Ticker

6/recent/ticker-posts

افسانہ نمبر : 04| فریب ذات| نصرت شمسی

بزمِ افسانہ کی پیش کش
چودھواں ایونٹ
رنگ و بوئے باراں
(رومانی افسانے )
افسانہ نمبر : 04
فریب ذات
نصرت شمسی

مینا نے سونیا کی طرف فکر مندی سے دیکھا۔سونیا کے چہرے پر بھی سنجیدگی موجود تھی۔
”سونیا کیا کرنا ہے؟ جلدی کچھ سوچو۔مجھے ابھی کلینک بھی جانا ہے۔ ”سوچتی ہوں کچھ……فی الحال تو تم اپنے ممی ڈیڈی کو ٹال دوکہ تم ابھی شادی کرنا ہی نہیں چاہتیں۔کچھ وقت مل جائے گا،پھر ہم دونوں مل کر کچھ کرتے ہیں۔“
”سونیا!مگر کب تک،کب تک میں ٹالتی رہوں۔اس سے پہلے جو رشتہ آیا تھا اسے بھی میں نے منع کر دیا تھا مگر اس بار……“
اچھا میں تمہں کل کچھ بتاتی ہوں۔فکر مند نہ ہو……“ اس نے والہانہ انداز میں اس کے گلے میں ہاتھ ڈالا اسے گلے سے لگایا اور ایک kissکی۔
”بس ایک دن اور……“
مینا رو دینے کو تھی۔
”ارے کچھ نہیں ہوگا۔ہم تم کبھی جدا نہیں ہوں گے۔چل میری جان اب مسکرا دے اور چل……“
مینا نے اپنا وائٹ کوٹ اٹھایا اور سونیا کے گلے میں بانہیں ڈال کر چل پڑی۔
”کل ضرور فیصلہ ہو جائے گا۔“
سونیا نے اسکوٹی اسٹارٹ کی اور مسکرا کر آگے بڑھ گئی۔
رات کو بستر پر دونوں ہی جاگ رہی تھیں۔مینا کی آنکھوں میں گزرا ہوا سارا وقت ایک فلم کی طرح گزررہا تھا اور جا رہا تھا۔دونوں کا ساتھ طویل عرصہ سے تھااور دونوں ہی ایک دوسرے کی دیوانی تھیں۔گھنٹوں گھنٹوں فون پر باتیں ہوتیں ملاقاتیں ہوتیں۔زندگی بھر ساتھ رہنے کے وعدے ہوتے اور پھر ایک دوسرے سے لپٹ لپٹ کر رخصتی ملاقاتیں ہوتیں۔ سوچتے سوچتے کب آنکھ لگ گئی مینا کو پتہ ہی نہیں چلا۔ لگاتار سیل فون کی ہونے والی آواز نے اسے ہڑبڑا کر اٹھا دیا۔اس نے گھڑی دیکھی۔سات بج رہے تھے۔پھر اس نے موبائل پر نمبر دیکھا۔”سونیا کا فون،اس نے جلدی سے بکھری ریشمی زلفوں کو سمیٹتے ہوئے فون اٹینڈ کیا۔
”ہیلو جاناں،ابھی تک سو رہی ہو؟“
سونیا کی محبت سے بھر پور آواز نے اس کے کانوں میں رس گھولا۔
”نہیں جان من……ساری رات سوچتے سوچتے گزر گئی۔بس ابھی صبح ہی آنکھ لگی تھی۔رات پاپا سے بھی کہا سنی ہو گئی اس لیے……“ ”پھر کیا سوچا……؟“
سونیا نے تجسس آمیز لہجے میں پوچھا۔
”سوچ تو ہم لوگوں نے بہت پہلے لیا تھا۔اب تو بس عمل کا انتظار ہے۔“
مینا نے اپنے بڑے بڑے ناخونوں کو کریدا۔
”تو بس اب عمل کے لیے بھی تیار ہو جاؤ۔“
”کیا مطلب ……؟“
مینا نے خوشی سے اچھلتے ہوئے پوچھا۔ ”مطلب یہ کہ آج چار بجے والی گاڑی سے نکلتے ہیں۔ بس آج کے بعد ہم دونوں میں کوئی دوری نہیں رہے گی۔میں اپنے کلینک پر ایک ماہ کی چھٹی کا نوٹس لگا دیتی ہوں تم بھی ایسا ہی کروپھر اس وقت کے گزر جانے کے بعد حالات سازگار ہوتے ہی ہم واپس آجائیں گے۔“
”ٹھیک ہے سونیا۔سونیا تم نے میری الجھن دور کردی۔میں تیار رہوں گی۔“
”ہاں میں ابھی ٹکٹ بک کرا دیتی ہوں فی الحال روہتک چلے جائیں گے۔ وہاں میرے ایک جاننے والے ہیں۔وہ ہمارے رہنے کا انتظام کرا دیں گے۔“
”او کے پھر شام کو ملتے ہیں۔“ 
مینا نے خوشی سے بھر پور انگڑائی لی۔خود کو آئینہ میں دیکھا،خوشی اس کے سارے جسم سے پھوٹ رہی تھی۔ خوشی کے احساس نے اس کے ہونٹوں پر ایک پیارا سا گیت سجا دیا،اس نے گھوم گھوم کر خود کو دیکھا۔گھڑی دیکھی۔آٹھ بج رہے تھے۔ ابھی تیاری بھی کرنا تھی۔آج سے کلینک بند……اس نے ایک سوٹ کیس نکالا اور اس میں اپنے کپڑے رکھنے لگی۔ گھوم گھوم کر گاتی جاتی اور سامان اکٹھا کرتی جاتی۔ وہ بے حد خوش تھی۔
______
سونیا نے گھڑی دیکھی۔ ٹرین جانے میں دس منٹ بچے تھے اور مینا کا ابھی تک پتہ نہیں تھا۔ کئی بار وہ اس کا سیل بھی ٹرائی کر چکی تھی مگر فون رسیو نہیں ہو رہا تھا۔ فکر مندی اس کے چہرے پر بڑھتی جا رہی تھی۔ تبھی اسے مینا سوٹ کیس گھسیٹ کر لاتی ہوئی نظر آئی۔ وہ دوڑ کر اس کے قریب گئی اس کا سوٹ کیس اٹھایا اور ٹرین میں سوار ہو گئی۔ ”اتنی دیر لگادی……میری تو جان ہی نکل گئی۔“
”میری جان اب ہم ایک جان دو قالب ہیں۔ اپنی جان نہ نکال……“
مینا نے خوشی سے اس کے گلے لگتے ہوئے سرگوشی کی۔ ٹریفک میں دیر لگ گئی۔ گھر سے نکلنا بھی مشکل تھا۔ ممی جیسے ہی پڑوس میں گئیں میں سوٹ کیس لے کر کلینک آگئی۔ کسی پر ظاہر تھوڑی کیا ہے۔“ ”میں نے بھی یہی کیا ……“
سونیا نے اس کا سوٹ کیس سیٹ کرتے ہوئے کہا۔ دونوں بہت خوش تھیں۔نئے نئے سپنے ان کی آنکھوں میں جگمگا رہے تھے۔ ٹرین نے وسل دی، دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا اور زور سے ہنس کر گلے لگ گئیں۔
سونیا نے مینا کے گلے میں ورمالا ڈالی اور مینا نے سونیا کے اور دونوں شادی کے بندھن میں بندھ گئیں۔ سونیا نے مینا کی مانگ بھری اور اس کے گلے میں منگل سوتر ڈال دیا۔ مینا نے شوہروں کی طرح سونیا کے پیر چھوئے اور دونوں ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر باہر نکل آئیں۔ آج سے دونوں ایک تھیں۔ اب انھیں قانون نے ایک کر دیا تھا۔ اب کوئی طاقت انھیں الگ نہیں کر سکتی تھی۔ سونیا نے شوہر بن کر رہنے کا فیصلہ کیا اور مینا نے بیوی۔ پیشے سے دونوں ڈاکٹر تھیں بچپن کی ساتھی، ایک دوسرے کے بغیر سانس لینا بھی انھیں محال لگتا تھا اور اس رشتے کو قانون نے سہارا دے کر انھیں یہاں تک پہنچا دیا تھا۔ آج دونوں اس نئی زندگی سے بہت خوش تھیں۔
