3️⃣
صادِق
افسانہ نِگار ✒️ انور مِرزا
ایونٹ نمبر 49 📿 مرحبا رمضان
کُل ہِند افسانہ نگار فورم
کی پیشکش
افسانچہ نمبر 3
اسکول گیٹ پر منتظر اپنے بیٹے شاھد کو بائیک پر بِٹھا کر میَں رمضان بازار میں داخِل ھوگیا...
’’سلا مالے کُم...ضمیر بھائے...‘‘
’’والے کُم اسّلام...صادِق بھائی...‘‘
دوسرے عشرے میں رمضان کی رونقیں عروج پر تھیں... کارپوریشن کے عارضی مُلازم کی حیثیت سے میَں فُٹ پاتھ پر لگی دُکانوں کی رسید کاٹ رھا تھا...
رسید دیکھ کر ضمیر چونکا...’’سو روپے...؟ یہ کیا صادِق بھائی... سیدھا ڈبل...؟‘‘
’’قاعدہ قانون کا زیروکس میَں تھوڑی نِکالتا ھوں... اپّن تو حُکم کے بندے ھیں... کارپوریشن جو بولے وہ صحیح...‘‘
’’مگر... کل تک تو ڈیلی ٹیکس پچاس روپیہ تھا...؟‘‘
’’ابھی روزے، رمضان میں دماغ مت تپا ضمیر... سو روپیہ نِکال...‘‘
میَں ھر دُکان سے سو، سو روپے وصولتا اور رسید کاٹتا گھر کی طرف چلا...بائیک پر پیچھے بیٹھے شاھد نے سوال کیا...
’’ڈیڈی...یہ تو ظُلم ھے غریبوں پر...‘‘
’’ارے کائے کے غریب...؟ لاکھوں کماتے ھیں رمضان میں... تیرے کو کیا لگتا ھے...رمضان کی برکتوں پر ھمارا کوئی حق نئیں ھے...؟‘‘
’’مطلب...؟ آپ نے اتنے سارے دُکان والوں سے جھوٹ بول کر ڈبل ٹیکس لیا...؟‘‘
’’ھاں تو کیا ھوا...؟ آج کل تو موقع دیکھ کر جو چوکا مارے...وہ سچِن...!‘‘
’’ڈیڈی...ایک مِنٹ رُکو...‘‘
’’اب کیا ھوا...؟‘‘ میَں نے بائیک روکتے ھوئے پوچھا...
’’میَں آپ کیلئے پانی کی بوتل لے کر آتا ھوں...‘‘
’’پانی کی بوتل...؟ پاگل ھے کیا...؟ تجھے پتہ نئیں میَں روزے سے ھوں...‘‘
’’آپ کا روزہ تو رمضان بازار میں ٹوٹ گیا...‘‘
’’کیا...؟‘‘
’’پچاس روپے کیلئے آپ نے پچاس جھوٹ بولے... روزہ بچا ھی کہاں...!‘‘
بات سمجھتے ھی میَں نِدامت اور پشیمانی سے گھِر گیا...
شاھد بوتل لے آیا...
’’یہ لو ڈیڈی... اگر جھوٹ بولنے سے روزہ نہیں ٹوٹا...تو پانی پینے سے بھی نہیں ٹوٹے گا...!‘‘
مجھے یُوں لگا جیسے یہ چُلّو بھر پانی ھے... آنکھیں بھر آئیں... میَں سوچ میں پڑ گیا کہ بیٹے کو اسکول بھیج کر صحیح کیا یا غلط...؟
’’چل بیٹھ...!‘‘ میَں نے شاھد کو بائیک پر بیٹھنے کا اِشارہ کیا...
میَں رمضان بازار کی طرف واپس جا رھا تھا...
’’یہ لو ضمیر بھائے...یہ کل کی رسید ھے...کل ایک روپیہ بھی نئیں دینے کا...‘‘
’’یہ کیا سین ھے صادِق بھائی...؟ سچ بول رھے ھو ...؟‘‘
’’ھاں...صادِق جھوٹ نئیں بولتا...بیٹے نے بتایا... صادِق مطلب... سچّا...!‘‘
بائیک پر پیچھے بیٹھا شاھد مُسکرا رہا تھا...
’’آئی لَو یُو ڈیڈی...!‘‘
بائیک اسکول کے سامنے سے گزری تو میَں نے کہا...
’’بیٹا...تیرا اسکول بہت اچھا ھے...نئیں کیا...!‘‘
✍️✍️✍️
0 Comments