Ticker

6/recent/ticker-posts

افسانہ : تعریف۔ عہد بہ عہد ارتقاء | فردوس انجم شیخ آصف

افسانہ : تعریف۔ عہد بہ عہد ارتقاء
فردوس انجم شیخ آصف
ریسرچ اسکالر
سنت گاڑگے با با امراوتی یونیورسٹی، امراوتی



یوں تو قصّوں کہانیوں کی پیدائش وجودِ کائنات کے ساتھ ہی ہوئی ہے۔ لیکن جیسے جیسے انسانی تخلیق وجود میں آئی یہ قصّے کہانیاں اس کی زندگی کا اہم جز و بن گئی۔ انھوں نے انسان کو فرصت و سکون کے لمحات میسر کرآئے۔ اس کی تلخ و ناگوار زندگی کو خوشگوار بنا یا۔ لیکن بڑھتے ہوئے انسانی تقاضے اور زندگی کے مسائل نے قصّوں اور کہانیوں کی شکل و صورت میں بھی تبدیلیاں رونما کر کے اسے زندگی کا آئینہ بنا دیا۔حالانکہ افسانے کی بنیاد وقت گزارنے اور دل بہلانے کا ایک ذریعہ ہے۔ڈاکٹر صغیر افراہیم افسانہ کے متعلق لکھتے ہیں:
افسانہ زندگی کے تعلق سے اس کے تمام محرکات و عوامل، گونا گوں مشاغل، سانحی نشیب و فراز اور واقعاتی مدو جزر کو اپنے اندر سموئے ہوئے اس طرح ادبی پیکر میں ڈھلتا ہے کہ زندگی کے کسی ایک پہلو کو منعکس کر کے قاری کے ذہن پر ایک بھر پور تاثر چھوڑ جا تا ہے۔ افسانہ انسانی زندگی سے براہِ راست متعلق ہو نے کے سبب اسی کی طرح متحرک اور تغیر آمیز بھی ہے۔ انسانی زندگی میں جیسے جیسے تبدیلیاں آتی ہیں۔ اور جیسا اس کا مزاج بنتا ہے اسی پیکر میں افسانہ بھی ڈھلتا رہتا ہے۔۔۔۔ٌ
( ہندوستانی معاشرے کا آئینہ [ جیلانی بانو کا فکشن ]،ڈاکٹر ناصرہ سلطانہ، ص؍ ۱۳۰ )
مختصر افسانہ کی صنف اردو میں انگریزی کے اثرات کی دین ہے۔ اردو میں مختصر افسانہ سے پہلے داستانوں اور تمثیلی قصّوں کا رواج تھا۔ ناول کی ابتداء بھی ہو چکی تھی لیکن جیسے جیسے سماجی و معاشی حالات میں تبدیلیاں ہوئیں، اور زندگی کی کش مکش میں اضافہ ہوا نیز فرصت اور فراغت کم ہونے لگی تو مختصر افسانہ کو فروغ حاصل ہوا۔ مختصر افسانے کی کوئی جامع تعریف کرنا مشکل ہے، ا س کی ابتداء میں مغربی اور مشرقی مفکرین نے اس کی تعریف کی ہے کہ ایسی نثری کہانی جس میں کسی شخص کی زندگی کا کو ئی ایک اہم یا دلچسپ پہلو پیش کیا گیا ہو یا جس میں کوئی ایسا واقعہ بیان کیا گیا ہو،جس کی ابتداء ہو، ارتقاء ہو اور خاتمہ ہو۔ افسانے میں اختصار اور وحدت کا تاثر ہونا ضروری ہے۔ اس لیے افسانے کی یہ بھی تعریف کی گئی ہے کہ کوئی ایسا بیان جو اپنی جگہ مکمل ہو اور ایک ہی نشست میں پڑھا جا سکے۔ اس کے علاوہ انسائیکلو پیڈیا بر ٹا نیکا میں مختصر افسانہ کی اس طرح تعریف کی گئی ہے۔۔۔
مختصر افسانہ، افسانوی نثر کی ایک قسم ہے۔ جو عام طورپر ناول اور ناولٹ کے مقابلے میں زیادہ جامع اور پر اثر ہو تی ہے۔۔۔ٌ
