ماہنامہ الفاظ ہند جون، جولائی(خصوصی گوشہ: معمار ادبِ اطفال :محمداسداللہ ) 2022ء
میرے الفاظ (اداریہ)
الفاظِ ہند اور ڈاکٹر محمد اسداللہ
ریحان کوثر
ہر شعبے کی طرح شعبۂ ادب میں بھی مختلف نشیب و فرازاور چیلنجز کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس شعبے میں بھی منزل دور بہت دور اور راستہ پرخار ہے۔ لمحہ لمحہ ادبی و علمی زندگی اس راستے کی گرمی اور شدت سے بوند بوند پگھلتی رہتی ہے۔ قدم قدم پر رکاوٹیں اور مختلف پابندی ہمارے سامنے کھڑی نظر آتی ہیں۔ پل پل ہزاروں آنکھیں ہمارا اور ہمارے فن کا تعاقب کرتیں ہیں۔ ذرا سی چوک پر ہم منہ کے بل گر پڑتے ہیں اور پیچھے چلنے والے ہمیں کچل کر یا روند کر آگے نکل جاتے ہیں۔ یہاں مقام اور اپنی شناخت بنانا جوئے شیر لانے کے برابر ہی نہیں بلکہ اس کام سے بھی زیادہ مشکل اور پیچیدہ ہے۔
یوں تو میں نے ساتویں جماعت سے ہی لکھنا شروع کر دیا تھا اور مختلف اخبارات و رسائل میں شائع بھی ہوا لیکن ہائیر سیکنڈری اسکول کے بعد تقریباً بیس برس یعنی 1995ء سے 2014ء تک اردو ادب سے تعلق بالکل منقطع ہوگیا تھا۔ ودربھ کے کامٹی جیسے علاقے جہاں نشر و اشاعت کی سہولیات کی عدم موجودگی تھی وہاں سے اچانک ہم لوگوں نے ماہنامہ الفاظ ہند جاری کرنے کا نہ صرف اعلان کیا بلکہ جنوری 2014ء سے باقاعدہ اس کی اشاعت شروع بھی کر دی۔ لیکن خواب نگر اور حقیقی دنیا میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے اور جو میں نے اوپر تمہید باندھی ہے وہ دراصل میرے ان دنوں کے تجربات و مشاہدات ہیں جب ماہنامہ الفاظ ہند جاری ہوا تھا۔
ماہنامہ الفاظ ہند جاری کرنے کے بعد ’دال روٹی کا بھاؤ‘ معلوم ہونا شروع ہوا۔ دنیا بھر کی پریشانیوں کے ساتھ ساتھ ایک بہت بڑا مسئلہ ادب اطفال کے مواد کی عدم موجودگی تھی اور اس معاملے میں ہمارے ہاتھ خالی تھے۔ اسی دوران ڈاکٹر محمد اسداللہ صاحب سے عیدالفطر 2014ء کے روز ان سے ملاقات ہوئی۔ دراصل ان کی سسرال ہمارے پڑوس میں ہی ہے۔ وہیں ان سے پہلی ملاقات ہوئی۔ اس پہلی ہی ملاقات میں انھوں ہمارے اس کام کا گرم جوشی سے استقبال کیا، بہت ساری دعاؤں اور مفید مشوروں سے نوازتے ہوئے اپنی کتابیں فراہم کیں۔ ساتھ ہی وعدہ کیا کہ وہ اپنی تحریروں کی ان پیج فائیل ادارۂ الفاظ ہند کو آج ہی ای میل کر دیں گے۔
اس کے بعد آپ ہر چھوٹی بڑی مشکلات میں ہمارے شانہ بشانہ کھڑے رہے۔ ساتھ ہی مجھے بطور مدیر الفاظِ ہند اور ادارۂ الفاظِ ہند کو ہر پلیٹ فارم پر متعارف کرانے کا بیڑا اٹھایا۔
یوں تو وعدہ کرنا اور وعدہ نبھانے میں زمین آسمان کا فرق ہے لیکن آپ نے ماہنامہ الفاظ ہند کے لیے زمین آسمان ایک کر دیے۔ سب سے پہلے آپ نے قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان نئی دہلی کی بلک پرچیز اسکیم کے لیے بذاتِ خود ڈرافٹ تیار کیا اور کونسل کو روانہ کیا۔ الحمدللہ آج بھی اس اسکیم کے تحت ادارے کو کونسل کا مالی تعاون حاصل ہے۔ اس کے بعد آپ نے مہاراشٹر کی نصابی کتب کی تیاری کے لیے قائم کردہ ادارہ بال بھارتی میں مجھے بطور مدیر متعارف کروایا اور اس پلیٹ فارم سے منسلک ہونے کے بعد ماہنامہ الفاظ کو نئی قوت و توانائی حاصل ہوئی۔ الفاظ ہند کی شناخت بنانے میں ادارہ بال بھارتی کا اہم کردار ہے جسے کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔
اس کے بعد آپ نے مہاراشٹر اسٹیٹ اردو ساہتیہ اکادمی ممبئی میں الفاظ ہند کو متعارف کروا کر ایک اور اہم کام انجام دیا اور اکادمی کی تعاون سے ادارے کو مزید تقویت اور استحکامت حاصل ہوئی۔ ڈاکٹر محمد اسداللہ صاحب کو جہاں جہاں موقع ملا انھوں نے الفاظ ہند اور بطور مدیر خاکسار کو متعارف کرانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیا خواہ وہ رسائل و اخبارات میں تبصرے اور تعارف کا موقع ہو یا آل انڈیا ریڈیو وغیرہ اداروں کے مواقع ہی کیوں نہ ہو ہر مقام پر آپ ماہنامہ الفاظ ہند کے ساتھ چٹان کی طرح کھڑے نظر آئے۔ حق تو یہ ہے کہ ادب کی پرخار راہوں پر میں نے ان کی انگلی پکڑ کر چلنا شروع کیا اور یہ عمل آج بھی جاری ہے۔
ادارے نے جب یہ فیصلہ کیا کہ ادیب الاطفال کے گوشے شائع کیے جائیں گے تو ہمارے سامنے جو نام سب سے پہلے ابھر کر سامنے آیا وہ ڈاکٹر محمد اسداللہ صاحب کا تھا۔ ادارے کے لیے آپ کی خدمات اور کارناموں کے اعتراف میں یہ گوشہ ایک ادنیٰ سی کوشش ہے۔ امید ہے یہ کوشش آپ کو بھی پسند آئے گی۔ آپ کو یہ شمارہ کیسا لگا ہمیں ای میل یا ہمارے واٹس ایپ پر ضرور مطلع فرمائیں۔
٭٭٭
0 Comments