کسی بھی میدان میں تجربہ کرنا ایک مستحسن عمل ہے۔اس لیے کہ تجربہ تجربات کو نئی صورت دیتا ہے۔ محسوسات کو محاکات کے نئے پیکر میں پیش کر تا ہے۔
فکر و خیالات کو نئے سانچے میں ڈھالتا ہے۔ نئے آئیڈیاز کی تجسیم کی راہیں نکالتا ہے۔ کسی نئی شے سے دنیا کو روشناس کراتا ہے۔ نئے رنگ و آہنگ سے نئی تاب و توانائی بخشتا ہے۔ جمود کو توڑتا ہے۔اکتاہٹ کو دور کرتا ہے۔ انسان کی اس خواہش کی تکمیل کرتا ہے جو کچھ نیا دیکھنے، کچھ نیا سننے،کچھ نیا سونگھنے،کچھ نیاچکھنے اور کچھ نیا محسوس کرنے کے لیے سینے میں کلبلاتی رہتی ہے۔ نگاہ کی اس کیفیت کو دور کرتا ہے جو ایک ہی رنگ کو اور ایک ہی آہنگ کو بار بار دیکھنے سننے سے پیدا ہو جاتی ہے اور جس کی اکتاہٹ پتلیوں میں پیڑا بھر دیتی ہے۔ انسان کی اس نفسیات کی تکمیلیت کے سامان مہیّا کرتا ہے کہ انسان ہمیشہ کسی ایک مرکز و محور پر قائم نہیں رہ سکتا۔ جو ہر موڑ پر بدلاؤ چاہتا۔ اس کی جبلّت میں یہ شامل ہے کہ اس کی نہج تبدیل ہو۔وہ کسی بھی صورت میں ساکت نہ رہے،اس میں تبدل و تحرک ہوتا رہے۔
تجربہ زندگی کے دوسرے شعبوں کی طرح ادب کے شعبے میں بھی ہوتا رہا ہے۔ زندگی کے دوسرے میدانوں کی طرح ادب کی تجربہ گاہ میں بھی کبھی یہ کامیاب ہوا ہے اور کبھی ناکام ثابت ہوا ہے۔مثلاً اردو میں نظمِ معریٰ، آزاد نظم اور مختصر افسانے کا تجربہ پوری طرح کامیاب ہوا۔ ان کی کامیابی کا ثبوت یہ ہے کہ ان کے بہت سارے عمدہ نمونے ہمارے سامنے آ گئےاور وہ نمونے اس تجربے کے تخلیقی اور ہئیتی پیمانوں پر اتنے پورے اور کھرے اترے کہ ان کی پیروی شروع ہو گئی اور مزید تخلیقات اس ہئیت یا صنف میں آتی چلی گئیں اور ان میں سے بیشتر کامیاب اور عمدہ بھی ثابت ہوتی گئیں۔
اس کے بر عکس ہائیکو,ٹرائیلے،اور آزاد غزل کے تجربے اردو میں بری طرح فیل ہوگئے۔ ان کے نمونے ان کے موجدوں تک ہی سمٹ کر رہ گئے۔زیادہ سے زیادہ ان موجدوں کی تگ و دو اور ان کے ذاتی مراسم کے دباؤ میں کچھ لوگوں نے طبع آزمائی شروع بھی کی تو وہ چند تخلیقات سے آگے نہ بڑھ سکے۔
کچھ تجربے اردو میں ایسے بھی ہوئے جن کی تقلید بڑے پیمانے پر ہوئی ضرور اور کچھ نمونے بھی اچھے اور قابلِ توجہ آئے مگر ان کو بھی تمام گوشوں سے قبولیت کی سند نہ مل سکی۔نثری نظم اور افسانچہ یا منی کہانی کی صورتیں اسی زمرے میں آتی ہیں۔