 زندگی اپنی پرانی ڈگر پر لوٹ آئی۔ دونوں اس طرح اس نئی زندگی میں داخل ہوئیں کہ لوٹ کر پھر اپنے گھر جا ہی نہ سکیں۔ سونیا شوہر کا کردار نبھا کر خوش تھی اور مینا بیوی کا۔ صبح دونوں ساتھ نکل جاتیں اور اب دونوں کا کلینک بھی ایک ہی تھا۔ زندگی اپنے وہی پرانے صبح شام ان کی زندگی میں لے آئی تھی۔ دونوں خوش اور مطمئن زندگی گذار رہی تھیں ایک دوسرے کو دیکھے بغیر جینا مشکل تھا۔ اس لیے دونوں ہی ہر لمحہ ہر پل ساتھ تھیں۔ دونوں کی اس زندگی کو ایک سال گزر گیا کہ اچانک دونوں کو زندگی بد رنگ نظر آنے لگی۔ وہی صبح شام، زندگی میں نہ کچھ نیا، نہ کوئی رنگ، نہ کوئی
لطف…… گھر میں سناٹا، اپنے اپنے کام، ایک سا معمول، ایک سی زندگی……کوئی بہار ان کی زندگی میں آبھی کیسے سکتی تھی مگر اس کا اظہار بھی ایک دوسرے سے ناممکن تھا۔ سونیا نے اس نوجوان مریض کی طرف دیکھا جو پچھلے ایک ماہ سے اس کے کلینک میں روز چلا آتا تھا اور بغیر کسی مرض کے سونیا کے آگے ہاتھ پھیلاکر بیٹھ جاتا تھا۔ اس کی میٹھی میٹھی نظریں سونیا کے دل میں کچھ کرنے لگی تھیں۔ مگر سونیا ہر روز ہی اسے جھڑک دیتی تھی مگر ہر رات وہ جب مینا کے قریب جاتی تو اسے وہ نوجوان پیوش ضرور یاد آتا اور پھر ایک دم ہی اس کا دل اس کے قرب کو چاہنے لگتا اور مینا کا وجود اسے بے معنی لگنے لگتا۔ وہ اپنی اس کیفیت پر قابو نہیں پارہی تھی۔ہزار جتن کر رہی تھی مگر دل اس کے خیال سے آزاد نہیں ہو رہا تھا۔ اس بار اس کے جذبات اور احساسات دونوں مختلف تھے۔ پیوش کا خیال آتے ہی اس کی ساری تکان دور ہو جایا کرتی۔ اسے اس کے بارے میں سوچنا اور اس کا یوں روز روز آنا اچھا لگنے لگا تھا۔ اب وہ پوری پوری رات پیوش کے بارے میں سوچتی رہتی تھی اور اس کا اثر اس کی زندگی میں مینا نے محسوس بھی کیا تھا اور کئی بار اسے ٹوکا بھی تھا۔ رفتہ رفتہ وہ مینا سے دور ہوتی چلی جا رہی تھی۔ پیوش کی محبت نے اس کے دل میں لطیف احساسات جگا دیے تھے۔ اس کا دل اب کسی اور بات کے لیے مچلنے لگا تھا مگر… مینا نے اس گلاب کی طرف دیکھا جو رو ز اس کی ٹیبل پر رکھا ہوتا تھا۔شروع شروع میں تو میں ا نے اس پھول کو ڈسٹ بن میں پھنکوادیا مگر اب پچھلے دو ماہ سے اس نے گلاب کے پھول کو سنبھال کر رکھنا شروع کردیا تھا۔ اس کی کلینک کی بڑی سی الماری میں سارے گلاب مہک مہک کر دم توڑ چکے تھے مگر ان کی خوشبو اس کے اندر رچ بس گئی تھی۔ پرکاش جو اسی ہاسپٹل میں جونئیر ڈاکٹر تھا وہ اپنا دل اس سنہری بالوں والی حسینہ کو دے چکا تھا اور اب اس سے شادی کا خواہش مند تھا۔ اس کا یہ سوال مینا کو الجھن میں ڈالے ہوئے تھا۔ اگر چہ اس نئے احساس نے اس کے اندر جلترنگ بج اٹھے تھے لیکن اس کا اظہار وہ سونیا کے سامنے نہیں کر سکتی تھی۔ اب اسے بھی سونیا کے وجود سے کوئی لگاؤ نہیں رہا تھا۔ بلکہ پرکاش کے بارے میں سوچنا اور اس کے ساتھ لمحاتی زندگی گذار کر اسے جو سکون محسوس ملتا تھا وہ سکون وہ خوشی آج تک اسے سونیا کے ساتھ نہیں ملی تھی۔ آہستہ آہستہ اسے لگنے لگا تھا کہ ان دونوں کا فیصلہ غلط تھا مگر اب کیا ہو……؟ یہ سوال مینا کو پریشان کیے ہوئے تھا۔ وہ فیصلہ جو انھوں نے ایک سال پہلے کیا تھا اور جس کی خاطر انھیں اپنے شہر اپنے گھر چھوڑ نے پڑے تھے۔ وہ……کچھ بھی ہو اب پرکاش کے بغیر رہنا نا ممکن ہے۔دل نے بغاوت کی۔ ”پھرسونیا……؟کیا پتہ سونیا کے ساتھ بھی…… جو بھی ہو، اب مجھے پرکاش کے ساتھ زندگی کا آغاز کرنا ہے۔“ سوچتے سوچتے……صبح ہو گئی۔ دونوں ہی اپنے اپنے بستروں میں جاگ رہی تھیں مگر بظاہر پر سکون۔”ہیلو……پھر کیا فیصلہ کیا……؟“
مینا نے پرکاش کی دل نشین آواز سن کر چاروں طرف دیکھا۔
سونیا نہا رہی تھی۔اس نے آہستہ سے پرکاش کو تسلی دی۔
”ٹھیک ہے پرکاش!کل چار بجے والی ٹرین کے ٹکٹ بک کرالو۔ہم گاؤں جاکر ہی شادی کریں گے۔“ ”سونیا نے تولیہ سے بال پونچھتے ہوئے مینا کی بات سنی اور مسکرادی۔ ایک ایسا اطمینان اس کے چہرے پر اتر آیا جس کی تلاش وہ پچھلے کئی ماہ سے کر رہی تھی۔ سونیا جلدی جلدی تیار ہوئی۔آج اس کے ہر انداز میں ایک سر شاری تھی۔ جسے مینا نے اپنے دل کی خوشی سمجھا۔ ”پیوش……!آج چھ بجے والی ٹرین سے چلتے ہیں۔“ کلینک پہنچ کر اس نے سب سے پہلے پیوش کو فون کیا اور ایک سکون بھری سانس چھوڑ کر پیوش کے بارے میں سوچ کر مسکرانے لگی۔ اس دن دونوں ہی گھر نہیں پہنچیں، بلکہ ایک دوسرے کو فریب دے کر اپنی اپنی نئی زندگی کے سفر کے آغاز کی تیاریوں میں لگی رہیں۔ شام ہوتے ہوتے دونوں ہی ایک دوسرے کو ہمیشہ کے لیے الوداع کہہ چکی تھیں۔ ایک دوسرے کو بتائے بغیر اپنی نئی زندگی کی طرف رواں دواں…
ختم شدہ


