Ticker

6/recent/ticker-posts

والدین کی نیکیاں | ڈاکٹر محمد اظہر حیات

والدین کی نیکیاں
ڈاکٹر محمد اظہر حیات
14 اکتوبر 1954 | ناگپور، انڈیا

اُس وقت میری عمر غالباً دس یا گیارہ برس ہوگی۔ گرمی کے دن تھے، دوپہر کا وقت تھا، میں گھر کے برآمدے میں کھیل رہا تھا۔ ابا جی آرام کرسی پر بیٹھے اخبار پڑھ رہے تھے۔ تبھی ایک شخص آیا جس نے گیروے رنگ کا کپڑا پہنا تھا۔ گلے میں رنگ برنگی بڑی سی مالا تھی۔ اس کے ایک ہاتھ میں چھوٹا سا گول گول ڈنڈا تھا اور دوسرے ہاتھ کی کلائی میں لوہے کے کڑے تھے جس پر وہ ڈنڈا مارتا تو ایک خاص قسم کی آواز ہوتی تھی۔ ہمارے گھر کے سامنے وہ ٹھہر گیا اور میری طرف اشارہ کرتے ہوئے کہنے لگا،
”وکیل صاحب (میرے والد صاحب ایڈوکیٹ تھے اسی مناسبت سے انہیں سب وکیل صاحب کہتے تھے، ان کی نیم پلیٹ گھر کے دروازے پر آویزاں تھی) اس بالک کی حفاظت کیجئے۔ اس پر سنکٹ کے
بادل منڈھلا رہے ہیں....“
یہ کہتے ہوئے وہ ہمارے گھر کی دہلیز پر بیٹھ گیا اور پھر ہمارے گھر پر آفت اور بری بلاؤں کا سایہ جیسی پیشن گوئی کرنے لگا۔ ابا جی نے اخبار ایک طرف رکھا اور اس سادھو سے کہا،
”مہاراج اب تم اس سنکٹ سے بچنے کا اُوپائے بتاؤ گے اور پھر پیسے طلب کرو گے۔“
ابا جی نے مزید فرمایا،
”میں تمہاری پیشانی دیکھ کر بتا دیتا ہوں کہ ہمارے گھر سے تمہیں کچھ بھی نہیں ملنے والا۔ اس سادھو نے اباجی کی طرف قہر بھری نظروں سے دیکھا اور چلتا بنا۔ میں یہ سب دیکھ اور سن رہا تھا۔ یہ واقعہ میرے تحت الشعور میں بیٹھ گیا۔ یہ بھی سچ تھا کہ ابا جی کی وکالت اچھی نہیں چلتی تھی۔ ہم چھے بھائی اور دو بہنوں کے اخراجات نہ جانے کس طرح پورے ہوتے تھے۔ میں نے دیکھا کہ امی بھی گم سم سی رہتی تھیں۔ میں کم عمری میں سوچتا تھا کہ اباجی کو سادھو کی بات پوری سن لینی چاہیے تھی مگر انہوں نے اسے ڈانٹ کر بھگا دیا۔
انہی دنوں ہمارے تایا زاد بڑے بھائی اباجی کے پاس آئے۔ کہا کہ ”دادا کی جائیداد کا حصہ تقسیم کرنا ہے اس سلسلے میں آج شام گھر پر بیٹھ جاتے ہیں آپ بھی تشریف لائیے۔“ اباجی نے حامی بھر لی۔
اباجی نے امی سے اس کا کا ذکر کیا تو انہوں نے کہا ”ممکن ہے جائیداد سے کچھ حصہ مل جائے گا تو خود کا گھر ہو جائے گا۔ ہم کب تک کرائے کے مکان میں زندگی گزاریں گے۔ آپ کے پانچ بھائی ہیں۔ سب جس مکان میں رہتے ہیں وہ آپ کے والد صاحب کا ہی تو ہے۔ اس میں آپ کا حصہ تو ہے ہی!“
