افسانہ نگار
ایونٹ نمبر 51
موضوع…
"فادرس ڈے"
Father's Day
زنجیر
(افسانچہ)
✒️فرخندہ ضمیر
فرمان آفس سے آکر اپنے کمرے میں آرام کر رہا تھا کہ پاس والے کمرے سے کھانسنے کی آواز آئی۔ اتنے میں بینش فرمان کے لئے چائے لے کر آگئی۔
"تمھارے ابّو جب سے آئے ہیں ہمارا تو سکون حرام ہو گیا ہے۔" فرمان کے چہرے پر ناگواری کے اثرات دیکھگر بینش کا پارہ ہائی ہو گیا۔
"ابّو کو آئے ہوئے ایک مہینہ نہیں ہوا اور تم سے انکا وجود برداشت نہیں ہو رہا"
"ہاں ہر وقت انکی کھانسی کی آواز میرے دل و دماغ پر ہتھوڑے برساتی ہے"
"جب آپکے والدین کھانسنے ہیں تو شہنائیاں بجتی ہیں۔؟"
"میرے والدین کا نام لینے کی ضرورت نہیں "فرمان غصہ سے بپھر گیا۔"
فرمان یہ ہی دوغلہ پن ہے۔ آج میرے والد کا لاغر وجود تم سے برداشت نہیں ہو رہا۔اور میں نے تمھارے والدین کو اپنے والدین سمجھ کر محبت کی۔ پاپا کی بائی پاس سرجری اور امّی کو کورونا ہونے پر میں نے آفس سے چھٹّی لیکر دن رات انکی خدمت کی۔ اور آج آپ لوگوں سے میرے والد کا وجود برداشت نہیں ہو رہا۔"
"تو کیا ہوا، ہر عورت کا فرض ہوتا ہے۔ساس سسر کی خدمت کرنا"
"جی نہیں، یہ فرض ہوتا ہے اولاد پر، بہو پر نہیں۔"
اچھا بس اگر تم انکو اپنے سے جدا نہیں کر سکتیں تو تم اپنے ابّو کو لیکر یہاں سے چلی جاؤ۔ " فرمان نے فیصلہ صادر کیا۔
کیونکہ فرمان بھی اپنے گھر والوں کے طعنہ تشنوں سے تنگ آچکا تھا۔ ہر وقت کی لگائی بجھائی سے انسان کا ذہن ماؤف ہو جاتا ہے۔
"ٹھیک ہے! میرے والد نے میری خاطر قربانی دی۔اپنی زندگی کو میرے لئے وقف کر دیا۔ ورنہ وہ بھی عالمِ جوانی میں امّی کے انتقال کے بعد دوسری شادی کر سکتے تھے لیکن انھوں نے تنہائیوں کے عذاب کاٹے۔ مجھے پروان چڑھایا۔اعلی تعلیم دلوائی۔اچھا انسان بنایا۔ آج انھیں کی وجہ سے میں اتنی بڑی بینک کی جنرل منیجر ہوں۔ اور آج میں انھیں اس عمر میں تنہا چھوڑ دوں !۔" بینش نےغصّہ میں الماری سے کپڑے نکالنے لگی۔
اتنے میں انکی ۴ سالہ بیٹی فاطمہ بھاگتی ہوئی آئی اور اپنے پاپا کے پیروں سے لپٹ کر کہنے لگی۔
"پاپا رشیدہ پھوپھو کی بیٹی سے میری لڑائی ہو گئی۔ وہ کہتی ہے میرے پاپا اچھّے ہیں۔ "میں نے کہا میرے پاپا تو پوری دنیا میں سب سے اچھّے ہیں۔"
ایک بجلی سی کوندھی۔ فرمان نے اپنی بیٹی کا منہ چوم لیا۔اور آگے بڑھکر بینش کے ہاتھ سے کپڑے چھین کر الماری میں رکھ دئے۔
0 Comments