت و احکام کی اہمیت سے انکار نہیں،اس کی عظمت سر آنکھوں پر لیکن مسئلہ اولیت و اہمیت کا ہے، کون سا پہلو زیادہ اہمیت رکھتا ہے اور کس کو اہمیت حاصل ہے۔اس لحاظ سے اگر دیکھیں تو روزِ روشن کی طرح یہ بالکل واضح ہوجائے گا کہ شریعت و احکام کے مقابلے میں دعوت و ہدایت کا پہلو قرآن کریم میں غالب ہے، کیونکہ ایمان کی بنیاد ہدایت پر ہے اور تبلیغ پر اس ایمان کے حصول کا دارو مدار ہے، لہٰذا یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ دوسرے تمام احکام و مقاصد پر ہدایت و دعوت کا عنصر نمایاں طور پر غالب ہے۔
قرآن کریم نے دعوت کے لیے واقعات بیان کرنے اور مثالیں دینے کا اسلوب اختیار کیا ہے۔دوسرے وسائلِ دعوت کی بہ نسبت تھ طریقہ زیادہ زوداثر اور دلنشین ہے، اور مقصد کے حصول میں یہ طریقہ زیادہ مفید اور کار آمد ثابت ہوا ہے۔قرآن کریم نے انبیاء کرام علیہم السلام کی سیرت اور ان کے کے مواعظ اور دعوت پر مکالموں کو ذکر کیا ہے، یہ نمونے دلوں پر اثر اندازی کی بے انتہا قوت رکھتے ہیں، ذہن و قلب پر ان کا اثر سحر کے مانند ہوتا ہے، کیونکہ عملی نمونوں کا جو اثر ہوتا ہے وہ کسی دوسرے وسائل ِ دعوت کا نہیں ہو سکتا۔
ان میں سے اکثر واقعات چار برگزیدہ بندوں کی سیرتوں سے ماخوذ ہیں۔وہ انبیاء کرام حضرت ابراہیم علیہ السلام، دوسرے حضرت یوسف علیہ السلام،تیسرے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور آخر میں خاتم الانبیاء و الرسول محمّد صلی الله علیہ وسلم ہیں۔
دعوت کے سلسلہ میں ایک اہم نکتہ ہے جس کو قرآن نے فراموش نہیں کیا ہے وہ یہ کہ دعوت کا کام صرف انبیاء کرام تک محدود نہیں ہے، اگر ایسا ہوتا تو لوگوں کو یہ کہنے کا موقع مل سکتا تھا کہ ہم کہاں اور اللّہ کے پیغمبر کہاں، وہ لوگ تو الله کی نوازشِ خاص سے بہرہ مند تھے، ان کو الله تعالٰی نے نبوت اور وحی سے نوازا تھا، روح القدوس سے ان کی تائید ؤ تقویت کا انتظام فرمایا گیا تھا۔ ہم عاجز بندے کس طرح ان برگزیدہ انبیاء کرام کی نقل کر سکتے ہیں۔ان کے نقشِ قدم پر چلنا ہمارے بس کی بات نہیں ہے۔
قرآن مجید نے اس سبب سے ایک مثال ایسے شخص کی دی ہے جو نبی نہیں تھا، اور نہ پیغمبر وں کے ممتاز اور جلیل القدر ہم نشینوں میں تھا، ایک مؤمن تھا، فرعون کی قوم کا فرد تھا۔قرآن کریم نے صرف اس قدر بتایا ہے۔اس نے دوست، خیر خواہ اور بھائیوں کا بہی خواہ بن کر دعوت ِ دین کا اہم فریضہ انجام دیا۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعوت کے دو نمونے ملتے ہیں۔اگر ہم ان دونوں کو سامنے رکھیں اور ان کا باہمی موازنہ کریں تو محسوس ہوگا کہ "حکمت " (جو دعوت کا اولین عنصر ہے )کس درجہ کمالِ حسن کے ساتھ ان کی دعوت میں جلوہ گر ہیں، اور پیغمبرانہ انداز تبلیغ کی مکمل نمائندگی ان کے طرز خطاب میں موجود ہے۔
ایک نمونہ تو وہ ہے جبکہ انھوں نے اپنے والد کو دین کی دعوت دی اور دوسرا نمونہ وہ ہے جس میں انھوں نے اپنی قوم کو خطاب فرمایا اثران دونوں دعوتوں کے انداز ِ بیان میں حکیمانہ تنوع پایا جاتا ہے اثرصرف انداز ِ گفتگو اور پیرایۂ بیان ہی میں نہیں بلکہ موقع کا لحاظ اور مخاطب کا گہرا علم بھی جھلکتا ہے اور یہ کہ کس طرح دل کی پنہائیوں میں بات اتار دی جائے۔
اس دعوت کا نقشہ باری تعالیٰ عزاسمہ نے سوره مریم میں یوں ذکر کیا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے والد کو یابت سے خطاب فرماکر بدرانہ شفقت کے جذبہ کو ابھارا ہے، اس انداز خطاب میں بیٹے کی سعادت مندی، محبت اور فروشنی پوری طرح نمایاں ہے۔اس دعوت کے ذریعہ اولاً حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جذبۂ ایمانی سے پہلے شفقت پدری کے خوابیدہ تاروں کو چھیڑا ہے بعینہ یہ بات مشاہدہ میں ہے کہ اگر کسی کو دعوت دینا ہے تو اس دروازے سے داخل ہونا ہوگا، جو کھلا ہوا ہے، ایک داعی و مبلغ جسے حکمت کی نعمت ملی ہے وو کبھی اس پہلو کو نظر انداز نہیں کر سکتا۔اگر وہ اس پہلو کو نظر انداز کرے گا تو خود اپنی ذات کو بھی نقصان پہونچائےگا اور دعوت کو بھی۔
الله کے نبی نے بھی اپنے جدامجدحضرت ابراہیم علیہ السلام کی پیروی کرتے ہوئے اپنے چچا ابو طالب کو یا عم سے اس وقت خطاب فرمایا جبکہ ان پر قریش کے مقاطعہ کا خوف طاری تھا۔ اس نرم گفتاری کا نتیجہ یہ ہوا کہ ابو طالب کا انسانی جذبہ، ہمدردی اور شفقت ابھر آیا اور باوجود اس کے کہ وہ اپنے آبائی دین پر قائم رہے مگر جواب میں انہیں نے بھی اسی طرز خطاب کو اختیار کرتے ہوئے یا ابن اخی کہا۔
اس کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام نے روز مرہ پیش آنے والی جانی بوجھی باتوں سے ابتداء کی اس لئے کہ ان کے والد اگر چہ عمر رسیدہ تھے مگر عقل کا بچپن ختم نہیں ہوا تھا۔ لہٰذا آپ نے کہا آپ کیوں ایسی چیز کی پرستش کرتے ہیں جو نہ سنتی ہے نہ دیکھتی ہے اور نہ کسی کام آسکے، پھر فرمایا، ابا جان مجھ پر وہ حقیقت آشکارا ہو گئی ہے، جس کی آپ کو خبر نہیں لہٰذا میری پیروی کیجئے، میں آپ کو صحیح راستہ بتاؤں گا، ابا جان شیطان کی پرستش نہ کیجئے، شیطان رحمان کا نا فرمان ہے، یہ وہ دعوت ہے جس میں معانی و حکمت کے سمندر سموئے ہوئے ہیں، اور آخر میں کہا ابا جان ! مجھے ڈر لگتا ہے کہ کہیں رحمان کا عذاب نہ آپ پر آجائے جس کے نتیجہ میں آپ شیطان کے گروہ کا ایک فرد بن جائیں۔
