Ticker

6/recent/ticker-posts

بچوں کے ادب میں درسی شعریات اور حسنین عاقبؔ ✍️ خواجہ کوثر حیات

بچوں کے ادب میں درسی شعریات اور حسنین عاقبؔ
✍️ خواجہ کوثر حیات
اورنگ آباد (دکن)
Email: khwaja.kauser@gmail.com


بچوں کے ادب کے موضوعات میں وسعت و تنوع وقت کا تقاضہ ہے۔آج کے بچے ذہین، متجسس، بے باک اور نئی جہتوں کو سمجھنے اور جاننے کے متلاشی ہیں۔اس لئے ادب اطفال تخلیق کرنے والے قلمکاروں کے لیے قدیم و جدید سائنسی معلومات، ایجادات، ماحولیات، ارضیات، فلکیات کو ادب میں شامل کرنا ضرورت بن گیا ہے۔ اور ادب اطفال کی اس ضرورت کو نہایت خلاقانہ انداز میں پورا کرنے کا کام کررہے ہیں معروف شاعرحسنین عاقب جو ادیب، محقق،تنقید نگار اور ماہر لسانیات و تدریسات ہیں۔وہ خود ایک معلم ہیں اور شاعر بھی ہیں اس لیے بچوں کے لیے لکھی گئی ان کی نظموں میں آپ کو ایک ماہر معلم اور فطری شاعر دکھائی دیتا ہے۔حسنین عاقبؔ موجودہ زمانے کے شاعر ہیں اس لیے انہوں نے بچوں کی شاعری تخلیق کرتے وقت نئے زمانے کے تقاضوں اور بچوں کے لیے نئے موضوعات کی ضرورت کو بالکل نظر انداز نہیں کیا۔ انہوں نے بچوں کے لیے نظمیں تخلیق کرتے وقت اس بات کا خصوصی خیال رکھا کہ جو درسی مواد بچے اپنی نصابی کتابوں میں پڑھتے ہیں، آسان اور سہل زبان میں نظموں کی شکل میں ہو، اس کی وضاحت اور تشریح نہایت دلچسپ انداز میں کی جائے۔ حسنین عاقب نے نئی ٹکنالوجی مثلاً کمپیوٹر اور موبائل کو اپنی شعری تخلیقات کا موضوع تو بنایا ہی ہے لیکن جغرافیہ کے مشکل تصورات مثلاً مدوجزر اور شہابِ ثاقب اور ماحولیات کا ایک برننگ ایشو یعنی اوزون وغیرہ پر نہایت پرتاثیر اور دلچسپ انداز میں روشنی ڈالی ہے۔
ان کی نظم ’شہاب ثاقب‘ جغرافیائی پس منظر میں بچوں کے لئے لکھی گئی ایک نہایت خوبصورت اور سلیس انداز میں ایک مشکل درسی نکتے کو پیش کرتی ہے۔ نظم کے کچھ اشعار ملاحظہ فرمائیں۔
کیا منظر ہے، کیا ہے نظارہ
جیسے جھلمل گو ٹ کنارا
یہاں آسمان، نظامِ شمسی، آسمان پر چمکتے تاروں اورکہکشاؤں کے لیے ’جھلمل گوٹ کنارا‘ جیسا ایک نہایت خوبصورت شعری استعارہ استعمال کرنا حسنین عاقبؔ کی بچوں کی نفسیات کی گہری سمجھ کو ظاہر کرتا ہے۔
بچپن میں ہم آسمان کو ستاروں بھرا جھلملاتا چھت سمجھ لیتے ہیں اور جب بھی ہم پچپن میں آسمان کی طرف دیکھتے تو چمکتے سورج کی گرمی سے بچنے کی کوشش کرتے اور رات ہونے پر ٹکٹکی باندھے چاند کو نہارتے رہتے بس یہی تعلق اور شناسائی تھی ہماری آسمان سے مگر حسنین عاقب نے آج کے بچوں کی جہت کو سمجھ کر نظم کے ذریعہ واضح کیا ہے کہ آسمان میں نظام شمسی کے علاوہ جو ذرات اور ٹکڑے سیاروں کے گرد گردش کرتے ہیں وہ شہاب ثاقب ہے۔نظم یوں آگے بڑھتی ہے۔
اٹھی نظر جو فلک کی جانب
نظر وہ آیا شہاب ثاقب
چلیے اس کا راز بتائیں
سائنس کی پرواز بتائیں
لگتے ہیں جو ہم کو تارے
اصل میں ہیں چٹانی ٹکڑے
ایسے شہابی اک پتھر کے
زمیں پہ آکر گر جانے سے
جھیل بنی لونار کی اپنی
دنیا بھر میں شہرت جس کی
اس نظم میں شاعر نے بچوں کے تجسس کو برقرار رکھتے ہوئے نظام شمسی میں شہاب ثاقب کے گرنے سے لیکر ان کی چٹانی صورت کو واضح کرتے ہوئے ان کے گرنے سے وقوع پذیر لونار جھیل کے بننے کو خوبصورت انداز میں پیش کیا ہے۔