تبصرے اور تاثرات

رخسانہ نازنین
فطرت سے انحراف کرکے پیار کی دنیا بسانے والی سونیا اور مینا کو آخرکار اپنے فیصلے پر پچھتاوا ہوا اور انہوں نے پھر سے ایک نئے پیار بھرے سفر کا آغاز کیا۔ انتہائی حساس موضوع پر نصرت شمسی صاحبہ نے قلم اٹھایا۔ اس جراءت پر داد تو بنتی ہے۔ مبارکباد بھی پیش ہے۔

محمد عرفان ثمین
ایک Taboo Subject پر قلم اٹھانا یقیناً جرات مندی ہے جس کے لیے مصنفہ داد کی مستحق ہیں۔ کہنے والے کہیں گے کہ زندگی کے سارے خوب صورت رنگوں سے منہ موڑ کر اس کی متعفن جہات کو پیش کرنا غلط ہے۔ یہ بات کچھ حد تک درست ہو سکتی ہے مگر حقیقت نگاری بھی زندگی کے فلسفوں کو سمجھنے اور اخلاقی قدروں کی پامالی کی طرف معاشرے کی توجہ مبذول کرانے کے لیے ضروری ہے۔ یہ نزاعی سوال بھی بحث طلب ہے کہ ادب میں ایسے موضوعات کی کس حد تک گنجائش ہے مگر مصنفہ نے ایک حساس موضوع کو نہایت محتاط انداز میں پیش کیا ہے جس میں فحاشی کا عنصر شامل نہیں۔
نصرت شمسی صاحبہ کو بہت مبارک باد۔

وحید امام
مرد اور عورت ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہیں۔اگر ایک ہی صنف کے دو افراز غیر فطری طریقے سے تسکین تلاش کریں گےتو انہیں حقیقی تسکین میسرنہیں ہوگی۔وقتی طور پر وہ اس سے متاثر ضرور ہوں گےلیکن قدرتی وفطری سکون حاصل نہیں کر سکیں گے، یہی افسانے کا بنیادی تصور ہے۔پامال موضوعات کی بھیڑ میں ایک انفرادی موضوع کو ہینڈل کرنے میں نصرت شمسی کامیاب رہی ہیں۔ حالانکہ اس موضوع پر بہت ساری کہانیاں موجودہیں مگر نصرت شمسی کے سیدھے سادے اسلوب نے اس کہانی کو نیا رنگ و آہنگ عطا کیا ہے۔ جس کے لئےوہ مبارکباد کی مستحق ہیں۔

ڈاکٹر انیس رشید خان
بہت حساس موضوع پر لکھا گیا ایک کامیاب افسانہ ہے۔ محترمہ نصرت شمسی صاحبہ نے نہایت سادہ، سلیس اور رواں انداز میں ایک حساس کہانی پیش کی ہے۔ جب سے موبائل فون میں انٹرنیٹ سہولیات فراہم ہوئیں ہیں تب سے نوجوان نسل اپنے آپ کو جدید ترین، انتہائی ترقی پسند اور آزاد خیال ثابت کرنے کی دوڑ میں اپنے آپ کو فریب دینے لگے ہیں اور غیر فطری طریقوں سے لطف اندوز ہونے کو ایک فیشن کے طور پر اپنا رہے ہیں۔ ہم جنس پرستی ایک نفسیاتی بیماری ہے۔ جن لوگوں کو یہ بیماری ہوتی ہے وہ مخالف جنس والوں سے نفرت کرتے ہیں۔ لیکن اس افسانے میں جو کردار پیش کئے گئے ہیں وہ اس ڈگر سے کچھ مختلف بتائے گئے ہیں۔ یہ دونوں لڑکیاں محض دوستانہ تعلقات کی وجہ سے قریب آئیں اور پھر بگڑے ہوئے ماحول سے مطابقت رکھتے ہوئے ہم جنس پرستی میں ملوث ہوگئیں۔
ظاہر ہے کہ فطرت کے تقاضوں کو پورا نہیں کرنے کی صورت میں ان کا ایک دوسرے سے جدا ہونا اور مخالف جنس والوں کی جانب کشش کرنا عین فطری تھا۔ 
سچائی کا اظہار کرتے ہوئے افسانے کے لئے محترمہ نصرت شمسی صاحبہ کو بہت بہت مبارک باد 🌹