دعوت کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی قوم کو مخاطب کرتے ہوئے یہ طرز اختیار فرمایا کے آپ نے اپنی قوم کے معبود ان باطلہ کی کوئی ہجو نہیں کی، اور نہ ان کو برے نام سے پکارا، اگر ایسا کرتے تو عین ممکن تھا کہ ان کے مخاطب بپھر جاتے، اور وہ سرے سے بات سننے کے لئے ہی تیار نہ ہوتے، اور آپ نے خود ان کو بولنے پر مجبور کیا ماتعبدون ؟ تم کس کی پرستش کرتے ہو اور جن کو تم پکارتے ہو کیا وہ تمہاری سنتا ہے، نفع یا نقصان پہنچا تا ہے ؟ اس پر قوم نے جواب دیا کہ ہم نے اپنے آباواجداد کو اسی طرح کرتے دیکھا ہے۔یہی وہ بات تھی جو حضرت ابراہیم علیہ السلام ان کے منھ سے کہلانا چاہتے تھے، اس لئے کہ یہ جواب ان کے جاہل اور عاجز ہونے پر دال ہے۔
الله اکبررب ذوالجلال نے اپنے پیغمبر برحق حضرت ابراہیم علیہ السلام کو کس درجہ انسانی نفسیات پر عبور عطا فرمایا تھا، اور ذہن و عقل کے باریک سے باریک سوتوں کو جگانے اور صلاحیتوں کو پیدا کرنے میں مہارت انہیں حاصل تھی۔اپنے مخاطبین سے کس طرح انھوں نے وہ سب کچھ اگلوا لیا جو ان کے دل و دماغ میں محفوظ تھا۔ ان کی ذہانتیں، قوت گفتار، مدافعانہ صلاحیتیں سب ظاہر ہو گئیں۔ اور آخر میں ان کے ترکش کا آخری تیر بھی نکلوا لیا کہ انھوں نے اپنے معبودان باطلہ کے عاجز ہونے کا اقرار کر لیا۔
(حصہ ٢)
نومبر 2014
نومبر 2014
گزشتہ مقالے میں ان اسباب کو بیان کیا جا رہا تھا جن کو اگر مسلمان مضبوطی سے تھام لیں اور اس کو اپنا مقصد بنا لیں تو انشاءاللہ ضرور ساری قومیں مسلمانوں کی ماتحت بن جائیں گی۔ ان اسباب میں سے بنیادی سبب دعوت ہے جس کے لیے قرآن کریم نے واقعات بیان کرنے اور مثالیں دینے کا اسلوب اختیار کیا ہے، دوسرے وسائلِ دعوت کی بہ نسبت یہ طریقہ زیادہ زود اثر اور دل نشین ہے۔ اور مقصد کے حصول میں یہ طریقہ زیادہ مفید اور کارآمد ثابت ہوا ہے۔ قرآن کریم نے انبیاء کرام علیھم السلام کی سیرت اور ان کے مواعظ اور دعوت پر مکالموں کو ذکر کیا ہے، یہ نمونے دلوں پر اثر انداز ی کی بے انتہا قوت رکھتے ہیں، ذہن و قلب پر ان کا اثر سحر کے مانند ہوتا ہے، کیونکہ عملی نمونوں کا جو اثر ہوتا ہے وہ کسی دوسرے وسائلِ دعوت کا نہیں ہوسکتا۔
ان میں سے اکثر واقعات چار برگزیدہ بندوں کی سیرتوں سے ماخوذ ہیں وہ انبیاء کرام حضرت ابراہیمؑ دوسرے حضرت یوسف ؑ، تیسرے حضرت موسیٰ ؑ اور آخر میں خاتم الانبیاء و الرسول حضرت محمد ؐ ہیں۔ گزشتہ مقالے میں حضرت ابراہیم ؑ کی مختصراً سیرت کو ذکر کیا گیا تھا آج کے اس مقالے میں حضرت یوسف ؑ کی سیرت کو بیان کیا جارہا ہے۔
سب سے پہلے ہمیں یہ معلوم ہونا چاہیئے کہ حضرت یوسف ؑ کون تھے ؟ حضرت یوسف ؑ حضرت یعقوب ؑ کے صاحبزادے، حضرت اسحاق ؑ کے پوتے اور حضرت ابراہیم ؑ کے پر پوتے ہیں، یہ وہی حضرت یوسف ؑہیں جن کے بارے میں رسول الله نے فرمایا تھا الکریم بن الکریم بن الکریم بن الکریم (ایک برگزیدہ، برگزیدہ کے صاحبزادے، برگزیدہ کے پوتے، برگزیدہ کے پر پوتے ) نسب دیکھئے تو سب سے اعلی، خاندانی شرافت میں سب سے بلند، نبوت کی میراث دیکھئے تو کئی پشتوں سے اس کے حامل، الله تعالیٰ جلّ شانہ کی مغفرت دیکھئے تو یہ بھی خاندانی ورثہ، سیرت و اخلاق دیکھئے تو پشتہا پشت سے ان کے خاندان میں یہ دولت منتقل ہوتی آ رہی ہے، آسمانی صحیفوں میں ان کا ذکر ہے، دین و دانش، ادب و حکمت کی کتابوں میں ان کا حصہ موجود ہے، جمال ظاہری میں بے مثال تھے، الله تعالیٰ نے حسن صورت اور حسنِ سیرت کا جامع بنایا تھا، ظاہری شکل و وجاہت کا اگر وہ نمونہ تھے، تو دوسری طرف پاکیزہ اخلاق اور کردار کی بلندی کا بھی آئینہ تھے، ان کی ذات حسن صورت، حسنِ سیرت اور جمالِ عقل و فکر کی جامع تھی، اس کے ساتھ طبیعت میں گداز، احساس و جذبات میں لطافت اور فطری شرافت کا عنصر مستزاد تھا۔ وہ صحیح معنی میں حسنِ کامل کا پرتو تھے، یہ حسن ان کی ظاہری وجاہت کی طرح ان کے عادات و اطوار، طرز کلام اور طرز فکر سے بھی آشکارا تھا۔
ان سارے کمالات کے باوجودعجب یہ کہ ان کو جیل خانہ میں ڈال دیا جاتا ہے اور ایک ایسی تہمت لگائی جاتی ہے جس سے الله تعالیٰ نے ان کو ایسابری اور بے قصور ثابت کر دیا، جیسے خوں ریزی کی تہمت سے وہ بھیڑیا بری تھا جس پر حضرت یوسف ؑ کو پھاڑ کھانے کا الزام ان کے بھائیوں نے لگایا تھا۔ بہرحال جیل خانہ میں حضرت یوسف ؑ تھوڑے ہی دنوں میں قیدیوں کی توجہ کا مرکز بن گئے۔ ان کے ماحول پر چھائی ہوئی تاریکی، ان کے اخلاقی کرامت کی نورانیت سےچھٹ گئی، سنجیدگی، وقار، کردار کی بلندی، سیرت کی پختگی، عبادت میں یکسوئی، اور پھر ملنے ملانے میں خندہ پیشانی، عجزو انکساری، ہر ایک سے اخلاق و مروّت کا برتاؤ، کوئی چیز ایسی نہ تھی جس کا اثر نہ پڑتا، قیدیوں کے دل بے اختیار ان کی طرف کھینچنے لگے اور وہ ان کا احترا م کرنے پر مجبور ہو گئے۔ اور یہ سب الله تعالی کے منشاء و مصلحت کا مظہر تھا۔
