اداریہ: میرے الفاظ
بچپن کی تلاش
✍️ریحان کوثر
انسانی زندگی پیدائش سے موت تک مختلف مشکلات، پریشانیوں اور چیلنجز سے گھری ہوئی ہوتی ہے۔ عمر میں اضافے کے ساتھ ساتھ ان میں بھی اضافہ ممکن ہے لیکن بچپن انسانی زندگی کا وہ سنہری دور ہے جس میں انسان کی ہمہ گیر ترقی ہوتی ہے۔ فرائیڈ کا خیال تھا کہ بچوں کی نشوونما پانچ سال کی عمر تک ہوتی ہے لیکن بچپن میں ترقی کی یہ مجموعی رفتار ایک بالغ فرد کی تشکیل کا باعث بنتی ہے۔ ترقی کی یہ رفتار موت تک جاری رہتی ہے لیکن بچپن میں سب سے تیز ہوتی ہے۔ اسی مرحلے میں بچوں کی شخصیت کی تشکیل بھی ہوتی ہے اور ان میں مختلف عادات واطوار، رویے، دلچسپی اور خواہشات پنپتی ہیں۔
بلیئر، جونز اور سمپسن کے مطابق،
”تعلیمی نقطہ نظر سے زندگی کے مختلف ادوار میں بچپن سے زیادہ کوئی اہم مرحلہ نہیں ہے۔ اس مرحلے کے دوران والدین اور اساتذہ کو بچوں کی بنیادی ضروریات، ان کے مسائل اور ان کے حالات و خیالات کے بارے میں مکمل علم ہونا چاہیے جو ان کے رویے میں تبدیلی اور انقلاب لاتے ہیں۔“
اسکولی تعلیم کے دوران ایک مرتبہ ہمارے ایک استاد نے فرمایا تھا کہ ”آج پانی ہے، کل نہیں رہے گا۔۔ پانی کی قدر جانو۔۔۔!! ورنہ وہ دن دور نہیں جب ہمیں مفت میں ملنے والی اس نعمت کو بھی روپے پیسے دے کر ہی خریدنا ہوگا۔ جیسے آج ہم پیٹرول خریدتے ہیں بالکل ویسے۔!!“ یہ بہت پرانی بات نہیں، استاد محترم کی باتیں سن ہم لوگ بے ساختہ ہنس پڑے تھے۔ لیکن آج ہمیں خود پر ہنسی آتی ہے کہ ہم کتنے نادان تھے!!
کچھ عرصہ بعد عید کے میلے میں پہلی مرتبہ جب پانی کے پاؤچ فروخت ہوتے دیکھا تو بڑی دلچسپی کے ساتھ ہم تمام دوستوں نے ایک ایک پاؤچ خریدا اور بڑے ہی اہتمام سے پینے لگے۔ میرے ایک عزیز نے کہا کہ
”یہ کیسا ناریل پانی ہے؟ کچھ سمجھ ہی نہیں آرہا کہ یہ ہے کیا؟ بالکل پانی جیسا معلوم ہو رہا ہے۔“
تب دوسرے دوست نے کہا کہ ”یہ ناریل پانی نہیں بیوقوف! صرف پانی ہے پانی!“یہ بات سن کر ہماری حیرت کی انتہا نہ رہی۔۔۔ ہم ٹکٹکی باندھے اپنے ہاتھ میں خالی پاؤچ کو دیکھتے رہ گئے۔
در حقیقت ہمارا آج کامعاشرتی اور سماجی نظام ایک عجیب قسم کے پاؤچ اور پیکیج سسٹم کی گرفت میں آتا جا رہا ہے۔ ہر چیز پاؤچ میں دستیاب ہے مانو! زندگی کی چھوٹی چھوٹی ضرورتیں، خواہشات اور تقاضے ٹکڑوں میں تقسیم ہو کر رہ گئے ہوں۔ لیکن میری فکر ونظر زندگی کی اس تقسیم پر ہے جو ہماری صلاحیت، ہماری قدروں کو بانٹ رہی ہے۔ آس پاس کے قدرتی وسائل، قدرتی مناظر اور روزمرہ کے نصب العین کو متاثر کر رہی ہے۔
وہ دن دور نہیں جب ہم اپنے نونہالوں کے لیے پالی تھین میں ریت، مختلف قسم کی مٹی، گھاس پھوس، خشک، زرد اور سبز پتے وغیرہ گھروں میں رکھ کر اپنے بچوں کو اس پر چلنے اس کے ساتھ کھیلنے اور ان چیزوں کے استعمال سے کپڑوں اور جسم کو گندا کروانے کی تاکید کریں گے۔ پھر انھیں تھوڑی دیر فلٹرڈ ایئر پیوری فائر کے سامنے بٹھا کر زور زور سے سانس لینے کے لیے کہیں گے۔ اس کے بعد انھیں مختلف قسم کے سافٹ ویئر کے ذریعے خوب ہنسنے اور کھلکھلانے کے مصنوعی ذرائع فراہم کریں گے۔ ایک موٹی فیس لے کر ہمارا آرکیٹیکٹ بانس، مٹی اور ریت کے ذریعے ہمارے مکانوں کی دیواریں کھڑی کرے گا۔ ان دیواروں پر گھانس پھونس کی چھتیں بنائی جائے گی۔ ٹائلس گرینائڈ اکھاڑ کر چکنی مٹی سے زمین تیار کی جائے گی۔ بچوں کو اس پر چلنے کھیلنے کے لیے حوصلہ افزائی کی جائے گی اور اگر انکار کریں تو کبھی کبھی ڈانٹ بھی پلائی جائے گی۔ ہم پڑوسیوں سے اس بات کا مقابلہ کرتے نظر آئیں گے کہ کس کا گھر زیادہ قدرتی اور پر سکون دکھائی دیتا ہے۔ ایک دن آئے گا جب ہم مٹی اور تام چینی کے برتنوں کے سیٹ کسی پیکیج کے طور پر اپنے گھروں کے لیے آن لائن خریدیں گے۔ جب ہر طرف سیمنٹ اور کانکریٹ کا جنگل اگ آئے گا تو ہم گاؤں اور دیہاتوں کے مصنوعی پیکیج کے لیے شاپنگ مال کے چکر کاٹتے نظر آئیں گے۔ بڑی بڑی ملٹی نیشنل کمپنیاں ہمارے بچوں کی گرمیوں کی چھٹیاں تک پلان کریں گی۔
آج بے انتہا ترقی کے باعث ہم نے نیند کی گولیاں تو ضرور بنا لیں لیکن اب تک چین و سکون کی گولیاں نہ بنا سکے۔ اسی طرح شاید دنیا اتنی ترقی کر جائے کہ ہم تعلیم کی گولیاں اور کیپسول بنا لیں لیکن میرا دعویٰ ہے کہ ہم تربیت کی گولیاں اور کیپسول ہرگز ہرگز نہیں بنا سکتے۔ ہم نے ہنسنے کی گیسیں تو بنا دیں لیکن خوشیوں کی گیسیں نہ بنا سکے نہ بنا سکتے ہیں۔۔۔
اس مصنوعاتی دنیا سے وابستگی نے ہمارے اندرون و بیرون وجود کو دنیائے تجسس میں اس قدر ملوث کر دیا ہے کہ ہماری یادیں اور احساسات، غور و فکر منجمد ہو کر رہ گئیں ہیں۔ صرف بچپن کی یادیں ہی اس پر خار کو گلشن بنا سکتی ہیں۔ جس میں خوش گوار بہاروں کا احساس ہوتا ہے۔
دوستو! یہ الفاظ ہند کا سواں شمارہ ہے۔ اس خصوصی شمارے میں منتخب مشاہیرِ ادب کے بچپن کو شامل کیا ہے۔ ہمیں اسے یادگار بنانا تھا اس لیے تمام قلم کاروں کے بچپن کے تجربات اور ان کی یادیں شاملِ اشاعت ہیں۔ ہم نے ایک کوشش کی ہے کہ ان قلم کاران کی بچپن کی تصاویر بھی یکجا کی جائے جس میں ہمیں اچھی خاصی کامیابی حاصل ہوئی۔ اسی طرح ہم نے شامل تخلیقات کو قلم کاروں کی تاریخ پیدائش کی مناسبت سے ترتیب دیا ہے۔ یہ شاید اپنی نوعیت کا پہلا شمارہ ہے جس میں مشاہیر ادب کے بچپن کے تعلق سے اس طرح کا تجربہ کیا گیا ہے۔ الفاظ ہند کے اس شمارے کو منفرد و ممتاز بنانے کے لیے موضوع کا انتخاب اور تصاویر کی اشاعت کی خوبصورت تجویز کے لیے ادارہ ہمارے سرپرست انور مرزا صاحب کا ممنون ہے اور اس موقع پر انھیں شکریہ پیش کیا جاتا ہے۔ آپ کو الفاظ ہند کا یہ شمارہ کیسا لگا ہمیں ای میل یا واٹس اپ کے ذریعے ضرور مطلع فرمائیں۔
فلپ کر کے شمارے کا مطالعہ کریں...
3 Comments
بہت خوب ریحان کوثر صاحب
ReplyDeleteموجودہ شمارہ اپنے آپ میں ایک تاریخ مرتب کردیا۔ اس خوبصورت کارنامے پر پوری ٹیم سمیت آپ کو بہت بہت مبارکباد پیش کرتے ہوئے خوشی ہورہی ہے۔
بہت بہت شکریہ محترم 🌹 نام بھی لکھ دیتے تو بہتر ہوتا ۔
Deleteاسلام عرض ہے
ReplyDeleteآج کے مصنفین کے بچپن کی یادوں کو " میرا بچپن" ایونٹ افسانہ نگار گروپ کے تحت جمع کر کے ایک خوبصورت رسالے کی شکل دے دی، عمدہ تزئین وترتیب اور بچپن کی تصاویر کل ملا کر تاریخ رقم کر دی۔۔۔ اردو ادب میں اس کی نظیر نہیں۔۔ ریحان کوثر صاحب اور مرزا انور صاحب کی محنت کا ثمر۔۔ شیریں دلوی