صادق
افسانہ نگار: انور مرزا
گفتگو: ریحان کوثر
سب سے پہلے بات ضمیر کی کرتے ہیں۔ صادق کے سلام کے جواب میں ضمیر جو مکالمہ ادا کرتا ہے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ جاہل اور کم پڑھا لکھا لیکن کھرا ہے۔
ضمیر صادق کے ضمیر کی جگہ صادق سے سوالات کرتا ہے۔ کسی بھی شخص کا ضمیر اس سے سوال کرنا چاہیے یہی زندہ ہونے کی نشانی بھی ہے اور ضمیر کا یہ کام بھی ہے۔
بہرحال صادق سے وہ سوال کرتا ہے،
رسید دیکھ کر ضمیر چونکا...’’سو روپے...؟ یہ کیا صادِق بھائی... سیدھا ڈبل...؟‘‘
اس کے بعد ایک اور سوال کرتا ہے،
’’مگر... کل تک تو ڈیلی ٹیکس پچاس روپیہ تھا...؟‘‘
صادق اگر اسے دھتکارتا نہیں تو وہ مزید سوالات کرتا رہتا کیوں کہ وہ ’ضمیر‘ ہے...
اسی طرح صادق کا بیٹا جس کا نام شاہد ہے دراصل وہ صادق کے سارے کارنامے اور روزے کا مقصد اور ہدف کا شاہد بھی ہے۔ یعنی معنوی لحاظ سے بھی شاہد ہے اور حقیقی معنوں میں بھی وہ شاہد ہی ہے۔
صداقت مدھم ہو سکتی ہے اور گمراہ بھی! صرف نام رکھ دینے سے کوئی صادق، صابر یا شجاع نہیں ہو جاتا۔ یہاں شاہد کی وجہ سے صادق کی صداقت روشن ہو رہی ہے....
آج سوشل میڈیا کے چپے چپے پر مکتب و مدارس کھل گئے ہیں۔ لاکھوں کروڑوں بیانات یوٹیوب پر انڈیل دیے گئے ہیں کہ روزہ صرف پیٹ کا نہیں ہوتا۔ روزے کی روح اور جسم کو سمجھانے کے لیے لوگوں نے واٹس جیسے پلیٹ فارم پر ترسیلات کا دریا بہا دیا ہے۔ فیس بک پر ڈھیر لگا دیا ہے۔ ٹیوٹر پر ان کا انبار لگا دیا گیا ہے۔ لیکن یہ سارے بیانات، سارے مضامین، ساری ترسیلات دوسروں کی ہدایت اور رہنمائی کے لیے ہی ہوتے ہیں۔ فارورڈ کرنے والے کے لیے نہیں! نہ جانے کتنے صادق ہے جو سوشل میڈیا پر متقی اور پرہیز ہونے کا ناٹک رچاتے ہیں۔ بات صرف سوشل میڈیا کی نہیں حقیقت کی سرزمینوں پر بھی ایسے نقلی صادق و امین بکھرے پڑے ہیں۔ ان تمام کو شاہد جیسا شاہد چاہیے اور ضمیر جیسا ضمیر!
اور سب سے اہم معاشرے میں شاہد کے اسکول جیسا اسکول بھی چاہیے....
بہت بہت مبارک باد انور مرزا صاحب
آپ کی صداقت اور شہادت تائیدی کو سلام 🌹
✍️ ریحان کوثر
کامٹی (ضلع ناگپور) مہاراشٹر
0 Comments