
مکمل افسانہ پڑھتے کے لیے درج ذیل 👇 لنک پر کلک کریں
کمال ہے۔۔۔
اس افسانے کی تخلیقیت کمال ہے۔
فکر یہاں بھی ہے۔ ۔ ۔ بلکہ یہ فکر ہی کا افسانہ ہے لیکن یہ فکر اسلوب اور تکنیک میں اس طرح مدغم ہے کہ ہم فکر اور فن کو الگ نہیں کر سکتے۔ اس افسانے کو کلاس روم میں نہیں لے جایا جا سکتا۔ اگر کوئی لے جانے کی کوشش کرے گا تو افسانہ نگار فورا کہہ اٹھے گا :
" شعر مرا بہ مدرسہ کے برد ؟ "
وجہ اس کی یہ ہے کہ یہ مجموعی تاءثر کا افسانہ ہے اور اس کا کمال یہ ہے کہ افسانہ نگار abstract میں ۔ ۔ ۔ تجرید میں سوچ رہا ہے ۔ ۔ ۔ وہ اگر محض علامت تک محدود رہتا تو شاید یہ اتنی خاص بات نہ ہوتی لیکن علامت سے آگے بڑھ کر تجرید تک جانا ۔ ۔ ۔ یہ اس لیے مستحسن ہے کہ اول تو یہ وہ تجرید نہیں ہے جو ناقابل فہم یا تجرید برائے تجرید ہو ۔ ۔ ۔ بل کہ یہ تجرید برائے معنویت ہے لہٰذا احسن ہے۔ دوسری بات یہ کہ اس افسانے کی فکر میں ایسے متعدد پہلو ہیں جو ایک طرف قدرے دھندلی صورتِ حال کے زائیدہ ہیں تو دوسری طرف انھیں راست بیانیہ میں پیش کرنا , ان پہلوؤں کی محسوساتی اصلیت کو کھو دینے کے برابر ہے ۔ ان پہلوؤں کے اظہار کا یہی پیرایہ مناسب ترین تھا اور مجھے خوشی ہے کہ افسانہ نگار نے اپنی فکر کے عین مطابق اپنے اسلوب اور تکنیک کا موزوں ترین انتخاب کیا۔
ایک اور خوبی جو اس افسانے کو بہترین treatment کی حامل بناتی ہے وہ ہے المیے کو پر اسراریت کی اوپری سطح میں دبا دینا۔ سڑی ہوئی لاش کا ملنا اور اس کی تفتیش کا پورا منظر نامہ افسانے میں تجسس اور پر اسراریت کو پیش منظر میں رکھتا ہے لیکن پس منظر میں المیہ ہے ۔ ۔ ۔ شدید , درد انگیز اور دل خراش المیہ ۔ ۔ ۔ ایک قوم , ایک معاشرے اور ایک مذہب کے تشخص کی نسل کشی کا المیہ ۔ ۔ ۔ نسل کشی بجائے خود ایک المیہ ہے ۔ ۔ ۔ لیکن جس کی نسل کشی کی جا رہی ہے اس کی بے حسی اس سے بھی بڑا المیہ ہے ۔ ۔ ۔ اس کی لاش سڑ گئی ہے اور اس کی تفتیش خود وہ قوم نہیں بل کہ ایک غیر مذہب کا عملہ کر رہا ہے ۔ ۔ ۔ اس سے بڑی بے حسی اور کیا ہو سکتی ہے ؟ ۔ ۔ ۔ افسانہ نگار نے ٹریجڈی کو پر اسراریت میں چھپا کر المیے کو کم نہیں کیا ۔ ۔ ۔ بڑھا دیا ہے ۔