اردو افسانہ کا آغازبیسویں صدی کے اوئل میں ہوا۔اور اتنی مختصر سی مدت میں تمام اصناف ِ نثری پر حاوی ہو گیا۔ پریم چندنے سب سے پہلے افسانے کو زندگی کی حقیقتوں سے روشناس کرایا۔ ان کا پہلا افسانہ دنیا کا سب سے انمول رتن ۱۹۰۵ میں رسالہ ’ زمانہ ‘ میں شائع ہوا۔ پریم چند نے متوسط طبقہ اور دیہاتوں کی معاشی و سماجی زندگی کی موثر تصویریں پیش کیں۔ انھوں نے افسانے کو قومی جذبات، ذہنی کش مکش اور دیہات کی معاشی و سماجی تبدیلیوں کا ترجمان بنا یا۔اس روایت کو آگے بڑھانے والوں میں سدرشن، علی عباس حسینی اور اعظم کرلوی کے نام آتے ہیں۔ ان کے افسانوں میں پریم چند کی واقعیت کا گہرا اثر ملتا ہے۔
ابتدائی دور کے افسانہ نگاروں میں سجّاد حیدر یلدرم، کا نام قابلِ تعریف ہے انھوں نے اردو افسانے کو رومانیت پسند ی سے آشنا کرایا۔ انھوں نے اپنے رومان پسند اسلوب سے قارعین کا ذہن مسحور کر لیا۔ ’ جہاں پھول کھلتے ہیں‘، ایک سے التجا میں چاہتا ہوں ‘، ویرانے صنم خانے ان کے کامیاب افسانے ہیں۔نیاز فتح پوری اور حجاب امتیاز علی کے افسانے میں بھی رومان پسندی کا رجحان نمایاں ہے۔ بعض افسانہ نگاروں نے طنز و مزاح کو اپنے افسانوں میں جگہ دی، اور اپنی ذہانت و تجربہ سے کام لیتے ہوئے اس پردے میں زندگی کی سنجیدہ حقیقتوں کو بے نقاب کیا۔ ان افسانہ نگاروں میں پطرس بخاری، عظیم بیگ چغتائی کے نام قابلِ ذکر ہیں۔ پطرس بخاری کے افسانوں میں مغربی رجحان شامل ہے، تو عظیم بیگ کی ظرافت کی بنیاد زندگی کے سیدھے سادے واقعات پر ہیں۔ ان کے افسانوں میں ظرافت کا عنصر غالب ہے۔افسانے کے یہ دونوں میلانات اصلاح پسندی اور رومانی و تخیلی تقریباً ۱۹۳۰ء تک متوازی راستوں پر گامزن رہے۔ ان فنکاروں نے اپنے ذوق اور مذاق کے مطابق افسانے کی روایت کو آگے بڑھایا۔ انسان کے دکھ درد، سماجی تعلقات، سیاسی کیفیت، معاشی کش مکش، رسم و رواج، دیہی معاشرت اور اقدار کی کش مکش، غرض افسانہ اپنے وقت کی ساری کیفیات و حالات کا ترجمان رہا۔
۱۹۳۰ء کے بعد اردو افسانے کو روسی، فر انسیسی،انگریزی اور جاپانی زبان کے افسانوں کے ترجمات سے بڑی وسعت ملی۔ ان تراجم سے افسانہ نگار دوسری زبانوں کی تکنیک سے متاثر ہوئے۔ اور انھیں موضوع کے انتخاب، پلاٹ کی تعمیر، ڈرامائی اختتام، تکنیک اور مقصدیت کی طرف متوجہ کیا۔ان اثرات کی واضح شکل انگارے ٌ کے طور پر سامنے آئی۔اس کے مصنّفین۔۔۔ سجاد ظہیر، احمد علی، رشید جہاںاور محمودالظفر نے زندگی کی حقیقت کو بڑی بیباکی سے پیش کیا اس میں بوسیدہ نظام، بیجان قدریں، سیاسی تحریکوں، بے رحم سماجی قوانین اور استحصال کے خلاف بغاوت کا اعلان ہے بقول وقار عظیم:
موضوع کے لحاظ سے اس سے پہلے اردو کے افسانوں میں اتنی صاف گوئی اور بیباکی کہیں نہیں ملتی۔ٌ
( اردو میں مختصر افسانہ نگاری کی تنقید، ڈاکٹر پروین اظہرؔ، ص ۳۶ )
غرض اردو مختصر افسانے کے محرکات اور افسانوی ادب کے رجحانات میں انگارے کی اشاعت بڑی اہمیت رکھتی ہے۔
