ساتویں پاس کرتے ہی میں نے ابّا جی سے کہہ دیا ”اب میں دو کلو میٹردور روزانہ پیدل اسکول نہیں جاؤں گا۔۔۔ مجھے اک سائیکل چاہیۓ۔۔۔“ ابّا نے میری خواہش کا احترام کرتے ہوۓ وعدہ کرلیا۔اس دن تو میری خوشی کا ٹھکانہ نہ رہا۔دن بھر دوستوں کو سائیکل کی خوش خبری سناتا رہا۔
چھٹّیاں ختم ہونے کو تھیں میں نے ابّاجی کو یاد دلایا۔ فکر میں ڈوبی ہوئی آنکھوں سے انہوں نے مجھے دیکھااور شکستہ لہجے میں کہا
”بس۔۔۔ اگلی تنخواہ ملتے ہی تجھے سائیکل دلادوں گا۔۔“
”لیکن ابّا۔۔۔ سیکنڈ ہینڈ سائیکل صرف دو سو روپے کی تو ملتی ہے۔۔۔“
”ارے بیٹا۔۔۔“انہوں نے اعتماد سے کہا”دوسو والی کے ٹیوب ٹائرخراب ہوتے ہیں۔۔۔ میں تو تجھے پانچ سو والی دلاؤں گا۔۔۔ بس کچھ دن اور رک جا۔۔۔۔۔“
”لیکن ابّا۔۔۔ سیکنڈ ہینڈ سائیکل صرف دو سو روپے کی تو ملتی ہے۔۔۔“
”ارے بیٹا۔۔۔“انہوں نے اعتماد سے کہا”دوسو والی کے ٹیوب ٹائرخراب ہوتے ہیں۔۔۔ میں تو تجھے پانچ سو والی دلاؤں گا۔۔۔ بس کچھ دن اور رک جا۔۔۔۔۔“
ابّا کے وعدے پر میں خوش ہوگیااور اس دن کابے صبری سے انتظار کرنے لگا۔
اس دن میں اسکول سے گھر لوٹ رہا تھا کہ راستے میں ایک طرف پڑے ہوۓ ٹوتھ برش پر میری نظر پڑی۔ ٹوتھ برش سے سائیکل بہت اچّھی صاف ہوتی ہے اس خیال کے آتے ہی میں نے جھٹ وہ برش اٹھالیااور خوشی خوشی گھر پر لاکر محفوظ جگہ پر چھپا دیا۔
اب تو میرا روزانہ کا معمول بن گیا۔ ٹوتھ برش کا خیال آتے ہی دوڑ کر جاتا اور باہر نکال کر تصوّر میں اپنی سائیکل کو صاف کرتا ہوا دیکھتااور احتیاط سے پھر اسی جگہ چھپا دیتا۔
مجھے ابّا کی تنخواہ کا بڑی شدّت سے انتظار رہتا۔مہینے گذرتے رہے تنخواہ والے دن ابّا گھر میں داخل ہوتے ہی مہینے بھر کے بقایا والوں کے پیسے الگ کرتے آٸندہ لگنے والے خرچ الگ کرتے اور چور نظروں سے مجھے دیکھتے۔۔۔ میں دل مسوس کر رہ جاتا۔
آٹھویں پاس کرکے نوّیں جماعت میں داخل ہوا پھر وہ دن بھی آیا جب میں دسویں کارزلٹ لے کرگھر آیا۔ ابّا کو رزلٹ دکھایا مگر میرے فرسٹ کلاس پاس ہونے کی خوشی سے کہیں زیادہ ان کے چہرے پر وہ احساس شرمندگی تھاجس کو میں نے محسوس کرتے ہوۓجھٹ کہا۔ ”ابّا۔۔۔ سائیکل نہیں ہے تو کیا ہوا۔۔۔ پیر تو ہے ناں۔۔۔ آپ فکر نہ کریں۔۔۔“
میرے اس جملے پر ابّا بڑی مشکل سے مسکراۓاور گویا ہوۓ ”بیٹا۔۔۔ مجھے معاف کرنا۔۔۔“
”کیسی بات کرتے ہو ابّا۔۔۔۔۔۔۔“میں نے جھٹ کہا”مجھے کوئی شکایت نہیں ہے۔۔۔۔۔۔“
میرے اس جملے پر ابّا بڑی مشکل سے مسکراۓاور گویا ہوۓ ”بیٹا۔۔۔ مجھے معاف کرنا۔۔۔“
”کیسی بات کرتے ہو ابّا۔۔۔۔۔۔۔“میں نے جھٹ کہا”مجھے کوئی شکایت نہیں ہے۔۔۔۔۔۔“
آنکھوں سے امڈتے آنسوؤں کو ابّا چھپانے کی ناکام کوشش کرنے لگے۔
گیارہویں ہوئی۔۔۔ بارہویں پاس کیا۔۔ بی اے ،ایم اے کیا۔آج میرے پاس سرکاری نوکری ہے۔گاڑی ہے۔ بنگلہ ہے۔۔روپٸے پیسے کی فراوانی ہے۔سب کچھ ہے میرے پاس۔۔۔۔لیکن یہ آشائشیں میرے نزدیک ہیچ ہیں۔
میرے لٸے توسب سے قیمتی اثاثہ وہ ہے جو صرف فادرس ڈے پر نہیں روزانہ اور ہمیشہ کےلٸے قیمتی ہے جسےمیں نے آج بھی سنبھال کر رکھا ہے وہی چالیس سال پرانا ٹوتھ برش۔۔۔
0 Comments