میرا شہر، میرا مسئلہ اور میری ذمہ داریاں
(حصہ اول)
✍️ سہیل اختر
کامٹی ضلع ناگپور
آج ہم ہر مسائل کے متعلق بات کرتے ہیں۔ ہم بین الاقوامی مسائل ہو یا قومی مسائل ہر ایک کے متعلق سے باتیں کرتے ہیں۔ اس کے اوپر تبصرہ، بحث ومباحثہ کرتے ہیں۔ اس کوسوشل میڈیا یعنی فیس بک، واٹس ایپ اور دیگر ذرائعِ ابلاغ سے معلومات حاصل کرتے ہیں اور اس کو خوب پھیلاتے ہیں۔
میرے شہر کے حالات کیا ہیں ہمیں پتہ ہی نہیں۔۔۔!
- شہر میں پینے کا پانی کیسا ملتا ہے؟
- نالیوں کی صفائی ہوتی ہے یا نہیں؟
- میرےبچّے کے اسکول کا کیا حال ہے؟
- سرکاری ہسپتال میں علاج کیسا ہوتا ہے؟
- شہر میں کتّے اور بد جانوروں سےکتنی پریشانی ہے؟
- سڑکوں پر گڑھوں اور اسپیڈ بریکر سے مریضوں اور بوڑھوں کو کتنی پریشانی ہے؟
- سرکاری راشن کیسا ملتا ہے؟
- بچوں کوپیدل اسکول جانے میں کتنی پریشانی ہوتی ہے؟
- بوڑھوں، عورتوں اور بچّوں کو ہائی وے پار کرنے میں کتنی پریشانی ہوتی ہے؟
- شہرمیں شراب خانوں، سٹّے کے کاروبار اور گانجےکے کاروبارسے شہر کی صحت پر کیا اثر پڑتا ہے؟
- شہر کی سڑکوں پر ’اتی کرمن‘ سےکتنی پریشانی ہوتی ہے؟
- سڑکیں چھوٹی ہونے سے ایمبولینس اور فائر بریگیڈ کی گاڑیوں کو آنے جانے میں کتنی پریشانی ہوتی ہے؟
- زمین کے معاملے میں غنڈہ گردی سے کیا پریشانی ہوتی ہے؟
ہم ساری انسانیت کو نفع پہنچانے والے بن جائیں گیں۔ یہ سب کام کرنے کے لئے اکثریت اور اقلیت کا ہونا ضروری نہیں ہے۔ یہ کام انفرادی طور پر بھی کیا جاسکتا ہے۔ بہ شرط یہ کہ ہمارے اندر سسٹم سے لڑنے کا جذبہ ہو۔ یہ سب قربانی دینے کے بعد ہمارے اندر زمینی سطح کے رہنما پیدا ہوں گے۔ اور وہ قومی سطح کے مسائل اور بین الاقوامی سطح کے مسائل کو حل کریں گے۔ تب ہمارا ہر سطح کے مسائل پر تبصرہ کرنا اورسوشل میڈیا پر فارورڈ کرنا فائد ہ مند ثابت ہوگا۔
اگرہم نے ان مسائل کا حل اپنے طریقے سے نکال لیا مثلاً سرکاری پانی گندہ آرہا ہے تو ہم پانی کا فلٹر لگا لیں گے۔ نالیوں کی صفائی نگر پریشد نہیں کراتی ہے۔سرکاری اسکول میں ایسی ہی پڑھائی ہوتی ہے، میں غریب انسان کیا کر سکتا ہوں۔۔۔؟؟؟ سرکاری ہسپتال کے بجائے ہم پرائیویٹ ہسپتال میں علاج کروا لیں گے۔ کتّے اور بد جانوروں کو بھگانے کےلئے گھر میں ڈنڈا رکھ لیں گے۔ شراب کے کاروباری، سٹّہ چلانے والے اور گانجہ بیچنے والے کے خلاف کچھ نہیں بولیں گے کیونکہ وہ طاقت ور لوگ ہیں۔۔۔۔ یہ اس کی زمین کا مسئلہ ہے میری نہیں۔۔۔! مریضوں، بوڑھوں، عورتوں اور بچوں کو ٹرافک کی وجہ سے اتنی تکلیف تو ہوگی۔ اگر ہم نے ان سب باتوں کو نظر انداز کر دیا تو آئندہ نسل پر اس کے کیا اثرات پڑیں گے؟ ہمیں اس پر غور کرنا چاہئے۔ دنیا اصول ہے کہ جو اپنے آپ کو بدلنا نہیں چاہتا اس کو کوئی نہیں بدل سکتا۔۔۔! آخر میں نتیجہ یہ نکلے گا ہم اپنا بوجھ اتار کر سرکار کے گلے میں ڈال کر اپنے گھر چلے جائیں گیں کہ یہ سب ذمّہ داری سرکار کی ہے۔ ہماری نہیں؟
2 Comments
سوچنے پر مجبور کرنے والا مضمون ہے۔۔۔۔۔
ReplyDeleteعمل کرنے کے لئے ہمت وحوصلہ چاہیے
ReplyDelete