افسانے کی ایک اور خوبی اس میں مضمر وہ طنز ہے جو تجریدیت , پر اسراریت اور ٹریجڈی کی اس بہترین آمیزش کے باوجود نمایاں ہے۔ مجھے تو یہ کمال ہی نظر آتا ہے کہ تجریدیت اور طنز دونوں بیک وقت موجود ہوں۔ افسانے کا سب سے بڑا طنز تجرید ہی سے ابھرا ہے اور وہ تجرید ہے ٹرین کا وہ پورا واقعہ جس میں مقتول خود کو غیر مسلم بتاتا ہے ۔ ۔ ۔ لیکن رفتہ رفتہ مسلم ہونے کی اس کی پہچان ابھرنے لگتی ہے ۔ ۔ ۔ یہ ایک ایسا طنز ہے جو دل کاٹ کر رکھ دیتا ہے۔ اسی طرح کے اور بہت سے طنز افسانے کا حصہ ہیں۔ ایک مثال اور دیکھیے ۔ ۔ ۔ وہ چادر اٹھا کر دیکھتا ہے تو ٹانگیں نظر آتی ہیں ۔ ۔ ۔ ظاہر ہے کہ دوسری طرف سر ہونا چاہیے ۔ ۔ ۔ لیکن دونوں طرف ٹانگیں ۔ ۔ ۔ یہ طنز ہے اس قوم پر جو سر کا استعمال نہیں کرتی ۔ ۔ ۔ جو فرار سے ہی شغف رکھتی ہے ۔ ۔ ۔ مسائل سے بھاگتی ہے ۔ ۔ ۔ حقائق سے بھاگتی ہے ۔ ۔ ۔ بس بھاگتی رہتی ہے۔ ٹرین کے اسی منظر میں عالمی سطح پر مسلموں کے ساتھ ہونے والے مظالم کو بھی شامل کیا گیا ہے ۔ ۔ ۔ اور اس طرح موضوع اور مسئلے کو گلوبلائز کر دیا گیا ہے حالانکہ چینی مسلمین " اویغور " کا ذکر خصوصیت کے ساتھ ہے لیکن ٹرین کے شیشوں اور آئینوں میں ابھرنے والی تصاویر سے عمومیت ہی کا اظہار ہوتا ہے , تخصیص کا نہیں۔
۔ ۔ ۔ تو جناب فکر ہو گئی، اسلوب اور تکنیک ہو گئی، تجرید اور طنز ہو گیا ۔ ۔ ۔ اور کردار نگاری ۔ ۔ ؟ اسے کیسے بھلا دیں گے ۔ ۔ ۔ ؟ مرکزی کردار ہو، ڈرائیور ہو یا پھر امام صاحب ۔ ۔ ۔ سب اپنی تمام تر باریکیوں کے ساتھ اس طرح موجود ہیں جیسے یہ ہمارے ہی درمیان سے اٹھ کر افسانے میں پہنچ گئے ہوں ۔ کمال یہ کہ تجریدی افسانے میں بیانیہ کرداروں نے افسانے کو تجریدی اجنبیت اور ابہام سے بچا لیا ہے ۔
۔ ۔ ۔ ۔ افسانے کی کس کس خوبی کا ذکر کیا جائے ۔ ۔ ۔ ایسے افسانے بہت کم تخلیق ہوتے ہیں اور اس سے بھی کم پڑھے جاتے ہیں۔ ایوینٹ کے اب تک کے بہترین افسانے پر مصنف کی خدمت میں مبارک باد اور نیک خواہشات ۔
ایک تجویز البتہ ہے کہ افسانے کا آغاز انتہائی روایتی ہے ۔ ۔ ۔ اس آغاز سے قطعی اندازہ نہیں ہوتا کہ آگے کا افسانہ ایک الگ ہی نوعیت کا حامل ہے۔ تجویز یہ ہے کہ آغاز درمیان میں واقع کسی اور اقتباس سے کیا جائے اور موجودہ اولین اقتباس کو درمیان میں فلیش بیک کے ذریعے وابستہ کر دیا جائے۔
میں ایوینٹ کے مہتمم جناب اقبال حسن آزاد صاحب کو بھی مبارک باد پیش کرنا چاہتا ہوں کہ انھوں نے اس افسانے کا انتخاب کیا۔
٭٭٭
3 Comments
ReplyDeleteافسانے کی معنویت کی بھرپور تفہیم کرتا ہوا شاندار تبصرہ ـ ارشد صاحب وہ صاحب بصیرت ہیں جو درون تحریر مخفی گوشوں کو اجاگر کرنے میں علمیت اور مہارت رکھتے ہیں ـ یہ افسانہ مصنف کا حیرت انگیز اور قابل فخر کارنامہ ہے جس کی وجہ سے وہ اردو ادب کے بلند مقام پر فائز ہونے کے حقدار ہیں ـ
معزز قلم کار اورمحترم مبصر کو سلام و مبارکباد ـ
بہت بہت شکریہ
Deleteشکریہ
ReplyDelete