ہاف ٹکٹ
محمد نجیب پاشا
کرونا وائرس کی وجہ سے بند کیا گیا اسکول آج تقریباً ۲۲ماہ کے بعد کھل گیا تو سارے بچے یونیفارم میں ملبوس ہنسی خوشی اسکول میں داخل ہوئے۔ تھوڑی دیر کے بعد پی ٹی کے ماسٹر صاحب آئۓ اور بچوں کو لائین میں کھڑے ہونے کی ہدایت کرنے لگے۔اس درمیان کچھ بچے ایک لڑکے کو چڑھا رہے تھے۔
ارے واہ! ہاف ٹکٹ تم نے تو آج نیا یونیفارم پہنا ہے۔ایک نے کہا۔
تم نے مجھے پھر ہاف ٹکٹ کہا، میں سر سے تمھاری شکایت کروں گا۔وہ لڑکا غصٔے سے بولا۔
اوۓ ہاف ٹکٹ زیادہ مت بول ورنہ اور چھوٹا بنا دوں گا۔پہلے والا لڑکا پھر ایک بار بول پڑا۔
ارے یار! یہ کیا شکایت کرے گا، سر کے سامنے تو اس کی آواز نکلتی نہیں، بڑا آیا ہے شکایت کرنے والا۔ دوسرا لڑکا ہنس کر بولا۔
پھر ایک لڑکے نے آگے بڑھ کر اس ناٹے سے قد کے لڑکے کی جیب سے قلم نکال کر اپنے ساتھی لڑکوں کو دیکھایا تو سب ہنس پڑے۔
راشد بھائی میرا قلم واپس کر دیں۔لڑکے نے نرمی سے کہا۔
واپس نہیں کروں گا، جاؤ جوکرنا ہے کر لو۔راشد مسکراتے ہوئے بولا۔
اپنا قلم واپس لینے کے لیے وہ آگے بڑھا تو سامنے والے لڑکے نے اس کے سر پر ایک چپت لگائی اور سب لڑکے ایک بار پھر ہنسنے لگے۔
اس سے پہلے کے کوئی لڑکا شرارت کرتا ہیڈ ماسٹر صاحب آگئے اور باقاعدہ طور پر"اسکول اسمبلی" کا آغاز ہوا۔ تھوڑی دیر کے بعد جب دعائیہ نظم ختم ہوئی تو ہیڈ ماسٹر صاحب نے سبھوں کو مخاطب کر کے کہا،
”بچوں۔۔۔! مجھے آج یہ اعلان کرتے ہوئے خوشی ہو رہی ہے کہ ہمارے اسکول کے ایک طالب علم جیسے آپ عمران کے نام سے جانتے ہیں، انھوں نے اس لاک ڈاؤن میں نہ صرف اپنے ضرورت مند پڑوسیوں کی مدد کی بلکہ میلوں پیدل چل کر اپنے اپنے گھروں کی طرف جانے والے مزدوروں، عورتوں اور چھوٹے چھوٹے بچوں کو اپنے جمع کیئے ہوئے پیسوں سے پانی کی بوتلیں اور بسکٹ کا انتظام کیا، اس کی اس ہمت اور حوصلے کو دیکھتے ہوئے اسکول کی انتظامیہ کمیٹی نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ اس سال اس طالب علم کی اسکول کی پوری فیس انتظامیہ کمیٹی برداشت کرے گی۔۔۔“
سر کے اتنا کہتے ہی پورا میدان تالیوں سے گونج اٹھا، عمران کے چہرے پر ایک عجیب قسم کی مسکراہٹ تھی کیونکہ تالیوں کی اس گونج میں ہاف ٹکٹ کو دھکے دینے والے ہاتھ بھی شامل تھے۔
٭٭٭
2 Comments
بہت خوب بہت عمدہ کہانی ہے ، مبارک باد، نجیب پاشا ایک معتبر نوجوان ادیب ہیں۔
ReplyDeleteواہ! واقعی بہت خوب۔
ReplyDelete