Ticker

6/recent/ticker-posts

’’شاطرؔ حکیمی..... تو نہ ہوتا تو زندگی کیا تھی‘‘| از: خلیل انجمؔ کامٹی

’’شاطرؔ حکیمی..... تو نہ ہوتا تو زندگی کیا تھی‘‘

از: خلیل انجمؔ کامٹی

(یہ مقالہ ۲۳/ویں ماہانہ شعری نشست مورخہ ۲۹/ دسمبر ۲۰۰۷ء کو پڑھا کیا)

اشارہ
ان کی جانب سے اگر پہلے نہیں ہوتا توکیوں برباد کرتے مفت میں ہم زندگی اپنی ؟
ایک شعر کی صحیح تعریف یہ ہے کہ اسے سنتے یا پڑھتے ہی وہ ہمارے دل میں اتر جائے۔ اس کا کوئی لفظ اپنی جگہ سے ہٹایا جائے اور نہ ہی اس میں کسی ترمیم و اصلاح کی گنجائش نظر آئے۔ غرض وہ ایسی ڈھلی ڈھلائی شئے ہو جو کسی خوبصورت مجسمہ سے کم نہ ہو جسے دیکھ کر ہم بیساختہ کہہ اٹھیں ’’واہ!کیا چیز ہے !‘‘۔ اس سے بہتر تعریف کسی معیاری شعر کی نہیں ہو سکتی۔ اور اگر شعر پڑھنے یا سننے کے بعد ہم کو یہ سوچنا پڑے کہ شاعر کیا کہنا چاہتا ہے ؟ تو سمجھ لیجئے شعراپنی تعریف میں نا مکمل ہے۔ حسر تؔ موہانی نے ایک معیاری شعر کی تعریف یوں کی ہے:
شعر دراصل ہیں وہی حسرتؔ سنتے ہی دل میں جو اتر جائیں
با لکل یہی کیفیت ’’اشارہ ان کی جانب سے .......‘‘ والا شعر سننے یا پڑھنے کے بعد ہوتی ہے۔ اس شعر کے شاعر ہیں شاطرؔ حکیمی جو آج میرا موضوع سخن ہیں۔ گرچہ وہ آج ہمارے درمیان نہیں ہیں مگر ان کی یادیں آج بھی دل و دماغ کو تروتازہ کر دیتی ہیں۔
شہر کامٹی جو ہمیشہ سے اردو زبان کا مرکز رہاہے یہی شاطرؔ حکیمی کی جائے پیدائش ہے اور جائے وصال بھی۔ان کے والد محترم الحاج صوفی عبدالحکیمؒ کا شمار کامٹی کی ان علمی و ادبی شخصیات میں ہوتا ہے جن کے فیض و اثر سے کامٹی کو آج علم و ادب کے میدان میں نمایاں مقام حاصل ہے۔ شاطرؔ حکیمی جب تک حیات میں رہے ہرسال ۲۲/ محرم کو اپنے والد محترم کا عرس پورے اہتمام کے ساتھ مناتے اور۲۳/محرم کی شب میں کبھی طرحی اور کبھی غیر طرحی مسالمہ بیاد شہدائے کربلا کا اہتمام بھی کیا جاتا۔مسالمہ بڑے پیمانے پر ہوتا جس میں ملک کے چند نامور شعرائے کرام شرکت فرماتے۔ عالمی شہرت یافتہ ناظم مشاعرہ ثقلین حیدر شاطرؔ حکیمی کے بڑے معقّد تھے۔ جب تک شاطرؔ حکیمی حیات میں رہے ہر سال ثقلین حیدر نہ صرف مسالمہ میں حاضری دیتے بلکہ اپنے ساتھ دوچار نامور شعراء کو بھی لاتے۔ اہلِ ذوق سامعین کثیر تعداد میں جمع ہوتے اور رات بھر مسالمہ سے لطف اندوز ہوتے۔ خواتین سامعین کی تعداد بھی خاصی ہوتی۔ مسالمہ کو کامیاب بنانے میں ثقلین حیدر کی کوششیں معاون ثابت ہوتیں۔ شاطرؔ حکیمی کے وصال کے بعد مسالمہ کا انعقاد شاذونادر ہی ہوا مگر عرس کی تقریب اب بھی ہر سال منعقد ہوتی ہے مگر شاطرؔ حکیمی صاحب کے زمانے کی بات ہی کچھ اور تھی۔
