ابا ہر کام میں پرفیکشن تلاش کرتے تھے۔
ان کی ایک کرانا کی دکان تھی۔دس ڈسمل زمین سڑک کے کنارے۔اس میں ایک دکان اور باقی خالی جگہ میں گھیر کر سبزی وغیرہ اگانے کا نظم۔ ایک دو آم کے پیڑ جس میں میٹھے آم پھلتے۔
میں جب مدرسہ سے چوتھی جماعت پاس کرکے گھر آیا تو ابا نے مجھے ندوہ بھیجنے کا ارادہ کیا۔وہاں سے فورم منگواکر اسے بھر کر بھیج دیا گیا۔ان کی خواہش تھی کہ میں عالم دین بنوں۔ ندوہ سے جواب آیا کہ ابھی بچے کی عمر کم ہے اس لیے آئندہ سال داخلہ کے لیے درخواست دیں۔ اب ایک سال کیا کیا جائے یہ ایک مسئلہ پیدا ہوگیا۔فاربسگنج لی اکیڈمی میں ابا کے ایک دوست مولوی سراج صاحب تھے انہوں نے مشورہ دیا کہ اسے عربی پڑھائیں تاکہ آئندہ سال ندوہ میں آسانی ہو۔عربی پڑھانے کی ذمہ داری انہوں نے خود لے لی۔ اب میں روزانہ اپنے گاؤں گوگی پوٹھیہ سے بس سے دس کیلو میٹر فاربسگنج جاتا اور وہاں مولوی سراج صاحب سے ھذا جملٗ ھذا قردٗ پڑھتا۔اسی دوران کسی اور بہی خواہ نے مشورہ دیا کہ بچے کا سال برباد کرنے سے بہتر ہے اس کا داخلہ آزاد اکادمی ارریہ میں کرادیا جائے۔
1963 کے مارچ میں میرا داخلہ آزاد اکادمی کے آٹھویں درجہ میں پرائیویٹ سکشن سی میں کرادیا گیا۔ میں مدرسہ کا چوتھی پاس یہاں آٹھویں میں دو سبجکٹ میرے لیے بالکل نیا تھا۔ایک الجبرا دوسرا اڈوانس میتھیمیٹکس۔ الجبرا مجھے کافی دلچسپ لگا تو فوری طور پر دلچسپی بڑھ گئی اور میں سمجھنے لگا لیکن اڈوانس میتھیمیٹکس میرے پلے نہیں پڑا اور میں ششماہی امتحان میں اس پرچے میں فیل ہوگیا۔ آٹھواں کلاس میں تین سکشن تھے۔اے اور بی ریگولر کلاس کے لڑکوں کے لئے اور سکشن سی پرائیویٹ بچوں کے لیے۔ دوچار مہینے میں ہی مجھے تینوں سکشن کا کلاس مونیٹر منتخب کرلیا گیا اور گیارھویں اسپیشل تک میں ہی کلاس مونیٹر رہا۔ کئی بار لڑکے ڈسٹر چھپا دیتے اور میتھ ٹیچر ظہیر بابو مونیٹر کا شرٹ اترواکر بلیک بورڈ صاف کرواتے۔ فائینل ریزلٹ میں مجھے فرسٹ ڈویژن ملا اور میرا باضابطہ داخلہ نویں کلاس میں ریزلٹ کی بنیاد پر ایجوکیشن ایس ڈی او کی پرمیشن سے ہوا۔ اڈمیشن انجارج ظہیر بابو تھے ابا سے نام پوچھا ابا نے محمد مشتاق احمد بتایا ظہیر بابو نے کہا
”اسکول کے چپراسی کا نام بھی مشتاق ہے اور نویں درجہ میں بھی ایک مشتاق نام کا لڑکا موجود ہے “
ابا کی نظر میں میرے نام کی وہ پٹی اچانک گھوم گئی جو میں مدرسہ سے لکھوا کر لایا تھا اور کُوٹ میں ساٹ کر دکان میں لٹکا دیا تھا۔ دراصل مدرسہ میں اعظم گڑھ کے ایک استاد تھے مولانا شبیر احمد اصلاحی۔وہ بہت اچھے کاتب بھی تھے اور اپنے پسندیدہ بچوں کے نام میں نوری لگا دیا کرتے تھے۔انہوں نے بہت خوشخط میرا نام بھی ” مشتاق احمد نوری “ لکھا جسے میں نے کوٹ کی گتے پر ساٹ کر دکان میں لٹکا دیا تھا کہ مجھے اپنے نام کو جلی حروف میں دیکھنے کی خواہش بچپن سے تھی۔ بس کیا تھا ابا نے جھٹ کہا کہ آپ اس کام نام *مشتاق احمد نوری* لکھ دیں۔اور 1964 کی جنوری میں میرا نام باضابطہ محمد مشتاق احمد سے مشتاق احمد نوری ہوگیا اور ندوہ جانے کا خواب خواب ہی رہ گیا۔
ابا کو ہرکام میں پرفیکشن پسند تھا ایک بار مجھے کسی کام میں مستعید نہ پاکر انہوں نے کہا،” یہ ڈھیلا رویہ چھوڑو فریدی کی طرح چاق و چوبند رہا کرو۔“