اس کے بعد یہ ہوتا ہے کہ قیدیوں میں کے دو قیدی دو مختلف خواب دیکھتے ہیں۔ اور اس کی تعبیر معلوم کرنے آپ کے پاس آتے ہیں۔ جس کا تذکرہ خود باری تعالیٰ نےسوره یوسف کی ٣٦ تا ٤١ آیت میں کہا ہے کہ حضرت یوسف ؑ جو آغوش نبوت کے پروردہ تھے، انھیں بصیرت کی دولت عطا فرمائی تھی رسالتِ خداوندی کے لیے ان کے مزاج کو ڈھالا گیا تھا، وہ سمجھ گئے کہ دونوں قیدو بند کے رفیق جس حقیقت کو فراموش کر رہے ہیں وہ ان خوابوں سے کہیں زیادہ قابل فکر بات ہے وہ حقیقت ہے ایمان باللہ کی، یعنی اس ذات پاک پر ایمان جو اس کائنات کا تنہا خالق و مدبّر ہے، اور وہ حقیقت ہے توحید کی جس میں شرک کی آمیزش نہ ہو۔لہٰذا حضرت یوسف ؑ نے مناسب سمجھا کہ اس موقع کو ہاتھ سے جانے نہ دیا جائے اور ان کے دماغ کی نرم مٹی میں توحید کا ایک اچھا تخم ڈال ہی دیا جائے اور الله کے دین کی طرف دعوت دی جائے۔
سب سے پہلے آپ نے انھیں مطمئن کردیا کہ وہ خواب کی تعبیر بتا سکتےہیں جس کو قرآن نے یوں بیان کیا ہے کہ قبل اس کے کہ تمہارا کھانا جو تم کو ملتا ہے یہاں آجانے میں اس کی تفصیل بتادوں گا۔ پھر مزاج نبوت ابھر کے سامنے آتا ہے اور تعبیرِ خواب کی صلاحیت کو اپنی قابلیت پر محمول نہیں کرتے بلکہ الله تعالیٰ کے فضل کا نتیجہ بتاتے ہیں اور یہیں سے بات کا رخ پھیرتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ یہ ان ان باتوں میں سے ہے جو میرے رب نے مجھے سکھلائی ہیں۔
غور فرمائیے خواب کی تعبیر سے پہلے کس درجہ حکمانہ اسلوب میں دعوت و تبلیغ کا فریضہ انجام دیا کہ فرمایا اس تعبیر ِخواب بیان کرنے میں میرے علم و فضل، ذہانت و ذکاوت کا کوئی دخل نہیں ہے۔ یہ سب الله تعالیٰ کا فضل ہے جس نے مجھے یہ صلاحیت عطا فرمائی۔ اس حکمانہ اسلوب میں جس کی مثال اگر کہیں ملتی ہے تو صرف رسول الله میں جس کو انشاءاللہ بعد کے مقالے میں ذکر کیا جائےگا۔ بعد اس کے آپ نے اپنی فراصت خاصّہ سے محسوس فرما لیا کہ وہ اب ایک محفوظ پوزیشن میں ہیں۔ اس لیے آپ نے مخاطب کرتے ہوئے فرمایا اے میرے جیل خانے کےرفیقو ! بھلا کئی جدا جدا آقا اچھے یا ایک خدا یکتا و غالب ؟ اور آگے فرمایا یہ صرف نام ہیں مگر ان کا کوئی مسمّٰی نہیں ہے۔ یہ نام ہیں جن کی کوئی حقیقت نہیں ہے، کچھ نام یونانیوں نے تصنیف کر لیے ہیں۔ کچھ نام بت پرست قوموں نے رکھ چھوڑے ہیں۔ اور اسی طرح دوسرے لوگوں نے بغیر کسی وجود کے صرف اپنے اوہام کے بت بنائے اور ان کا نام رکھ دیا قرآن کریم کا اعجاز یہ ہے کہ ان وہمی چیزوں کی حقیقت اسماء کے لفظ سے بیان فرمائی ہے، یہ صرف نام ہی نام ہیں۔یہ معبود کہاں اور کب پائے گئے ؟ کہاں اور کب بارش کا خدا اور جنگ کا خدا تھا ؟اور کس زمانے میں اور کس جگہ خدائے جمال اور خدائےمحبت کاوجود تھا؟ کہاں اور کس صدی میں بستے تھے ان کا وجود اوہام وظنوں کی دنیا سے باہر کبھی پایا گیا ؟ قرآن کریم نے بتایا کہ صرف ونام ہی نام ہیں جنھیں تم نے اور تمھارے آ با و اجداد نے اپنے دل سے گڑھ لیا ہے، الله تعالیٰ کی طرف سے اس کی کوئی سند نہیں ہے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ حضرت یوسف ؑ نے اولاً مقصدِ بعثت کا فریضہ انجام دیا، اور مختصر اور جامع الفاظ میں ان کے سامنے دعوت توحید کو پیش کردیا جس کو اصل ہدایت ملنے میں ابتدائیت و اولیت حاصل ہے۔ پھر ان کے خواب کی تعبیر بیان کی کہ پہلا اپنے آقا کو شراب پلایا کرے گا اور دوسرا سولی دیا جائے گا اور جانوراس کا سر کھا ئیں گے۔
٭٭٭
ان میں سے اکثر واقعات چار برگزیدہ بندوں کی سیرتوں سے ماخوذ ہیں وہ انبیاء کرام حضرت ابراہیمؑ دوسرے حضرت یوسف ؑ، تیسرے حضرت موسیٰ ؑ اور آخر میں خاتم الانبیاء و الرسول حضرت محمد ؐ ہیں۔ گزشتہ مقالے میں حضرت ابراہیم ؑ کی مختصراً سیرت کو ذکر کیا گیا تھا آج کے اس مقالے میں حضرت یوسف ؑ کی سیرت کو بیان کیا جارہا ہے۔
سب سے پہلے ہمیں یہ معلوم ہونا چاہیئے کہ حضرت یوسف ؑ کون تھے ؟ حضرت یوسف ؑ حضرت یعقوب ؑ کے صاحبزادے، حضرت اسحاق ؑ کے پوتے اور حضرت ابراہیم ؑ کے پر پوتے ہیں، یہ وہی حضرت یوسف ؑہیں جن کے بارے میں رسول الله نے فرمایا تھا الکریم بن الکریم بن الکریم بن الکریم (ایک برگزیدہ، برگزیدہ کے صاحبزادے، برگزیدہ کے پوتے، برگزیدہ کے پر پوتے ) نسب دیکھئے تو سب سے اعلی، خاندانی شرافت میں سب سے بلند، نبوت کی میراث دیکھئے تو کئی پشتوں سے اس کے حامل، الله تعالیٰ جلّ شانہ کی مغفرت دیکھئے تو یہ بھی خاندانی ورثہ، سیرت و اخلاق دیکھئے تو پشتہا پشت سے ان کے خاندان میں یہ دولت منتقل ہوتی آ رہی ہے، آسمانی صحیفوں میں ان کا ذکر ہے، دین و دانش، ادب و حکمت کی کتابوں میں ان کا حصہ موجود ہے، جمال ظاہری میں بے مثال تھے، الله تعالیٰ نے حسن صورت اور حسنِ سیرت کا جامع بنایا تھا، ظاہری شکل و وجاہت کا اگر وہ نمونہ تھے، تو دوسری طرف پاکیزہ اخلاق اور کردار کی بلندی کا بھی آئینہ تھے، ان کی ذات حسن صورت، حسنِ سیرت اور جمالِ عقل و فکر کی جامع تھی، اس کے ساتھ طبیعت میں گداز، احساس و جذبات میں لطافت اور فطری شرافت کا عنصر مستزاد تھا۔ وہ صحیح معنی میں حسنِ کامل کا پرتو تھے، یہ حسن ان کی ظاہری وجاہت کی طرح ان کے عادات و اطوار، طرز کلام اور طرز فکر سے بھی آشکارا تھا۔
ان سارے کمالات کے باوجودعجب یہ کہ ان کو جیل خانہ میں ڈال دیا جاتا ہے اور ایک ایسی تہمت لگائی جاتی ہے جس سے الله تعالیٰ نے ان کو ایسابری اور بے قصور ثابت کر دیا، جیسے خوں ریزی کی تہمت سے وہ بھیڑیا بری تھا جس پر حضرت یوسف ؑ کو پھاڑ کھانے کا الزام ان کے بھائیوں نے لگایا تھا۔ بہرحال جیل خانہ میں حضرت یوسف ؑ تھوڑے ہی دنوں میں قیدیوں کی توجہ کا مرکز بن گئے۔ ان کے ماحول پر چھائی ہوئی تاریکی، ان کے اخلاقی کرامت کی نورانیت سےچھٹ گئی، سنجیدگی، وقار، کردار کی بلندی، سیرت کی پختگی، عبادت میں یکسوئی، اور پھر ملنے ملانے میں خندہ پیشانی، عجزو انکساری، ہر ایک سے اخلاق و مروّت کا برتاؤ، کوئی چیز ایسی نہ تھی جس کا اثر نہ پڑتا، قیدیوں کے دل بے اختیار ان کی طرف کھینچنے لگے اور وہ ان کا احترا م کرنے پر مجبور ہو گئے۔ اور یہ سب الله تعالی کے منشاء و مصلحت کا مظہر تھا۔