اپنے مضمون کا آغاز راقم التحریر نے شاطرؔ صاحب کے ایک مشہور شعر سے کیا تھا مگر اس پر اپنی بات کو ادھورا چھوڑ کر دوسری طرف چلا گیا۔ اردو شاعری کے عشقیہ مضامین میں اس خیال سے ملتے جلتے شعر ترقی یافتہ صورت میں بہت سے ملیں گے اس کی ایک مثال مجازؔ لکھنوی کا یہ شعر بھی ہے:
عشق کا ذوقِ نظارہ مفت میں بدنام ہے حسن خود بیتاب ہے جلوہ دکھانے کے لیے
اگر تقابلی جائزہ لینا مقصود ہو تو یہ بتائے بغیر کہ شاعر کون ہے ؟ یہ دونوں شعر کسی کے سامنے رکھئے پھر دیکھئے کس کے شعر پر کتنی داد ملتی ہے: ....اندازِ بیان یا اسلوب دونوں میں ایک جیسا ہے مگر سادگی اور بے تکلفی کے اجزا شاطرؔ حکیمی کے شعر میں زیادہ ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ فرق لکھنؤ اورکامٹی کا ہے۔ دراصل آج بھی ہم میں سے بہت سے لوگ یہ دیکھتے ہیں کہ شعر کس کا ہے ؟ یہ نہیں دیکھتے کہ بات کیا کہی گئی ہے اور اس کا اندازِ بیاں ذہن و دل کو کس طرح اپیل کرتا ہے ؟
ایک اندازے کے مطابق شاطرؔ حکیمی نے چارسو سے زائد غزلیں کہی ہوں گی۔ نظم، مرثیہ، تاریخی قطعات وغیرہ بھی اچھی معقول تعداد میں ان کے یہاں مل جائیں گے۔ مگر افسوس کہ ان کا ایک ہی شعری مجموعہ ہے جو ’’موت و حیات‘‘ کے نام سے ۱۹۴۴ء میں شائع ہوا۔ یعنی ’’موت و حیات‘‘ کی تمام غزلیں اور ن۔ظمیں انگریزی دور کی ہیں۔ شاطرؔ حکیمی کا وصال ۱۹۸۸ء میں ہوا۔ اس اعتبار سے ان کی شاعری کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے اور ظاہر ہے ان دونوں حصوں کی شاعری میں فرق و امتیاز بھی ہونا چاہیے۔ ’’موت و حیات‘‘ کی شاعری میں جوش اور ولو لہ اپنے عروج پر نظر آتا ہے کہ ہندوستان آزادی کے لیے جدوجہد میں مصروف تھا اور آزادی کے بعد کی شاعری میں جوش اور ولولہ کی تپش قدرے مدھم ہو گئی تو متانت اور سنجیدگی کی فضا ہموار ہوئی۔ گویا ایک دریا پہاڑی راستوں سے گزرتا ہوا کھلے اور ہموار میدان میں آگیا جہاں دریا کی رفتار تو سست ہو جاتی ہے مگر اس کی قدرو قیمت بڑھ جاتی ہے۔