اصل میں کسی تجربے کو کامیابی اس وقت ملتی ہے جب اس تجربے کی شکل و صورت پوری طرح واضح ہوتی ہے۔ اس کے خط و خال نمایاں ہوتے ہیں اور وہ اپنے قبیل کی دوسری صورتوں سے ممتاز وممیًز اور منفرد ہو جاتا ہے اور اس کی پیچان پوری طرح ممکن ہو جاتی ہے جیسا کہ افسانہ،ناول، اور داستان ایک ہی قبیل کی اصناف ہیں۔ تینوں کا بنیادی عنصر قصہ یا کہانی ہے۔ تینوں میں اجزائے ترکیبی بھی ہوتے ہیں اور بعض عناصر سب میں مشترک بھی ہیں، پھر بھی تینوں ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔تینوں کی شناخت الگ الگ ہے۔ تینوں کے رنگ و آہنگ جدا ہیں۔ اس لیے تینوں کی پہچان ممکن ہے۔ آسانی سے تینوں پہچان لی جاتی ہیں۔ قصّہ مختصر یہ کہ کہانی اور منی کہانی یا افسانچہ میں بھی فرق موجود ہے اور یہ فرق ضخامت کا ہی نہیں ہے بلکہ دونوں کے زبان وبیان میں کمال دکھانے کی گنجائش کا فرق بھی ہے اور کہانی کے مختلف اجزا کو قائم رکھنے اور نہ رکھنے کا امتیاز بھی۔ ایک میں تمام یا زیادہ سے زیادہ اجزا کے برتنے، ان کے اظہار اور ان کے کمالات دکھانے کے مواقعے میسّر ہوتے ہیں اور دوسرے میں ان کی گنجایش نہیں ہوتی ہے یا بہت کم ہوتی ہے۔
اب اگر ایسے میں منی کہانی اورافسانچے سے ملتی جلتی کسی صنف کا تجربہ ہوتا ہے جن کی ضخامت بھی کم و بیش برابر ہے۔ دونوں فکشن یعنی افسانوی جوہر پر based ہیں،اور دونوں میں کساو بھی ضروری ہے کہ جس سے ارتکاز اور ایجاز و اختصار ممکن ہے، دونوں میں زبردست تخلیقیت بھی درکار ہے، تو ایسے میں مائکرو فکشن کی ہییت یا ماہئیت کا تعین آسان نہیں۔ اس ضمن میں جتنی بھی تحریریں میرے سامنے سے گزری ہیں، ان میں دعوے زیادہ ہیں۔دلیلیں بہت کم ہیں اور جو ہیں وہ کمزوز ہیں یا اتنی مضبوط نہیں ہیں جو منطقی ذہنوں کو گرفت میں لے سکیں۔انھیں خود سے ہم آہنگ کر سکیں۔کوئی تحریر ایسی نہیں ہے جو ان دونوں مختصر افسانوی اصناف میں خطِ مستقیم کھینچتی ہو۔ بیشتر تحریریں نمونوں اور مثالوں سے خالی ہیں۔اور ان میں تجزیاتی بحث بھی بہت کم کی گئی ہے۔
جو لوگ اس صنف کی حمایت میں کھڑے ہیں اور اس کے فروغ کے خواہاں ہیں انھیں چاہئیے کہ پہلے اس صنف کی صورت گڑھیں۔اس کے خط و خال نمایاں کریں۔ اسے اس کی پیچان دیں۔اس کے نقوش اس طرح واضح کریں کہ اس کی شناخت ممکن ہو سکے۔ یہ افسانچہ،منی کہانی یا مختصر کہانی کے درمیان کھڑی ہو تو الگ نظر آئے۔ان سے مختلف دکھائی دے تاکہ نگاہیں اسے دیکھتے ہی پہچان جائیں اور زبان بول پڑے کہ یہ رہی مائکروف !۔ اس کی پیشانی پر ایک الگ قسم کا تیج ہے۔ اس کا جسم سب سے زیادہ سڈول سب سے زیادہ چست درست ہے۔ اس کے سراپے میں اوپر سے نیچے تک کساو ہے۔کہیں پر جھول نہیں، ڈھیلا پن نہیں۔ اس کا ہر انگ کمان سا کسا ہوا ہے۔تیر سا تنا ہوا ہے۔ حسن سے بھرا ہوا ہے۔ اور وہ حسن گداز، غمزۂ غمّاز اور سحر ساز ہے۔ اس میں ایسی کشش ہے کہ آنکھوں کو اپنے پاس ٹھہرا لے۔ اک آن میں اپنا بنا لے۔ اس میں فکشن تو ہے ہی، اس فکشن میں الوہی قسم کا نور بھی ہے۔تجربے کا ست بھی ہے۔