فردوس انجم
نصرت شمسی صاحبہ نے نہایت ہی نازک موضوع پر اپنی قلم کو جنبش دی ہے۔ یہ مسٔلہ آج کل trading ہے۔ لیکن افسوس کہ ہمارا معاشرہ اس موضوع کو اس کی نزاکت اور اس کے سدباب کی نظر سے دیکھنے میں کوتاہ ہے۔لیکن موصوفہ نے اس موضوع پر قلم اٹھا کر اپنی جرات مندی کا ثبوت دیا ہے اور نہایت محتاط انداز میں اس موضوع کو برتا ہے، جس میں کسی قسم کی فحاشی موجود نہیں۔
ہم جنس پرستی ایک معاشرتی برائی، نفسیاتی بگاڑ اور معاشرے / خاندانی نظام کی تباہی کی کنجی ہے۔ چاہے وہ مرد کرتے ہو یا عورت کوئی بھی ہو۔ افسوس کی بات ہے۔ اس سے بھی زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم اس کی وجوہات میں ایک ہی فقرا کستے رہتے ہیں۔ "دین سے دوری" یہ کیا بات ہوئی اس کی بہت سی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ ہمیں بس ہماری نظر کو وسعت دینے کی ضرورت ہے۔
جیسا کہ مصنفہ نے اپنے افسانے میں بیان کیا ہے کہ سونیا اور مینا بچپن کی دوست ہیں۔ اور دونوں نے ساتھ جینے مرنے کی قسمیں کھا رکھی ہیں۔ جس کے سبب وہ دونوں گھرسے نکل جاتی ہے۔ اور ایک دوسرے کے ساتھ بیوی اور شوہر کا رشتہ بھی استوار کر لیتی ہیں۔ یہاں اگر اس کی وجہ دیکھی جائے تو بچپن میں ہی ماں باپ نے ان دونوں کے رشتے پر نظر رکھنا چاہیے تھا کہ ان کے درمیان صرف گہری دوستی ہے یا اس سے بڑھ کر کچھ اور.... اس کی دیگر وجوہات میں، ہاسٹل لائف، ناقص رہنمائی اور نفسیاتی عوامل وغیرہ آتے ہیں، لیکن ہم ان وجوہات کی طرف دیکھنے سے قاصر ہیں۔
نصرت شمسی صاحبہ نے اس بات کو اپنے افسانے میں بیان کیا ہے اور اصلاح کے راستے بھی ہموار کیے ہیں۔ جس کا واضح ثبوت ہے کہ کہانی کے دونوں کردار اپنے اصل احساسات کو سمجھ کر اپنی دنیا بسانے چپ چاپ نکل جاتے ہیں۔
نصرت شمسی صاحبہ کی خدمت میں بہت بہت مبارک باد پیش کرتے ہیں۔

نگار عظیم
افسانہ "فریب ذات" زبان و بیان اور موضوع کے اعتبار سے ایک اچھا افسانہ پڑھنے کو ملا۔ ایک مثبت پیغام بھی۔ سب سے اچھی بات کہ لفاظی نہیں ہے۔ کہانی بھی ہے، منظر اور پیش منظر بھی۔ میری طرف سے بہت بہت مبارک۔ 🌺

ڈاکٹر فرخندہ ضمیر
نصرت شمسی صاحبہ نے اس دور میں رائج اور قانونی طور پر تسلیم کئے جانے والے نیچر کے خلاف بننے والے اس رشتہ پر قلم اٹھایا ہے۔ اس موضوع پر کچھ فلمیں بھی بن چکی ہیں۔
نصرت شمسی صاحبہ نے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ قدرت کا نظام بہت سوچ سمجھ کر بنایا گیا ہے، جو اس سے انحراف کرے گا وہ خسارے میں رہے گا۔ حالانکہ اس افسانہ کا انجام خوشگوار رہا کہ وقت رہتے سونیا اور مینا کو سمجھ آگیا کہ نیچر کے خلاف نہیں جا سکتے۔قدرت نے عورت مرد میں ایک دوسرے کے لئے تسکین کا سامان فراہم کیا۔اس کے اندر ہارمونس پیدا کئے جو ایک دوسرے کی کشش کا باعث بنے۔آدم ؑ کے لئے امّآں حوّآ کو پیدا کیا اور یہ قدرت کا کارخانہ چلا۔یہ ہی نظام زندگی ہے۔
نصرت صاحبہ نے اس موضوع پر قلم اٹھایا کیونکہ افسانے کا قاری میچور ہے۔ کچھ جذباتیت اور تاثّر کی کمی رہی۔ نصرت صاحبہ کو مبارکباد۔

اکبر عابد
افسانہ فریب ذات موضوع کے اعتبار سے متاثر کن افسانہ ہے۔ہم جنس پرستی معاشرے میں بری سمجھی جاتی ہے۔نصرت شمسی صاحبہ نے نازک موضوع پر قلم اٹھایا ہے اور ہمارامعاشرہ اس طرف سے آنکھیں بند کئے ہوئے ہے اس افسانے میں اصلاح کے راستے بھی وا کئے گئے ہیں زبان وبیان بہتر ہے افسانے میں ایک مثبت پیغام بھی ہے میری جانب سے نصرت شمسی صاحبہ کی خدمت میں بہت بہت مبارکباد۔۔۔

شاہد اختر
نصرت شمسی صاحبہ کا افسانہ"فریب ذات" پڑھنے کے بعد مجھے یہ عرض کرنا ہے کہ موضوع کے انتخاب کے لیے انھیں مبارک باد مگر یہ موضوع اتنا آسان نہیں فے۔اطلاعات پر مبنی یہ افسانہ فنی اعتبار سے خاصہ کمزور لگتا ہے۔فضا سازی کے فقدان کے علاوہ کچھ چیزیں کرداروں کی نفسیات یا انکی نقل وحرکت سے واضح ہونی چاہئے تھیں مگر افسانے میں ایسا نہیں ہوا ہے۔افسانہ نگار کا کام معاشرہ کی اصلاح نہیں ہے۔وہ مسائل اور خامیوں کی نشاندہی کرتا ہے۔
افسانے کی دو اہم کردار جو ڈاکٹر ہیں مگر ان پر محنت نہ کرنے سے وہ نرسوں کے لایق بھی نظر نہیں آتیں۔taboo والا زمانہ ختم ہو گیا۔ہر موضوع پر لکھنا چاہیے لیکن تھوڑے صبر و تحمل کے ساتھ۔اتنے سنجیدہ ٹاپک کے لیے اتنی عجلت مناسب نہیں تھی۔کچھ وقت بعد شاید آپکو خود اسکی خامیاں زیادہ واضح نظر آیں۔مستقبل کے لیے نیک خواہشات ا ر دعائیں۔

راجہ یوسف
کہانی میں دم ہے... کچھ تو الگ ہو. نیا ہو تو افسانہ اچھا لگتا ہے... حالانکہ اس موضوع پر کافی کچھ پڑھا بھی ہے لیکن نصرت شمسی صاحبہ کا انداز اور اسلوب اچھا لگا اور پسند بھی آیا...
بہت بہت داااد اور مبارکباد ...