اس کے بعد یہ ہوتا ہے کہ قیدیوں میں کے دو قیدی دو مختلف خواب دیکھتے ہیں۔ اور اس کی تعبیر معلوم کرنے آپ کے پاس آتے ہیں۔ جس کا تذکرہ خود باری تعالیٰ نےسوره یوسف کی ٣٦ تا ٤١ آیت میں کہا ہے کہ حضرت یوسف ؑ جو آغوش نبوت کے پروردہ تھے، انھیں بصیرت کی دولت عطا فرمائی تھی رسالتِ خداوندی کے لیے ان کے مزاج کو ڈھالا گیا تھا، وہ سمجھ گئے کہ دونوں قیدو بند کے رفیق جس حقیقت کو فراموش کر رہے ہیں وہ ان خوابوں سے کہیں زیادہ قابل فکر بات ہے وہ حقیقت ہے ایمان باللہ کی، یعنی اس ذات پاک پر ایمان جو اس کائنات کا تنہا خالق و مدبّر ہے، اور وہ حقیقت ہے توحید کی جس میں شرک کی آمیزش نہ ہو۔لہٰذا حضرت یوسف ؑ نے مناسب سمجھا کہ اس موقع کو ہاتھ سے جانے نہ دیا جائے اور ان کے دماغ کی نرم مٹی میں توحید کا ایک اچھا تخم ڈال ہی دیا جائے اور الله کے دین کی طرف دعوت دی جائے۔
سب سے پہلے آپ نے انھیں مطمئن کردیا کہ وہ خواب کی تعبیر بتا سکتےہیں جس کو قرآن نے یوں بیان کیا ہے کہ قبل اس کے کہ تمہارا کھانا جو تم کو ملتا ہے یہاں آجانے میں اس کی تفصیل بتادوں گا۔ پھر مزاج نبوت ابھر کے سامنے آتا ہے اور تعبیرِ خواب کی صلاحیت کو اپنی قابلیت پر محمول نہیں کرتے بلکہ الله تعالیٰ کے فضل کا نتیجہ بتاتے ہیں اور یہیں سے بات کا رخ پھیرتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ یہ ان ان باتوں میں سے ہے جو میرے رب نے مجھے سکھلائی ہیں۔
غور فرمائیے خواب کی تعبیر سے پہلے کس درجہ حکمانہ اسلوب میں دعوت و تبلیغ کا فریضہ انجام دیا کہ فرمایا اس تعبیر ِخواب بیان کرنے میں میرے علم و فضل، ذہانت و ذکاوت کا کوئی دخل نہیں ہے۔ یہ سب الله تعالیٰ کا فضل ہے جس نے مجھے یہ صلاحیت عطا فرمائی۔ اس حکمانہ اسلوب میں جس کی مثال اگر کہیں ملتی ہے تو صرف رسول الله میں جس کو انشاءاللہ بعد کے مقالے میں ذکر کیا جائےگا۔ بعد اس کے آپ نے اپنی فراصت خاصّہ سے محسوس فرما لیا کہ وہ اب ایک محفوظ پوزیشن میں ہیں۔ اس لیے آپ نے مخاطب کرتے ہوئے فرمایا اے میرے جیل خانے کےرفیقو ! بھلا کئی جدا جدا آقا اچھے یا ایک خدا یکتا و غالب ؟ اور آگے فرمایا یہ صرف نام ہیں مگر ان کا کوئی مسمّٰی نہیں ہے۔ یہ نام ہیں جن کی کوئی حقیقت نہیں ہے، کچھ نام یونانیوں نے تصنیف کر لیے ہیں۔ کچھ نام بت پرست قوموں نے رکھ چھوڑے ہیں۔ اور اسی طرح دوسرے لوگوں نے بغیر کسی وجود کے صرف اپنے اوہام کے بت بنائے اور ان کا نام رکھ دیا قرآن کریم کا اعجاز یہ ہے کہ ان وہمی چیزوں کی حقیقت اسماء کے لفظ سے بیان فرمائی ہے، یہ صرف نام ہی نام ہیں۔یہ معبود کہاں اور کب پائے گئے ؟ کہاں اور کب بارش کا خدا اور جنگ کا خدا تھا ؟اور کس زمانے میں اور کس جگہ خدائے جمال اور خدائےمحبت کاوجود تھا؟ کہاں اور کس صدی میں بستے تھے ان کا وجود اوہام وظنوں کی دنیا سے باہر کبھی پایا گیا ؟ قرآن کریم نے بتایا کہ صرف ونام ہی نام ہیں جنھیں تم نے اور تمھارے آ با و اجداد نے اپنے دل سے گڑھ لیا ہے، الله تعالیٰ کی طرف سے اس کی کوئی سند نہیں ہے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ حضرت یوسف ؑ نے اولاً مقصدِ بعثت کا فریضہ انجام دیا، اور مختصر اور جامع الفاظ میں ان کے سامنے دعوت توحید کو پیش کردیا جس کو اصل ہدایت ملنے میں ابتدائیت و اولیت حاصل ہے۔ پھر ان کے خواب کی تعبیر بیان کی کہ پہلا اپنے آقا کو شراب پلایا کرے گا اور دوسرا سولی دیا جائے گا اور جانوراس کا سر کھا ئیں گے۔
٭٭٭
(حصہ ٤)
فروری ٢٠١٥ء
گذشتہ مقالے میں داعیِ بر حق اور مد عو یعنی حضرت موسیٰؑ اور فر عون کے درمیان بحث و مباحثہ کو بیان کیاجا رہا تھا کہ فر عون نےفمابال القرون الاُولیٰ کہہ کر موسیٰ ؑکے سامنےایسا نادرسوال کر دیا تھا کہ جس سے وہ اپنے دامن کو پاک کرنا چاہتا تھا اور اپنی بادشاہت اورخدائی کو برقرار رکھنا چاہتا تھا اوریہ کہ اس کے حاشیہ نشین موسیٰؑ کی بات میں آ کراس کی خدائی کا انکار نہ کر بیٹھیں اس لیے اس نے اپنے حاشیہ نشینوں کو ان کےآبا ءواجداد کے دین پر قائم رکھنے کے لیے یہ سوال کیا لیکنالله کا پیغمبر ِداعیِ برحق ہوتاہے۔اس لیے موسیٰ ؑ نے اس کے جواب میں ایسی بات کہی جس سے کوئی مقر نہیں ہوسکتا موسیٰ ؑنے کہا قال علمھا عندربی فی کتاب، کہا اس کا علم میرے پروردگار کے پاس ہے جو کتاب میں لکھا ہے۔
ذرا ان الفاظ اور ان کی سادگی اور گہرائی کو ملاحظہ کیجئے۔ نپی تلی بات کیسے نپے تلے لفظوں میں کہہ ڈی، یہ ہے حکمت ِنبوت اور دعوت کا اعجاز کامل کہ موسیٰ ؑ نے دعوت کی بات ترک نہیں کی اور گفتگو کا جو سر ا ان کے ہاتھ تھا اس کو نہیں چھوڑا اور بہت تیزی سے اصلی موضوع پر آگئے اس تیزی سے جس سے زیادہ سرعت اور بلاغت کا تصور نہیں ہو سکتا۔ ایک جملہ میں سارا مسئلہ حل کر دیا اور الله تعالیٰ کی ان ہی صفات کو بیان کرنے لگے جن سے فرعون بھاگنا چاہتا تھا، اور بات کا رخ پھیرنا چاہتا تھا۔
