9️⃣
آٹو گراف
افسانہ نِگار ✒️خالد بشیر تلگامی
آٹو گراف
افسانہ نِگار ✒️خالد بشیر تلگامی
ایونٹ نمبر 27 🇮🇳 حُبّ الوطنی/دیش بھکتی
سیکنڈ راؤنڈ
افسانہ نگار
واٹس ایپ گروپ کی پیشکش
افسانچہ نمبر 9
سیکنڈ راؤنڈ
افسانہ نگار
واٹس ایپ گروپ کی پیشکش
افسانچہ نمبر 9
جولائی کا مہینہ تھا ۔گرمی اپنے شباب پر تھی۔لیکن اپنے پسندیدہ اسٹار کو دیکھنے کا جذبہ گرمی کی شدت پر حاوی تھا۔بالی وڈ کے ایک فلم اسٹار کی شہر میں آمد تھی۔اخبارات اور نیوذ چینلوں میں اس کے آنے کا خوب چرچا تھا ۔لہذا نہرو پارک میں تل دھرنے کی جگہ نہیں تھی۔میں بھی جیب میں آٹو گراف بک لیے وہاں فلم اسٹار کی آمد کا منتظر تھا۔مقرر وقت سے ایک گھنٹہ زاید ہو گیا تھا لیکن اسٹار کی آمد نہیں ہوئی تھی۔
پیاس کے مارے میرے حلق میں کانٹے پڑ گئے تھے۔پانی کی تلاش میں ادھر ادھر بھٹک رہا تھا۔لیکن پانی کہیں دستیاب نہیں تھا ۔پارک کے آس پاس تحفظ کے نقطہ نظر سے شہری انتظامیہ نے کوئی دکان لگنے ہی نہیں دی تھی۔اور پارک کے اندر کھانے پینے کا کوئی سامان لے جانے کی اجازت نہیں تھی۔
جب پیاس کی شدت میں مزید اضافہ ہوا تو میں پارک سے باہر نکلا۔باہر نکلتے ہی میری نگاہ ایک فوجی پر پڑی جو اپنی بوتل کا پانی پی رہا تھا۔یہ دیکھ کر میں اس کے پاس پہنچا اور غور سے اسے دیکھنے لگا۔اس سے پہلے کہ میں پانی طلب کرتا ،اس نے خود ہی پوچھ لیا۔"کیا پانی چاہیے؟"
مجھے اس کے سوال پر خوشی سے زیادہ حیرت ہوئی۔میں نے اثبات میں سر ہلایا۔فوجی نے بوتل میری طرف بڑھا دی۔میں نے شکریے کے ساتھ قبول کیا۔ سیراب ہو کر بوتل اسے لوٹا دی۔ایک بار پھر شکریہ ادا کرتے ہوئے میں نے پوچھا۔"آپ یہاں؟"
"جی۔۔۔آج یہاں کچھ فوجیوں کی ڈیوٹی لگائی گئی ہے۔"
چونکہ فلم اسٹار کی آمد کا کچھ پتا نہیں چل رہا تھا اس لیے وقت گزارنے کے لیے میں فوجی سے بات کرنے لگا۔"آپ کہاں سے ہیں؟"
"جی رانچی جھارکھنڈ سے۔"
"گھر جاتے ہیں؟...میرا مطلب ہے کب کب جاتے ہیں؟"
"سال میں ایک بار چھٹی ملتی ہے۔"
"بچے؟"
"ہاں ،تین بیٹاں ہیں۔"
"ان کی یاد آتی ہو گی؟"
"کیوں نہیں, بہت یاد آتی ہے۔۔۔۔لیکن دیش اور دیش واسیوں کی رکھوالی کرنا میرا پہلا فرض ہے۔"
یہ سن کر میری رگوں میں دیش بھگتی کا خون دوڑنے لگا۔فلم اسٹار گیا بھاڑ میں۔میں نے سوچا اور جیب سے اپنی ڈائری نکال کر اس کے روبرو کرتے ہوئے کہا۔"فرینڈ!۔۔۔۔آٹو گراف پلیز!"
