2️⃣
محرومی
افسانہ نِگار ✒️ نصرت شمسی
ایونٹ نمبر 54 💁🏻♀️💁🏻♂️ شریکِ حیات
کُل ہِند افسانہ نگار فورم
کی پیشکش
افسانچہ نمبر 2
تین دن ہو گیے تھے زوبی کو بچھڑے ہوۓ اور میں تین راتوں سے بالکل نہیں سو سکا تھا ۔اس کی وجہ میرے دل پر پڑنے والا غم نہیں تھا کیونکہ نیند ہر حال میں آہی جاتی ہے۔ زوبی کی کمی تو بہت محسوس ہو رہی تھی ۔پورا گھر بچوں کے شور غل کے باوجود خالی خالی لگ رہا تھا ۔ایک سناٹا تھا جو شاید مجھے ہی محسوس ہو رہا تھا یا شاید کسی اور کو بھی۔۔۔پتہ نہیں لیکن رات کو میں سو کیوں نہیں پا رہا تھا اس کی وجہ میری سمجھ میں نہیں آ رہی تھی ۔ایسا لگ رہا تھاکہ جیسے میں کس چیز کو مس کررہا ہوں کسی چیز کی کمی ہے جو نیند اور میرے دمیان حائل ہو گئی ہے مگر کیا؟آج چوتھی رات تھی اور نیند غائب تھی۔میں کروٹیں بدل بدل کر تھک گیا تو اٹھ بیٹھا۔ بتی جلائی اور چاروں طرف دیکھنے لگا گویا اس چیز کو تلاش کرنے لگا جو نیند نہ آنے کاسبب تھی۔اٹھا اور چلتا ہوا ڈرسنگ ٹیبل تک آیا اور اس اسٹول پر بیٹھ گیا جس پر بیٹھ کر زوبی سجا کرتی تھی۔ساری چیزیں ویسی ہی سجی ہوئی تھیں۔ میک اپ کے برش۔،کنگھے، لپ أسٹک مختلف قسم کی کریم، کلپ اور نہ جانے کیا کیا۔میں ایک ایک چیز کو اٹھا کر دیکھے لگا لیکن وہ سکون نہ ملا ۔میرا ہاتھ چیزوں پر سے رینگتا ہوا ڈریسنگ ٹیبل میں لگے چوڑی دان کی طرف بڑھا ۔میں نے اپنی انگلی سے انھیں چھوا تو ایک ساز کمرے میں گونج اٹھا اور یکا یک جسے مجھے سمجھ میں آگیا کہ مجھے کس چیز کی تلاش ہے۔زوبی کی کلائی میں پڑی کانچ کی یہ نازک چوڑیاں جن کی آواز کا میں اس قدر عادی ہو چکا تھا کہ کمرے کی تنہائی میں جب جب وہ ہاتھ ہلاتی تو ایک دلربا ساز جیسے میرے ذہن کو تازگی بخشتا۔رات بھر وہ جتنی بار کروٹیں بدلتی اس کی چوڑیاں میرے کانوں میں جلترنگ بجا دیتیں۔
اف۔۔۔ زوبی تمہاری کلائیوں کی ان چوڑیوں نے مجھے اپنا اسیر بنا لیا تھا ۔اس کا احساس آج ہوا ہے۔ میں نے چند چوڑیاں نکالیں اور اپنے بستر پر آگیا کی شاید ان کا لمس مجھے تمہارے ہونے کا احساس کر اسکے اور مجھے سکون مل سکے کاش۔۔۔
✍️✍️✍️
منتخب تبصرے
رخسانہ نازنین
شریک حیات سے محرومی کا کرب لفظ لفظ سے جھلکتا ہوا ۔ افسانے جیسا افسانچہ ۔ مبارک ہو
ڈاکٹر انیس رشید خان
شریک حیات کے چلے جانے کے بعد محرومی کے احساس کو پیش کرتا ہوا عمدہ افسانچہ! بہت بہت مبارک باد 🌹
شمیم جہانگیری
چوڑی نہیں میرا دل ہے
افسانچہ پڑھ کر یہ گانا یاد آگیا۔ منظر نگاری بہت شاندار ہے۔ چوڑیوں کی کھنک سے افسانچے کا پلاٹ تیار کرنا بہت عمدہ لگا۔ نصرت شمسی کو مبارک باد
ریحان کوثر
اس افسانچے کی سب سے بڑی خوبی ہے کہ راوی میل ہے جبکہ یہ عصر حاضر کی ایک معتبر و معروف خاتون قلم کار کا افسانچہ ہے۔ دوسری خوبی یہ ہے کہ قلم کار نے اس نفسیاتی دور کا بیان کیا ہے جس سے وہ کبھی نہیں گزری.... یہ ایک خوبصورت نفسیاتی افسانچہ ہے جس میں محض چوڑیوں اور اس کی کھنک سے محرومی کو عمدگی سے بیان کیا گیا ہے۔
میں نے اس سے قبل بھی کہیں پر کہا تھا کہ اکثر خواتین قلم کار کی تخلیقات اس طعنے کا شکار ہوتی ہیں کہ یہ تو خاتون مشرق، پاکیزہ آنچل یا روبی وغیرہ ٹائپ کے ہیں۔ اگر اس طرح کے الزامات سے بچنا ہے تو ایک سب سے سیدھا کام یہی کیا جانا چاہیے کہ راوی کا میل ورژن پیش کر دیا جائے۔ میں نے دیکھا ہے کہ اکثر و بیشتر نعیمہ آپا اور نصرت شمسی صاحبہ کے راوی میل ہوا کرتے ہیں۔ اس طرح کا ٹریٹمنٹ تخلیقات کو آفاقیت بخشتے ہیں...