ملکیت سنگھ
فریب ذات ایک اچھا افسانہ ہے۔
قدرت کا قانون ہے کہ
like poles repell each other while unlike poles attract
ایک ستارہ بھی اپنے راستے سے بھٹک جائے تو زمین پر گرنے سے قبل وہ بھی خاک ہو جاتا ہے۔
سو نظام قدرت کے برخلاف کچھ بھی ٹک نہیں سکتا۔۔۔
افسانہ نگار کو مبارک باد

ڈاکٹر نور الامین
یہ افسانہ رومانی تو نہیں..... موضوع کے اعتبار سے ٹھیک ہے میں شاہد اختر صاحب کی بات سے اتفاق کرتا ہوں.... ڈاکٹر کا کوٹ نہیں ایپرانگ ہوتا ہے... تحریر کی عجلت صاف عیاں ہے...
اسے دوبارہ غور و فکر سے لکھا جائے تو بہت عمدہ افسانہ ہو سکتا ہے.... در و قبول تسلیم

فریدہ نثار احمد انصاری
فطرت سے انحراف سکون نہیں دے پاتا۔
مذکورہ افسانے میں مصنفہ نے اسی حساس موضوع کو قلم بند کیا۔
مغرب کی روش نے مشرق کے دروازوں پر بھی دستک دے دی ,حکومت کی پشت پناہی بھی ملی لیکن نتیجہ وہی بے اطمینانی۔
پہلی بار بھی دونوں نے من مانی کی, اپنے والدین کی عزت کو داؤ پر لگایا, اپنے سنسکار بھول کر گھر سے بھاگ نکلے اور آخر میں بھی وہی گھر سے بھاگنا۔لیکن اس بار مثبت سوچ نے دونوں کو مطمئن کیا۔
یہ ایک حسین اتفاق کہ آخر میں دونوں نے بیک وقت گھر چھوڑا۔دونوں ڈاکٹر تھے کیا انھیں یہ باتیں سمجھ میں نہیں آئیں کہ اس طرح کے رشتے کتنا آگے بڑھ سکتے ہیں۔
اس طرح کے رشتے کرتے ہوئے بھی ایسے لوگ فطرت کے مطابق زندگی گزارنے والوں کا طرح شوہر و بیوی کے نام سے منسوب ہونا چاہتے ہیں۔مصنفہ نے اسی پہلو کو قاری کے آگے کیا۔
قوم لوط سا قبیح فعل کسی زمانے میں پنپ نہیں سکتا۔
مصنفہ کے لئے مبارکباد و نیک خواہشات۔

اسرار گاندھی
ہم جنسی پر لکھی گئی کہانی کا موضوع قدرے نیا ہے لیکن بلکل نیا نہیں ہے۔ اس سے پہلے Ismat Chughtai نے "لحاف" لکھی تھی۔ دراصل انسان جدت پسند ہے۔ نئی نئی چیزوں کی تلاش کرنا، اس کے مزاجی کفیت کا حصہ ہوتی ہے۔ نئی تلاش کا رویہ جنس تک بھی جاتا ہے۔ اور وہیں سے ہم جنسی کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔
جدت کی تلاش میں کبھی کبھی کامیابی حاصل ہو جاتی ہے تو کئی بار نا کامیابی۔ اس سلسلہ میں وہ تمام تلاش ناکامیاب ہو جاتی ہیں تو قدرت کے قوانین کے خلاف ہوتی ہیں۔ ہم جنسی اسی زمرے میں آتی ہے۔ اس کہانی کا Crux یہی ہے۔ کہانی کار اپنی بات قاری تک پہچانے میں بڑی حد تک کامیاب ہے۔ اور اسی بات کے لیے نصرت صاحبہ مبارک باد کی مستحق ہیں۔

معین الدین عثمانی
"فریب ذات" نصرت شمسی کا مشرقی تناظرمیں بولڈ موضوع پر تحریر کردہ ایک ہلکا پھلکا افسانہ ہے۔جو ٹریٹمنٹ کے اعتبار سے قطعی بولڈ نہیں ہے۔اور رومانی افسانہ تو ہرگز نہیں ہے۔حالانکہ اسے رومانی کیا جاسکتا تھا۔
نصرت شمسی کے اکثر افسانے ڈگر سے ہٹ کر تحریر کیے گیے ہیں۔مگر عجلت پسندی کے شکار ہوگے ہیں۔ دراصل تحریر کا مقصد جب قلم کار کے سامنے واضح نہ ہو تو اس طرح کا ہونا فطری ہےکیونکہ
افسانہ نگاری محض واقعہ نگاری نہیں ہے۔

محمد قمر سلیم
نوی ممبئی: افسانہ: فریب ذات، افسانہ نگار: نصرت شمسی، تاثرات: محمد قمر سلیم ایک حساس موضوع پر نصرت شمسی صاحبہ نے قلم اٹھایا ہے جس کے لیے وہ مبارکباد کی مستحق ہیں۔ایک سیدھی سادی سی کہانی جس میں نہ تو پیچ و خم اور نہ ہی کوئی تجسس۔ بلکہ کردار بھی جذبات سے عاری لگتے ہیں۔ عام طور سے ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ انسان بہت کم مدت میں اپنی غلطی پر نادم ہو اور اسے سدھارے اور وہ بھی اس وقت جب دونوں کردار بچپن سے ایک ساتھ رہ رہے تھے اور برسوں سے ایک دوسرے کی محبت میں جکڑے ہوئے تھے۔ شاہد اختر صاحب اور عثمانی صاحب سے متفق ہوں۔ مصنفہ کو مبارکباد اور نیک خواہشات

سدی ساجدہ جمال
افسانہ بے شک نیا تھا
لیکن نیا پن نظر نہیں آیا۔۔محبت سطحی ثابت ہوئی۔۔
جو ہو رہا تھا بس ہوتا چلا گیا۔۔
مینا اور سونیا بہت عجلت میں نظر آئے۔۔
گھر سے بھاگنا اور گھر بسانا
پھر گھر سے بھاگنا اور پھر گھر بسانا۔۔۔
نصرت شمسی صاحبہ کے اس سے پہلے بھی افسانے پڑھ چکی ہوں جو سیدھے دل پر اثر کرتے ہیں۔۔۔
لیکن یہ ان کی بہ نسبت کچھ کمزور نظر آیا۔۔۔
ایک حساس موضوع جو توجہ چاہتا ہے اس توجہ کو شاید عجلت نگل گئی۔۔۔
اتنی عجلت میں بھی ایک بات مثبت رہی کے آخر میں کردار راہِ راست پر آسانی سے آ گئے۔۔۔
جب آنکھ کھلے تبھی سویرا
خدا کا شکر۔۔۔۔۔
آنکھ جلد کھلی اور سویرا بھی جلد ہو گیا۔۔۔۔
نصرت شمسی صاحبہ ایک احساس موضوع پر قلم اٹھانے کے لئے واقعی مبارک باد کی مستحق ہیں۔۔
ان کے اگلے افسانے کے انتظار میں انھیں کے افسانوں کی ایک ادنی سی قاری۔۔۔