پریم چند اور انگارے ٌ کے مصنفّین نے جس منزل تک افسانے کو پہچایاوہاں سے ترقی پسند تحریک، جو افسانے کی دنیا میں تیسرا انقلاب تھا جس کے ذریعے افسانے کو بڑی وسعت ملی۔ اس تحریک کا قیام ملک میں قومی بیداری اور سیاسی و معاشی حالات اور برطانوی حکومت کی سختیوں کے ردِعمل کے طور پر عمل میں آیا۔ یہ ہندوستان کی پہلی ادبی تحریک تھی جس نے بڑے پیمانے پر ادب کومتاثر کیا۔اس تحریک نے اردو افسانے میں غیر معمولی رفتار پیدا کردی۔ فنی تجربوں کے ساتھ ساتھ نئے نئے موضوعات سے بھی روشناس کرایا۔اس تحریک سے وابستہ افسانہ نگاروں نے اپنے مشاہدہ اور تجربات کی بنیاد پر نئے نئے موضوعات کا احاطہ کیا۔ ملکی غلامی، طبقاتی کش مکش، افلاس، سماجی انتشار، قومی اتحاد، امن، خواہش، متوسط طبقہ اور اس کے مسائل، انسانی قدریں، بیکاری، گھٹن، ایثار و قربانی کا جذبہ، فرقہ پرستی، سیاسی داؤ پیچ، ایسے کتنے ہی مو ضوعات پر افسانے لکھے۔ جس میں افسانہ نگاروں نے فن کی نزاکت کو بر قرار رکھتے ہوئے افسانے کو سماجی مسائل کا آئینہ دار اور انسان کی الجھنوں کا تر جمان بنا یا۔ اس تحریک کے زیر اثر لکھنے والوں میں کرشن چندر، راجندر سنگھ بیدی، احمد علی، عصمت چغتائی، سعادت حسن منٹو، احمد ندیم قاسمی، حیات اللہ انصاری، اختر اورینوی، خواجہ احمد عباس، ممتاز مفتی، شوکت صدیقی، اختر انصاری، حاجرہ مسرور، خدیجہ مستوراور بلونت سنگھ اہم ہیں۔
کرشن چندر کے افسانے رومان اور حقیقت نگاری کی آمیزش سے پر ہیں۔ حالانکہ ان کے لکھنے کے انداز میں ایک طرح کا جذباتی وفور اور شاعرانہ گداز ہے لیکن انھوں نے مواد کے لیے اس زندگی کو سامنے رکھا جوہر لمحہ نئے سانچوں میں ڈھل رہی تھی۔ ان کے موضوعات بھی بڑے حیرت خیز تھے۔ ترقی پسند تحریک کی دس سالہ مدت میں انھوں نے بالکونی، ان داتا، ٹوٹے ہوئے تارے ٌ، زندگی کے موڑ پر تین غنڈے ٌ، ہم وحشی ہیں جیسے افسانے لکھ کر افسانوی ادب کے نگار خانے میں بڑے حسین مرقعے یکجا کر دیئے۔راجندر سنگھ بیدی کو اردو کی صفِ اول کے افسانہ نگاروں میں شمار کیا جا تا ہے۔ انھوں نے دانہ و دام، اور گرہن کے افسانوں میں شعور کی رو کا مظاہرہ کیا۔ ان کی کہانیاں اپنے اندر فنی قدرت، ذہانت اور سماجی شعور رکھتی ہیں۔ حیات اللہ انصاری کے افسانوں کا بنیادی موضوع ہندوستان کی سماجی پستی اور معاشی بدحالی ہیں۔ آخری کوشش، ڈھائی سیر آٹا، سہارے کی تلاش، کمزور پودا، بھرے بازار وغیرہ ان کے فن کے نادر نمونے ہیں۔ ان افسانہ نگاروں میں سعادت حسن منٹو اپنے مخصوص طرزِ نگارش کی وجہ سے ہمیں اپنی طرف متوجہ کر لیتے ہیں۔ ان کے افسانوں میں عیش و عشرت میں سرمست نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں، طوائف کی زندگی کی تصویر کشی ملتی ہے، وہ اس قدر حقیقت نگاری سے کام لیتے ہیں کہ ان میں فحاشی و عریانی صاف نظر آتی ہیے۔ موذیل، ٹھنڈا گوشت، ٹوبہ ٹیک سنگھ، پھندے وغیرہ ان کے کامیاب افسانے ہیں۔ اسی طرح عصمت چغتائی اپنی بے باک اظہارِ خیال کی وجہ سے افسانوی ادب میں منفرد مقام رکھتی ہیں۔ کلیاں، چوٹیں، چھوئی موئی دوہاتھ ٌ وغیرہ ان کی کہانیوں کے عمدہ مجموعے ہیں۔اس کے علاوہ گرم کوٹ ( راجندرر سنگھ بیدی )، آنندی ( غلام عباس )، ہتک اور نیا قانون (سعادت حسن منٹو )، آخری کوشش (حیات اللہ انصاری)یہ ۱۹۳۶ء سے ۱۹۴۷ء کے درمیان تخلیق ہوئے۔ اس دوران افسانے نے جو ترقی کی اور جو فنی کمال حاصل کیا اس لحاظ سے اس دور کو بلا شبہ مختصر افسانے کا عہدِ زرّیں کہا جا سکتا ہے۔ مختصر یہ کہ ترقی پسند تحریک کی ابتداء سے مختصر افسانے کا سنہرا دور شروع ہوا۔ افسانے کے موضوعات میں وسعت اور تجربات نے اسے دلکشی عطا کی اور وہ معیار عنایت کیا جس کے سبب اردو افسانہ مغربی افسانوں کے ہم مرتبہ آ گیا۔
۱۹۴۷ء میں ملک آزاد ہوا۔ آزادی کے بعد افسانے میں نئے رجحانات پیدا ہوئے۔سیاسی مسائل، ہند و پاک میں فساد کی صورت میں نفرت، خون، قتل کا جو منظر ابھرا اس نے انسانی قدروں کی حقیقت کو مشکوک کر دیا۔ تقسیم ملک کے سبب جو مسائل عوام کے سامنے تھے ان کو افسانہ نگاروں نے افسانے کے کینوس پر بکھیر دیا۔ اس زمانے میں ہمیں افسانہ نگاروں کی دو نسلیں ملتی ہیں۔ ایک وہ نسل ہے جو آزادی کے پہلے پختگی حاصل کر چکی تھی اور ایک نسل وہ جو اپنی تخلیقات سے اس صنف کی روایت کو آگے بڑھانے میں لگے تھے۔ اس دور کے نمائندہ افسانہ نگاروں میں ابوالفضل صدیقی، انتظار حسین، قرۃالعین حیدر، ممتاز شیریں، شوکت صدیقی، شکیلہ اختر، حاجرہ مسرور، رام لعل، جیلانی بانو، اقبال متین، اقبال مجید، رتن سنگھ، انور عظیم، غیاث احمد گدی شامل ہیں۔ اس تحریک کے زمانہ میں افسانہ عروج پر پہنچا۔ زبان، مواد، تکنیک اور مقصد سب ہی پر اثرات پڑے اور ہمارا افسانہ دوسری زبانوں کے مقابل میں آیا۔ مگر ۱۹۵۵ء کے بعد اس تحریک کے اثرات آہستہ آہستہ ختم ہونے لگے اور ۶۰ ۱۹ء کے بعد اردو افسانے میں جو انداز ِ نظر اختیار کیا اسے جدیدیت کا نام دیا گیا۔ جدید افسانے میں خارجیت کو نکال کر باطنی دنیا کو پیش کیا گیا۔ یہاں بھی انسان کو ہی موضوع بنا یا گیا لیکن ساتھ ہی انسان کی ذات کے المیوں اور داخلی حقیقت نگاری پر زور دیا گیا۔ اس دور میں انسان کی معاشی بدحالی اور سماجی پس منظر سے زیادہ اس کی فکری، جذباتی نا آسودگی، باطنی دنیا کے نشیب و فراز، اور ذہنی انتشار کو اہمیت دی گئی۔اس لیے جدید افسانہ نگار بکھرے ہوئے انسان کے وجود کے نمونے پیش کر تا ہے۔ اس عہد کی افسانہ نگاری میں اسلوب کی سطح پر اہم تبدیلیاں ہوئیں۔ متعدد تجربات ہوئے، علامتی عمل کے