میں بارہ تیرہ سال کابچہ حیران کہ یہ فریدی کون ہے؟۔ میں نے گاؤں کے سبھی دوستوں سے فریدی کے بارے میں دریافت کیا لیکن اس نام کا کوئی شخص پورے گاؤں میں نہیں تھا۔ بعد میں ارریہ کے کسی سینیئر دوست نے بتایا کہ فریدی ابن صفی کے ناول کا ایک کردار ہے۔ اب اس جاسوسی ناول کی تلاش شروع کی۔ ماں سے پوچھا کہ ابا کوئی کتاب پڑھتے ہیں پہلے تو انہوں نے میلاد اکبر کی کتاب دیکھائی کیونکہ ابا گاؤں بھر کی میلاد پڑھا کرتے تھے۔ میں نے جب مزید کریدا تو انہوں نے لکڑی کے ایک بڑے بکسے کی جانب اشارہ کردیا۔ میں نے جب اسے کھولا تو وہ ابن صفی کے جاسوسی ناولوں شکیل جمالی کے رومانی ناولوں اور طلسمی دنیا کے ناولوں سے بھرا پڑا تھا۔مجھ میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ دن کے اجالوں میں ناول پڑھتا۔ صورت یہ نکالی کہ ایک دوات صاف کی اسے کراسن تیل سے بھردیا۔اسکی ٹھیپی میں سوراخ کرکے بتی گھسائی اور اسے چراغ بنا دیا۔ ماں جب سوجاتیں تو میں چراغ جلا کر جاسوسی ناول پڑھتا۔ ادب کے نام پر جو پہلی خوراک ملی وہ یہی جاسوسی ناول تھا۔
ابا جب دکان کرتے تھے تو وہ وہیں کبھی مچھلی کبھی خصی کا گوشت کبھی کوئی مرغی ذبح کر گوشت بنا لیتے۔ مرغی تو وہاں باضابطہ پالتے تھے وہ ایک اسٹوو اور کچھ برتن رکھتے تھے۔وہ بہت اچھے کُک بھی تھے پھر دوپہر کھانے سے پہلے میرے ہاتھ سالن گھر بھیجواتے۔ عام طور پر کوئی مہمان آتا تو وہ سیدھے ابا سے ملنے دکان پر جاتا ماں کو خبر بھی نہیں ہوتی اور انہیں بنا بنایا سالن مل جاتا۔ میرے ابا کھانے کے ساتھ کھلانے کے بھی بہت شوقین تھے۔ رمضان میں دسترخوان میں وسعت آجاتی۔ ابا پہلی بار فاربسگنج سے بیسن کی کچری اور بیگنی بنانا دیکھ کر آئے اور ماں کو بتایا پھر گاؤں کی دیگر بیگمات نے ماں سے یہ سب بنانا سیکھا۔
اس زمانے میں سبھی بسیں گاؤں کے ہی پی ڈبلیو ڈی سڑک سے گزرتی تھیں اگروال کی لال رنگ کی بس ارریہ سے شام سے قبل کھلتی اور ایک گھنٹے میں فاربسگنج پہونچتی۔اس کے ڈرائیور خورشید تھے۔ ابا نے انہیں اس بات پر راضی کرلیا کہ وہ بس ذرا تیزی سے چلاکر میرے گاؤں پوٹھیہ افطار کے وقت پہونچیں۔ یہاں ابا سارے مسافروں کے لئے افطار کا انتظام کر کے رکھیں گے۔ لوگ افطار اور نماز کے بعد بس سے روانہ ہونگے۔ اب روزانہ ابا کا دسترخوان سجتا بیس پچیس روزے داروں کا افطار بنتا اور ہم بچے لوگ بھاگ بھاگ کر انتظام میں لگے رہتے۔ جب لوگوں کو معلوم ہوا کہ اگروال بس کے مسافروں کے لئے افطار کا انتظام راستے میں ہوتا ہے تو وہ رمضان میں اسی بس کا انتخاب کرتے۔ اور رمضان بھر ابا مہمان نوازی کرتے رہتے۔بس آتی لوگ وضو کرتے پھر افطار بعد نماز ہوتی اس کے بعد پھر بس روانہ ہوتی۔
میں نے 1968 میں ہائیر سکنڈری فرسٹ ڈویژن میں پاس کیا اس سے قبل میرے اسکول سے کسی نے بھی فرسٹ ڈویژن پاس نہیں کیا تھا۔ میں نے اسکول کا ریکارڈ توڑا۔میرے ساتھ دو اور ساتھی وثیق عالم اورشفیق الرحمن نے بھی فرسٹ ڈویژن حاصل کیا لیکن سب سے زیادہ نمبر میرا ہی تھا۔ ابا نے گاؤں میں میلاد کیا اور شکرانہ ادا کیا۔
