حال کے دنوں میں ، جو کتابیں مجھ تک پہنچی ہیں ، ان میں سے ایک کتاب ’’ عصری افسانچے ‘‘ ہے۔ اس کتاب کے مرتب انور مرزا ہیں۔ انور مرزا کانام میرے لیے غیر معروف نہیں ہے ، بلکہ اگر میں یہ کہوں تو غلط نہ ہوگا کہ ممبئی شہر کے زیادہ تر صحافی ، انور مرزا کے نام سے واقف ہیں۔ ایک روزنامہ میں ، جس کے ایڈیٹر مرحوم ساجد رشید تھے ، ہم دونوں نے ایک ساتھ کام کیا ہے۔ میری نظر میں وہ ’’ تھری ان ون ‘‘ ہیں ، ایک اچھے قاری ، فکشن کے بہترین پارکھ اور غضب کےلے آؤٹ آرٹسٹ۔ وہ افسانوں کے ایک اچھے تجزیہ کار بھی ہیں ، اور خود بھی اچھے افسانے لکھتے ہیں ۔ انور مرزا کو لکھنے پڑھنے سے کیسی محبت ہے ، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے ، کہ انہوں نے اپنے ساتھیوں کےساتھ مل کر ، ایک ’’ افسانہ نگار واٹس ایپ گروپ ‘‘ تشکیل دیا ہے ، گروپ آج بھی سرگرم ہے۔ گروپ کی تشکیل کی بات ۲۰ ، اگست ۲۰۲۰ء کی ہے ، جب کووڈ -۱۹ کی وباء نے ، سارے ہندوستان ہی کی نہیں ، ساری دنیا رفتار روک دی تھی۔ اس گروپ میں افسانوں کے ساتھ افسانچے بھی پیش کیے گیے ، ان کے تجزیے بھی کیے گیے ، اور پھر افسانچوں کو جمع کر کے کتاب ’’ عصری افسانچے ‘‘کی صورت دے دی گئی۔ انور مرزا نے ’’ حرفِ اول ‘‘ میں افسانچوں کے حوالے سے منٹو ، جوگندر پال ، رتن سنگھ اور عظیم راہی کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے ، ’’ افسانچوں کا موجد اگر سعادت حسن منٹو کو تسلیم کر لیا جائے تو آج 70 سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے۔ مگر ان تمام برسوں میں افسانچہ مقبولیت کی ان بلندیوں تک تو یقینا نہیں پہنچا ہے جہاں پہنچنا چاہئے تھا۔‘‘ افسانچہ مقبولیت کی بلندی کو کیوں نہیں پہنچ سکا؟ انور مرزا نےاس کے اسباب گنوائے ہیں ، وہ لکھتے ہیں ،’’ اس کی ایک وجہ تو افسانچہ کے حق میں بے یقینی کی ادبی فضا کہی جاسکتی ہے کہ رد و قبول کا تسلسل ہمیشہ برقرار رہا جس سے افسانچہ لکھنے والے افسانہ نگار تذبذب کا شکار رہے۔ اسی کے ساتھ کچھ نومشق اور بعض سہل پسند قلم کاروں نے افسانچہ کوشہرت حاصل کرنے کا آسان ترین شارٹ کٹ سمجھ لیا اور افسانچوں کے نام پر لطیفہ بازی کرنے لگے۔ ایسے نومشقوں نے اس صنف کو واقعی نقصان پہنچایا جس سے افسانچہ کی مخالفت کرنے والوں کو تقویت بھی ملی۔ اور گزشتہ 70 برسوں میں افسانچہ کی کشتی عدم استحکام کے سمندر میں ڈوبتی ابھرتی رہی۔ افسانچہ نگار کبھی بہت مستعد اور کبھی مکمل طور پر غیر فعال نظر آیا ۔‘‘ انہوں نے اس ضمن میں سوشل میڈیا کا بھی ذکر کیا ہے ، ’’ سوشل میڈیا پر فیس بک اور واٹس ایپ جیسے ڈیجیٹل پلیٹ فارمس کے ذریعے افسانچہ کو نئے سرے سے مقبولیت ملنی شروع ہوئی۔ سوشل میڈ یا پر واٹس ایپ کے اردو گروپس کی کمی نہیں۔ یہ تمام گروپس حالانکہ کافی عرصے سے سرگرم ہیں ، مگر مارچ ۲۰۲۰ء میں لاک ڈاؤن کے بعد اچانک ان گروپس کی سرگرمیاں بڑھ گئیں۔ بے شمار نئے گروپس بھی راتوں رات وجود میں آگیے ، کہ گھروں میں بند عوام کو ایسے سوشل میڈ یا گروپس کی اشد ضرورت تھی۔ مگر سوچے سمجھے بغیر، ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی اور شوقیہ تشکیل دیے گیے بیشتر واٹس ایپ گروپس بے راہ روی کا شکار تھے۔ گروپس بنا تو لیے جاتے تھے لیکن کسی مقصد کے تحت گروپ کو فعال رکھنے میں بیشتر ناکامی ہی ہاتھ لگتی تھی۔ عام طور پر گروپس میں کوئی کسی کی سنتا نہیں۔ سب اپنی مرضی کے مالک ، اور استاد ! ‘‘
انور مرزا نے اپنے تجربے کا فائدہ اٹھایا ، اور ایک ایسا گروپ تشکیل دینے میں کامیاب رہے ، جس کا ایک واضح مقصد تھا ، افسانوں اور افسانچوں کا فروغ۔ وہ بتاتے ہیں ،’’ ۲۰، اگست ۲۰۲۰ء سے ۱۲، دسمبر ۲۰۲۱ء تک ’’ افسانہ نگار واٹس ایپ گروپ ‘‘ میں ایک ہزار ایک سو اکتالیس افسانچے پیش کیے جا چکے ہیں۔۔۔ اور یہ سلسلہ جاری ہے ۔‘‘ انور مرزا اور ان کے ساتھیوں نے گروپ میں ’ تین کہانیاں ایونٹ ‘ متعارف کرایا جس کے تحت ایک ہی افسانہ نگار کے تین افسانچے شامل کیے گیے ، ان پر تبصرے ہوئے ، ان کے تجزیے کیے گیے اور ان پر مباحثے ہوئے ، اس طرح افسانچوں کی خوبیاں اور خامیاں سامنے آتی رہیں اور افسانچہ نگاری کے لیے ایک بہترین ماحول تیار ہوتا گیا۔ اُس ایونٹ کے ۷۸ افسانچوں کو مع تبصروں و تجزیوں کے اس کتاب میں شامل کیا گیا ہے۔
جن فکشن نگاروں کے افسانچے اس کتاب میں شامل ہیں اان کے نام ہیں نعیمہ جعفری پاشا ، رونق جمال ، نصرت شمسی ، سلیم سرفراز ، عارفہ خالد شیخ ، محمد علی صدیقی ، مسرور تمنّا ، ریحان کوثر ، رخسانہ نازنین ، محمد علیم اسماعیل ، پرویز انیس ، فرخندہ ضمیر ، احمد کمال حشمی ، منظور وقار ، ابوذر ، فریدہ نثار احمد انصاری ، محمد عرفان ثمین ، تبسم اشفاق شیخ ، پینٹر نفیس ، ڈاکٹر یاسمین اختر ، سید اسماعیل گوہر ، ڈاکٹر شیخ طاہرہ عبدالشکور ، محمد نجیب پاشا ، اسد اللہ شریف ، محمد سراج عظیم اور انور مرزا۔ یہ افسانچہ نگار آسنسول ، بیدر ، گلبرگہ ، ممبئی ،مالیگاؤں ، بھاگلپور ، ناندورہ گویا ملک بھر کی نمائندگی کرتے ہیں ، اور یہ بتاتے ہیں کہ سارے ملک میں اردو لکھنے پڑھنے والے اچھی خاصی تعداد میں ہیں ، اور سرگرم بھی ہیں۔ میں نے ، ان افسانچہ نگاروں میں سے چند کو ہی پڑھ رکھا تھا ، اکژ کو پہلی بار پڑھنے کا موقع ملا ، انہیں پڑھ کر ان کے اندر پائے جانے والے اسپارک کا اندازہ ہوتا ہے۔ یہ نئی بات ، نئے انداز سے کہنے کا ہنر جانتے ہیں اور افسانہ نگار جیسے گروپ سے ان کے فن کو یقیناً مزید جلا ملے گی۔ کتاب میں تمام افسانچوں پر تبصرے اور ان پر کیے گیے تجزیے حلانکہ چند سطری ہیں مگر سنجیدگی اور خلوص کے ساتھ لکھے گئے ہیں ، جیسے کہ نعیمہ جعفری پاشا کی ’ لو جہاد ‘ کے موضوع پر لکھی گئی کہانی ’’ اندھیر نگری ‘‘پر ریحان کوثر کا مختصر تبصرہ ،’’ افسانہ نگار کے فرائض میں ایک یہ بھی ہے کہ وہ حالاتِ حاضرہ کی سرگرمیوں کی گرمی ، درجۂ حرارت ، اور تپش کی شدت کو محسوس کرے اور اسے کہانی کے ذریعے قاری کو منتقل کر دے۔ پیغام کی ترسیل میں کامیاب یہ افسانچہ قاری میں فکری و شعوری حرارت پیدا کر رہا ہے۔ ‘‘ لیکن ایک بات کہنا چاہوں گا ، کئی افسانچوں اور تبصروں میں ، زبان کی صحت کا خیال نہیں رکھا گیا ہے ، جہاں ’ جانیں ‘ لکھنا تھا وہاں ’ جانے ‘ لکھا گیا ہے(یہ ایسی ہی غلطیوں کی صرف ایک مثال ہے ) ، مذکر اور مونث اور واحد جمع پر توجہ نہیں دی گئی ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ گروپ میں افسانچوں کی بنت اور ہیئت کے ساتھ زبان کی اصلاح پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ انتساب بہترین ہے ’’ افسانہ نگار واٹس ایپ گروپ کے ان افسانہ نگاروں کے نام جو محض اردو افسانچے نہیں افسانچوں کا مستقبل لکھنے کی سعی مسلسل کر رہے ہیں۔ ‘‘ آخر میں ، لیکچرار ایس کے مہیلہ کالج ، بیگو سرائے ، بہار ، ڈاکٹر یاسمین اختر ( جن کی تین کہانیاں اس مجموعہ میں شامل ہیں) کا تمام افسانچوں پر ایک وقیع تجزیہ ’’ تصویرِ کائنات میں رنگ ‘‘ کے عنوان سے شامل ہے۔ ڈاکٹر صاحبہ نے اپنا تجزیہ خواتین کے مسائل کے حوالے سے تحریر کیا ہے کیونکہ ان کے بقول ، ’’ ان افسانچوں میں زیادہ تر افسانچے ایسے ہیں جن میں عورتوں کے مسائل کو سامنے لانے کی کوشش کی گئی ہے ۔‘‘ لیکن یہ افسانچے یقیناًیک رخی نہیں ہیں ، ان میں مختلف رنگ دیکھے جا سکتے ہیں ۔ اس کتاب کی ڈیزائننگ ،چاہے وہ سرورق کی ہو یا افسانچوں کی یا تبصروں اورتجزیوں کی شاندار ہے ، اس کے لیے بھی اور اس کتاب کو مرتب کرنے کے لیے بھی ، انور مرزا مبارک باد کے مستحق ہیں۔ کتاب کے صفحہ آخر پر ’’ افسانچے میں کرداروں کے نام ‘‘ کے عنوان سے مرتب کی ایک مختصر سی تحریر ہے ، جس میں افسانوں اور افسانچوں میں کرداروں کے ناموں کی اہمیت پر روشنی ڈالی گئی ہے ، یہ نئے لکھنے والوں کے لیے ، ایک طرح سے ، افسانچے لکھنے کا نسخہ ہے ، ایک اچھا نسخہ۔ کتاب حاصل کرنے کے لیے موبائل نمبر (9029449173) پر رابطہ کیا جاسکتاہے ۔ کتاب الفاظ پبلی کیشن ، کامٹی نے شائع کی ہے ، ۱۸۴ صفحات کی اس کتاب کی قیمت ۱۲۰، روپیہ ہے۔
0 Comments