شہاب ثاقب جب زمین پر گرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ یہ چٹانوں کے ٹکڑے ہوتے ہیں ساتھ ہی شہاب ثاقب گرنے سے ہمارے ملک میں مشہور لونار جھیل کے وقوع پذیر ہونے کو نظم میں پیش کرتے ہیں یہ غیر مرئی طور پر بچوں کے تحت الشعور میں جغرافیائی نکتہ نظر پیدا کرنے کا دلچسپ اور منفرد انداز ہے۔چونکہ حسنین عاقب بنیادی طور پر مدرس ہیں۔ درس وتدریس اور بچے ان کے لئے لازم و ملزوم ہیں۔اسی لئے وہ بچوں کی نفسیات، عادات و اطوار اور ان کی جبلت سے خوب واقف ہیں۔
عموماًبچے جغرافیہ مضمون کو انتہائی خشک مانتے ہیں۔مگر حسنین عاقب جو نہ صرف بچوں کے استاد ہیں بلکہ اساتذہ کی بھی عمدہ تربیت کرتے رہتے ہیں بھلا اپنے مضمون جغرافیہ کو کہاں خشک رہنے دیتے۔ آپ کی نظموں کا خاصہ ہے کہ معلومات کو دلچسپ انداز میں کھیل کھیل میں پیش کرتے ہیں تاکہ بچوں کے لئے عام فہم اور مرغوب بھی بن جائے اور ان کی معلومات میں خاطر خواہ اضافہ بھی ہو جائے۔
’اماں باجی کہتی ہے چاند میں پریاں رہتی ہیں‘
یا پھر
’چاند میں ایک بڑھیا بیٹھی چرخہ چلاتی ہیں‘۔
اس طرح کی نظمیں اگر نسل نو کے بچوں کو ہم سنا دیں تو وہ ہم سے اس کی دلیل مانگیں گے۔
آج انٹرنیٹ کی دنیا نے ساری حقیقتوں کو واضح اور قریب تر کر دیا ہے اسی لیے حسنین عاقب نے جغرافیہ کاایک اور اہم درسی نکتہ مدوجزر جیسے مشکل عنوان کو سمجھانے کا خوب طریقہ نکالا۔وہ اشعار کے قالب میں معلومات کا خزانہ انڈیل کر بچوں کے سامنے یوں پیش کرتے ہیں۔
نظم مدوجزر کے چند اشعار ؎
مدوجزر ہے مدوجزر ہے
چاند کا اس پر سیدھا اثر ہے
خوب کرشمہ قدرت کا ہے
یہ سر چشمہ حکمت کا ہے
دونوں اشعار میں شعری چاشنی بھی ہے اور تدریسی مہارت بھی۔ اگلا شعر کس قدر خوبصورت ہے، ذرا دیکھئے۔
مد کے معنی چڑھنے کے ہے
سطح سمندر بڑھنے کے ہے
شعر میں ایسی خوبی ہے کہ بہ آسانی یہ شعر بچوں کی زبان پر چڑھ جائے گا اور پھر اس ایک شعر میں ہی مد کی مکمل تشریح اور وضاحت بھی موجود ہے۔ یعنی ’مد‘ کے معنی اور اس کی وضاحت سمجھنے کے لیے کسی دوسرے شعر کی محتاجی محسوس نہیں ہوتی۔
چاند کی جانب آب سمندر
کھنچ جائے تو’مد‘ ہو ظاہر
سطح آب جو نیچے اترے
جزر ہم اس کو ہم ہیں کہتے
چاند زمین کی محوری گردش
سورج کی اور چاند کی کاوش
حسنین عاقب اس نظم کے ذریعہ بچوں کو واضح کرتے ہیں کہ چاند زمین کی سطح پر موجود پانی کو متاثر کرتا ہے اور سمندر کے مدو جزر چاند کی کشش کے باعث ہی پیدا ہوتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ وہ اپنی نظم میں وضاحت کرتے ہیں کہ مدّ و جَزَر سے مراد چاند و سورج کی ثقلی قوتوں اور زمین کی گردش کے مجموعی اثرات کی وجہ سے سمندری سطح کا اُتار چڑھاؤ ہے۔ اِسے عام زبان میں جوار بھاٹا بھی کہا جاتا ہے۔تاکہ سمندر میں پیدا ہونے والے جوار بھاٹا کو بچے کوئی ناگہانی کیفیت نہ سمجھیں۔ اسی طرح شاعر اس نظم میں سورج اور چاند کی محوری گردش کو خوبصورتی سے پیش کرتا ہے۔