نظم کا عنوان مجھے یاد نہیں مگر یہ نظم ’’موت و حیات‘‘ میں محفوظ ہے اور ۱۹۴۴ء ہی میں یہ نظم ریڈیو ماسکو (روس) سے نشر ہوئی تھی۔ میں سمجھتا ہوں اس نظم کا پسِ منظر لوکمانیہ تلک کا وہ نعرہ تھا جسے سنتے یا پڑھتے ہی دلوں کے چراغ روشن ہو جاتے ہیں۔ تلک نے فرمایا تھا ’’آزادی میرا پیدائشی حق ہے اور اسے میں لیکر رہوں گا۔‘‘ اس نظم کو سننے کے بعد احساس ہوتا ہے کہ شاطرؔحکیمی پکّے محب وطن تھے۔وہ ہندوستان کو مکمل طور پر آزاد دیکھنے کے دل سے خواہاں تھے اور اپنے ملک پر غیر ملکی تسلط کو ہر گز برداشت نہیں کر سکتے تھے۔ پوری نظم ان کے جذبات و احساسات کی آئینہ دار ہے۔ نظم کے بول بڑے اثر انگیز ہیں۔ ملاحظہ فرمائیں:
بہادرو نہ جانے پائے ہاتھ سے یہ سرزمین وطن ہی سے جہان ہے وطن نہیں تو کچھ نہیں
’’موت و حیات‘‘ میں وطن پرستی کے جذبات سے معمور اس فکر و خیال کی اور بھی نظمیں ہیں جنھیں پڑھ کر نہ صرف یہ محسوس ہوتا ہے کہ شاعر کو اپنی ذمہ داری کا پورا پورا احساس ہے بلکہ قاری کو بھی جدوجہد آزادی کے لیے اکساتی ہیں۔ شاطرؔ حکیمی بنیادی طور پر غزل کے شاعر ہیں مگر ملک کے حالات کے پیشِ نظر انہوں نے نظمیں بھی کہیں کیونکہ نظم کا دامن وسیع ہوتا ہے۔ اس میں جذبات و احساسات کو احسن طریقے سے پیش کرنے کی گنجائش زیادہ ہوتی ہے۔
’’موت و حیات‘‘ پربیشتر اہلِ علم و دانش نے تبصرے کئے ہیں اور مختلف رسائل و جرائد میں شائع بھی ہوئے ہیں۔ تمام تبصروں کو احاطۂ تحریر میں لانا مشکل ہے تاہم نیازؔفتح پوری اور مجنوں ؔ گورکھپوری نے جس انداز میں تبصرے فرمائے ہیں ان کا ذکر اختصار میں کیا جا تا ہے۔ نیازؔ فتح پوری اپنے رسالہ ’’نگار‘‘ میں لکھتے ہیں کہ شاطرؔحکیمی بڑی سے بڑی بات آسانی سے کہہ جاتے ہیں۔ یہ خصوصیت بڑی خصو صیات میں سے ہے۔ شاطرؔ حکیمی کا شمار ترقی پسند شعراء میں ہوتا ہے مگر ان کے کلام میں ان کی بے راہ روی نہیں پائی جاتی۔ مجنوں ؔ گورکھپوری نے لکھا کہ ’’موت و حیات‘‘ شروع سے آخر تک پڑھ جائیے، شاطرؔ حکیمی مرکزی خیال سے نہیں ہٹتے۔‘‘
میرے خیال سے اس سے بڑی سند کسی فنکارکو مشکل سے ہی حاصل ہوتی ہے۔ اس اعتبار سے شاطرؔ حکیمی خوش نصیب ہیں کہ اتنا بڑا اعزاز انھیں اس وقت ملا جب ان کی شاعری کی عمر نصف بھی نہیں ہوئی تھی۔ وہ محفل مشاعرہ ہو، شادی خانہ آبادی کی تقریب ہو یا کوئی سیاسی جلسہ، شاطرؔ حکیمی ہر محفل کی جان ہوتے تھے۔ بخشی غلام محمد جموں کشمیر کے وزیر اعظم تھے۔ آج بھی مسئلہ کشمیر ہندوپاک کے درمیان زیر بحث ہے۔ اس مسئلہ پر دونوں ملکوں کے درمیان جنگیں بھی ہوئیں۔ بخشی غلام محمد کامٹی تشریف لائے تھے اور یہیں گاندھی چوک پر ان کے اعزاز میں ایک جلسہ منعقد کیا گیا تھا۔ کثیر تعداد میں لوگ بخشی غلام محمد کی تقریر سننے آئے تھے شاطرؔ حکیمی نے ان کے استقبال میں ایک نظم پیش کی تھی جس میں مسئلہ کشمیر پر ہندوستان کے موقف کی حمایت کی گئی تھی۔ نظم چھ یا سات بند پر مشتمل تھی اور ہر بند کا آخری مصرع تھا’’جان کر دیں گے فدا کشمیردے سکتے نہیں ‘‘، شاطرؔصاحب تحت میں پڑھ رہے تھے اور جب اس مصرع پر آتے تو لوگ بھی ان کی آواز میں آواز ملا دیتے۔ ان کے پڑھنے کا انداز بھی بہت خوب تھا۔ بخشی غلام محمد نے اس جلسہ میں کیا کچھ کہا وہ تو لوگ جلد ہی بھول گئے مگر شاطرؔ حکیمی کی نظم کا مصرع ’’جان کر دیں گے فدا کشمیر دے سکتے نہیں ‘‘ آج بھی ان لوگوں کو یاد ہے جو اس جلسہ میں موجود تھے۔
شاطرؔ حکیمی مشاعروں میں بھی اپنا کلام سناتے تھے اور اپنا نقش چھوڑ جاتے۔ تقسیم ہند سے پہلے برہان پور کے ایک طرحی مشاعرے میں وہ مدعو تھے۔ طرحی مصرع تھا ’’زندگی کا مزہ گناہ میں ہے ‘‘ یہ مصرع جگرؔ مراد آبا دی کا ہے اور جگر ؔ مرادآباد ی خود اس مشاعرے میں شریک تھے۔ جگر ؔکے علاوہ ماہرؔالقادری، ادیبؔ مالیگانوی اور آزادؔ انصاری جیسے ماہرین فن بھی اس مشاعرے میں شریک تھے۔ جگر ؔجب اپنے اس شعر پر پہنچے تو دادو تحسین کی صداؤں سے مشاعرے کی چھت اڑنے لگی:
میں جہاں ہوں ترے خیال میں ہوں تو جہاں ہے مری نگاہ میں ہے
مشاعرہ ہوتا رہا لیکن اس شعر سے زیادہ کوئی شعر مقبول نہیں ہوا اور جب شاطرؔ حکیمی مائک پر آئے اور اپنے اس شعر پر پہونچے تو ایک بار پھر ’’واہ /واہ‘‘ کے شور سے مشاعرہ گونج اُٹھا:
تم نہ سمجھو تو کیا کرے کوئی دل کا ہر مدعا نگاہ میں ہے
ماہرؔ القادری سرِ مشاعرہ فرمانے لگے کہ بعض اوقات شخصیتیں کام کرتی ہیں۔ ان کی بلند آواز اور شہرت کے غلغلے کے آگے دوسری آواز دب کر رہ جاتی ہے۔ مثلاً سچ پوچھئے تو شاطرؔ حکیمی کا یہ شعر مشاعرے کی مقبولیت کا حامل ہے جسے میں کبھی فراموش نہیں کر سکتا۔
اسی دوران آکولہ میں شکیلؔبدایونی کی صدارت میں ایک طرحی مشاعرہ ترتیب دیا گیا۔ طرحی مصرع تھا ؂ ’’اک فرشتہ بھی انتظار میں ہے ‘‘ شکیلؔ بدایونی کے علاوہ صباؔ افغانی اور حسرتؔ جے پوری وغیرہ بھی اس مشاعرے میں شریک تھے۔ مشاعرہ پوری کیفیت کے ساتھ چل رہا تھا۔ دوسرے شعراء کے مقابلے میں شاطرؔ حکیمی کے اس شعر کو زیادہ پسند کیا گیا:
شبِ ہجراں گزار دی ہم نے روزِ محشر تو کس شما ر میں ہے ؟
شکیلؔ بدایونی نے جب اس مشاعرے کی روداد لکھی تو اس شعر کا خصوصی طور پر ذکر کیا۔
۲۴!نومبر ۱۹۷۴ء کو کامٹی میں شمع لائبریری کے ایک یادگار آل انڈیا مشاعرے میں جب شاطرؔ حکیمی اپنی نظم ’’سینۂ کائنات کا اضطراب و کرب‘‘ پڑھ کر رخصت ہوئے تو ناظمِ مشاعرہ ڈاکٹر ملک زادہ منظور نے نظم پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ آج کا نوجوان شاعر بیس سال بھی کوشش کرے تو شاطرؔ حکیمی کے اس مقام تک نہیں پہونچ سکتا۔
