Ticker

6/recent/ticker-posts

ریحان کوثر کے افسانے ریختہ پر تبصرہ ✍️ مشتاق احمد نوری

افسانہ پڑھتے کے لیے درج ذیل 👇 لنک پر کلک کریں
افسانہ: ریختہ ✍️ ریحان کوثر

پیارے ریحان کوثر غضب کرتے ہو بھائی۔یہ تم نے کیا لکھ دیا کہ لوگ الجھتے جارہے ہیں۔تم نے تو چالاکی کی انتہا کردی بالکل سادہ بیانیہ کو پُرپیچ بنا دیا۔ساری کہانی بین السطور میں چھپا دی اب کریدتے رہیں قاری۔ ٹرین کی ایک بوگی میں 72 سیٹیں ہوتی ہیں تم نے بہت خوبصورتی سے اسے مسلمان کے 72 فرقوں میں بدل دیا۔مزے کی بات یہ رہی کہ ساری کھڑکیاں پردے سے ڈھکی ہیں مسافروں کا رخ کھڑی کی طرف ضرور ہے لیکن انہیں معلوم ہی نہیں کہ اس ڈبے کے باہر کا منظر کیا ہے۔تم نے یہ تو ثابت کردیا کہ یہ سارے فرقے کسی بھی حقیقت سے آشنا نہیں سب باطل جو ٹھرے۔سب سفید چادر اوڑھے پڑے ہیں یہ سفید چادر کفن کی علامت ہے اس پہ طرہ یہ کہ وہ اپنے سروں سے محروم ہیں۔سچ لکھا تم نے جب 72 فرقوں میں بٹے لوگ کچھ سوچنا ہی نہیں چاہتے تو پھر سر کی ضرورت کیا ہے ؟ دونوں طرف پیر کا ہونا ان کی گم رہی کی علامت ہے۔
جو جوان دوڑتا ہوا ٹرین میں سوار ہوتا ہے اسے دوسرے مسافر کے سلام کرنے پر اس لیے حیرت ہوتی ہے کہ وہ خود کو ہندو سمجھتا ہے۔یعنی اس کی سوچ سے مسلمانیت غائب ہوچکی ہے۔ تم بہت چالاک ہو دراصل یہ ہندو نما مسلمان مستقبل کے ہندوستانی مسلمان کی نمائندگی کررہا ہے ابھی جو صورت حال ہے کہ ٹھیک رمضان سے مسجدیں بند کردی جاتی ہیں مسجد میں نہ نماز اور نہ تراویح۔ امام بھی حاضر ہے اسے بھی کوئی مطلب نہیں انتہا یہ ہے جمعہ کی نماز پر بھی پابندی۔دو برسوں سے یہی حال ہے۔مسلمان مسجد نماز تراویح اور جمعہ سے دور کردئے گئے تو دوچار سال میں وہ بھول ہی جائیں گے کہ وہ مسلمان ہیں ہاں باتھ روم میں لاشعوری طور پر بیٹھ کر پیشاب کرنا بھی پریشان کردےگا پھر خود کا ختنہ شدہ ہونا اسے کنفیوز کردےگا کہ اتنی مسلمانیت کیسے بچ گئی۔
وہ ذہنی طور پر خود کو ہندو تصور کرتا ہے لیکن اسکے شناخت نامے میں مسلم خان لکھا ہے اسی لیے ہندو نام بتاکر ٹی ٹی کو مسلم شناخت نامہ دینے پر ٹی ٹی کہتا ہے کہ سرکاری ملازمین سے اس طرح کا مسخرہ پن ٹھیک نہیں کبھی بھاری پڑسکتا ہے۔ ہندوستانی مسلمانوں کا مستقبل کا نمائندہ ہے مسلم خان۔ واہ پیارے تمہاری اس دوراندیشی کی داد دینی ہی چاہئے۔