شفیع مشہدی
میں شاہد اختر صاحب کی رائے سے۔متفق ہوں۔
فاضل مصنفہ نسوانی ہم جنس پرستی کے رموز و
محرکات سے واقف نہیں ہیں۔ میں اس فورم میں اس نفسیاتی الجھن پر تفصیل سے گفتگو کرنا مناسب نھیں سمجھتا۔

انور مرزا
افسانہ ہے ...تو ممکن ہے...!
پہلی قرأت میں افسانہ متاثر کرتا ہے...میَں نے پڑھتے ہی مصنفہ کو پرسنل پر مبارکباد بھی دی تھی...
ایک منفرد اورتقریباً شجرِ ممنوعہ قسم کے موضوع پر ایک خاتون افسانہ نِگار قلم اٹھائے تو جرأت مندانہ کوشش کی داد تو بنتی ہے...نصرت صاحبہ کیلئے پُرخلوص مبارکباد
نصرت شمسی صاحبہ کا اس سے قبل بھی ایسا ہی ایک جرأت مندانہ افسانہ اِسی بزم میں پیش ہوچکا ہے...جسے خوب داد وتحسین سے نوازا گیا تھا...
معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ
پیشِ نظر افسانے پر سنجیدگی سے غور کرنے پر بعض باتیں خلافِ واقعہ لگتی ہیں...
سب سے پہلی بات تو یہ کہ
لِزبین، گے، اور ٹرانس جینڈر زمرے کے انسان قانونِ قدرت کے آگے بے بس ہیں...وہ جو کچھ بھی ہیں، اپنی مرضی اور اختیار سے نہیں ہیں...کوئی مرد اپنی خواہش کے مطابق کسی مرد سے...یا کوئی لڑکی کسی لڑکی سے جب چاہے جنسی رشتہ قائم کرلے ...یا جب چاہے ایسا رشتہ توڑ کر نارمل زندگی جینا شروع کردے...یہ نا ممکن ہے...
اگرمذکورہ بالا زمرے کے انسانوں کے اختیار میں ہو ...تو ایسے قبیح افعال میں مبتلا ہونے سے قبل ہی وہ کنارہ کش ہو جائیں...اور باعزّت نارمل زندگی گزاریں...
دو ڈاکٹر لڑکیاں جن کا شہر میں اپنا اپنا کلینک بھی ہے...انھیں اپنا رشتہ برقرار رکھنے کیلئے آخر شہر چھوڑنے کی کیا ضرورت تھی...؟ اور یہ ڈاکٹر لڑکیاں اپنے والدین سے عام اسکول ڈراپ آؤٹ لڑکیوں کی طرح کیوں ڈرتی ہیں...؟ جبکہ اپنے اعمال/افعال کے سبب اُن کی بدنامی سے نہیں ڈرتیں؟
اِس افسانے پر غور کرتے کرتے بے ساختہ
اسرار گاندھی صاحب کا اِسی بزم میں پیش کردہ ترجمہ شدہ افسانہ ’’اُن کی زندگی‘‘ یاد آگیا... الہ آباد کی معروف فِکشن نِگار خاتون انیتا گوپیش کے اِس افسانے کا ترجمہ
اسرار گاندھی نے کیا تھا...اِس افسانے میں دو لِزبین لڑکیوں کی کہانی بیان کی گئی تھی اور کِردار نِگاری کا کمال یہ تھا کہ اپنی عادات و خصلت اور سماجی حیثیت کے لحاظ سے واضح طور پر یہ اندازہ ہوجاتا تھا کہ ایک لڑکی میں مثالی بیوی کی خوبیاں ہیں تو دوسری میں ایک مثالی شوہر کی...!
نصرت شمسی صاحبہ یہ افسانہ ضرور پڑہیں...
نیک خواہشات
آخر میں ہنسا ہنسا کے لوٹ پوٹ کرنے کیلئے
اُن اراکین کا از حد شکریہ
جنھیں اِس افسانے میں اصلاح
یا اصلاحِ معاشرہ کا پہلو بھی نظر آیا...!
نوٹ : افسانے میں’ اصلاح‘ کی اصطلاح یا
’وبا‘ شاید صرف اُردو فِکشن میں ہی ہے!

رشید قاسمی
واقعی افسانہ بولڈ ہے۔ شبانہ اعظمی کی کسی فلم میں ایسے ایک مسئلہ کو مختلف ڈھنگ سے پیش کیا گیا تھا۔ ایک بات سمجھنے سے قاصر ہوں۔۔ ڈاکٹری کی تعلیم حاصل کرنے سے عملی (پیشہ ورانہ) زندگی تک انہیں ایسے چاہنے والے مرد نظر نہیں آئے جنہیں دیکھ کر ان کے دل دھڑکے ہوں؟ کیونکہ اس کہانی کے کلائمیکس سے تو یہ نہیں لگتا کہ وہ۔۔فطری لیزبین۔۔۔رہے ہوں۔ لیزبین عارضی بھی ہوتے ہیں۔۔اس کہانی نے سمجھایا۔عجلت کے سبب دو عورتوں کی فطرت کی کچھ مزید پرتیں کھلنے سے رہ گئیں۔
بڑی بات یہ ہے کہ محترمہ نے نئی ڈگر کو چنا۔ اس کہانی میں دونوں لڑکیوں کے مکالمے بہت چست اور دلچسپ لگے۔ البتّہ کلائمیکس بہت روایتی لگا۔
زمانے کی برق رفتاری کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ کچھ ہی روز پہلے ایک لڑکی نے اپنے آپ سے شادی کرلی۔اسے اسکے اہل خانہ اور سہیلیوں نے دلہن کی طرح سجایا اور تمام رسومات ادا کی گئیں۔۔
ایک اچھّی کہانی کے لیے نصرت شمسی صاحبہ کو مبارکباد

ڈاکٹر نعیمہ جعفری پاشا
نصرت شمسی نے عام ڈگر سے ہٹ کر ایک نسبتاً نیا اور بولڈ موضوع منتخب کیا جس پر لکھتے زیادہ تر قلمکار بچتے ہیں، اس کے لئے انہیں مبارکباد دیتی ہوں۔زبان وبیان رواں اور شگفتہ ہے۔
جیسا کہ اکثر مبصرین نے توجہ دلائی، ایسے موضوعات پر لکھنے کے لیے جس ہوم ورک (معلومات )کی ضرورت ہوتی ہے، اس میں ذرا کمی رہ گیء۔ ہم جنس شادیاں محض فیشن نہیں ہیں۔
نیک خواہشات۔

اقبال حسن آزاد
ہم جنسی وقتی طور پر تو تسکین کا سامان بن سکتی ہے لیکن عورت ہو یا مرد فطری لطف و انبساط اسے صرف اور صرف جنس مخالف سے ہی حاصل ہو سکتا ہے۔ایک عمدہ افسانہ جو اور بھی بہتر ہو سکتا تھا اگر زبان و بیان پر ٹھوڑی توجہ دی جاتی۔افسانہ نگار کے لیے نیک خواہشات

