افسانہ نگار
ایونٹ نمبر 51
موضوع…
"فادرس ڈے"
Father's Day
(افسانچہ)
✒️قیوم اثر
کلکٹر زاہد خان چند منٹ قبل آفس پہنچا تھا۔ابھی اپنی کرسی پر بیٹھا بھی نہیں،جانے کیا یاد آیا۔بے چینی کے عالم میں کھڑا ہوگیا۔نشست کے ارد گرد چکر کاٹنے لگا۔اتنا ہی نہیں دونوں ہاتھوں سے ماتھا اس طرح دباۓ رکھا تھا جیسے چند لمحوں میں کھوپڑی پھٹ پڑے گی۔سانسیں پھولنے لگی تھیں۔آنکھوں میں تناؤ بھرگیا۔۔۔جانے کیوں زیر لب بڑبڑانے بھی لگا تھا۔آفس کے باہر وزیٹرس کا تانتا بندھا ہوا الگ ! ٹیبل مختلف رنگوں کی فائلوں سے ابل رہا تھا کہ سپید پوش چپراسی نے دستک دی۔
آجاؤ۔اس کے لہجہ سے بیزارگی ٹپک رہی تھی۔
چپراسی نے فرشی سلام کیا،”حضور وزیٹرس آپ کی ملاقات کے مشتاق ہیں،پریشان بھی“۔
”آدھے گھنٹے بعد“۔وہ پسینے میں شرابور تین سانسوں میں صرف تین لفظ بول پایا۔
”حضور۔۔۔معذرت چاہتا ہوں“۔آپ کو محسوس کررہا ہوں۔جہاندیدہ چپراسی نے دھیمے لہجے میں کہا۔
جاؤ۔۔۔لمحہ بھر سکون سے بیٹھنا وبال ہونے لگا تھا۔ایئر کنڈیشن روم بھی اس کے جسم سے نکلنے والے پسینے پر اثر انداز نہیں ہو پارہا تھا۔اضطراب بڑھتا ہی جارہا تھا کہ موبائل نے آواز دی۔
ہلو۔۔۔نسیمہ کیا بات ہے۔اس وقت فون!! سب کچھ ٹھیک ہے نا۔
”حضور۔۔۔بہت پریشان ہورہے ہوں گے۔۔۔پریشان ہونے کی مطلق ضرورت نہیں“۔بیوی جیسے تسلی کے دو لفظ بولنے لگی۔
”جلدی بول۔۔۔یہاں سانسیں اکھڑی جارہی ہیں۔باہر وزیٹرس کی بھیڑ بڑھنے لگی ہے۔۔۔اور میں ہوں کہ بے چین!!!
”جانتی ہوں سرکار۔پریسکرپشن اور مخصوص ادویات الماری میں رکھ کر بھول گۓ تھے نا۔میرے سرتاج۔۔۔تم مشورہ نہ بھی دے تو میں ذمہ دار ہوں۔ہلکا ہلکا سا ذود ہضم کھانا کھلایا اور ڈاکٹر کی صلاح کے مطابق دوائیاں بھی دے چکی ہوں۔اب ابا اطمینان سے سو رہے ہیں“۔
پھر اچانک معجزہ دکھاتی کھڑکی سے در آنے والی قدرتی ہوا نے مردہ لمحوں کی سانسیں بحال کیں اور اس نے ”فاتحانہ مسکراہٹ“ کے ساتھ ٹیبل پر رکھی گھنٹی کے بٹن پر انگلی رکھ دی۔
0 Comments