Ticker

6/recent/ticker-posts

چاندی کی ڈِبّیہ | سلام بِن رزّاق


سلام بِن رزّاق
1941 | ممبئی، انڈیا

بچپن میں آپ کو سیکڑوں کھٹّے میٹھے واقعات پیش آتے ہیں۔ بہت سی باتیں آپ کو سمجھ میں نہیں آتیں۔ بعض باتوں کو آپ بھول بھی جاتے ہیں مگر کبھی کبھی کوئی ایسا واقعہ پیش آتا ہے جو آگے چل کر آپ کو ایک سبق کی طرح یاد رہ جاتا ہے۔
میَں آج آپ کو اپنے بچپن کا ایسا ہی واقعہ سنانا چاہتا ہوں جو دلچسپ بھی ہے اور سبق آموز بھی۔ میری عمر اس وقت پانچ برس کی رہی ہوگی۔ ہمارے گھر سے ذرا فاصلے پر میری پھوپھی کا مکان تھا۔ پھوپھی مجھے بہت چاہتی تھیں۔ میَں اکثر کھیلنے وہاں چلا جاتا۔ یُوں تو وہاں کھیلنے کے لیے کئی کھلونے تھے۔ چابی سے چلنے والی موٹر، ڈرم بجاتا ناچ دِکھاتا بھالو، اُڑنے والا گھوڑا۔۔۔ میَں ان کھلونوں سے گھنٹوں کھیلتا رہتا۔
پھوپھی کے کمرے میں ایک سنگھاردان پر کنگھیاں، تیل کی شیشی، پاؤڈر کا ڈبّہ، پِن، کانٹے، رِبن وغیرہ کے ساتھ چاندی کی ایک ڈِبیہ بھی رکھی تھی۔ ڈِبیہ نقشی دار اور خوبصورت تھی۔ مجھے نہیں معلوم وہ ڈِبیہ پھوپھی کے کیا کام آتی تھی مگر وہ ڈبیہ مجھے اتنی اچھی لگتی تھی کہ کھلونوں سے کھیلتے کھیلتے اکثر میری نظر اُس ڈِبیہ پر جا کر رُک جاتی۔ بچپن میں اکثر بچوں کو تِتلیاں پکڑنے کا شوق ہوتا ہے۔ مجھے بھی تھا۔ کبھی کبھی میَں کسی تِتلی کو پکڑ کر ماچِس کی ڈِبیہ میں بند کر لیتا۔ چاندی کی اس ڈِبیہ کو دیکھ کر میں اکثر سوچتا، وہ ڈِبیہ مجھے مِل جائے تو میَں کسی خوبصورت تِتلی کو پکڑ کر اس میں بند کر لوں گا۔
آخر ایک دن موقع پا کرمیَں نے اس ڈِبیہ کو اپنے نیکر کی جیب میں چھپالیا۔ گھر لوٹتے ہوئے میَں نے ڈِبیہ کو کھول کر دیکھا۔ ڈِبیہ میں سیاہ رنگ کی جیلی جیسی کوئی شئے بھری تھی۔ راستے میں ایک چھوٹا سا گڈّھا پڑ تا تھا جس میں گدلا پانی جمع رہتا۔ میَں نے گڈّھے کے کنارے بیٹھ کر اس پانی میں ڈِبیہ کو دھونا چاہا... مگر یہ کیا...! اِس جیلی جیسی گاڑھی شئے کو ہاتھ لگاتے ہی وہ میری انگلیوں سے چِپک گئی اور میرے ہاتھ کا لے ہو گئے۔ میَں نے کُرتے کے دامن سے ہاتھ پونچھنا چاہا تو کُرتا بھی کالا ہو گیا۔
میَں رونی صورت بنائے گھر آیا۔ گھر والوں نے مجھے اس حال میں دیکھا تو سب گھبرا گئے۔ میَں رونے لگا۔ امّی میرے کپڑے بدلنے لگیں۔ تب نیکر کی جیب سے چاندی کی وہ ڈِبیہ بر آمد ہوئی۔ سارا بھید کھُل گیا۔ دراصل اس ڈِبیہ میں کاجل بھرا ہوا تھا جو دھونے کی کوشش میں مزید پھیل گیا۔ امّی نے مجھے دو طمانچے رسید کیے۔ پھوپھی کو اطلاع دی گئی۔ وہ دوڑی دوڑی آئیں۔ میرا حلیہ دیکھ کر ہنسنے لگیں۔ امّی خفا تھیں، پھوپھی نے مجھے امّی کے عتاب سے بچایا۔ خوب رگڑ رگڑ کر نہلایا۔ دُھلے ہوئے کپڑے پہنائے اور امّی سے سفارش کی کہ مجھے معاف کر دیں۔
امّی نے کہا،’’ میَں اسے اس وقت معاف کروں گی جب یہ وعدہ کرے کہ آئندہ کسی پرائی چیز کو ہاتھ نہیں لگائے گا۔‘‘
میَں نے روتے ہوئے وعدہ کر لیا۔ مجھے اس دن معلوم ہوا کہ کسی پرائی چیز کو دوسروں کی نظر بچا کر اُٹھا لینا چوری کہلاتا ہے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ چوری کرنے سے نہ صرف ہاتھ پاؤں اور کپڑے کالے ہوتے ہیں بلکہ منہ تک کالا ہو جاتا ہے۔ مزید یہ کہ دوسروں کے سامنے ذلیل بھی ہونا پڑتا ہے۔
٭٭٭

Post a Comment

0 Comments