دانش اثری
فطرت سے بغاوت دیر پا نہیں ہوتی بلکہ کبھی نہ کبھی، کسی نہ کسی موڑ پر مراجعت تو کرنی ہی ہوتی ہے۔ اگر انا کی اسیری اور خود کو درست ٹھہرانے کے زعم میں یہ بغاوت مستقل ہو بھی جائے تب بھی ایک کسک تو باقی ہی رہتی ہے۔ غلط و صحیح، مناسب اور نامناسب کے فیصلے سے قطع نظر فطرت اپنے مجرموں کو معاف نہیں کرتی یا تو وہ انھیں واپس اپنے قدموں پر گرالیتی ہے یا پھر انھیں ہمیشہ کے لیے بے نام اذیتوں میں گرفتار کردیتی ہے۔ 
اسی فطری قانون کی عکاسی کرتا ہوا ایک متوسط افسانہ ہے، بیان کی سطح پر مزید بہتری کی گنجائش موجود ہے 
افسانے اور اس کی پیش کش لیے مبارک باد

ریحان کوثر
سب سے پہلے تو اس بولڈ موضوع کے انتخاب کے لیے افسانہ نگار نصرت شمسی صاحبہ کو مبارکباد۔
دوسری بات کہ آپ کے جتنے بھی افسانے بزم میں پیش کیے گئے ہیں وہ تمام ڈگر سے ہٹ کر ہیں۔ آپ کا افسانہ چھن لاجواب ہے اور وہ اس ایونٹ کے لیے بالکل مناسب تھا لیکن وہ افسانہ اس کے پہلے پیش کیا جا چکا ہے۔ اسی طرح ایک بولڈ موضوع پر میرا قصور کیا ہے یہ افسانہ بھی بزم میں پیش ہوا تھا۔ وہ بھی منفرد اور عمدہ افسانہ تھا۔
بہر حال زیر نظر افسانہ اگر پرکاش اور پیوش کی انٹری سے شروع کیا جاتا اور قاری کو بعد میں بتایا جاتا کہ دونوں ڈاکٹر لیسبین ہیں تو بات بن جاتی!
بہر کیف اردو کے قاری کے لحاظ سے یہ افسانہ بالکل مناسب ہے.... 
ایونٹ میں شرکت کے لیے نصرت شمسی صاحبہ کو مبارکباد

محمد عمران
اب اگر کسی لڑکی کو ایک لڑکی کے ساتھ ہی رہنا پسند آتا ہے، اسی سے باتیں کرنا، اسی کے ساتھ وقت گزارنا، اسی سے محبت کرنا پسند آتا ہے تو یہ اس کی اپنی چوائس ہے، اس کی اپنی فطرت، اس کی اپنی سائکولوجی ہے۔۔۔۔
اب اس میں کوئی کسی کو صرف اس لیے روکے یا برا کہے کہ اس کے مذہب یا مہذب سماج میں اس کی گنجائش نہیں۔۔۔ تو یہ کہاں تک درست ہے ؟
LGBTQ+
Lesbian, Gay, Bisexual, Transgender, n Queers....
کو بائیولوجی نے 2 اقسام میں تقسیم کیا ہے
1۔ کراس ڈریس (cross dress) :
وہ لڑکی جو ایک اچھی بیوی کی خصوصیات رکھتی ہے، پر اسے کسی کی بیوی بننا پسند نہیں۔ 
2۔ باٹم (bottom) :
وہ لڑکیاں جن میں ایک اچھا شوہر بننے کی ساری خصوصیات پائی جاتی ہیں (تو اب وہ کیسے کسی کی بیوی بنے) 
کچھ دیر کے لیے مذہب کی عینک اتار کر سائنس کے لینس سے دیکھیں تو دونوں لڑکیاں اپنی جگہ درست نظر آئیں گی، دونوں کو قدرت نے ایسا ہی بنایا ہے یار، انہیں کسی مرد کی غلامی نہیں پسند، اور اسی وقت دونوں کو کسی مرد کو اپنا غلام بھی نہیں بنانا۔ وہ دونوں ایک دوسرے کو پسند کرتی ہیں ایک دوسرے سے ملنا چاہتی ہیں، ایک دوسرے سے قریب رہنا چاہتی ہیں، کرنا آئے مین شادی کرنا چاہتی ہیں تو کسی کو بھی پروبلم کیا ہے، صرف اس بات کے علاوہ کے کسی مخصوص مذہب يا سماج میں اس کا رواج نہیں ہے۔ اور صرف ان ہی دو وجوہات کی بنا پر ان کی محبت کو allow نہ کرنا۔۔۔ اور بائے دا وے ایک شخص ہوتا کون ہے کسی دوسرے شخص کو کسی بات کے لیے allow یا disallow کرنے والا۔۔۔۔ 
(محبت تو دور کی بات وہ چپّل کیسا خریدے یہ اس کی مرضی ) 
۔۔۔۔اگر وہ شخص واقعی کسی جمہوری ملک میں رہتا ہے تو۔۔۔ ؟؟ (ورنہ ٹھیک ہے، کر سکتا ہے۔)
اب کوئی اگر یہ کہے کہ۔۔۔ لیسبین میرج میں ایک پروبلم تو درپیش آئے گی ہی آئے گی۔۔۔ وہی seual پروبلم، وہ کیسے ڈیل کریں گے۔۔۔۔ تو ہاں، اس کے تو دو جواب ہیں پر یہاں ایک ہی پر اکتفا کرتے ہیں۔۔۔۔
الجواب : محبت کب سے 
Biological intercourse
کی محتاج ہونے لگی۔۔۔۔؟ 
( اسی سوال میں جواب ہے )
_________________________
ارے یاد آیا افسانے پر تبصرہ کرنا تھا ناں....!!!!
_________________________
افسانہ : فریب ذات
مصنفہ : نصرت شمسی صاحبہ
افسانہ مجھے بہت پسند آتا۔۔۔
اور بہت بولڈ بھی لگتا۔۔۔
اگر وہ یوں ہوتا۔۔۔۔
دو لڑکیاں اپنے اپنے شوہروں کو الوداع کہہ کر ایک دوسرے سے شادی کر لیتی ہیں۔