نظم میں ’مد‘ کے معنی چڑھنے کے ہیں۔وغیرہ جیسے مصرعے اور دیگر اشعار ایسے ہیں جن میں آپ کو بین المتونییت یعنی intertextuality ملتی ہے۔سائنس یا جغرافیہ کی بات کرتے ہوئے وہ دفعتاً زبان کا مواد لے آتے ہیں اور غیر محسوس طریقے سے طلبہ کو مد اور جزر کے معنی سمجھادیتے ہیں۔
آج ہم ٹکنالوجی کے بغیر زندگی کاتصور بھی نہیں کر سکتے۔نئے دور کی ٹیکنالوجی سے آگاہی اور اپنے بچوں کو دیے گئے آلات سے واقفیت بھی بے حد ضروری ہے۔اس ضمن میں بھی شعراء اور ادیب بچوں کے لئے فائدہ مند نظمیں و مضامین تحریر کررہے ہیں جس کی مدد سے آنے والے تکنیکی دور کے لیے مستقبل کے معماروں کو تیار کیا جاسکتا ہے۔انگریزی زبان میں کافی عرصے سے ٹکنالوجی اور سائنس کے مضامین پر بچوں کے لیے شعری تخلیقات رقم کرتے آرہے ہیں۔ اردو میں یہ روایت اب بھی رواج میں نہیں آپائی ہے۔
گزشتہ صدی سے شعبہئ سائنس میں مسلسل حیران کن ترقی ہوتی جارہی ہے۔جس کی بدولت انسان کی زندگی آسان تر بن گئی ہے۔ وہیں ان ایجادات کا بے جا استعمال بنی نوع انسان کے لئے خطرناک ثابت ہورہا ہے۔ حسنین عاقب اپنی نظم اوزون میں بچوں کو واقف کرواتے ہیں کہ اوزون آکسیجن کی وہ شفاف تہہ ہے جو سورج کی خطرناک تابکار شعاعوں کو نہ صرف زمین کی طرف آنے سے روکتی ہے بلکہ زمین پر اس کے نقصان دہ اثرات کا خاتمہ بھی کرتی ہے۔ اوزون نظم کے کچھ اشعار پیش خدمت ہے ؎
بات پتے کی تمہیں سنائیں
کیا ہے یہ اوزون بتائیں
ہوائی کُرّے سے بس لگ کر
ایک پرت اوزون کی اوپر
مضر شعاعوں کو دھرتی ہے
سب کی حفاظت کرتی ہے
یہاں تک نظم کتنی آسانی اور فطری بے ساختگی کے ساتھ موضوع کو برتتی دکھائی دیتی ہے۔ خصوصی طور پر اس شعر کو دوبارہ دیکھئے۔
مضر شعاعوں کو دھرتی ہے
سب کی حفاظت کرتی ہے
اس شعر میں بھی زبان زدِ عام ہونے کی صلاحیت موجود ہے۔ نظم اوزون کے سائنسی اور تکنیکی پہلوؤں کو نہایت اچھے طریقے سے واضح کرتی ہے۔
حسنین عاقبؔ نے سائنس اور ٹکنالوجی کے ساتھ ساتھ درسیات اور نصابیات کے ایسے ایسے موضوعا ت پر بچوں کے لیے نظمیں تخلیق کی ہیں جن کی افادیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ انہوں نے انگریزی گرامر کے موضوع پر ملک کے پہلے کل ہند درسی مشاعرے میں اپنی نظم ’پارٹس آف اسپیچ‘ پیش کی جس میں نے انہیں قومی سطح پر اول انعام دلوایا۔ یہ ایک معلم ہی کرسکتا تھا۔ اس کے علاوہ انہوں نے کمپیوٹر، یومِ جمہوریت وغیرہ جیسے مختلف موضوعات پر بھی نہایت پر لطف اور مزیدار نظمیں کہی ہیں۔ اس مضمون میں حسنین عاقب کی تمام تردرسی اور نصابی نظموں کے جائزے کی گنجائش نہیں دکھائی دیتی اس لیے ہم اس موضوع پر پھر کبھی بات کریں گے۔
مقالے کے آخر میں یہی کہوں گی کہ ادب اطفال کو مضبوط و مستحکم بنانے کے لئے ادیبوں اور شعراء نے وقت کے تقاضوں کے ساتھ ساتھ بچوں کی ذہنی قوت اور نفسیات کے عین مطابق علم و فن اور سائنسی نکتہ نظر و حقائق پر مبنی جدتوں سے پر مواد کا اضافہ کرنا چاہیے اور ادب کی آبیاری کرنے والے ہر شخص کو اس کی ترویج اور استعمال کے لئے کوشاں ہونا ضروری ہے۔
…………………………

Post a Comment

1 Comments

  1. جناب ریحان کوثر صاحب کی مضمون کی اشاعت پر ممنونو مشکور ہوں۔

    ReplyDelete