اسلوب نظر آئے۔ مگر علامتی اسلوب ۱۹۶۰ء کے بعد ہی مروج ہوا۔ نئی نئی علامتیں، علامتی کردار، استعارے، تمثیل، داستا ن گوئی، پیچیدہ پلاٹ، شعری زبان کا استعمال اور کلیدی جملے خاص طور سے قابلِ ذکر ہے۔ ان تجربات کے سلسلے میں جن افسانہ نگاروں کے نام آتے ہیں ان میں چند فن کار یہ ہیں۔۔۔ انتظار حسین، جوگیندر پال، بلراج منیرا، مسعود اشعر، انور سجاد اور رشید امجد کا مجموعی رجحان تجرید کی جانب ہے۔اس خصوصیت کے نمائندہ افسانوں میں انتظار حسین کا مجموعہ آخری آدمی، انور سجاد کے پتھر لہو اور کتا اقبال مجید کا پیٹ کا کیچوا وغیرہ اہم ہیں۔
جدید افسانہ سماج کے حصار سے نکل کر انسان کے گرد گھومتا رہا۔ مگر عصری افسانہ ان دونوں کے درمیان تخلیقی سطح پر توازن تلاش کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس نے افسانے کو ذات ِ انسانی سے نکال کر پھر سے اس کا رشتہ اپنے گرد و پیش اور ماحول سے قائم کیا ہے۔ غرض اب افسانے میں داخلی اور
خارجی دونوں سطحوں پر فن کار اور قاری
دونوں میں ہم آہنگی نظر آتی ہے۔ اس دور کے افسانہ نگاروں کا طرزِ اسلوب وضاحتی ہے۔ ان میں کہانی پن پھر سے ترقی یافتہ شکل میں نظر آتا ہے۔ یہاں بیان میں سادگی، بیانیہ اسلوب، علامت کے استعمال میں توازن، اسلوب میں ندرت، شدید داخلیت سے پرہیز، نئے تجربات ایک حدود تک، زندگی کے اثبات کا یقین، حقیقت کے بیان میں غیر جانبداریت، وغیرہ شامل ہیں۔ اس دور کے افسانہ نگاروں میں کلام حیدری، رشید امجد، احمد یوسف، سلام بن رزاق، قمر احسن، کے نام مخصوص ہے۔جنھوں نے عنابی کا نچ کا ٹکڑا (کلام حیدری)، شنا سائی ( رشید امجد )، نقش نا تمام ( احمد یوسف ) نے اہم افسانے لکھے۔ اس کے علاوہ شموئل احمد، انور خاں، شوکت حیات، احمد جاوید، آصف فرخی، رضوان احمد، علی امام، عبدالصمداور طارق چھتاری کے نام خاص ہیں۔ ان فن کاروں کے یہاں ذہنی رویے اور فنی اسلوب کے اعتبار سے ٌ انگارے کے افسانوں کی باز گشت سنائی دیتی ہے۔ اظہار و بیان اور تکنیک میں نئے تجربے پر زور دینا آٹھویں دھائی کے افسانے کا خاص عنصر ہے اور یہ پریم چند کی روایت سے بھی کچھ حد تک جڑے نظر آتے ہیں۔
آج بھی افسانے کا سفر جاری ہے۔ نیا افسانہ عہدِ حاضر کی زندگی کا ایک استعارہ بن گیا ہے۔ نئے نئے تجربے ہو رہے ہیں۔ علامتی افسانہ نگاری کے افسانوں نے قاری کو نئی روش سے آشنا کیا۔ ان افسانوں میں عدم تحفظ، تنہائی، بے بسی، ذات کی گمشدگی اور بھری دنیا میں تنہا ہو نے کے احساس جیسے موضوعات کو سمویا گیا ہے۔ یہ افسانے پرانے افسانوں سے بالکل مختلف ہیں۔ تجربے کے نام پر موجودہ افسانوی ادب میں فنی اعتبار سے کچھ ناقص افسانے ضرور شامل ہیں، جس میں افسانے کی کہانی پن، علامتوں کا الجھا ؤ وغیرہ ہے۔ لیکن بعض افسانہ نگاروں نے زندگی کی نئی معنویت کے اظہار میں فن کے سرے کو ہاتھ سے نہیں جا نے دیا۔ ان افسانہ نگاروں سے اردو افسانے کو بہت زیادہ امیدیں ہیں۔
٭٭٭

Post a Comment

0 Comments