✍️✍️✍️
10 Comments
اچھا افسانچہ ہے۔۔۔
ReplyDeleteاختتام بہت پسند آیا۔۔۔
خالد بشیر تلگامی صاحب
کو ڈھیروں مبارکباد 🌹🌹
پرویز انیس
کیا بات ہے خالد بشیر تلگامی صاحب 🌹
ReplyDeleteاس افسانچے کے لیے میں آپ کا *آٹو گراف* لینا چاہتا ہوں 🌹
دل کر رہا ہے بس ابھی تلگام پہنچ جاؤں۔
بہت بہت مبارک باد اور ایوینٹ میں شمولیت کے لیے نیک خواہشات 🌷
ریحان کوثر
بہت خوب! زبردست افسانچہ! بہت بہت مبارک باد 🌹
ReplyDeleteڈاکٹر انیس رشید
بہت خوب۔قابل تعریف ۔ افسانچہ پسند آیا ۔مبارک باد۔
ReplyDeleteمحمد نجیب پاشا
مختصراً۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ق۔ا
ReplyDeleteیہی کام کرنا ہے۔
سچے کے آٹوگراف ہی کام آٸیں گے۔ہواٶں کے رخ پر چلنے والی آگے نکلتے ہیں لیکن۔۔۔۔۔وقتی طور پر۔پیچھے نام نہیں چھوڑتے۔سچے وطن دار کے نام تاریخ کے اوراق پر سنہری حرفوں سے لکھے جاتے ہیں۔لکھے جاٸیں گے بھی۔
میں نے خالد بشیر صاحب کے بیشتر افسانچے پڑھے ہیں۔بہت ڈوب کر لکھتے ہیں۔
زیر نظر افسانچہ میں راوی کے اقدامات قابل ستاٸش ہیں۔
پرم ویر چکر بعد میں ملیں گے آج ہمیں چاہیے کہ سرحدوں کی حفاظت کرنے والوں کا احترام لازمی سمجھا جاۓ۔
اور۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انھیں ”ایسے“پروگراموں پر حفاظت کی خاطر کھڑا نہ کیا جاۓ۔یہ ان کی حیثیت کو زیب نہیں دیتا۔
عمدہ افسانچہ پر خالد صاحب کو ڈھیروں مبارک باد
شاندار افسانچہ
ReplyDeleteنقلی ہیرو پر اصلی ہیرو کی سبقت. راوی کے فیصلے نے افسانچےکو شاہکار بنا دیا ہے.
پنچ لائین زوردار ہے.
مبروک
رونق جمال
✍
ReplyDeleteواہ
بہت عمدہ خیال
خالد بشیر صاحب۔ کیا کہنے
فوجی احترام کے لائق ہیں۔ اصل ہیرو ہیں
آٹو گراف لے تو انھیں کا لے۔
جب بھی میرے علاقے میں ملٹری آتی ہے میرے ہی اسکول میں کیمپ کرتی ہے۔ آپ نے جس انسانیت کا ذکر اپنے افسانچے میں کیا ہے وہ میں نے قریب سے دیکھا ہے۔ یہ بہت دوستانہ رویّہ رکھتے ہیں۔ قیام کے دوران یہ اکثر اپنے کچن سے چکن، مٹن وغیرہ اسکول اسٹاف کے لئے بھیج دیا کرتے تھے۔ الیکشن ڈیوٹی میں بھی ان سےسابقہ رہا ہے۔ امن کی حالت میں یہ انتہائی شریف النفس معلوم ہوتے ہیں۔ آپ کا افسانچہ پڑھ کر مجھے افسوس ہو رہا ہے کہ میں نے کبھی ان کا آٹو گراف کیوں نہیں لیا۔
عمدہ زبان و بیان میں
یہ ایک عمدہ افسانچہ ہے
اور حب الوطنی کے جذبے سے سرشار ہے۔ فوجیوں کا احترام بھی حب الوطنی کے دائرے میں آتا ہے۔ افسانچہ کچھ طویل ہو گیا ہے لیکن یہ طوالت کھلتی نہیں ہے۔
ایک عمدہ افسانچے کے لئے
فاضل قلم کار کو داد و مبارک باد پیش ہے۔
🌷🌷
علی محمد صدیقی
واہ واہ
ReplyDeleteعمدہ افسانچے پر دلی مبارکباد👌💐💐💐
صد فیصد درست کہا ہے۔ فوجیوں کی حرف حرف سے انکی اعمال سے جذبۂ حب الوطنی ظاہر ہوتا ہے۔ مجھے اسکا تجربہ ہے۔
حسین قریشی
لوگ اکثر فلمی ہستیوں اور نامور افراد کا آٹو گراف لیتے ہیں ۔
ReplyDeleteلیکِن اُن بے نام فوجیوں کو کوئی یاد نہیں کرتا۔جن کے سبب ہم محفوظ ہیں۔
آج ہم اپنےفوجی بھائیوں کی سر پرستی میں بے خوف زِندگی گزار رہے ہیں۔ ہم جانتے ہیں ۔ ہماری سرحدوں پر وہ آنکھیں پہرہ دے رہی ہیں ۔جو وطن عزیز پر بری نظر ڈالنے والوں کی آنکھیں نکالنے کی طاقت رکھتی ہیں۔
یہی فوجی اپنوں سے دور رہ کر ، اپنے جذبات و احساسات کو پسِ پشت ڈال کر ہمت اور جواں مردی سے وطن اور وطن کے لوگوں کی بلا تفریق مذہب و ملت تحفظ فراہم کرتے ہیں۔
پھر کیوں نہ اُن کو وہ درجہ دیا جائے۔جس کے وہ حقدار ہیں۔
زیرِ نظر افسانچے میں راوی نے فوجی کا آٹو گراف لے کر اس کی عظمت کا اقرار کیا ہے۔
ایسے جیالے جانبازوں کو منظر عام پر لانے اور اُن کی قدر و منزلت کو سر ہا تے ہوئے افسانچے کے لئے افسانچہ نگار کو بہت مبارک باد
عارفہ خالد شیخ
بہت خوب۔
ReplyDeleteخالد صاحب کو اس خوبصورت افسانچہ پر بہت بہت مبارک باد۔
ابو ذر