میرا بچپن
غضنفر
1953 | علی گڑھ، انڈیا
میَں بہار کے ایک گاں میں پیدا ہوا جس کے بارے میں مشہور تھا کہ وہاں کی مرغیاں بھی حافظ ہوتی ہیں۔ یعنی اس گاؤں کی سرزمین پر دین کا ایسا غلبہ تھا کہ زبان کھولتے ہی بچے کے ہاتھ میں بغدادی قاعده تھماکر اسےکسی مسجد کے کونے یا کسی حافظ کی کوٹھری میں بیٹھا دیا جاتا تھا۔ چنانچہ مجھے گاؤں کے ایک حافظ، حافظ محمد عارف نقشبندی کے حوالے کردیا گیا۔ حافظ صاحب قبلہ ایک سلسلے کی ولایت سے بھی سرفراز تھے اور باقاعدہ پیری مریدی بھی فرماتے تھے۔ لہذا انہوں نے مجھے بھی نہایت کم عمری میں ہی اپنا مرید بنالیا اور اپنے مسلکی بزرگوں کے کراماتی قصّوں اور اللہ ہو، اللہ ہو کے ورد کا ایسا چسکا لگا دیا کہ میں بچپن کے کھیل کود کے میدان کو چھوڑ کر ذکر و اذکار کے گھیرے میں محصور ہو گیا۔ جب ذرا کچھ بڑا ہوا تو تبلیغی جماعت کی گشت نے بھی مجھ پر اپنا جادو چلا دیا اور میرے دل ودماغ پر تبلیغی نصاب کی باتوں اور امیروں کی تقریروں کا ایسا سحر طاری ہوا کہ میں باقاعدہ جماعت میں نکلے لگااور گھر سے دور جا کر چلّے کھینچنے لگا۔
ایک جماعت کے ساتھ میں چلّے پر نکلا ہوا تھا۔ آخری پڑاؤ ہمارا گورکھ پور تھا۔ امیر جماعت کا تعلق علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے تھا اور وہ سائنس کے کسی شعبے میں پروفیسر تھے۔ ایک تو ان کے سائنسی سبجیکٹ نے مجھے حیرت میں ڈال رکھا تھا اوپر سے ان غریب صورت امیرِ جماعت کی دل و دماغ میں بیٹھ جانے والی تقریر نے مجھے بے خود کردیا تھا۔ مجھ پر اس امیرِ جدید کی مدلّل باتوں اور مذہب کی منطقی اور سائنسی توضیح کا ایسا اثر ہوا کہ میرے ذہن کی یکایک اور وائلنگ ہوگئی۔ تصورات الٹ پلٹ گئے۔ نظریات بدل گئے۔ جو پاس تھا، وہ دور ہو گیا، جو دور تھا، وہ پاس آگیا۔
اس سائنسی امیر نے اپنے وعظ میں سچ اور ایمان داری کا ایسا سبق پڑھایا کہ گورکھ پورسے گوپال گنج آتے ہوئے ٹرین میں میَں ٹی ٹی سے جھگڑ پڑا۔ جلد بازی میں بِنا ٹکٹ لیے ٹرین میں سوار ہو گیا تھا۔ ٹکٹ بنانے کے لیے ٹی ٹی سے بولا تو اس نے کہا کہ فائن دینے کی کیا ضرورت ہے، میَں آدھا کرایہ لے کر آپ کو آپ کے اسٹیشن پر اتار دوں گا، مگر میں بضد کہ فائن کے ساتھ میرا ٹکٹ بنا دیجئے۔ وہ میرا فائدہ دکھا رہا ہے، مجھے پلیٹ فارم کے باہر تک پہنچانے کا وعدہ کر رہا ہے اور میَں ہوں کہ فائن بھرنے پر تلا ہوا ہوں۔ میرے اس اڑیل اور احمقانہ رویے پر آس پاس کے مسافر بھی حیران تھے اور مجھے اس طرح دیکھ رہے تھے جیسے میں کسی اور دنیا کی مخلوق ہوں۔ میری ایمانداری کی ضد نے ٹی ٹی سے ٹکٹ بنوا کر چھوڑا۔
’’دیکھ لی دنیا ہم نے ‘‘ سے اقتباس
0 Comments