مختلف آئینوں میں دنیا بھر میں جہاں مسلمان بربریت کا شکار ہوئے ان سب کا ذکر تم نے کیا یہ صرف اس بندے کو دیکھائی دے رہا ہے جس میں ذہنی تو نہیں کچھ جسمانی شناخت مسلمان کی بچی ہے۔ اس کا 24 نمبر سیٹ پر بیٹھنا بھی استعارہ ہے دیوبندی 24 نمبر اور بریلویوں کو 96 نمبر کہا جاتا ہے۔لیکن آنے والا بندہ اسے وہاں سے اٹھا کر خود بیٹھ جاتا ہے۔
اسلام پور اترنا ہے لیکن اسٹیشن سنسان۔شناخت کا کوئی بورڈ نہیں۔شہر ویران۔ مسلمانوں کی شناخت ٹوپی اسلامی لباس اور داڑھی کے بال سب کچڑا دان میں پڑے ہیں۔ اس سے بڑی بے بسی کیا ہوگی۔ واہ پیارے واہ۔
بچیاں قومی ترانہ سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا گاتی ہیں پھر اس شعر کا داخلہ چین و عرب ہمارا ہندوستاں ہمارا مسلم ہیں ہم وطن ہیں سارا جہاں ہمارا
یہ شعر پورے جہاں کی مسلم آبادی کی طرف اشارہ کرتا ہے
چین کی طرف اشارہ کرکے تم نے اویغور کا ذکر کیا جہاں چین کے سکیانگ کے تربیتی مرکز میں ایسی تربیت کی جاتی ہے مسلمانوں کے اندر سے اسلامی روح نکال کر ترمیم شدہ قرأن کی روشنی میں انہیں ایسا مسلمان بنایا جارہا ہے جیسا حکومتیں چاہتی ہیں۔
امام صاحب کا ڈائری کو تاریخ جغرافیہ کہ کر اس کی اہمیت سے انکار پر پولیس اس ڈائری کو بھی ڈسٹ بین میں پھینک دیتی ہے چلئے یہ قصۂ پارینہ بھی تمام ہوا۔
لیکن یار وہ سڑی لاش تو رہ گئی جس کی تفتیش کرنے پولیس گئی تھی اور بتایا گیا کہ یہ لاش ایک بہت پرانے قلعہ نماں مکان میں پڑی ہے جس کے مکیں غائب ہیں۔یہ لاش دراصل اس واحد مسلمان کی ہے جس میں مکمل مسلمانیت زندہ تھی جسے کسی نے قتل کردیا کہ اب اس 72 فرقوں میں اس کی ضرورت بھی نہیں تھی۔واحد مسلمان راستے سے ہٹا دیا گیا کسی کو اس تفتیش کی ضرورت بھی نہیں کہ اسے کس نے مارا۔ثبوت میں ڈائری تھی جسے سنا دیا گیا اس کے ساتھ بے شمار آئینے کی کرچیاں تھیں جو اس حقیقت کی جانب اشارہ کرتی ہیں کہ آئینہ سامنے والوں کی شناخت ظاہر کرتا ہے اس لیے اسے کرچیوں میں بکھیر دیا گیا تاکہ کسی کی شناخت ہی نہ ہوسکے۔وہ ثبوت بھی ڈسٹ بین میں۔ اب قتل کیے گئے اصل مسلمان کی نہ فکر کرنی ہے نہ ہی تفتش کہ یہ سب قصۂ پارینہ ہے۔
مسئلہ اویغور مسلم کا بھی نہیں رہا کہ یہی آج کی حقیقت ہے۔مسلمان کا یہ نیا اور آنے والا ورژن ایسے مسلمان کا ہے جو مسلمان رہا ہی نہیں۔
چل بیٹا مرلی سکون کی بانسری بچا۔
ریحان واقعی تم نے ایک ایسی کہانی لکھ دی جس میں کوئی فنتاسی نہیں۔سب سامنے کی بات اور اتنے سرل انداز میں تم نے یہ سب خطرناک اشارے کردیے کہ میں بھی دنگ رہ گیا۔
اس بہترین تخلیق کے لیے میں تمہیں مبارک باد دیتا ہوں کہ تم نے ایک ہی جست میں فکشن کے کئی مرحلے طے کرلیئے۔

٭٭٭

Post a Comment

0 Comments