Ticker

6/recent/ticker-posts

قربانی کا بکرا ✍️انصار احمد معروفی

قربانی کا بکرا
✍️انصار احمد معروفی
عیدالاضحیٰ کی گہما گہمی اور اس کا اہتمام ایک مہینہ پہلے سے ہی شروع ہوگیا تھا، محلہ کے اکثر کھاتے پیتے گھرانوں میں عیدالاضحیٰ کی تیاری جاری ہوگئی تھی، بہت سے مالدار اور خوشحال گھروں میں اب قربانی کے بکرے آنے لگے تھے، بچوں کی خوشیاں دیکھنے کے لائق تھیں ، نوری گاؤں اگرچہ شہر سے دور بسا ہوا تھا ، مگر اکثر لوگ تعلیم یافتہ اور مہذب تھے ، گاؤں کے آس پاس کھلے ہوئے کھیت تھے، جس میں لوگ کاشتکاری کرتے تھے اور صبح وشام بچے ضروریات سے فارغ ہو کر جب باہر میدان میں کھیلنے کے واسطے نکلتے تھے تو خوشی میں قربانی کے بکروں کو بھی اپنے ساتھ چرانے کے لیے لے جاتے تھے۔ ان کے گھر والے محبت میں ان بکروں کو مہندی لگاکر خوشنما بنانے اور پہچان کے واسطے نمایاں کرنے کی ترکیب اپناتے ۔ دس سالہ نوید بھی معمول کے مطابق اپنے ساتھیوں کے ساتھ میدان میں کھیلنے کے لیے نکلتا تھا ، اور انھی کے ساتھ واپس آتا تھا ، اس کے ابو کوئی غریب تو نہیں تھے ، اسی لیے ہر سال قربانی بھی کرلیتے تھے، مگر ان کے کئی لڑکے اور لڑکیاں تھیں ، جن کے کھانے پینے اور دوا علاج کے ساتھ تعلیم کا ماہانہ خرچ کچھ اتنا زیادہ تھا کہ وہ کوئی موٹا تازہ بکرا لینے کی پوزیشن میں نہیں تھے ، کسی نہ کسی طرح نوید کی ماں روزانہ کے خرچ سے تھوڑے بہت پیسے بچاکر الگ کرتی رہتی تو کسی بڑے جانور میں ایک حصہ مل جاتا اور قربانی ہوجاتی ۔ جس سے وہ لوگ منہ دکھانے کے قابل ہوجایا کرتے تھے ، مگر ہمیشہ کی طرح اس بار بھی نوید بکرے کی خریداری کے لیے تقاضا کرتے ہوئے اپنی ماں سے لپٹ کر کہنے لگا ، امی امی، آپ نے پچھلے سال کہا تھا کہ آئندہ سال تمہارے ابو قربانی کا بکرا خریدیں گے اور تمہاری تمنا پوری کردیں گے، پھر تم شوق سے دوسرے لڑکوں کی طرح اسے میدان میں گھمانے اور چرانے لے جاؤگے، امی اب بقرعید کے آنے میں کتنے دن رہ ہی گئے ہیں، اس کی امی نے نوید کی بات سنی، دل تیزی سے دھڑکنے لگا، اس کی بھی برسوں کی آرزو تھی کہ کبھی بکرے کی قربانی ہوتی اور میرے ساتھ میرے اکلوتے بیٹے کا بھی ارمان پورا ہوجاتا ۔ دل تو اس کا بھی اندر سے رو رہا تھا, مگر اس نے اپنے دل کے جذبات پر کنٹرول کیا کہ کہیں اس کا بیٹا بے قابو نہ ہو جائے ۔ وہ کہنے لگی بیٹا ، صبر کرو ۔ ہمارا ارادہ تو یہی ہے ۔ اب آگے اللہ تعالیٰ کی مرضی ، مگر امی اور لوگوں کے یہاں سب کچھ کیسے ہوجاتا ہے اور ہم لوگ منہ دیکھتے رہ جاتے ہیں ۔ کیا ابو کام نہیں کرتے ، امی کیا تم دعا نہیں کرتی ؟ بیٹے ایسی بات نہیں ہے سب کچھ ہورہا ہے۔ بیٹا ناامید نہیں ہونا چاہیے اللہ تعالیٰ کوئی نہ کوئی انتظام ضرور کردے گا، امی یہ انتظام کب ہوگا؟ اس کی ماں نے بیٹے کو سمجھاتے ہوئے کہا ، بیٹا کبھی ہمارے یہاں قربانی کا ناغہ ہوا ہے ؟ ہمیشہ تو قربانی ہوتی ہے، وہ بھی بڑے جانور کی قربانی ہم اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں پیش کرتے ہیں، امی یہ تو ٹھیک ہے، لیکن بھینس تو بہت بڑی ہوتی ہے، میں چھوٹا ہوں، مجھے اس سے بہت ڈر لگتا ہے، وہ مجھے دبا دے گی، میں اس کو کہیں چرانے بھی نہیں لے جاسکتا، وہ بھاگنے لگے تو میں روک نہیں سکتا، بات تو تمہاری صحیح ہے بیٹے ، امی تب ابو سے کہہ کر آج ہی بکرا منگوائیے ، میرے پاس کچھ عیدی اور تحفے کے پیسے ہیں ان کو بھی اس میں ملا لیجئے مگر آپ ہاں کردیجیے ۔ 
اس کی ماں نے سوچا کہ اسے کچھ اور طریقے سے سمجھانا پڑے گا ۔ اس لیے اس نے کہا بیٹا میں تمہارے لیے کھانا لاتی ہوں کچھ کھاپی لو پھر میں تمہارے ابو سے بات کرکے کوئی صورت نکالتی ہوں ۔ نوید نے سوچا تھا کہ میں اس وقت تک کھانا نہیں کھاؤں گا جب تک کہ میری مراد پوری نہیں ہوجائے گی ۔ مگر اس کی ماں کی تسلی بخش باتوں سے وہ نرم پڑ گیا اور کھانے کے لیے راضی ہوگیا ۔ 
اس کی ماں کے دل میں ایک خیال آیا، اس نے نوید سے کھانے کے دوران پوچھا کہ نوید، ہمارے پڑوس میں جو عمران رہتا ہے اس کے گھر کتنا بکرا خریدا گیا ہے ؟ نوید نے کچھ سوچ کر بتایا کہ امی، وہ لوگ کہاں بکرا خریدتے ہیں ؟ ان کے گھر تو قربانی ہی نہیں ہوتی ۔ بڑے جانور کی بھی نہیں ۔ نوید کی ماں بولی ، خالد کے گھر تو کئی بکرے آگئے ہوں گے ؟ وہ اسے چرانے بھی لے جاتا ہوگا ۔ نہیں امی وہ بھی بہت غریب لوگ ہیں ، خالد تو اسکول کی فیس بھی ادا نہیں کرپاتا ہے ۔ دیکھو بیٹے ، تم اس بات پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرو کہ اس نے ہمیں بہت سے لوگوں سے اچھا بنایا ہے ۔ ہمارے گھر بکرا نہ سہی بھینس کی قربانی تو ہرسال ہوجایا کرتی ہے ۔ کتنے گھر کے بچے تو اس سے بھی محروم ہیں ۔ 
امی مگر ہاشم کو دیکھو ۔ رافع کی بات کرو ۔ یا کم از کم پڑوس کے نعیم کو دیکھ لو ان کے گھر بڑے بڑے بکرے ایک مہینے سے بندھے ہوئے ہیں، کتنے خوبصورت، موٹے تگڑے، لمبے ہاتھ پاؤں والے ، اور اتنے سیدھے سادے کہ کوئی چھوٹا بچہ بھی انھیں جدھر چاہے لے کر چلا جائے وہ خوشی خوشی نکل جاتے ہیں۔ 
نہیں امی ، مجھے بھی بکرا دلادو، جو خوبصورت اور بڑے بڑے کان والا ہو ۔ دو نہ سہی ایک ہی ہو ۔ مگر اب کی بار میں تسلیوں سے بہلنے والا نہیں ہوں ۔ اب میں بھی بڑا ہوگیا ہوں ۔ 