زندگی کا سار بھی ہے۔ ایک ایسا سُر ہے جو س کے ایک ایک جملے کی تان سے نکلتا ہے۔ ایک ایک لفظ کی لے سے برآمد ہوتاہے۔ہر ایک لسانی ترکیب اور صوتی ترتیب کے تال سے پھوٹتا ہے اور اس طرح پھوٹتا ہے کہ ایک ایک بول پر رگ و پے میں کیف و سرور اور قلب و نظر میں نور بھر دیتا ہے اور بڑھنے والا صدائے سحر ساز اور معانیِ دل نواز سے مسحور ومسرور ہو جاتا ہے۔ لوگ جسے دیکھتے ہی پکار اٹھیں کہ یہ ہے مائکروف جس کی آنکھوں سے شعور و ادراک کی ایسی شعاعیں نکل رہی ہیں جو کسی اور کے دیدوں کو میسّر نہیں۔
یہ ہے فکشن کی نئی نویلی دلہن جو گھونگھٹ میں رہ کر بھی حسن و جمال کی پچکاری چھوڑ رہی ہے اور کیف و کمال کی بارش کر رہی ہے۔ جس کی پیشانی پر چاندنی چھٹکی ہوئی ہے۔ جس کے چتونوں کا تیور انوکھا ہے۔جس کے ابروؤں کے کٹار نرالے ہیں۔ جن کی کاٹ میں خنجروں سے بھی زیادہ تیزی ہے۔ جس کے دیدوں کی سفیدی میں ایسی شفافیت ہے کہ برّاق بھی دیکھے تو شرما جائے۔ جس کے لبوں کے بول میں ایسا رس گھلا ہے کہ جو سماعت میں سر تال بھر دے۔ رگ ریشے میں موسیقی گھول دے۔
جس کی ہئیت کہے کہ میں ہوں مائکروف! جس کا رنگ بتائے کہ میں ہوں فکشن کی مائکرو۔ جس کا نور دکھائے کہ ادھر ہے مائکروف۔ جس کا آہنگ چلّا چلّا کر بولے کہ لوگ جسے تلاش کر رہے ہیں وہ میں ہوں۔
ایسے تمام لوگ جو افسانوی ادب میں داخل ہوئے اس رجحان کی حمایت میں کھڑے ہیں اور بڑھ چڑھ کر اس کی طرف داری کر رہے ہیں ان سے میری مخلصانہ درخواست ہے کہ وہ اپنے اس تصور کو متشکل کریں۔ اس کی تجسیم کی سبیل نکالیں۔ اپنے خواب کی صورت دکھائیں۔ اس میں خوبصورتی ہوگی،نیاپن ہوگا، کشش ہوگی تو وہ خود بخود لوگوں کو اپنی طرف کھینچ لے گی۔وہ اپنے آپ توجہ کا مرکز بن جائے گی۔
یا جو پہلے سے ماڈل تیار ہیں ان میں سے کچھ جو زیادہ بہتر ہوں،لوگوں کے سامنے رکھے جائیں اور اگر ممکن ہو تواس نئے سانچے جس کو مائیکرو فکشن کہا جا رہا ہے یا مائکروف کا نام دیا جا رہا ہے،سے ملتے جلتے سانچوں مثلاً افسانچہ،منی کہانی,نثری نظم وغیرہ کے کچھ نمونے بھی برابر میں رکھ دیے جائیں تاکہ شکل و صورت کے تعین اور ساخت کی شناخت بنانے میں آسانی ہو جاے اور اس کی تقلید پھر ممکن ہو جائے۔
شاید کہ اتر جائے ترے دل میں مری بات
فکر و خیالات کو نئے سانچے میں ڈھالتا ہے۔ نئے آئیڈیاز کی تجسیم کی راہیں نکالتا ہے۔ کسی نئی شے سے دنیا کو روشناس کراتا ہے۔ نئے رنگ و آہنگ سے نئی تاب و توانائی بخشتا ہے۔ جمود کو توڑتا ہے۔اکتاہٹ کو دور کرتا ہے۔ انسان کی اس خواہش کی تکمیل کرتا ہے جو کچھ نیا دیکھنے، کچھ نیا سننے،کچھ نیا سونگھنے،کچھ نیاچکھنے اور کچھ نیا محسوس کرنے کے لیے سینے میں کلبلاتی رہتی ہے۔ نگاہ کی اس کیفیت کو دور کرتا ہے جو ایک ہی رنگ کو اور ایک ہی آہنگ کو بار بار دیکھنے سننے سے پیدا ہو جاتی ہے اور جس کی اکتاہٹ پتلیوں میں پیڑا بھر دیتی ہے۔ انسان کی اس نفسیات کی تکمیلیت کے سامان مہیّا کرتا ہے کہ انسان ہمیشہ کسی ایک مرکز و محور پر قائم نہیں رہ سکتا۔ جو ہر موڑ پر بدلاؤ چاہتا۔ اس کی جبلّت میں یہ شامل ہے کہ اس کی نہج تبدیل ہو۔وہ کسی بھی صورت میں ساکت نہ رہے،اس میں تبدل و تحرک ہوتا رہے۔
تجربہ زندگی کے دوسرے شعبوں کی طرح ادب کے شعبے میں بھی ہوتا رہا ہے۔ زندگی کے دوسرے میدانوں کی طرح ادب کی تجربہ گاہ میں بھی کبھی یہ کامیاب ہوا ہے اور کبھی ناکام ثابت ہوا ہے۔مثلاً اردو میں نظمِ معریٰ، آزاد نظم اور مختصر افسانے کا تجربہ پوری طرح کامیاب ہوا۔ ان کی کامیابی کا ثبوت یہ ہے کہ ان کے بہت سارے عمدہ نمونے ہمارے سامنے آ گئےاور وہ نمونے اس تجربے کے تخلیقی اور ہئیتی پیمانوں پر اتنے پورے اور کھرے اترے کہ ان کی پیروی شروع ہو گئی اور مزید تخلیقات اس ہئیت یا صنف میں آتی چلی گئیں اور ان میں سے بیشتر کامیاب اور عمدہ بھی ثابت ہوتی گئیں۔
اس کے بر عکس ہائیکو,ٹرائیلے،اور آزاد غزل کے تجربے اردو میں بری طرح فیل ہوگئے۔ ان کے نمونے ان کے موجدوں تک ہی سمٹ کر رہ گئے۔زیادہ سے زیادہ ان موجدوں کی تگ و دو اور ان کے ذاتی مراسم کے دباؤ میں کچھ لوگوں نے طبع آزمائی شروع بھی کی تو وہ چند تخلیقات سے آگے نہ بڑھ سکے۔
کچھ تجربے اردو میں ایسے بھی ہوئے جن کی تقلید بڑے پیمانے پر ہوئی ضرور اور کچھ نمونے بھی اچھے اور قابلِ توجہ آئے مگر ان کو بھی تمام گوشوں سے قبولیت کی سند نہ مل سکی۔نثری نظم اور افسانچہ یا منی کہانی کی صورتیں اسی زمرے میں آتی ہیں۔
اصل میں کسی تجربے کو کامیابی اس وقت ملتی ہے جب اس تجربے کی شکل و صورت پوری طرح واضح ہوتی ہے۔ اس کے خط و خال نمایاں ہوتے ہیں اور وہ اپنے قبیل کی دوسری صورتوں سے ممتاز وممیًز اور منفرد ہو جاتا ہے اور اس کی پیچان پوری طرح ممکن ہو جاتی ہے جیسا کہ افسانہ،ناول، اور داستان ایک ہی قبیل کی اصناف ہیں۔ تینوں کا بنیادی عنصر قصہ یا کہانی ہے۔ تینوں میں اجزائے ترکیبی بھی ہوتے ہیں اور بعض عناصر سب میں مشترک بھی ہیں، پھر بھی تینوں ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔تینوں کی شناخت الگ الگ ہے۔ تینوں کے رنگ و آہنگ جدا ہیں۔ اس لیے تینوں کی پہچان ممکن ہے۔ آسانی سے تینوں پہچان لی جاتی ہیں۔ قصّہ مختصر یہ کہ کہانی اور منی کہانی یا افسانچہ میں بھی فرق موجود ہے اور یہ فرق ضخامت کا ہی نہیں ہے بلکہ دونوں کے زبان وبیان میں کمال دکھانے کی گنجائش کا فرق بھی ہے اور کہانی کے مختلف اجزا کو قائم رکھنے اور نہ رکھنے کا امتیاز بھی۔ ایک میں تمام یا زیادہ سے زیادہ اجزا کے برتنے، ان کے اظہار اور ان کے کمالات دکھانے کے مواقعے میسّر ہوتے ہیں اور دوسرے میں ان کی گنجایش نہیں ہوتی ہے یا بہت کم ہوتی ہے۔
