Ticker

6/recent/ticker-posts

کھرا سونا | محمد ایوب

کھرا سونا
محمد ایوب
15 ستمبر 1953 | کامٹی، انڈیا

جب کبھی میں اپنے بچپن میں جھانکتا ہوں، تو سب سے پہلے مجھے اپنی اماں کا پیار بھرا، مقدس، خوبصورت چہرہ نظر آتا ہے۔ میں ایک کثیر العیال خاندان میں پیدا ہوا۔ ہم سب بھائی بہن باپ کی بہ نسبت ماں سے زیادہ قریب تھے۔ والد صاحب یوں بھی نہایت کم گو اور خاموش طبع انسان تھے۔کم آمیز بھی تھے۔ مجھے بچپن سے ہی کتابیں اچھی لگتیں۔
والد صاحب تھوڑا بہت پڑھے ہوئے تھے مگر والدہ صاحبہ ناخواندہ تھیں۔جب اسکول جانے کی عمر کو پہنچا پڑوس کے بچوں کے ساتھ میرا نام بھی لکھوادیا گیا۔اگر چہ میں ذہین بچوں میں شمار نہیں ہوتا تھا مگر کتابوں سے مجھے غیر معمولی لگاؤ تھا۔ مطالعہ کے شوق نے مجھ میں کچھ خوبیاں پیدا کردی تھیں۔ پرائمری پاس کرنے کے بعد جب اس سے آگے کا مرحلہ آیا تو فیس داخلہ، کاپی کتابیں اور یونی فارم کے اخراجات سامنے آئے۔ اس وقت والدین کے حالات دگرگوں تھے۔اضافی اخراجات تو کجاگزارہ بھی مشکل سے ہوتا تھا۔
میرے والدین بہت غیور تھے ان کو فاقہ گوارا تھا مگر کسی کے آگے دست سوال دراز کرنا عار سمجھتے تھے۔پرانے وقتوں کی یادگار اماں کے پاس کچھ زیورات باقی تھے۔اماں کو اپنے زیورات بہت عزیز تھے۔مگر ان کا خواب تھا کہ ان کا اکلوتا بیٹا پڑھ لکھ کر بڑا آدمی بنے۔انھوں نے ایثار کا مظاہرہ کیا اور اپنا ایک زیور بیچ کر سارا انتظام کردیا۔ میں اسکول میں داخل ہو گیا۔ اور ہرسال اچھے نمبروں سے پاس ہوتا رہا۔سال بہ سال اماں کے زیورات میں کمی ہوتی گئی۔مجھے یاد ہے میٹرک کے امتحان کی فیس بھرنے کی باری تھی اور ہمارے گھریلو حالات ناگفتہ بہ تھے۔ ابا نے ہاتھ ٹیک دیے میں بھی مایوس ہوگیا۔اماں کے پاس ایک چھوٹا سا زیور جو وہ ناک میں ہمیشہ پہنے رہتی تھیں باقی رہا تھا۔ میں نے امّاں سے کہا۔’’ اماّں! جانے دو میں بہت پڑھ چکا، اب ہم لوگ فیس بھرنے کی حالت میں نہیں ہیں، میں کچھ کام کاج کرتا ہوں تاکہ آپ لوگوں کا بوجھ ہلکا ہو۔ ‘‘ مگر امّاں نے ایک عزم کے ساتھ کہا: ’’نہیں بیٹا! ہمت نہ ہار، میں اس آخری زیور کو بیچ کر فیس بھر دوں گی۔‘‘ میں نے کہا’’امّاں آپ کا اجاڑ چہرہ میں نہیں دیکھ سکتا۔‘‘ امّاں نے کہا بیٹا! تیرے سے زیادہ مجھے یہ سونا عزیز تھوڑے ہی ہے۔ میرا کھرا سونا تو، تو ہے۔‘‘ امّاں جو ٹھان لیتیں وہ کر کے رہتیں۔ فیس بھری گئی، میں امتحان میں بیٹھا اور پوری اسکول میں اوّل آیا۔ امّاں کی کیفیت دیدنی تھی۔آنسوؤں کی دھار لگی ہوئی تھی اور وہ بار بار میری بلائیں لے رہی تھیں۔مجھے ایسا لگ رہا تھا جیسے مجھے ہفت اقلیم کا خزانہ ہاتھ لگ گیا ہو۔
خدا نے میری ماں کی دعائیں سن لیں اور ایک سال بعد ہی میرا تقرر محکمۂ ڈاک وتار ممبئی میں ہو گیا۔ گھر کی ضرورتیں پوری ہوئیں، بہنوں کی شادیاں ہوئیں۔ مگراماں بہت دنوں تک یہ اچھے دن نہ دیکھ سکیں۔ چندسال بعد ہی ایک جان لیوا مرض میں ان کا انتقال ہو گیا۔آج وہ اس دنیا میں نہیں، مگر جب بھی سوچتا ہوں اماں کاطمانیت بھرا خوبصورت چہرہ تمام زیورات سے آراستہ مسکراتا میرے تصور میں آجاتا ہے اور میری آنکھیں بھیگ جاتی ہیں۔
x

Post a Comment

0 Comments