شہروز خاور
۔۔۔۔۔ فریب ذات
نصرت شمسی
میں 
شہروز خاور
کہانی سے متعلق
معزز اراکینِ بزم افسانہ کے درج ذیل خیالات سے متفق ہوں ۔۔
"افسانہ نگاری محض واقعہ نگاری نہیں ہے ۔۔"
(معین الدین عثمانی)
"یہ افسانہ رومانی تو نہیں ..... موضوع کے اعتبار سے ٹھیک ہے ۔۔"
(ڈاکٹر نورالامین)
"ہم جنس شادیاں محض فیشن نہیں ہیں ۔۔"
(نعیمہ جعفری پاشا)
"فاضل مصنفہ نسوانی ھم جنس پرستی کے رموز و محرکات سے واقف نہیں ھیں ۔۔"
(شفیع مشھدی)
"لِزبین، گے اور ٹرانس جینڈر زمرے کے انسان قانونِ قدرت کے آگے بے بس ہیں ... وہ جو کچھ بھی ہیں، اپنی مرضی اور اختیار سے نہیں ہیں ... کوئی مرد اپنی خواہش کے مطابق کسی مرد سے ... یا کوئی لڑکی کسی لڑکی سے جب چاہے جنسی رشتہ قائم کر لے ... یا جب چاہے ایسا رشتہ توڑ کر نارمل زندگی جینا شروع کردے ... یہ نا ممکن ہے ..."
(انور مرزا)
"فضا سازی کے فقدان کے علاوہ کچھ چیزیں کرداروں کی نفسیات یا انکی نقل وحرکت سے واضح ہونی چاہئے تھیں مگر افسانے میں ایسا نہیں ہوا ہے ۔۔"
(شاہد اختر)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"فریب ذات"
ہم جنس پرستی کے اسباب و علل نظر انداز کرتے ہوئے مصنفہ نے یہ بات طے کر کے کہانی لکھی ہے کہ ہم جنس پرستی غیر فطری فعل ہے اور کچھ وقت کے بعد انسان اس فعل سے اکتا جاتا ہے۔۔
سماجی نقطۂ نظر سے
ناقابلِ قبول رشتے / رویّے / برتاؤ
افسانے میں پیش کرتے وقت
غیر جانب دار ہونا بہت ضروری ہے
ورنہ ....... افسانہ
اصلاحی کہانی / اصلاحی تحریر
ہو کر رہ جاتا ہے ۔۔
نصرت شمسی صاحبہ کے لیے نیک خواہشات

نصرت شمسی
اسلام علیکم ورحمتہ اللہ
سب سے پہلے شکر رب کائنات کا کہ اس نے مجھے بزم افسانہ میں شامل ہونے کا پھر سے موقعہ دیا۔۔شکریہ اس بزم کو آراستہ کرنے والوں کا۔۔۔اور آپ تمام خواتین و حضرات بھی اس کے مستحق ہیں کہ اپنی بے پناہ مصروفیت کے باوجود افسانہ کو وقت دیا۔۔۔۔
سب سے اچھی بات یہ لگی کہ کافی لوگوں نے اپنے تاثرات پیش کئے۔کئی سوال بھی آئے لیکن ان کے جواب بھی آگئے۔۔۔
افسانہ میں کیا ہے کیا نہیں اس کا فیصلہ تو ہو چکا ہے۔
۔سب کے مشورے سر آنکھوں پر۔۔بس ایک بات جو دل کو لگی وہ یہ کہ کسی قلم کار کو یہ کہہ دینا کہ بے مقصد قلم چل رہا ہے۔کچھ مناسب نہیں۔اس جملے نے کافی ٹیس پیدا کی اور بہت کچھ کہا بھی جا سکتا ہے لیکن دل اس پر بھی آمادہ نہیں۔۔۔۔سب کی اپنی مرضی ہے۔جو چاہے لکھ دے۔۔۔❤️ سے قبول ہے۔۔۔۔
بات صرف اتنی سی ہے کہ ہم جنسی تھی ہی نہیں۔صرف محبت اور قربت کی چاہت اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کا احساس۔خود مختاری اور میری زندگی میری مرضی تھی۔ فطرت سے بغاوت کی اسی لیے دل لمحوں میں ہی بدل گیا۔۔۔اب اس کو یہ کہہ دینا ڈاکٹر ہیں یہ بے وقوفی کیسے کر لی۔تو یہ آنکھیں بند کر لینے والی بات ہوگی۔ایک پڑھی لکھی لڑکی اس صدی میں خود سے شادی کر رہی ہے اور پورا معاشعرہ اس میں شامل ہے۔😊
جاپان کے ایک شخص کا کتا پننے کو دل چاہتا تھا.وہ کروڑوں روپیہ خرچ کرکے اپنی خواہش کی تکمیل کرتا ہے۔اب جب چاہتا ہے کتا بن کر بیٹھ جاتا ہے۔۔یہ سب اس صدی میں ہی ہو رہا ہے۔عجلت پسندی نے صدیوں کو لمحوں کے حوالے کر دیا ہے۔۔۔
”چھن“ ایک رومانی افسانہ تھا جسے آپ سب پزھ چکے ہیں۔ محترم ریحان صاحب اور محترم انور صاحب نے یاد دلایا۔۔شکریہ کہ ذہنوں میں محفوظ ہے۔
بات نکلے گی تو پھر دور۔۔۔۔تلک جائے گی۔
ایک بار پھر آپ سب کا صمیم 💚 سے شکریہ۔۔۔
افسانہ پر تاثرات پیش کرنے والے تمام مبصرین جن کے اسمائے گرامی یہ ہیں۔
🌹1_.رخسار نازنین صاحبہ
🌹2_محمد عرفان ثمین صاحب
🌹3_وحید امام صاحب
🌹4_ڈاکٹر انیس رشید خان صاحب
🌹5_فردوس انجم صاحبہ
🌹6_نگار عظیم صاحبہ
🌹7_فرخندہ ضمیر صاحبہ
🌹8_اکبر عابد صاحب
🌹9_شاہد اختر صاحب
🌹10_راجہ یوسف صاحب
🌹11_ملکت سنگھ مچھانا صاحب
🌹12_ڈاکٹر نور الامین صاحب
🌹13_فریدہ نثار احمد انصاری صاحبہ
🌹14_اسرار گاندھی صاحب
🌹15_معین الدین عثمانی صاحب
🌹16_قمر سلیم صاحب
🌹17_سدی ساجدہ جمال صاحبہ
🌹18_شفیع مشہدی صاحب
🌹19_انور مرزا صاحب
🌹20_رشید قاسمی صاحب
🌹21_نعیمہ جعفری صاحبہ
🌹22_وجاہت عبد السّتار صاحب
🌹23_اقبال حسن آزاد صاحب
🌹24_دانش اثری صاحب
🌹25_ریحان کوثر صاحب
🌹26_محمد عمران صاحب
🌹27_ڈاکٹر شہروز خاور
میں آپ کی شکر گزار ہوں۔🌸
اللہ سب کو سلامتی اور سکون عطا فرمائے۔۔۔
✒️🌸نصرت

Post a Comment

1 Comments

  1. hm jinsi ek aisa aml h js pr insan ko ikhtiyar h.quran m qome lut m y raij hui thi or allh n bar bar ise khtm krne ko b kaha h..agr ikhtiyar na hota to allh saza na deta.....ab sic kuch b kahe quran or allh ka kaha hi sach h...

    ReplyDelete