Ticker

6/recent/ticker-posts

میری عیدی (افسانچہ) ✒️ڈاکٹر فریدہ تبسم

افسانہ نگار
ایونٹ نمبر 51
موضوع…
"فادرس ڈے"
Father's Day
میری عیدی
(افسانچہ)
✒️ڈاکٹر فریدہ تبسم
گلبرگہ کرناٹک انڈیا

یہ نیم کا درخت توو ہی ہے نامگر اس کے اطراف کھلا میدان تھا جہاں میں روز کھیلا کرتا تھا۔ہمارے ایک دوست رحیم بھائی کا مکان تھا جن کے آنگن میں ام کا درخت تھا جس کی چھوٹی دیوار پر ہم کمر جھکا کر ایک کے اوپر ایک کھڑے ہوکر میٹھی کیریاں توڑا کرتے تھے۔۔
ہائے یہ کیا ہوا۔۔ یہاں تو کپڑوں کا بازار لگ گیا۔۔وہ عید گاہ کہاں گیا۔جہاں رنگ برنگی غبارے۔مصنوعی لکڑی کی تلواریں۔ رنگ رنگ کی ٹوپیاں۔مٹی کے کھولونے۔بانسری،۔۔۔
"بابا۔۔۔مجھے وہ تلوار دلادونا میں بھی بادشاہ بنوگا۔۔وہ لال رنگ کا گھوڑا۔"
ہاں۔۔۔" بیٹا میرا شرٹ تو چھوڑ۔۔پیسے بھی تو دیکھوں تیرے کھلونوں کے حساب سے پورے ہیں کہ نہیں۔گھر بھی تو جاکر سب بچوں کو عیدی دینی ہے۔"
دونوں ہاتھ کھلونوں سے بھر جاتے بابا کا ہاتھ تھام کر ماں کے پاس بھاگتے جاتا۔۔
"دیکھو تو اماں یہ کھلونے یہ گھوڑا یہ تلوار ،یہ ٹوپی"۔۔ماں پوچھتی اس ہاتھ میں کیا چھپایا ہے۔۔؟
"ماں تیرے لئے مٹی کا گلاس لایا ہوں تو روز چولہے کے پاس پسینہ ہوجاتی نا اس گلاس سے پانی پی لے ٹھنڈا پانی"
ماں نے جھٹ سے گلے سے لگایا۔اس کی آنکھ بھر آئی ہزاروں دعائیں دے ڈالی۔آہ کس قدر سکون تھا اس کی بانہوں میں۔۔ 
آنکھیں جھلملائیں تو آٹو رکشا کے جھٹکے سے خیالات کا تسلسل ٹوٹا۔۔آٹو گھر کے دروازے کے سامنے رکا۔
پورے دس سال بعد اس گاوں کو گھر کے در و دیوار کو دیکھ رہا تھا جہاں کی مٹی گر چکی تھی دیواریں اب بوسیدہ ہوچکی تھیں۔وہ محبتوں کا گھر کھنڈر بن چکا تھا۔۔۔
رکشا سے اترا تو۔۔۔دروازہ کھولا۔۔۔
ماں کی آواز دور سے آتی سنائی دی
"بیٹا تو آگیا۔۔ لا تیرا بیاگ۔۔تھک گیا۔۔اپنے پلو سے پسینہ کی بوندیں صاف کرتی۔۔جا منہ ہاتھ دھو کر آ۔۔کھانا لگاتی ہوں"۔۔۔گرما گرم پائے کا سالن اور ماں کی ہاتھ کی نرم نرم روٹیاں کھا کر ماں کی گود میں سر رکھ کر سوجاتا جنت کا احساس ہوتا۔ 
بابا کی آواز سے آنکھ کھل جاتی۔۔ارے او قسمت کی ماری۔۔۔بچے کو ڈھنگ سے سلا۔۔ بچے کو پھنکا جھپک گرمی آج کچھ زیادہ ہے۔
"کون ہے۔۔۔کون آیا ادھر"
ایک بوڑھا۔۔جس کے ہاتھ پیر تھر تھرارہے تھے۔"یہاں اب کوئی نہیں رہتا۔سب کچھ ختم ہوگیا۔رحمت اللہ کا ایک ہی بیٹا تھاوہ بھی شہر میں رہتا ہے۔"
سلیم چاچا کی آواز پر چونک گیا۔۔
"جی چاچا مجھے نہیں پہچانا۔۔"
چاچا عینک درست کرکے تھر تھراتی آواز میں بولے "ہاں "جمشید" ہوکیا۔بیٹا اب دکھائی نہیں دیتا"
"ہاں چاچا۔۔۔میں نے گلے مل کر ہاتھوں کو بوسہ دیا"
"چاچا مجھے معاف کرنا اس وقت بابا کے غم میں تھا جلدی میں تھا۔چند گھنٹے ہی رہ سکا اور رات بھی کافی گہری تھی۔بارش بجلیوں نے قہر برپا کیا تھا۔رات ہی واپس ہوگیا۔کسی سے نہ مل پایا" 
اج بابا کی امانت لینے آیا ہوں "ہاں رکو یہ امانت سنبھالتے سنبھالتے میں تھک گیا ہوں۔میں بھی فکر مند تھا تم نے پانچ سال لگا دیئے آنے میں۔۔" 
"چاچا آخر کیا ہے بتائیں تو سہی۔۔؟؟؟"
"رکو ابھی لاتا ہوں۔۔۔"
اندر جاکر ایک لفافہ ہاتھ میں پکڑے آئے 
کھول کر دیکھا۔۔بابا کی چٹی تھی۔
"بیٹا تیرے ہر سال کے پیسوں کا حساب الماری کے کھاتے میں ہے۔اور اس سال بھی تو نے آنے میں دیر کردی۔"
"اس سال تو آیا ہی نہیں۔"
"آج عید ہے تیرا انتظار کرکے آنکھیں تھک گئیں"
"ہر عید الفطر کو تو آیا کرتا تھا تو تیری ماں تجھے دیکھ کر ہی میٹھا کھاتی تھی۔اس کے بعد میرے پاس آکر بیٹھتا تھا چند گھنٹے ہمارے لئے گویا زندگی کی بہار بن جاتے"
تو بضد ہوا کرتا تھا "بابا میری عیدی۔۔۔؟؟"
"تیرا پوچھنا میرے لئے عید ہوجاتی" 
"اور میں پورا سال کے کھیت کے پیسوں سے عیدی نکال کر رکھتا ہی رہا۔مگر تیری ماں کے گزرنے کے بعد چند سالوں سے تو نہیں آیا تو میں نے تیری عیدی سلیم چاچا کے پاس جمع کروائی ہے۔"
سو سو کے پانچ نوٹ۔۔۔دیکھ کر میں زارو قطار رونے لگا۔۔۔بابا آج بھی عید کا دن ہے میں آیا ہوں۔۔
میری عیدی بابا۔۔۔۔۔!!!!؟؟؟

Post a Comment

0 Comments