اب اگر ایسے میں منی کہانی اورافسانچے سے ملتی جلتی کسی صنف کا تجربہ ہوتا ہے جن کی ضخامت بھی کم و بیش برابر ہے۔ دونوں فکشن یعنی افسانوی جوہر پر based ہیں،اور دونوں میں کساو بھی ضروری ہے کہ جس سے ارتکاز اور ایجاز و اختصار ممکن ہے، دونوں میں زبردست تخلیقیت بھی درکار ہے، تو ایسے میں مائکرو فکشن کی ہییت یا ماہئیت کا تعین آسان نہیں۔ اس ضمن میں جتنی بھی تحریریں میرے سامنے سے گزری ہیں، ان میں دعوے زیادہ ہیں۔دلیلیں بہت کم ہیں اور جو ہیں وہ کمزوز ہیں یا اتنی مضبوط نہیں ہیں جو منطقی ذہنوں کو گرفت میں لے سکیں۔انھیں خود سے ہم آہنگ کر سکیں۔کوئی تحریر ایسی نہیں ہے جو ان دونوں مختصر افسانوی اصناف میں خطِ مستقیم کھینچتی ہو۔ بیشتر تحریریں نمونوں اور مثالوں سے خالی ہیں۔اور ان میں تجزیاتی بحث بھی بہت کم کی گئی ہے۔
جو لوگ اس صنف کی حمایت میں کھڑے ہیں اور اس کے فروغ کے خواہاں ہیں انھیں چاہئیے کہ پہلے اس صنف کی صورت گڑھیں۔اس کے خط و خال نمایاں کریں۔ اسے اس کی پیچان دیں۔اس کے نقوش اس طرح واضح کریں کہ اس کی شناخت ممکن ہو سکے۔ یہ افسانچہ،منی کہانی یا مختصر کہانی کے درمیان کھڑی ہو تو الگ نظر آئے۔ان سے مختلف دکھائی دے تاکہ نگاہیں اسے دیکھتے ہی پہچان جائیں اور زبان بول پڑے کہ یہ رہی مائکروف !۔ اس کی پیشانی پر ایک الگ قسم کا تیج ہے۔ اس کا جسم سب سے زیادہ سڈول سب سے زیادہ چست درست ہے۔ اس کے سراپے میں اوپر سے نیچے تک کساو ہے۔کہیں پر جھول نہیں، ڈھیلا پن نہیں۔ اس کا ہر انگ کمان سا کسا ہوا ہے۔تیر سا تنا ہوا ہے۔ حسن سے بھرا ہوا ہے۔ اور وہ حسن گداز، غمزۂ غمّاز اور سحر ساز ہے۔ اس میں ایسی کشش ہے کہ آنکھوں کو اپنے پاس ٹھہرا لے۔ اک آن میں اپنا بنا لے۔ اس میں فکشن تو ہے ہی، اس فکشن میں الوہی قسم کا نور بھی ہے۔تجربے کا ست بھی ہے۔زندگی کا سار بھی ہے۔ ایک ایسا سُر ہے جو س کے ایک ایک جملے کی تان سے نکلتا ہے۔ ایک ایک لفظ کی لے سے برآمد ہوتاہے۔ہر ایک لسانی ترکیب اور صوتی ترتیب کے تال سے پھوٹتا ہے اور اس طرح پھوٹتا ہے کہ ایک ایک بول پر رگ و پے میں کیف و سرور اور قلب و نظر میں نور بھر دیتا ہے اور بڑھنے والا صدائے سحر ساز اور معانیِ دل نواز سے مسحور ومسرور ہو جاتا ہے۔ لوگ جسے دیکھتے ہی پکار اٹھیں کہ یہ ہے مائکروف جس کی آنکھوں سے شعور و ادراک کی ایسی شعاعیں نکل رہی ہیں جو کسی اور کے دیدوں کو میسّر نہیں۔
