8️⃣
آسیب زدگی
افسانہ نِگار ✒️ خالد بشیر تلگامی
ایونٹ نمبر 26 🧑🏫 ٹیچر/معلّم
افسانہ نگار
واٹس ایپ گروپ کی پیشکش
افسانچہ نمبر 8
آسیب زدگی
افسانہ نِگار ✒️ خالد بشیر تلگامی
ایونٹ نمبر 26 🧑🏫 ٹیچر/معلّم
افسانہ نگار
واٹس ایپ گروپ کی پیشکش
افسانچہ نمبر 8
سرکار نے پورے شہر میں بچوں کا داخلہ سرکاری اسکولوں میں کرانے کی مہم کا آغاز کیا۔ سرکاری حکم نامے کے مطابق ،اس مہم کو کامیاب بنانے کے لیے ایک اسکول کے ہیڈ ماسٹر صاحب اپنے تدریسی عملے کے ہمراہ گھر گھر جاکر لوگوں سے ان کے بچوں کو سرکاری اسکولوں میں داخلہ لینے کی تلقین کررہے تھے ۔
مہم کے دوران ایک شخص نے ہیڈ ماسٹر صاحب سے دریافت کیا۔’’ ماسٹر جی، یہ گھر گھر جاکر بچوں کو سرکاری اسکولوں میں داخلے کی مہم کا کیا راز ہے؟‘‘
ہیڈ ماسٹر صاحب نے جواب دیا۔’’ سنیے جناب،سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ لوگ کس آسیب زدگی کا شکار ہو گیے ہیں کہ سرکاری اسکولوںمیں مفت تعلیم، یونیفارم، کتابیں، کھانا، پینا ملنے اور سب سے اہم بات یہ کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور قابل اور تجربہ کار اساتذہ ہونے کے باوجود بھی وہ اپنے بچوں کا داخلہ پرائیویٹ اسکولوں میں کیوں کرواتے ہیں۔ اسی لیے ہم نے اس مہم کا آغازکیا ہے۔‘‘
’’ماسٹر جی...مجھے بتائیں کہ جس مہم کا آغاز آپ لوگوں نے کیا ہے...کیا اس کا اطلاق سرکاری ملازموں نے خود پر کیا ہے؟ کیا اس آسیب زدگی کا شکار لوگوں سے قبل آپ تو نہیں؟‘‘
ہیڈ ماسٹر کو سانپ سونگھ گیا کیونکہ ان کا بیٹا سرکاری اسکول میں نہیں پڑھتا ہے۔
✍️✍️✍️
3 Comments
مختصر تبصرہ
ReplyDeleteآسیب زدگی۔خالد بشیر تلگامی
تاثرات۔قیوم اثر
خالد بشیر اکثر نۓ موضوعات پر افسانچے تحریر کرتے ہیں۔لیکن یہ موضوع قطعی نیا نہیں۔اس طرح کے افسانچے آتے رہے ہیں۔
مگر۔۔۔۔۔۔۔۔مجھے کہنا ہے،
اگر کوٸی شخص اپنے بچہ کو پراٸیویٹ اسکول میں داخل کرتا ہے تو اعتراض کیوں ؟وہ سرکاری اسکولوں سے ناراض بھی تو ہو سکتا ہے!اس کو اپنے بچہ کا مستقبل شاید الگ سے سنوارنا ہے۔
اس کی نظر میں معیار تعلیم کچھ اور بھی ہوسکتا ہے۔
جیسے زیر نظر افسانچہ میں ہیڈ ماسٹر!!
موضوع کے مطابق لکھے گۓ افسانچہ پر محترم خالد بشیر کو ڈھیروں مبارک باد۔
افسانچہ ایک رپورٹ لگ رہا ہے ۔ معذرت کے ساتھ
ReplyDeleteرخسانہ نازنین
اچھا افسانچہ ہے۔۔۔۔۔۔
مبارکباد 🌹
چراغ تلے اندھیرا ۔
سرکاری اسکول کے ٹیچر اپنے بچوں کو پرائیویٹ اسکول میں تعلیم کے لئے بھیجتے ہیں ، اپنے سرکاری اسکول میں نہیں ۔اس المیہ کو بیان کررہا ہے خالد بشیر صاحب کا افسانچہ ۔
شمیم جہانگیری
میرا خیال ہے آخری سطر نہیں ہو افسانچہ میں تو اور بھی بات معنی خیز ہوتی ہے۔۔اور قارئین کو سوچنے کا موقع دے گی۔۔۔۔۔آخری سطر میں وضاحت کرکے ہم spoon feeding کر دیتے ہیں۔۔۔وجہ بیان کی قطعی ضرورت نہیں۔۔ہمارے قارئین اب کافی بالغ ہو چکے ہیں
اقبال نیازی
اچھا افسانچہ ہے 🌹 خالد بشیر تلگامی صاحب کو مبارکباد
ریحان کوثر
سرکاری اسکولوں میں کام کرنے والے اکثر اساتذہ کے بچے انگریزی میڈیم پرائیویٹ اسکولوں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں۔۔۔۔ اسی لئے عام لوگوں کو ان اساتذہ پر طنز کرنے کا موقع مل جاتا ہے۔۔۔۔۔ سرکاری اسکولوں میں ہونے والے داخلوں میں کمی ہورہی ہے جس کی بہت ساری وجوہات ہیں۔۔۔۔۔ اسی موضوع پر لکھا گیا ایک اچھا افسانچہ 🌹
ڈاکٹر انیس رشید