یہ جواب سن کر فرعون نے گفتگو کا رخ بدلنے کی انتہائی چالاک کوشش کی کہ وہ چاہتا تھا کہ اصلی موضوع سے لوگوں کی توجہ ہٹادے، اپنی قوت ِگفتار اور سیاسی داؤ پیچ سے باٹ کو ٹال دے اور حضرت موسیٰ ؑ سے نمٹ لے ادھر حضرت موسیٰ ؑ کا کمال یہ تھا کہ وہ موضوع سے ڈر ا بھی ٹلنے کے لیے تیار نہیں تھے فرعون نے کہا ومارب العلمین سارے جہانوں کا پروردگار کیا ؟ اس سے وہ چاہتا ہوگا کہ حضرت موسیٰ ؑکوئی ایسا جواب دیں جس سے بات دوسرے رخ اختیار کر لے اور مناظرہ چل پڑے لیکن موسیٰ ؑ نے وہی دکھتی رگ پکڑی اور فرمایا" قال رب السموات والا ر ض ان کنتم موقنین "اور ساتھ ہی موسیٰ ؑ نے ان کنتم موقنین کہہ کر فرعون کو چیلنج کردیا اور اصل مرض کی نشاندہی فرمادی (اگر تم یقین کرتے ہو ) یعنی تم ایمان سے محروم ہو۔ اگر ایمان ہوتا تو دیکھ سکتے تھے کہ سارے جہانوں کا پروردگار وہی ہے جو آسمانوں اور زمین اور ان دونوں کے درمیان ہر شئ کا مالک ہے۔
فرعون کے پاس حضرت موسیٰ ؑ کی زبان بندی اور لوگوں کو ان کے خلاف بھڑکانے کا ایک ہی ذریعہ تھا جس کو وہ بار بار استعمال کر رہا تھا۔ قرآن کریم نے اس کو متنوع پیرایوں میں ذکر کیا ہے۔ "فقال لمن حوله " اس نے اپنی پالی حوالی سے کہا "الاتستمعون!" سنتے نہیں یہ کیا کہہ رہے ہیں !! یعنی کیا تمھاری رگ ِحمیت نہیں بھڑکتی ؟ تمھیں غیرت نہیں آتی ؟ لیکن قبل اس کے وہ بولتے، ان میں جوش پیدا ہوتا حضرت موسیٰ ؑ نے ربکم ورب ابا ئکم الاولین کہہ کر بات پوری کردی (تمھارا اور تمھارے آباواجداد کا پروردگار ہے )
فرعون ہر ممکن کوشش کر رہا تھا کہ موسیٰ ؑ کا منہ بند کردے اور موسیٰ ؑ کو اپنے حاشیہ نشینوں کے سامنے پاگل قرار دے دے اور اپنی خدائی اور بادشاہت کو برقرار رکھے چونکہ فرعون اس سے اپنی توہین برداشت نہیں ہوتی۔ فرعون سمجھتا ہوگا کہ اس کے جواب میں حضرت موسیٰ ؑ بپھر پڑیں گے اور نہیں کہیں گے کہ کون کہتا ہے کہ میں پاگل ہوں۔ بلاؤ کسی ڈاکٹر حکیم کو، کسی ماہر امراض کو پُرا معاینہ کرے فرعون نے جب حضرت موسیٰ ؑ کو باؤلا اور پاگل کہا تو اس کا مقصد ہی ہوگا لیکن حضرت موسیٰ ؑ نے اپنی بابت کچھ نہیں کہا۔ اپنی مدافعت میں ایک لفظ بولے۔ وہ الله کے # پیغمبر برحق تھے۔ ان کے سپرد یہ مہم تھی کہ الله کے دین کی ان کو دعوت دیں۔ یہ سب باتیں (باؤلا۔ پاگل کہتا ) ان کو یہ افروخت نہیں کر سکتی تھی۔ اور ان کی دعوت حق کے مقابلے میں اس کی حیثیت ہی کیا تھی۔ اور ایسے ماحول میں جس پر شرک چھایا ہوا ہو جس میں بت پرستی عام ہو جس میں جرائم اور معاضی کی پرورش ہو رہی ہو۔ جہاں آبرو یافتہ، باعزت افراد کی پگڑیاں اچھالنے کے در پے ہوں۔ جس ماحول میں معصوم بچے اور بے گناہ افراد قتل کیے جاتے ہو۔ ایسے ماحول میں مجنوں اور پاگل کی لوٹ کوئی بڑی بات نہ تھی لہٰذا انھوں نے سنی ان سنی کر کے فرمایا۔ قال رب المشرق و المغرب وما بینھما ان کنتم تعقلون۔ وہ مشرق و مغرب اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان میں ہے سب کا مالک ہے بشرطیکہ تم کو سمجھ ہو۔
یہ تیر فرعون کے جگر کو چھلنی کر گیا۔ وہ سمجھتا تھا کہ مصر میں وہی رب المشرق و المغرب ہے۔ اس کی سمجھ یہی تھی کہ سارا عالم مصر سے عبارت ہے اور وہ چونکہ مصر کا مالک ہے لہٰذا سارا عالم اس کے قدموں کے نیچے ہے۔ حضرت موسیٰ ؑ نے مشرق مغرب اور ان دونوں کے درمیان دنیا کا ذکر کر کے اس کے غرور حکمرانی پر ضرب کاری لگائی اور وہ بنیادہی ڈھا دی جس پر فرعون کی جھوٹ کی عمارت قائم تھی اور جس پر اس کو بڑا ناز تھا۔
پیغمبرانہ دعوت و حکمت کا یہ ایک نمونہ تھا۔ اس نمونہ میں دعوت دینے والا اور جس کو دعوت دی گئی ہے۔ دونوں کی نوعیتیں مختلف اور جداگانہ نظر آتی ہیں۔ دعوت کا موضوع پیچیدہ اور نازک تھا اور داعی کی پوزیشن بڑی نازک اور کشمکش والی تھی جس کو انشاءاللہ آئندہ مقالے میں پیغمبرانہ دعوت کا دوسرا نمونہ پیش کریں گے۔
ذرا ان الفاظ اور ان کی سادگی اور گہرائی کو ملاحظہ کیجئے۔ نپی تلی بات کیسے نپے تلے لفظوں میں کہہ ڈی، یہ ہے حکمت ِنبوت اور دعوت کا اعجاز کامل کہ موسیٰ ؑ نے دعوت کی بات ترک نہیں کی اور گفتگو کا جو سر ا ان کے ہاتھ تھا اس کو نہیں چھوڑا اور بہت تیزی سے اصلی موضوع پر آگئے اس تیزی سے جس سے زیادہ سرعت اور بلاغت کا تصور نہیں ہو سکتا۔ ایک جملہ میں سارا مسئلہ حل کر دیا اور الله تعالیٰ کی ان ہی صفات کو بیان کرنے لگے جن سے فرعون بھاگنا چاہتا تھا، اور بات کا رخ پھیرنا چاہتا تھا۔
یہ جواب سن کر فرعون نے گفتگو کا رخ بدلنے کی انتہائی چالاک کوشش کی کہ وہ چاہتا تھا کہ اصلی موضوع سے لوگوں کی توجہ ہٹادے، اپنی قوت ِگفتار اور سیاسی داؤ پیچ سے باٹ کو ٹال دے اور حضرت موسیٰ ؑ سے نمٹ لے ادھر حضرت موسیٰ ؑ کا کمال یہ تھا کہ وہ موضوع سے ڈر ا بھی ٹلنے کے لیے تیار نہیں تھے فرعون نے کہا ومارب العلمین سارے جہانوں کا پروردگار کیا ؟ اس سے وہ چاہتا ہوگا کہ حضرت موسیٰ ؑکوئی ایسا جواب دیں جس سے بات دوسرے رخ اختیار کر لے اور مناظرہ چل پڑے لیکن موسیٰ ؑ نے وہی دکھتی رگ پکڑی اور فرمایا" قال رب السموات والا ر ض ان کنتم موقنین "اور ساتھ ہی موسیٰ ؑ نے ان کنتم موقنین کہہ کر فرعون کو چیلنج کردیا اور اصل مرض کی نشاندہی فرمادی (اگر تم یقین کرتے ہو ) یعنی تم ایمان سے محروم ہو۔ اگر ایمان ہوتا تو دیکھ سکتے تھے کہ سارے جہانوں کا پروردگار وہی ہے جو آسمانوں اور زمین اور ان دونوں کے درمیان ہر شئ کا مالک ہے۔