نوید کے آگے اس کی ماں کی کوئی بات نہیں چل سکی اور اس نے یہ کہہ کر نوید سے کنارہ کش ہوئی کہ اچھا تمہارے ابو کو آنے دو ، میں بات کروں گی اور اس کا کوئی حل نکالوں گی ۔ نوید وقتی طور پر اس فہمائش سے خوش ہوگیا اور بچوں میں بھی اس کا اعلان کردیا کہ کل شام کو میں بھی اپنے بکرے کے ساتھ کھیلنے جاؤں گا، اس کی ماں نے یہ سن کر اسے ڈانٹنا چاہتی تھی مگر یہ سوچ کر خاموش ہوگئی کہ نوید کے لبوں پر یہ مسکراہٹ برسوں کے بعد دیکھنے کو ملی ہے۔ اللہ تعالیٰ اسے ہنستا کھیلتا رکھے۔ 
شام کو نوید کے ابو جب کام سے گھر واپس آئے تو نوید کھیلنے چلا گیا تھا، نوید کی ماں نے اس کے ابو کو کھانا کھلانے کے دوران ساری باتیں بتائیں اور یہ بھی کہا کہ میرے تسلی دینے کی بات پر اس نے تو اپنے دوستوں میں بکرے کے آنے کا اعلان بھی کردیا ہے۔ اس سال کوئی نہ کوئی شکل بکرے لانے کی بنانی پڑے گی ۔ چاہے بھینس کا ارادہ چھوڑ کر صرف بکرا لے لیا جائے ۔ نوید کے ابو نے کہا ایسا ممکن ہے ۔ مگر میں بچوں کا پیسہ اس کے لیے نہیں اٹھانا چاہتا ۔ میں ایک کام کرتا ہوں ، اس سال میرے ایک دوست کے یہاں خوشحالی کچھ زیادہ ہوگئی ہے، اس نے چار بکرے خریدے ہیں، اس سے کہتا ہوں کہ وہ اپنے ایک بکرے کی قربانی میرے گھر کرنے پر راضی ہو جائے، نام تو قربانی کے وقت اسی کا پڑھا جائے گا، مگر اس کا گوشت سارے کا سارا ہمارے یہاں رہ جائے گا۔ 
نوید کی امی بولی، مگر نوید تو اس بکرے کو پالنے اور گھر رکھ کر اسے چرانے کی ضد پر اڑا ہوا ہے ۔ وہ کیسے ہوگا؟ کیا آپ کے دوست اس پر راضی ہو جائیں گے ؟ انھوں نے کہا تم یہ بات ابھی نوید سے مت بتانا ، میں پہلے دوست سے مل کر بات تو کرلوں ۔ اس کی امی کہنے لگی کہ پھر بات جلدی کرلیں ، اگر ممکن ہو تو فون پر بات کرلیں ۔ 
نوید کے آنے کا وقت ہوگیا تھا ، اس لیے فون پر بات کرلینا ضروری ہوگیا تھا ۔ 
اب یہ نوید کی ضد اور تمنا کا اثر تھا ۔ یا ماں کی دعا کی تاثیر تھی یا پھر نوید کے ابو کے دوست کی نرم دلی اور محبت تھی کہ وہ بخوشی اس پر راضی ہوگئے، بلکہ اس کے دانہ چارہ کی قیمت بھی دینے پر تیار ہوگئے ۔ اب نوید کے آنے کا انتظار تھا، اس کی خوشی اس کے دروازے پر اس کی آمد کا انتظار کررہی تھی، والدین میں اس بات پر دل لگی کے طور پر تکرار ہونے لگی کہ نوید کو بکرے مل جانے کی نوید پہلے کون سنائے گا ؟اس کی ماں کہہ رہی تھی کہ میں نے یہ بات شروع کی ہے اور نوید نے میرے سامنے سب سے پہلے کچھ سمجھ کر بات چھیڑی ہے۔ جب کہ نوید کے والد صاحب کا خیال تھا کہ میں نے اپنے دوست کو اس عطیہ کے لیے آمادہ کیا ہے اس لیے میں پہلے نوید کو یہ خوشخبری سناؤں گا۔ ابھی یہ طے نہیں ہو پایا تھا کہ تب تک نوید کو اس کے کئی دوست اٹھاکر لاتے ہوئے دکھائی دیے، جس سے معلوم ہو رہا تھا کہ وہ خود سے چلنے کے قابل نہیں ہے، یہ دیکھ کر والدین کا ماتھا ٹھنکا، وہ لوگ اپنی اپنی جگہ چھوڑ کر کھڑے ہوگئے۔ یہ کیا ہوا؟ میرے بچہ کو کیوں لوگ اٹھا کر لارہے ہیں ؟ نوید کے والد تیزی سے آگے بڑھے، والدہ بھی دروازے سے لگ کر کھڑی ہوگئی ۔ قریب آنے پر کراہنے کی آواز سنائی دے رہی تھی، اس کے والد نے بچے کو سہارا دینے کے لیے ہاتھ لگایا اور پوچھا کیا ہوا؟ نوید کی آنکھیں بند تھیں، وہ جواب دینے کی پوزیشن میں نہیں تھا، دوسروں سے پوچھنے پر کچھ کچھ بات معلوم ہوئی، جلدی سے اسے ایک صاف ستھرے بستر پر لٹایا گیا، اسے نیم مردہ حالت میں دیکھ کر اس کی ماں بےچین ہوگئی اور اس کے پورے بدن پر شفقت سے ہاتھ پھیرنے لگی، ماں نے ان بڑے بڑے لڑکوں سے جو اسے یہاں تک اٹھا کر لائے تھے، پوچھا کہ اسے کیا ہوا ہے ؟ اس کے باپ اسے جلدی سے ہوش میں لانے کی کوشش کرنے لگے۔ مگر نوید کے بدن میں حرکت پیدا نہیں ہوئی ۔ عجیب معاملہ تھا، اس کو لانے والے ساتھی بتانے کے لیے منہ نہیں کھول رہے تھے، نوید خود بے حس و حرکت الٹا سیدھا بستر پر دراز تھا۔ بدن پر چوٹ اور زخم کا نشان بھی دکھائی نہیں دے رہا تھا، نوید کے والد نے ایک فیملی ڈاکٹر کو فون کرکے ساری صورتحال بتائی، ابتدائی طبی امداد کے لیے اتنا ضروری تھا ۔ نوید کی ماں نوید کے سر پر ہاتھ رکھ کر اسے ہلاتی اور بلاتی رہی، ابھی اس کے ساتھ میں آنے والے لڑکے موجود تھے۔ اس کے والد نے پوچھا کہ تم لوگوں نے اسے اس حال میں کب اور کہاں پایا ،،؟ انھوں نے بتایا کہ یہ راستے کے کنارے ہمیں اسی حال میں پڑا ہوا ملا تھا ۔ نوید کے والد اس کے منہ پر پانی کے چھینٹے مار رہے تھے، ڈاکٹر کے آنے کا ابھی کوئی پتہ نہیں لگ رہا تھا، کہ اچانک اس کے بدن میں کچھ حرکت ہوئی اور منہ سے کچھ بدبدانے کی آواز سنائی دی، آواز صاف نہیں تھی، مگر کان لگاکر اس کی ماں نے جب سنا تو معلوم ہوا کہ وہ پانی، اور بکرا، کہہ رہا ہے، فورا پانی کا گلاس منگوایا گیا، ابھی اس کی آنکھیں نہیں کھل رہی تھیں، اسے چمچہ سے پانی پلایا گیا، بکرے کے نام پر اس کی ماں کی چھٹی حس جاگی، ہو نہ ہو یہ بکرے نہ ملنے کے صدمے سے دوچار ہوگیا ہو اور اس کے سبھی ساتھیوں کے یہاں بکرا دیکھ کر وہ غم سے افسردہ ہو کر کہیں غش کھا کر گر پڑا ہو، جو لڑکے اسے سہارا دے کر یہاں لائے تھے، وہ سب بکرے والے تھے، نوید کی آنکھ کھل نہیں رہی تھی، دانت ایک دوسرے سے لگے بیٹھے تھے، اس