نصرت شمسی صاحبہ کو مبارکباد اور ایونٹ میں شرکت کے لیے نیک خواہشات 🍁
ڈاکٹر فیروز عالم
دل و جاں سے قریب کسی شخص خصوصاً بہت پیار کرنے والی بیوی کو کھو دینے کے بعد کی کرب انگیز کیفیت کی بے حد موثر عکاسی۔ اس شخص سے وابستہ ایک ایک شے سے والہانہ لگاو اور ان سے متعلق یادوں کو بہت خوب صورتی سے اس افسانچے میں پیش کیا گیا ہے۔ افسانچہ نگار کو مبارک باد
شیریں دلوی
تنہائی میں محرومی کے احساس کو بڑی خوبصورتی سے پیش کیا گیا ہے، چوڑیوں کی کھنک دل کی کسک بن گئی۔۔۔۔بہت اچھا افسانچہ۔
فردوس انجم
ہم نے کہی پڑھا تھا کہ۔۔۔
"محبت اپنی گہرائیوں سے ہمیشہ بےخبر اور ناآشنا رہتی ہے جب تک کہ جدائی کے لمحے اُسے بیدار نہیں کرتے..."
اسی بیداری کو ظاہر کرتا ہوا بہترین افسانچہ۔۔۔
محرومی کی کسک کو نہایت خوبصورتی سے پیش کیا گیا۔۔۔
محمد سراج عطیم
صنف نازک کے سولہ سنگھار میں چوڑیوں کی ایک خاص اہمیت ہے۔ چوڑیوں کی اپنی ایک زبان ہوتی ہے۔ چوڑی جو باعث ہے عورت کی عصمت کی، جو راز دار ہوتی ہے کئی مدہوش راتوں کی، چوڑی جو کلائ میں پڑنے کے بعد محافظ بن جاتی ہے، چوڑی جو زندگی کی امین ہوتی ہے سرتاج کی۔ ہائے کہیں گذند نہ پہنچے میری چوڑی کو ﷲ نہ کرے وہ باہر ہیں کہیں کوئی انہونی ہوجائے۔ اے نوچ میرے منہ میں خاک۔ چوڑی کسک ہے حجر کی چوڑی مسرتوں خوشیوں کی کھنکھناہٹ ہے محبوب سے شب وصال کی۔ چوڑی علامت سرتاج سے سرگوشیوں کی۔
نصرت شمسی نے چوڑی کو استعارہ بناکر شریک حیات کی اہمیت کو ایسے حریر و اطلس میں پیش کیا ہے کہ اس کی گرہیں کھلتے ہی قاری دل تھام کر بیٹھ جاتا ہے۔ کچھ نہ کہہ کر بھی پورا کرب تو بیان کردیا۔ اب صرف سرخ چوڑیوں سے رستا ہوا رقیق ہے جو وصال شب رگ و پئے میں اتر گیا تھا۔ آج محرومی اس کی زبان ہے۔
نصرت شمسی کا نازک حساس لمحات کا ترجمان بہت خوبصورت اور دلپذیر افسانچہ۔ بنت میں تھوڑا ساکساؤ اور ضروری تھا۔ تین دن کا عرصہ غیر منطقی ہے۔ کیوں کہ اس عرصہ میں بچوں کا شور غل غیر یقینی اور حقیقت سے پرے ہے۔ بہرکیف خوبصورت اور حساس افسانچہ کے لئے نصرت کو بہت بہت مبارک باد۔
0 Comments