ابا جی نے کچھ نہیں کہا خاموش ہو رہے۔ عصر کے بعد انہوں نے مجھ سے کہا، ”چلو بیٹا میٹنگ میں چلتے ہیں۔“ ہمارے دادا جان کے تمام مکان ہماری رہائش سے دو ڈھائی کلومیٹر کے فاصلے پر تھے۔ ان مکانوں میں ہمارے تایا زاد بھائی اور بڑی اماں اور چچی جان رہتی تھیں۔ اباجی کے تمام بھائیوں کا انتقال ہو چکا تھا۔ ہم جب گھر پر پہنچے تو دیکھا بڑی اماں اور ان کے تمام بچے ایک کمرے میں جمع تھے۔ جوں ہی اباجان کو دیکھا تو کمرے میں سناٹا چھا گیا گویا جس وقت کا سب کو انتظار تھا وہ گھڑی آن پہنچی تھی۔ اب پرکھوں کی جائیداد تقسیم ہوگی، کچھ کو نیا مکان ملے گا اور کچھ کی جگہ کم ہو جائے گی۔ ممکن ہے ان لوگوں کے دماغ اندیشوں سے بھرے ہوں گے۔ دل بے تحاشا دھڑک رہے ہوں گے۔ اباجی ایک کرسی پر بیٹھ گئے۔ میں بھی ایک چارپائی کے پائتانے بیٹھ گیا۔ کمرے میں موجود تمام چھوٹے بڑے مرد خواتین صم بکم بنے بیٹھے تھے۔ یوں خاندان کے تمام لوگ اباجی کا بے انتہا احترام کرتے تھے۔ ان کے سامنے کسی کی مجال نہیں تھی کہ کوئی اُف بھی کرے۔ اباجی نے ذرا تیز آواز میں فرمایا۔ ” کہو! کیا کرنا ہے۔“
تایازاد بڑے بھائی نے سہمے انداز میں کہا، ”چچا جائیداد کا حصہ بخرہ کر دیجئے۔ اباجی نے برجستہ کہا، کیا کرنا ہے جو جس گھر میں رہتا ہے وہ گھر اس کا ہوا۔“
تایا زاد بھائی نے کہا، ”آپ تو کرایے کے مکان میں رہتے ہیں۔“
اباجی نے کہا، ”ہاں! میں کرایے کے مکان میں رہوں گا۔“ یہ کہتے ہوئے اباجی اٹھ گئے۔
سب کے مرجھائے چہرے کھل اٹھے گویا خاموشی کو زبان مل گئی۔ سب آپس میں چہ میگوئیاں کرنے لگے۔ اباجی فوراً وہاں سے نکل کھڑے ہوئے۔ اس مرتبہ وہ تیز قدم بڑھا رہے تھے۔ کئی بار مجھے دوڑ کر ان کی انگلی پکڑنی پڑ رہی تھی۔ ایسا لگ رہا تھا گویا انہوں نے کوئی بڑی فتح حاصل کر لی ہو۔ ہم گھر پہنچے دروازے پر دستک دی۔ امی جان اپنی ساڑھی کے پلو سے ہاتھ صاف کرتی ہوئی آئیں اور دروازے کھولتے ہی کہا، ”ہو گیا فیصلہ؟ ہم کو کون سا مکان ملا؟“
اباجی نے کہا، ”فیصلہ ہوا ہے کہ جو جس مکان میں رہتا ہے وہ اسی میں ہی رہے گا۔۔۔“
امی نے کہا، ”ہم تو کرائے کے مکان میں رہتے ہیں۔“
ابا جی نے فرمایا، ”ہاں ہم کرائے کے مکان میں ہی رہیں گے۔“ امی روہانسی ہو گئیں۔
تبھی اباجی نے قدرے بلند آواز میں کہا،
” کیا میں اپنی بیوہ بھابیوں سے کہوں گا کہ یہاں سے ہٹو یہ میرا حصہ ہے۔ کیا میں اپنے یتیم بھتیجوں سے بولوں گا کہ تم یہاں سے جاؤ یہ میرا حصہ ہے۔ یہ سب میرے اپنے ہیں۔“ پھر امی کو مخاطب کرتے ہوئے اباجی نے پورے عزم و یقین کے ساتھ فرمایا، ”اپنے تمام بچوں کو ایسا بناؤ کہ وہ اپنا گھر خود بنانے لائق ہو جائیں۔“ اور پھر زور دے کر کہا ”دیکھ لینا تیرے تمام بیٹوں کے پاس دو دو مکان ہوں گے۔“
آج جب میں اپنی اور اپنے تمام بھائیوں اور بہنوں کی پرسکون زندگیوں پر نظر کرتا ہوں تو اباجی کا کہا ہوا حرف حرف سچ لگتا ہے۔ ان کی نیکی، ایثار و قربانی اور امی کا صبر و استقلال ہمیشہ پیشِ نظررہتا ہے۔ اللہ پر یقین، عزم اور صبر ایسی دولت ہے جو کبھی رائیگاں نہیں جاتی۔ کسی نے سچ کہا ہے کہ والدین کی نیکیاں بچوں کے کام آتی ہیں۔
٭٭٭

Post a Comment

0 Comments