کے ساتھی ابھی اپنے گھروں کو واپس نہیں گئے تھے، شام کا دھندلکا پوری طرح چھا چکا تھا، گھروں میں چراغ روشن ہوگئے تھے، چرند و پرند اپنے ٹھکانے پہنچ گئے تھے، کہ اچانک ایک آہٹ ہوئی،یوں لگا جیسے ڈاکٹر صاحب آگئے ہوں، مگر وہ آہٹ اب باقاعدہ آواز میں تبدیل ہوگئی، وہ کسی ڈاکٹر کی آہٹ نہیں بلکہ کسی بکرے کی آواز تھی جو سب کے کانوں سے ٹکرا رہی تھی، آواز کسی بڑے بکرے کی محسوس ہورہی تھی، سب کی نظریں گلی کے موڑ کی طرف لگ گئیں، ارے یہ تو بہت بڑا بکرا ہے، نوید کے والدین بھی اس قربانی کے بکرے کی طرف دیکھنے لگے، بکرے کی رسی کو ایک قصائی نے پکڑا ہوا تھا اور نوید کے والد رضی کا نام پوچھ رہا تھا، لڑکوں نے باہر نکل کر اسے بتایا کہ یہی ان کا گھر ہے ، تب تک رضی بھی باہر چلے گئے، قصائی نے بتایا کہ آپ کے دوست عرفان نے یہ بکرا آپ کے گھر دینے کو کہا تھا، سب لڑکے اس بکرے کے سردار کو دیکھ کر دنگ تھے، انھیں نوید کی زبانی معلوم ہوگیا تھا کہ اس سال بھی والد صاحب بکرا نہیں خریدیں گے، اور ابھی دروازے پر اتنا موٹا تازہ بکرا؟ یہ کہاں سے ٹپک پڑا ؟ نوید کے والدین سب کچھ سمجھ گئے تھے کہ ان کے دوست آج وقت پر کام آگئے ہیں، مگر انھیں اس کا احساس نہیں تھا کہ وہ اپنا سب سے بڑا بکرا بھیج دیں گے، گھر کا سوگوار ماحول بدلنے والا تھا، ڈاکٹر صاحب کے آنے کا وقت ہوگیا تھا، تب تک نوید جو ہنسنے کھیلنے والا لڑکا تھا، وہ بستر پر پڑے پڑے اوب چکا تھا، اسے احساس ہوا کہ اب دیر تک یونہی پڑے رہ کر والدین کے غم کے بوجھ کو بڑھانا بیکار ہے، اس کے ساتھی اس کے قریب آکر اس کی کمر میں ٹھونکا دینے لگے، بکرا دروازے پر باندھا جاچکا تھا، وہ جگہ بدلنے کے غم میں صدائے احتجاج بلند کر کے اجنبیت کا اظہار کررہا تھا، کہ یکایک نوید بکرے کی خوشخبری سن کر بستر سے اٹھنے کی ٹھان لی، بکرے کی تیز آواز سن کر وہ خوشی سے اچانک ایسے اچھل پڑا، جیسے کسی ڈراؤنے خواب سے ابھر کر جاگا ہو، یہ کیسا بکرا ہے؟ اس کے والدین نے ایک ساتھ خوشخبری سنانے کو دوڑے کہ بیٹے یہ ہم سب کا ہے، یہ تمہارا ہے، دیکھو اللہ تعالیٰ نے تمہاری دعا قبول کرلی، بیٹے تمھیں کیا ہوگیا تھا، اس سوال پر اس نے خود سوال قائم کردیا کہ امی مجھے کیا ہوگیا تھا ؟ وہ اچھل کر بکرے کے پاس کودتے ہوئے چلا گیا اور جاکر بکرے سے لپٹ گیا ، اس کے تمام ساتھی ہنسنے لگے، ان کی مشترکہ کوشش کامیاب ہوگئی تھی۔

Post a Comment

1 Comments

  1. محترم ۔ آپ نے میری کہانی ۔ قربانی کا بکرا ۔ کی اشاعت کی۔ اس کے لیے میں تہ دل سے شکرگزار ہوں ۔
    انصار احمد معروفی

    ReplyDelete