یہ ہے فکشن کی نئی نویلی دلہن جو گھونگھٹ میں رہ کر بھی حسن و جمال کی پچکاری چھوڑ رہی ہے اور کیف و کمال کی بارش کر رہی ہے۔ جس کی پیشانی پر چاندنی چھٹکی ہوئی ہے۔ جس کے چتونوں کا تیور انوکھا ہے۔جس کے ابروؤں کے کٹار نرالے ہیں۔ جن کی کاٹ میں خنجروں سے بھی زیادہ تیزی ہے۔ جس کے دیدوں کی سفیدی میں ایسی شفافیت ہے کہ برّاق بھی دیکھے تو شرما جائے۔ جس کے لبوں کے بول میں ایسا رس گھلا ہے کہ جو سماعت میں سر تال بھر دے۔ رگ ریشے میں موسیقی گھول دے۔
جس کی ہئیت کہے کہ میں ہوں مائکروف! جس کا رنگ بتائے کہ میں ہوں فکشن کی مائکرو۔ جس کا نور دکھائے کہ ادھر ہے مائکروف۔ جس کا آہنگ چلّا چلّا کر بولے کہ لوگ جسے تلاش کر رہے ہیں وہ میں ہوں۔
ایسے تمام لوگ جو افسانوی ادب میں داخل ہوئے اس رجحان کی حمایت میں کھڑے ہیں اور بڑھ چڑھ کر اس کی طرف داری کر رہے ہیں ان سے میری مخلصانہ درخواست ہے کہ وہ اپنے اس تصور کو متشکل کریں۔ اس کی تجسیم کی سبیل نکالیں۔ اپنے خواب کی صورت دکھائیں۔ اس میں خوبصورتی ہوگی،نیاپن ہوگا، کشش ہوگی تو وہ خود بخود لوگوں کو اپنی طرف کھینچ لے گی۔وہ اپنے آپ توجہ کا مرکز بن جائے گی۔
یا جو پہلے سے ماڈل تیار ہیں ان میں سے کچھ جو زیادہ بہتر ہوں،لوگوں کے سامنے رکھے جائیں اور اگر ممکن ہو تواس نئے سانچے جس کو مائیکرو فکشن کہا جا رہا ہے یا مائکروف کا نام دیا جا رہا ہے،سے ملتے جلتے سانچوں مثلاً افسانچہ،منی کہانی,نثری نظم وغیرہ کے کچھ نمونے بھی برابر میں رکھ دیے جائیں تاکہ شکل و صورت کے تعین اور ساخت کی شناخت بنانے میں آسانی ہو جاے اور اس کی تقلید پھر ممکن ہو جائے۔
شاید کہ اتر جائے ترے دل میں مری بات
ضمیمہ
میں بہت ساری تحریروں کو پڑھنے کے بعد مائیکرو فکشن کے متعلق اپنے طور پر جو کچھ سمجھ سکا ہوں اس لحاظ سے اس کی تعریف اگر کرنا ضروری ہو تو یہ کی جا سکتی ہے :
مائیکرو فکشن سے مراد ایسی مربوط اور مختصر ترین افسانوی تحریر جو لطیف ترین بھی ہو۔
یعنی افسانوی رنگ و روغن سے سجا تخلیقی نثر کی وہ مختصر ترین نگارش جو نہایت چست درست ہو اور جس کے ایک ایک جملے میں زندگی کے کسی گہرے تجربے کی کوئی جھلک یا شعور و ادراک کی کوئی رمق،یا جذبہ و احساس کی کوئی دمک،یا زبان و بیان کی کوئی چمک ہو ,جس کی عبارت پھولوں کی لڑی کی مانند مربوط ہو اور ایک ایک پھول، اپنے رنگ، اپنی خوشبو اور اپنے نور کا جوت جگا رہا ہو اور جو بڑھتے وقت ذہن و دل میں کیف و انبساط بھر دے اور انجام پر قاری کو سوچنے پر مجبور کر دے۔۔ مائکرو فکشن ہے۔
( مگر یہ ' تعریف، اس وقت ٹھیک سے سمجھ میں آ سکے گی جب اس تعریف پر پوریےاترنے والے کچھ نمونے بھی موجود ہوں۔)
0 Comments