پیشے کے اعتبار سے شاطرؔ حکیمی مونسپل اردو پرائمری اسکول، کامٹی میں مدرس تھے۔ ان کی اہلیہ جو آج بھی حیات ہیں، بڑی صابر و شاکر اور وفا شعار ہیں۔ سات بچوں (دو بیٹیاں اور پانچ بیٹوں ) کی تعلیم و تربیت کا بوجھ تنہا شاطرؔ حکیمی کے کاندھوں پر تھا۔ گھر کا خرچ مشکل سے چلتا تھا۔ تنخواہ بھی وقت پر نہیں ملتی تھی۔ تین تین، چار چار ماہ انتظار کرنا پڑتا تھا۔ ظاہر ہے ادھار لیکر گھر کے اخراجات کو پورا کرنا پڑتا تھا۔ اس کے باوجود کوئی مہمان آجاتا تو خندہ پیشانی سے اس کا استقبال کرتے۔ ان کی بڑی بیٹی اپنی تعلیم مکمل کر کے معلّمہ بنی تو گھر میں آسودگی کے آثار نمایاں ہوئے۔ کچھ دنوں بعد دو بیٹیوں کو بھی ملازمت مل گئی تو مزید آسودگی حاصل ہوئی مگر تب تک شاطرؔ حکیمی اپنے درس و تدریس کے شعبے سے سبکدوش ہو چکے تھے۔
کامٹی میں ناگپور، جبل پور روڈ پر آزاد لائبریری کے سامنے ایک چھوٹی سی ہوٹل تھی جو ’’غفور ہوٹل‘‘ کے نام سے مشہور تھی۔ آس پاس اور بھی اس طرز کی ہو ٹلیں تھیں مگر اب وہاں ’’شہید سمارک‘‘ بن گیا ہے۔ آزاد لائبریری بھی اب نہیں رہی۔ ’’غفور ہوٹل‘‘ کی چائے بہت مشہور تھی۔ ہم لوگ شام میں وہیں ہوٹل کے عقبی حصّے میں کرسیاں لگا کر بیٹھ جاتے۔ میرے دوستوں میں ممتاز قادری، ماسٹر اسماعیل، نسیم مظہری وغیرہ بھی وہیں مل جاتے۔ فلم، کرکٹ اور شاعری ہماری گفتگو کے موضوعات ہوا کرتے۔ اکثر شاطرؔ حکیمی بھی ہمارے ساتھ شامل ہو جاتے۔ اگر حسنِ اتفاق مولوی سعید اعجازؔ کامٹی میں ہوتے تو وہ بھی ہمارے ساتھ بیٹھ جاتے مگر ان کے سامنے فلم کا موضوع غائب ہو جاتا۔ پاکستان کے نامور کرکٹ کھلاڑی حنیف محمد، شاطرؔ حکیمی کے رشتہ دارہیں۔ شاطرؔ حکیمی کبھی کبھی فلم بھی دیکھ لیا کرتے تھے۔ دلیپ کماراور وحیدہ رحمٰن کی اداکاری سے وہ بہت متاثر تھے۔ محبوب خان اور بی آر چوپڑہ ان کے پسندیدہ ڈائرکٹر تھے۔ فلم ’’نیا دور‘‘، ’’پیاسا‘‘، ’’مغلِ اعظم‘‘، ’’دھرم پتر‘‘ اور مشہور انگریزی فلم ’’دی ٹین کمانڈ منٹس‘‘ (The Ten Commandments) وغیرہ انہوں نے ہمارے ساتھ ہی دیکھی تھیں۔ ان کی شخصیت میں بڑی کشش تھی۔ ۶۰۔۶۵/سال کی عمر میں بھی تندرست و چست نظر آتے۔ اتنی عمر میں بھی تیز قدموں سے چلتے تھے۔ چہرے مہرے کے بھی خوب تھے۔ چھوٹی سی داڑھی تھی اور اس پر سفّتی بال، سفید کرتہ اور تنگ مہری کا پاجامہ ان کا پسندیدہ لباس تھا۔ کسی خاص مشاعرے میں جا نا ہو یا کسی خاص شخصیت سے ملاقات کرنا مقصود ہو تو شیروانی بھی زیب تن کر لیتے۔ شیروانی میں ان کی شخصیت مزید پر کشش نظر آتی۔ مجھے یاد ہے وہ عید کا ہفتہ تھا۔غا لباً ۱۹۶۱ء کا ذکر ہے۔ ان دنوں لبرٹی ٹاکیز (ناگپور) میں ’’دی ٹین کمانڈمنٹس‘‘ چل رہی تھی۔ ناگپور ہی میں محلّہ بھالدارپورہ میں ان کے ایک قریبی رشتہ دار رہتے تھے۔۔ وہ ان سے ملنا چاہتے تھے۔ میں ان کے ساتھ ہو لیا۔ وہ شیروانی پہنے ہوئے تھے۔ اپنے ر شتہ دار سے عید ملنے کے بعد ہم دونوں لبرٹی کی طرف کوچ کر گئے۔ جب ہمارا رکشا لبرٹی پہنچا تو ہم اتر گئے۔ میں رکشا والے کو پیسے دینے میں رہ گیا اور شاطرؔ حکیمی صاحب آگے بڑھ گئے۔ رکشا والا شاید شاطرؔ صاحب کی شخصیت اور اندازِ گفتگو سے مرعوب تھا۔ مجھ سے پوچھنے لگا۔ ’’یہ کہاں کے باشندے ہیں ؟،، میں نے مسکرا کے جواب دیا ’’یہیں کے ہیں ‘‘..... ’’میں سمجھا لکھنؤ سے آئے ہیں۔‘‘ رکشاوالے نے کہا اور آگے بڑھ گیا۔
اردو شاعری میں گروپ بندی کا رواج بہت پہلے سے ہے اور آج بھی ہے۔ شاطرؔ حکیمی کا شمار معتبر اساتذہ میں ہوتا ہے۔ ان کے بہت سے شاگرد ہیں جنھوں نے ان سے استفادہ کیا۔ مشاعروں میں اکثر دیکھا گیا ہے کہ اساتذہ اپنے شاگردوں ہی کے معیاری اور اچھے شعر کی داد دیا کرتے ہیں مگر شاطرؔ حکیمی کسی بھی اچھے اور معیاری شعر کی کھل کر داد دیتے تھے بھلے ہی وہ ان کا شاگر د نہ ہو۔ یہ ان کی ایسی خصوصیت تھی جس نے انھیں مزید مقبول و ممتاز بنایا۔
مارچ ۱۹۶۴ء میں ممتاز قادری کراچی چلا گیا۔ کچھ دنوں بعد میرا بھی کامٹی سے تبادلہ ہو گیا تو ’’غفور ہوٹل‘‘ کی بیٹھک ہی ختم ہو گئی۔ بہت دنوں بعد ممتاز قادری کا خط کراچی سے آیا۔ اس نے لکھا تھا ’’جب سے کراچی آیا ہوں نہ تو اچھا شعر پڑھنے میں آیا اور نہ ہی سننے میں۔ جی چاہتا ہے اڑکر کامٹی آجاؤں اور شاطرؔ حکیمی صاحب کے پاس بیٹھ کر اچھے شعر سنوں۔‘‘
غرض شاطرؔ حکیمی میں فنِ شاعری کے علاوہ اور بھی بہت سی خوبیاں تھیں۔ اگر وہ شاعری نہ بھی کرتے تو ایک اچھے انسان کی حیثیت سے معاشرے میں جانے جاتے۔ ان کے وصال سے اردو شاعری کو نقصان ہوا ہی ہے۔ ایک انسانیت نواز شخصیت سے بھی معاشرہ محروم ہو گیا ہے۔ اپنا مضمون انھیں کے اس شعر پر ختم کرنا چاہوں گا جس نے مجھے ان کے ساتھ گزارے ہوئے لمحات کی یاد دلائی اور ہمیشہ یاد دلاتے رہیں گے:
’’تو نہ ہوتا تو زندگی کیا تھی اے غمِ عشق تیری عمردراز‘‘

Post a Comment

0 Comments