فرعون کے پاس حضرت موسیٰ ؑ کی زبان بندی اور لوگوں کو ان کے خلاف بھڑکانے کا ایک ہی ذریعہ تھا جس کو وہ بار بار استعمال کر رہا تھا۔ قرآن کریم نے اس کو متنوع پیرایوں میں ذکر کیا ہے۔ "فقال لمن حوله " اس نے اپنی پالی حوالی سے کہا "الاتستمعون!" سنتے نہیں یہ کیا کہہ رہے ہیں !! یعنی کیا تمھاری رگ ِحمیت نہیں بھڑکتی ؟ تمھیں غیرت نہیں آتی ؟ لیکن قبل اس کے وہ بولتے، ان میں جوش پیدا ہوتا حضرت موسیٰ ؑ نے ربکم ورب ابا ئکم الاولین کہہ کر بات پوری کردی (تمھارا اور تمھارے آباواجداد کا پروردگار ہے )
فرعون ہر ممکن کوشش کر رہا تھا کہ موسیٰ ؑ کا منہ بند کردے اور موسیٰ ؑ کو اپنے حاشیہ نشینوں کے سامنے پاگل قرار دے دے اور اپنی خدائی اور بادشاہت کو برقرار رکھے چونکہ فرعون اس سے اپنی توہین برداشت نہیں ہوتی۔ فرعون سمجھتا ہوگا کہ اس کے جواب میں حضرت موسیٰ ؑ بپھر پڑیں گے اور نہیں کہیں گے کہ کون کہتا ہے کہ میں پاگل ہوں۔ بلاؤ کسی ڈاکٹر حکیم کو، کسی ماہر امراض کو پُرا معاینہ کرے فرعون نے جب حضرت موسیٰ ؑ کو باؤلا اور پاگل کہا تو اس کا مقصد ہی ہوگا لیکن حضرت موسیٰ ؑ نے اپنی بابت کچھ نہیں کہا۔ اپنی مدافعت میں ایک لفظ بولے۔ وہ الله کے # پیغمبر برحق تھے۔ ان کے سپرد یہ مہم تھی کہ الله کے دین کی ان کو دعوت دیں۔ یہ سب باتیں (باؤلا۔ پاگل کہتا ) ان کو یہ افروخت نہیں کر سکتی تھی۔ اور ان کی دعوت حق کے مقابلے میں اس کی حیثیت ہی کیا تھی۔ اور ایسے ماحول میں جس پر شرک چھایا ہوا ہو جس میں بت پرستی عام ہو جس میں جرائم اور معاضی کی پرورش ہو رہی ہو۔ جہاں آبرو یافتہ، باعزت افراد کی پگڑیاں اچھالنے کے در پے ہوں۔ جس ماحول میں معصوم بچے اور بے گناہ افراد قتل کیے جاتے ہو۔ ایسے ماحول میں مجنوں اور پاگل کی لوٹ کوئی بڑی بات نہ تھی لہٰذا انھوں نے سنی ان سنی کر کے فرمایا۔ قال رب المشرق و المغرب وما بینھما ان کنتم تعقلون۔ وہ مشرق و مغرب اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان میں ہے سب کا مالک ہے بشرطیکہ تم کو سمجھ ہو۔
یہ تیر فرعون کے جگر کو چھلنی کر گیا۔ وہ سمجھتا تھا کہ مصر میں وہی رب المشرق و المغرب ہے۔ اس کی سمجھ یہی تھی کہ سارا عالم مصر سے عبارت ہے اور وہ چونکہ مصر کا مالک ہے لہٰذا سارا عالم اس کے قدموں کے نیچے ہے۔ حضرت موسیٰ ؑ نے مشرق مغرب اور ان دونوں کے درمیان دنیا کا ذکر کر کے اس کے غرور حکمرانی پر ضرب کاری لگائی اور وہ بنیادہی ڈھا دی جس پر فرعون کی جھوٹ کی عمارت قائم تھی اور جس پر اس کو بڑا ناز تھا۔
پیغمبرانہ دعوت و حکمت کا یہ ایک نمونہ تھا۔ اس نمونہ میں دعوت دینے والا اور جس کو دعوت دی گئی ہے۔ دونوں کی نوعیتیں مختلف اور جداگانہ نظر آتی ہیں۔ دعوت کا موضوع پیچیدہ اور نازک تھا اور داعی کی پوزیشن بڑی نازک اور کشمکش والی تھی جس کو انشاءاللہ آئندہ مقالے میں پیغمبرانہ دعوت کا دوسرا نمونہ پیش کریں گے۔
(حصہ ٥)
مارچ ٢٠١٥ء
گزشتہ مقالے میں یہ ذکر کیا گیا تھا کہ حضرت موسیٰ نے اپنے وقت کے سخت ظالم و جابر حکمراں فرعون کو دعوت دینے میں کیا رویہ اختیار کیا تھا، آج کے اس مقالے میں اس امر کا جائزہ لینا ہے کہ ان کو خود اپنی قوم کو دعوت دینے میں کیا موقف تھا۔
اندرونی کشمکش بسا اوقات سخت ابتلاء کا باعث بن جاتی ہے، جب کہ ایک خاندان یا قبیلہ کے افراد آپس میں دست و گریباں ہوتے ہیں، قلب و دماغ پر اس کے اثرات کچھ کم نہیں ہوتے بلکہ بیرونی دشمنوں کے مقابلے میں یہ بات زیادہ صبر آزما ہوتی ہے۔ اس نمونۂ دعوت سے جو بات بہت ہی کھل کر سامنے آ ئے گی وہ یہ ہے کہ ایک داعی الی الله کا موقف ہمیشہ داعی کا موقف رہتا ہے، خواہ وہ دشمن کو مخاطب کر رہا ہو یا عزیز ترین فرد خاندان کو، دعوت کا رنگ اس پر غالب رہے گا، اور داعی کی شان اس میں جھلکتی رہے گی خواہ صورت حال کچھ بھی ہو اور مخاطب جو بھی ہو، اس کی زبان دعوت کی زبان ہو گی اس کے سامنے مقصد دعوت ہو گا اور ہمیشہ اسی نغمہ کا تار چھیڑتا رہے گا اور انداز بیان خواہ جو بھی ہو مگر اس کی نظر اس پر ہوگی کہ کس طرح دعوت کی بات دل میں اتار دے اور کس طرح دلوں کو قبول حق کے لیے تیار کریں اور ہر جگہ، ہر آن اور ہر گھڑی اس کی یہ فکر ہوگی کہ الله کی زمین پر صرف اور صرف الله ہی کی اطاعت ہو، اور باطل اپنے ہر اسباب کے ساتھ اس صفحۂ ہستی سے بالکل پاک اور صاف ہو جائے۔