بہترین افسانچہ اور اس سے بھی بہترین موضوع ۔ ایک اچھا پیغام ۔ خالد بشیر تلگامی صاحب کو مبارک باد ۔ مگر ایک تلخ حقیقت یہ ہے کہ سرکاری مدارس میں قابل اور محنتی اساتذہ آٹے میں نمک کے برابر ہیں اور میں یہ پوری ذمہ داری سے کہہ رہا ہوں ۔ ڈسٹرکٹ ایجوکیشنل کو آرڈینیٹر برائے اردو و دیگر اقلیتی زبانیں ہونے کے ناطے visits کے دوران سینکڑوں سرکاری مدارس کے ہزاروں اساتذہ کو دیکھ چکا ہوں ۔ سرکاری مدارس اور خصوصاً اردو سرکاری مدارس میں حالات انتہائی مایوس کن ہیں ۔ یہ ایک الگ موضوع ہے مگر افسانے میں موجود پیغام بھی قابل غور ہے ۔ خالد بشیر تلگامی صاحب کو ایک بار پھر ڈھیروں مبارک باد ۔
ReplyDeleteمحمد عرفان ثمین
سرکاری اسکولوں کا ڈر دراصل اس کی طرف راغب ہونے سے روکتا ہے۔
یہ ڈر کیا ہے۔۔۔
سب سے پہلے تو یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہاں تعلیمی معیار ناقص ہے۔جو کہ ایسا نہیں ہوتا۔
دوسری وجہ نظم و ضبط یعنی ڈسپلن کا ہوتا ہے۔
تیسری بڑی وجہ۔۔۔والدین کا اپنی ساکھ برقرار رکھنے کی ہوتی ہے۔لوگ کیا کہیں گے۔یہ خدشہ اُنھیں بے چین کئے رہتا ہے۔
جب کہ سرکاری اسکولوں میں بھی اعلیٰ معیاری تعلیم ، مخلص اور ٹرینڈ ٹیچر کی نگرانی میں دی جاتی ہے۔
صحیح ترجمانی کرتا افسانچہ۔
افسانچہ نگار کو مبارک باد
[03/08, 5:48 pm] Afsancha Negar Nissar Anjum: موجودہ تعلیمی منظر نامے کی اچھی نقاب کشائی۔
[03/08, 5:56 pm] +91 92263 14972: یہی ہر جگہ ہو رہا ہے ۔ نجانے کیوں ایک عار سی سمجھی جاتی ہے پراٸمری میں داخلے کی ۔
تصویر کا دوسرا رخ یہ بھی ہے کہ محنت لگن سے تدریس کرنے والے اساتذہ کا اب فقدان ہے ۔۔
عمدہ موضوع عمدہ خیال
عارفہ خالد شیخ
موضوع نیا نہیں ہے لیکن افسانچے میں حقیقت بیان کی گئی ہے۔
مبروک
علی محمد صدیقی
حقیقت ہے
مبروک
رونق جمال
اچھا افسانچہ عمدہ کلائمکس
مبارکباد خالد بشیر تلگامی صاحب
محمد رفیع الدین مجاہد
محترم خالد بشیر نے ایک افسوسناک حقیقت کو افسانچے میں پیش کیا ہے۔ سرکاری اسکولوں کے اساتذہ پر ہی یہ امر موقوف نہیں ہے۔ سرکاری تعلیم گاہوں سے جن افسران، وزرا اور عملہ کا تعلق ہے، ان کے بچے بھی نہیں پڑھتے۔
اس حیثیت سے جایزہ لیں تو یہ ایک اچھا افسانچہ کہے جانے کا مستحق ہے۔ لیکن مجھے اس کہانی کی بنت مناسب نہیں لگی۔ خالد صاحب اگر اس پر نظر ثانی فرما لیں تو اچھا ہے۔
تنویر اختر رومانی
حقیقت کے بالکل قریب افسانچہ... سرکاری اسکولوں کے ٹیچروں کو معلوم ہے کہ سرکاری اسکولوں میں درس و تدریس کا ماحول نہیں ہوتا، لہٰذا اپنے بچوں کو پرائیویٹ اسکولوں کی طرف لے جاتے ہیں. ہمارے صوبہ مغربی بنگال میں ایک سرکاری حکم نامے کے مطابق محکمہ ء تعلیم کو باور کرانا تھا کہ سرکاری ٹیچروں کے بچے کہاں پڑھتے ہیں. لہٰذا مذکورہ حکم نامہ ٹیچروں کے لئے پریشانی کا سبب ضرور بنا تھا. ویسے کوئی کاروائی اب تک نہیں کی گئی ہے....
ایک عمدہ افسانچہ کے لئے محترم خالد بشیر تلگامی صاحب کو داد و مبارکباد.
سید محمد نعمت اللہ
اچھا افسانچہ ہے.... خالد بشیر صاحب کو اس افسانچے کے لیے مبارکباد 🌹
سراج فاروقی
سرکاری اسکولوں میں تعلیم کی مفلوک الحالی کی ایک وجہ یہ بھی ہے یہاں ٹیچرز کے تقرر اکثر قابلیت سے زیادہ سفارش کے مرحون منت ہوتے ہیں ۔یہ انرر کی بات ہیڈ ماسٹر بھی جانتے ہیں اور خود ٹیچرز کو بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہاں ہمارے بچوں کو کس معیار کی تعلیم ملے گی ۔تو لامحالہ وہ اپنے بچوں کو ان اسکولوں میں کیوں بھیجیں گے ۔
خالد بشیر صاحب نے اس حقیقت کو عمدگی سے ظاہر کیا ہے ۔
مبروک
نعیمہ جعفری۔
96232 88787: بہت خوب افسانچہ
حقیقت سے قریب تر
ڈاکٹر فرخندہ ضمیر اجمیر: حقیقت سے قریب افسانچہ ۔
اقبال نیازی صاحب نے درست فرمایا ہے