Ticker

6/recent/ticker-posts

ابا کی یاد میں.... ✒️سید اسد تابش

افسانہ نگار
ایونٹ نمبر 51
موضوع…
"فادرس ڈے"
Father's Day
ابا کی یاد میں....
✒️سید اسد تابش

میں اپنے ابا سے کافی متاثر اور مرعوب رہا. وہ دادا کی پہلی بیوی سے اکلوتی اولاد تھے جبکہ دوسری دادی سے تین چچا اور تین پھوپھیاں تھیں. دادا گاؤں کے زمین دار اور تاجر تھے. بڑا سا مکان بلکہ آس پاس تین مکان تھے اور بہت سی کھیتی. تجارت بھی خوب چلتی تھی. ابا نے تو مجھے سنایا ہی مگر ان سے بڑی عمر کے محلے کے بزرگ بھی سناتے تھے کہ "تیرےباپ نے سوتیلی ماں کے بہت سلوک سہے. کھانے کو ترسایا گیا. جائداد سے بے دخل کیا گیا اور کھیتی کے بہت سے کام لیے گئے جبکہ اپنی سگی اولاد کو ناز و نعم سے پالا گیا. ابا ان باتوں سے بے نیاز تھے. ان پر ہونے والی زیادتیوں سے زیادہ انھیں بھائی بہنوں کا سلوک یاد رہا. جائداد سے بے دخل ہونے پر ہم نے الگ گھر میں زندگی گزاری جو ایک ہی کمرے کا تھا. ابا نے اپنی تجارت شروع کی. مجھے اسکول میں داخل کیا. اسکول کے ساتھ ساتھ میں ابا کے ساتھ جامع مسجد چوک ہوٹل پر جایا کرتا. گھر سے چوک ڈیڑھ کلو میٹر دوری پر تھا. روز کے دوچکر لازماً ہوتے. اکثر رات میں چوک سے واپسی پر ابا میری انگلی پکڑ کر ساتھ لاتے. راستے بھر مجھے گاؤں کے لوگوں کی باتیں، رشتہ داریاں، دنیا کی اونچ نیچ سمجھاتے.... جب ان کے زندگی کے حالات بیان کرتے تو ان میں قنوطیت نہ ہوتی بلکہ دادا اور بھائی بہنوں کے لیے حد درجہ احترام ہوتا. دادی سے بھی ان کا سلوک ادب و احترام والا ہی تھا. الگ ہونے کے کچھ سال بعد ہی رشتے سنور گئے تھے. ایک بار تو ابا کی ہوٹل پر ایک گاہک نے ناشتہ کیا اور بل کی ادائیگی پر حجت کرنے لگا. وہ شخص کافی صحت مند اور توانا تھا بلکہ، پہلوان تھا..... بازار میں چاچا کو خبر ہوئی تو وہ دوڑے دوڑے آئے اور پھر دونوں بھائیوں نے......
یہ میرے لیے بہت عجیب معاملہ تھا. ایک طرف تو ابا کی مکمل حق تلفی کی گئی تھی دوسری طرف ابا کی طرف سے کوئی شکایت نہیں..... ابا جب بھی بیتی زندگی پر بولتے تو اپنے دادا کو بہت یاد کرتے.... کہتے میرے دادا میری طرف سے بہت بولا کرتے تھے. میرے دادا بہت نفیس کھانا کھاتے تھے. وہ ایک جوار کی روٹی سے تھوڑا سا سالن بھونا ہوا کھاتے. انھیں روٹیاں بھیگو کر کھانا پسند نہیں تھا. میرے دادا اکثر میری طرف سے بولتے اور گھر بھر کی مخالفت مول لیتے..... ابا کے دل میں کسی کے لیے بغض، کینہ کپٹ نہ تھا. وہ غیبت اور چغلی کو بہت ناپسند کرتے. ان کے ایک دوست جب بھی کسی پرکرن پر بات کرتے اور ادی بدی ہونے لگتی تو ابا فوراً " کیا لگایا رے، اپنے کو کیا کرنا پڑتا....... دوست مسکرا کر رہ جاتے.
ابا کے دوست بہت تھے. یہ دوستی ابا کی طرف سے زیادہ تھی، ورنہ دیگر لوگ اتنے مخلص نہیں ہوتے. ابا اپنی طرف سے ملنساری اور دوستی نبھانے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کرتے. بلکہ اپنے بھائیوں کے دوستوں سے بھی رشتے استوار رکھتے. مجھے بھی تعلیم تھی کہ ان کے دوستوں کا ادب کروں (مجھے عنفوانِ شباب کے دنوں میں کہا "میاں، اب تم بڑے ہورہے ہو، دوست بناؤں گے، ادھر ادھر گھوموں گے، پر یاد رکھو.......مجھے کسی نے یہ نہیں کہنا کہ" سید علی تیرا لڑکا فلاں خوانچے پر کھڑا، گٹکا پان کھا رہا تھا) اس تعلیم نے بھی مجھ پر گہرا اثر ڈالا....
اب جبکہ میری عمر پندرہ سولہ سال ہورہی تھی. چوک سے گھر لوٹتے وقت رات میں ابا کے ساتھ جانا اب بھی معمول تھا. ایک بار ہم ساتھ جارہے تھے کہ بارش شروع ہوگئی. بازار لائن میں ایک میڈیکل اسٹور کے شیڈ میں ہم کھڑے ہوگئے. میڈیکل کے مالک ابا کو چچا بولتے تھے، فوراً اندر بلا لیا. چاے پی لائی. مجھے کہنے لگے "بھائی، ہمارے چچا نے بہت مصیبت جھیلے..... آدھی جائداد کے حق دار تھے. پر دادا نے بے دخل کیا تو چپ چاپ چھوڑ کر نکل گئے..... حالانکہ قانوناً کچھ کرتے تو آدھی جائداد ملتی" باتیں شروع تھیں. میرے ذہن میں سوال کند گیا "ابا عدالت کیوں نہیں گئے....؟
بارش تھمی تو ہم گھر آنے لگے. ابا خاموش تھے. گھر کے قریب پہنچنے پر اتنا کہا "مجھے قانونی چارہ جوئی اپنے باپ کے خلاف کرنی پڑتی....... اور میں اپنے باپ کے خلاف کچھ کرنا نہیں چاہتا....... "

Post a Comment

1 Comments

  1. بہت شکریہ محترم ریحان کوثر صاحب.....

    ReplyDelete