جب فرعون کی قوم کے سرداروں نے فرعون کو یہ کہا : وَقَالَ الْمَلَأُ مِن قَوْمِ فِرْعَوْنَ أَتَذَرُ مُوسَىٰ وَقَوْمَهُ لِيُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ(قوم فرعون میں جو سردار تھے کہنے لگے کہ کیا آپ موسیٰ اور اس کی قوم کو چھوڑ دیجئے گا کہ ملک میں خرابی کرے، اور اب سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہو جائے ) تو فرعون نے سخت الفاظ میں کہا : قَالَ سَنُقَتِّلُ أَبْنَاءَهُمْ وَنَسْتَحْيِي نِسَاءَهُمْ وَإِنَّا فَوْقَهُمْ قَاهِرُونَ (وہ بولا کہ ہم ان کے لڑکوں کو تو قتل کر ڈالیں گے اور ان کی لڑکیوں کو زندہ رہنے دیں گے اور بے شبہ ہم ان پر غالب ہے ) جب فرعون کا یہ فیصلہ حضرت موسیٰ تک پہنچا تو آپ نے ان کو کوئی جواب نہیں دیا بلکہ آپ نے اپنی قوم اور اپنے ماننے والوں کو مخاطب کیا اور ان کے ایمان کو مضبوط کرنا مناسب سمجھا، اور ان کی نگاہ ِ قلب کو اسباب سے ہٹا کر خالق ِ اسباب کی طرف پھیر دیا اور ہمیں یہ سبق دیا کہ دعوت کے مخاطب جہاں الله کے نہ فرمان ظالموں جابر حکمران ہے وہیں اپنی قوم اور اپنے ماننے والے بھی ہیں اور ان کے ایمان کو مضبوط کرنا بھی بے انتہا ضروری ہے۔ آپ نے فرمایا : قَالَ مُوسَىٰ لِقَوْمِهِ اسْتَعِينُوا بِاللَّهِ وَاصْبِرُوا إِنَّ الْأَرْضَ لِلَّهِ يُورِثُهَا مَن يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ (موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا کہ خدا سے مدد مانگو اور ثابت قدم رہو زمین تو خدا کی ہے [اور ] وہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے اس کا مالک بنا دیتا ہے، اور آخر بھلا تو ڈرنے والوں کا ہے ) اس جملے سے حضرت موسیٰ نے سب سے پہلے بنی اسرائیل کو الله تعالیٰ سے مدد مانگنے کو کہا۔ اور صاف الفاظ میں بنی اسرائیل کو یہ دعوت دی کہ سارے مخلوق کے خالق و مالک الله رب العزت کی ذات برکت ہے، وہی سب کرنے پر قادر ہے۔اور وہ کسی کامحتاج نہیں ہے اور جو الله نے ایمان دیا ہے۔ اس پر ثابت قدم رہو۔ طاقت و تعداد پر نگاہ مت کرو سب سے زیادہ مضبوطی تقویٰ و اعمال صالحہ کی بنیاد پر الله غلبہ دیا کرتا ہے۔
اور ان الارض للہ کہہ کر یہ واضح کر دیا کہ زمین الله کی ہے۔ اور اس کا مالک اکیلا وہی ہے۔ اور زمین کی حکومت فرعون اور اس کے ماتحتوں سے لینا اس کے لیے کوئی بڑی مشکل بات نہیں ہے۔ اور آگے یعدمھاس یشاء من عبادہ فرمایا کہ وہ اپنے بندوں میں سے کس کو چاہتا ہے اس کا وارث بنا دیتا ہے۔ اس سے صاف الفاظ میں یہ بٹا دیا کہ کون اپنی طاقت و قوت کی بنیاد پر مالک نہیں ہوا اور نہ مال و مرتبہ کے اعتبار سے قابض ہوا۔ اس نے وارث بنایا ہے۔ اگر وہ روگردانی کرے گا تو وہ اس سے چھین کر اپنے دوسرے بندوں کو قابض کرے گا۔ اور آگے والعاقبه المتقین کہہ کر یہ اعلان کر دیا کہ الله کی طرف سے بھلا انجام تو الله سے ڈرنے والوں کا ہے۔ اور یہ بھلائی دنیا وی ہوگی اور اصل آخرت کی بھلائی تووہ ضرور پاکر رہے گا۔
ہمیں اچھی طرح معلوم ہونا چاہیے کہ الله کا یہ اعلان صرف موسیٰ و بنی اسرائیل کے لیے نہیں تھا بلکہ الله کا یہ اعلان آج ہمارے لیے بھی وہی ہے۔ اور آج بھی اسی زمین کا مالک وہی ہے۔ آج اس نے مودی سرکار کو تخت عطا کیا ہے۔ تو کل وہ اس سے چھین کر اپنے مخصوس بندوں کو بھی دے سکتا ہے۔ اور الله کا ان ظالم و جابر لوگوں کو حکمرانی دینا ہمارے ایمان کو مضبوط کرنا ہے کہ حضرت موسیٰ کا اعلان الستعیمنوابااللہ وا صبرو۔ ہمارے لیے بھی ہے کہ ہمیں اولاً یہ کوشش کرنا چاہیے کہ ہمارا الله ہر ایمان مظبوط ہو جائے۔اور مکمل دین زندگی کے ہر شعبے میں عام ہو جائے۔ ہر ایک کا رخ الله کے غیر سے ہٹ کر صرف اور صرف الله رب العزت کی ذات پر آ جائے۔ تمام مسلمان اپنے نفع و نقصان میں رجوع الله پر آ جائے۔ اور باطل کی طرف سے جو تکلیف آ ئے صبرو استقامت کے ساتھ جھیلتے رہے۔ اور مدد الله سے مانگتے رہے۔ تو جس طرح الله نے مسلمانوں کو اس پر پہلے خالص کیا تھا۔ اسی طرح ہمیں بھی ان ظالموں پر غلبہ دے کر رہے گا۔ اور انتم الاعلون کا مصداق ہمیں بنا کر رہے گا۔
آگے حضرت موسیٰ نے یہ واضح کر رہے ہیں کہ اگر فرعون اس ملک سے نکل بھی گیا اور تم کو تخت و حکومت مل بھی گئی تو یہ کوئی ابدی اور ہمیشہ رہنے والی چیز نہ ہوگی۔ یہ بات الله تعالیٰ کی سنت کے خلاف ہے۔ اور اس کے عدل کے سنانی ہے۔ الله جس کو چاہتا ہے اس کو زمین کا مالک بنا دیتا ہے۔
اور انجام کار کی بھلائی خدا سے ڈرنے والے کے حصہ میں آتی ہے۔ یعنی یہ زمین کسی خاص خاندان فرد کی ملکیت نہیں ہو سکتی۔ کوئی قوم ہمیشہ کے لیے اس پر قابض نہیں ہو سکتی البتہ انجام کار کی خوبی خدا ترس لوگوں کے حصہ میں آتی ہے۔ جیسا کہ سوره یونس میں باری تعالیٰ نے خود واضح کر دیا۔ ثم جعلنکم خلئف فی الارض من بعد ھم فَيَنظُرَ كَيْفَ تَعْمَلُونَپھر ہم نے ان لوگوں کے بعد تم کو خلیفہ بنا دیا تاکہ دیکھے تم کیسے کام کرتے ہو۔
لہٰذا جب بنی اسرائیل نے الله کی اور وقت کے نبی موسیٰ کے حکم کی خلاف ورزی کی تو الله نے ان کو بھی سزا دی جس کا تذکرہ انشاء الله آیندہ مقالے میں پیش کیا جائے گا۔
اندرونی کشمکش بسا اوقات سخت ابتلاء کا باعث بن جاتی ہے، جب کہ ایک خاندان یا قبیلہ کے افراد آپس میں دست و گریباں ہوتے ہیں، قلب و دماغ پر اس کے اثرات کچھ کم نہیں ہوتے بلکہ بیرونی دشمنوں کے مقابلے میں یہ بات زیادہ صبر آزما ہوتی ہے۔ اس نمونۂ دعوت سے جو بات بہت ہی کھل کر سامنے آ ئے گی وہ یہ ہے کہ ایک داعی الی الله کا موقف ہمیشہ داعی کا موقف رہتا ہے، خواہ وہ دشمن کو مخاطب کر رہا ہو یا عزیز ترین فرد خاندان کو، دعوت کا رنگ اس پر غالب رہے گا، اور داعی کی شان اس میں جھلکتی رہے گی خواہ صورت حال کچھ بھی ہو اور مخاطب جو بھی ہو، اس کی زبان دعوت کی زبان ہو گی اس کے سامنے مقصد دعوت ہو گا اور ہمیشہ اسی نغمہ کا تار چھیڑتا رہے گا اور انداز بیان خواہ جو بھی ہو مگر اس کی نظر اس پر ہوگی کہ کس طرح دعوت کی بات دل میں اتار دے اور کس طرح دلوں کو قبول حق کے لیے تیار کریں اور ہر جگہ، ہر آن اور ہر گھڑی اس کی یہ فکر ہوگی کہ الله کی زمین پر صرف اور صرف الله ہی کی اطاعت ہو، اور باطل اپنے ہر اسباب کے ساتھ اس صفحۂ ہستی سے بالکل پاک اور صاف ہو جائے۔