ابا کو گاؤں کے لوگ نام سے نہیں بلاتے تھے بلکہ ”شری مان“ کہتے تھے یہ خطاب انہیں کیوں کیسے ملا مجھے نہیں معلوم لیکن میں یہ جانتا تھا زمین کی ناپی کرنے والا کوئی امین ایسا نہیں تھا جو ابا کی ناپ کو غلط ثابت کرتا۔ گاؤں میں جب بھی کسی کی زمین کا معاملہ الجھتا تو دونوں فریق اپنا اپنا امین منگواتے لیکن سب کچھ ابا کی نگرانی میں ہی ہوتا۔ اس سلسلے میں ابا کاغذ کے نقشے پر زمین ناپتے پھر اسے زمین پر تلاش کرتے۔ ان کے فیصلے پر آج تک کسی نے انگلی نہیں اٹھائی۔ انہیں گاؤں کے زیادہ تر زمین کی جانکاری تھی اور عجیب قسم کے چھوٹے چھوٹےاسکیل تھے جس کی مدد سے وہ نقشہ ناپتے پھر کڑی اور جریب میں زمین ناپتے۔ اس کام میں کبھی کبھی دن بھر لگ جاتا۔وہ ناشتہ کرکے جاتے لیکن کسی بھی فریق کے یہاں کھانا نہیں کھاتے۔ایک بار ماں نے کہا کہ دوپہر کا کھانا کسی کے یہاں کیوں نہیں کھا لیتے۔ ابا نے جو جواب دیا وہ مجھے بچپن میں سمجھ میں نہیں آیا تھا۔انہوں نے کہا کہ میں نے اگر کسی کے یہاں کھا لیا تو ممکن ہے مجھ سے انصاف میں کوتاہی ہو جائے۔ جس کی زمین کی ناپی ہوتی تو کئی رشتہ دار ساتھ ہوتے دونوں فریق کے یہاں اچھا اچھا کھانا بنتا لیکن ابا اس میں شامل نہیں ہوتے۔ شاید انہیں کی تربیت کا نتیجہ تھا کہ میں نوکری میں آنے کے بعد جہاں بھی کسی کیس کی انکوائری کے لئے گیا تو کسی فریق کی دعوت قبول نہیں کی۔
میری پہلی پوسٹنگ کشن گنج ہوئی تو کبھی کبھار جیپ سے گھر آجاتا میرے ساتھ ڈرائیور آڈرلی اور گاڑی کا خلاصی ضرور ہوتا۔ وہ میرے گھر میرے سامنے کرسی پر بیٹھنے سے کتراتے تو ابا مجھے کہتے،
”آپ اندر جائیے میرے مہمانوں کو تکلیف ہورہی ہے “ پھر میرے اسٹاف سے کہتے آپ سب اپنے صاحب کے نہیں میرے مہمان ہیں۔ کشن گنج سے میں پورنیہ آگیا پھر پورنیہ کے ساتھ کشن گنج اور ارریہ بھی میرے چارج میں آگیا۔ارریہ یونٹ کا ڈرائیور برہمن تھا اور مسلمان کے یہاں نہیں کھاتا تھا۔ ابا کو جب معلوم ہوا تو گنگا پودار کے یہاں چاول دال لے کر گئے کہ ان کا کھانا بنادے لیکن گنگا نے کہا چچا یہ آپ کے مہمان ہیں تو میرے بھی ہوئے۔ آپ بے فکر ہوکر جائیں میں سب انتظام کرلونگا۔ اب گاؤں میں یہ رواداری دیکھنے کو نہیں ملتی۔
میں نے جب ہائر سکنڈری فرسٹ ڈویژن میں پاس کیا اور ارادہ میڈیکل پڑھنے کا تھا تو ہماری برادری کے کئی بڑے گھرانے سے میری شادی کے آفر آئے کہ وہ میڈیکل پڑھائی کے سارے اخراجات برداشت کرینگے۔ نکاح کرادیں رخصتی بعد میں ہوگی۔ ابا نے صاف لفظوں میں انکار کردیا انہوں نے ماں کو بتایا کہ میں یہ کبھی نہیں چاہتا کہ میرا بیٹا کسی کے ٹکروں پہ پلے اور اپنی بیوی کے سامنے سر اٹھانے کے قابل نہیں رہے۔ یہ سب کہانی تو مجھے بہت بعد میں معلوم ہوئی اور ابا کا قد میری نگاہ میں بہت اونچا ہوگیا۔
میں سب سے بڑا بیٹا تھا اور انہیں عزیز بھی۔ ان کی دعاؤں سے اونچے عہدے تک گیا لیکن کبھی ان کے سامنے سر اٹھا کر بات نہیں کی جبکہ مجھ سے چھوٹے تینوں بھائی ان سے بحث بھی کرلیتے تھے۔
ابا کی پوری زندگی میرے لئے عملی نمونہ تھی لیکن میں کبھی بھی ان کے قد کے برابر نہ جاسکا۔
ان کے جوتے میرے پاؤں کے لئے ہمیشہ بڑے ثابت ہوئے۔

0 Comments