جب فرعون کی قوم کے سرداروں نے فرعون کو یہ کہا : وَقَالَ الْمَلَأُ مِن قَوْمِ فِرْعَوْنَ أَتَذَرُ مُوسَىٰ وَقَوْمَهُ لِيُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ(قوم فرعون میں جو سردار تھے کہنے لگے کہ کیا آپ موسیٰ اور اس کی قوم کو چھوڑ دیجئے گا کہ ملک میں خرابی کرے، اور اب سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہو جائے ) تو فرعون نے سخت الفاظ میں کہا : قَالَ سَنُقَتِّلُ أَبْنَاءَهُمْ وَنَسْتَحْيِي نِسَاءَهُمْ وَإِنَّا فَوْقَهُمْ قَاهِرُونَ (وہ بولا کہ ہم ان کے لڑکوں کو تو قتل کر ڈالیں گے اور ان کی لڑکیوں کو زندہ رہنے دیں گے اور بے شبہ ہم ان پر غالب ہے ) جب فرعون کا یہ فیصلہ حضرت موسیٰ تک پہنچا تو آپ نے ان کو کوئی جواب نہیں دیا بلکہ آپ نے اپنی قوم اور اپنے ماننے والوں کو مخاطب کیا اور ان کے ایمان کو مضبوط کرنا مناسب سمجھا، اور ان کی نگاہ ِ قلب کو اسباب سے ہٹا کر خالق ِ اسباب کی طرف پھیر دیا اور ہمیں یہ سبق دیا کہ دعوت کے مخاطب جہاں الله کے نہ فرمان ظالموں جابر حکمران ہے وہیں اپنی قوم اور اپنے ماننے والے بھی ہیں اور ان کے ایمان کو مضبوط کرنا بھی بے انتہا ضروری ہے۔ آپ نے فرمایا : قَالَ مُوسَىٰ لِقَوْمِهِ اسْتَعِينُوا بِاللَّهِ وَاصْبِرُوا إِنَّ الْأَرْضَ لِلَّهِ يُورِثُهَا مَن يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ (موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا کہ خدا سے مدد مانگو اور ثابت قدم رہو زمین تو خدا کی ہے [اور ] وہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے اس کا مالک بنا دیتا ہے، اور آخر بھلا تو ڈرنے والوں کا ہے ) اس جملے سے حضرت موسیٰ نے سب سے پہلے بنی اسرائیل کو الله تعالیٰ سے مدد مانگنے کو کہا۔ اور صاف الفاظ میں بنی اسرائیل کو یہ دعوت دی کہ سارے مخلوق کے خالق و مالک الله رب العزت کی ذات برکت ہے، وہی سب کرنے پر قادر ہے۔اور وہ کسی کامحتاج نہیں ہے اور جو الله نے ایمان دیا ہے۔ اس پر ثابت قدم رہو۔ طاقت و تعداد پر نگاہ مت کرو سب سے زیادہ مضبوطی تقویٰ و اعمال صالحہ کی بنیاد پر الله غلبہ دیا کرتا ہے۔
اور ان الارض للہ کہہ کر یہ واضح کر دیا کہ زمین الله کی ہے۔ اور اس کا مالک اکیلا وہی ہے۔ اور زمین کی حکومت فرعون اور اس کے ماتحتوں سے لینا اس کے لیے کوئی بڑی مشکل بات نہیں ہے۔ اور آگے یعدمھاس یشاء من عبادہ فرمایا کہ وہ اپنے بندوں میں سے کس کو چاہتا ہے اس کا وارث بنا دیتا ہے۔ اس سے صاف الفاظ میں یہ بٹا دیا کہ کون اپنی طاقت و قوت کی بنیاد پر مالک نہیں ہوا اور نہ مال و مرتبہ کے اعتبار سے قابض ہوا۔ اس نے وارث بنایا ہے۔ اگر وہ روگردانی کرے گا تو وہ اس سے چھین کر اپنے دوسرے بندوں کو قابض کرے گا۔ اور آگے والعاقبه المتقین کہہ کر یہ اعلان کر دیا کہ الله کی طرف سے بھلا انجام تو الله سے ڈرنے والوں کا ہے۔ اور یہ بھلائی دنیا وی ہوگی اور اصل آخرت کی بھلائی تووہ ضرور پاکر رہے گا۔
ہمیں اچھی طرح معلوم ہونا چاہیے کہ الله کا یہ اعلان صرف موسیٰ و بنی اسرائیل کے لیے نہیں تھا بلکہ الله کا یہ اعلان آج ہمارے لیے بھی وہی ہے۔ اور آج بھی اسی زمین کا مالک وہی ہے۔ آج اس نے مودی سرکار کو تخت عطا کیا ہے۔ تو کل وہ اس سے چھین کر اپنے مخصوس بندوں کو بھی دے سکتا ہے۔ اور الله کا ان ظالم و جابر لوگوں کو حکمرانی دینا ہمارے ایمان کو مضبوط کرنا ہے کہ حضرت موسیٰ کا اعلان الستعیمنوابااللہ وا صبرو۔ ہمارے لیے بھی ہے کہ ہمیں اولاً یہ کوشش کرنا چاہیے کہ ہمارا الله ہر ایمان مظبوط ہو جائے۔اور مکمل دین زندگی کے ہر شعبے میں عام ہو جائے۔ ہر ایک کا رخ الله کے غیر سے ہٹ کر صرف اور صرف الله رب العزت کی ذات پر آ جائے۔ تمام مسلمان اپنے نفع و نقصان میں رجوع الله پر آ جائے۔ اور باطل کی طرف سے جو تکلیف آ ئے صبرو استقامت کے ساتھ جھیلتے رہے۔ اور مدد الله سے مانگتے رہے۔ تو جس طرح الله نے مسلمانوں کو اس پر پہلے خالص کیا تھا۔ اسی طرح ہمیں بھی ان ظالموں پر غلبہ دے کر رہے گا۔ اور انتم الاعلون کا مصداق ہمیں بنا کر رہے گا۔
آگے حضرت موسیٰ نے یہ واضح کر رہے ہیں کہ اگر فرعون اس ملک سے نکل بھی گیا اور تم کو تخت و حکومت مل بھی گئی تو یہ کوئی ابدی اور ہمیشہ رہنے والی چیز نہ ہوگی۔ یہ بات الله تعالیٰ کی سنت کے خلاف ہے۔ اور اس کے عدل کے سنانی ہے۔ الله جس کو چاہتا ہے اس کو زمین کا مالک بنا دیتا ہے۔
اور انجام کار کی بھلائی خدا سے ڈرنے والے کے حصہ میں آتی ہے۔ یعنی یہ زمین کسی خاص خاندان فرد کی ملکیت نہیں ہو سکتی۔ کوئی قوم ہمیشہ کے لیے اس پر قابض نہیں ہو سکتی البتہ انجام کار کی خوبی خدا ترس لوگوں کے حصہ میں آتی ہے۔ جیسا کہ سوره یونس میں باری تعالیٰ نے خود واضح کر دیا۔ ثم جعلنکم خلئف فی الارض من بعد ھم فَيَنظُرَ كَيْفَ تَعْمَلُونَپھر ہم نے ان لوگوں کے بعد تم کو خلیفہ بنا دیا تاکہ دیکھے تم کیسے کام کرتے ہو۔
لہٰذا جب بنی اسرائیل نے الله کی اور وقت کے نبی موسیٰ کے حکم کی خلاف ورزی کی تو الله نے ان کو بھی سزا دی جس کا تذکرہ انشاء الله آیندہ مقالے میں پیش کیا جائے گا۔
0 Comments